گدھوں کا مشاعرہ

عرفان سعید

محفلین
گدھوں کا مشاعرہ

اک رات میں نے خواب میں دیکھا یہ ماجرا
اک جا پہ ہو رہا ہے گدھوں کا مشاعرہ
وہ نیلے پیلے قمقمے میداں ہرا بھرا
بیٹھا ہے فرش سبز پہ اک سرمئی گدھا

جتنے گدھے ہیں سب کے تخلص ہیں واہیات
کونے میں بیٹھی دم کو ہلاتی ہیں خریات

کچھ موٹے تازے خر تھے کئی لاغر و نحیف
کچھ فنے خاں گدھے تھے کئی مہرباں شریف
کچھ ایسے ویسے اور کئی شاعری کے چیف
سرقہ پسند آٹھ تھے اور دس غزل کے تھیف

ڈھینچو میں جن کی رنگ تھا وہ سارے ہٹ گئے
واقف نہ تھے جو سات سروں سے وہ پٹ گئے

باہوش جو گدھے تھے وہ بیٹھے گدھی کے پاس
ساغرؔ بھی جا کے بیٹھ گئے رس بھری کے پاس
کدو سا سر لئے ہوئے چھپن چھری کے پاس
عصمت تھا جس کا نام وہ بیٹھی دری کے پاس

برفی سی تھوتھنی پہ لکھے بند دوستو
منہ میں زبان ہے کہ شکرقند دوستو

سیدھی کنوتیوں میں وہ بندوں کی آب و تاب
آواز شعلہ ور میں مہکتی ہوئی شراب
پلکوں کی چلمنوں میں چھپے روشنی کے خواب
توڑے پڑا تھا جسم کو اٹھتا ہوا شباب

قدریں تھیں جن کے پاس وہ سر کو جھکائے تھے
جو منچلے گدھے تھے وہ تھوتھن اٹھائے تھے

مائک پہ آ کے شور مچاتے ہوئے گدھے
پانوں کی جا پہ گھاس چباتے ہوئے گدھے
ترشول ذہن و دل پہ چلاتے ہوئے گدھے
دیوار نفرتوں کی اٹھاتے ہوئے گدھے

جو تھے عروض داں وہ روایت میں بند تھے
بے بہرہ جو گدھے تھے ترقی پسند تھے

(ساغر خیامی)

 
Top