کیوں دی تھی تمہیں دل نے صدا یاد نہیں ۔ نجمہ یاسمین یوسف

ام اویس

محفلین

کیوں دی تھی تمہیں دل نے صدا یاد نہیں ہے
اب کوئی بھی جینے کی ادا یاد نہیں ہے

اک پل میں کِھلا دیتا تھا جو غنچۂ دل کو
وہ تم تھے کہ تھی بادِ صبا یاد نہیں ہے

جلتا تھا بدن چاند کی کرنوں کی لپٹ سے
کیوں چاندنی دیتی تھی سزا یاد نہیں ہے

پلکوں پہ شرارے تھے کہ پگھلے ہوئے تارے
کیا کیا تھا جو راتوں کو پیا یاد نہیں ہے

منظر تری رخصت کا قیامت سے سوا تھا
کب ہوگئے ہم خود سے جدا یاد نہیں ہے

ہاتھوں کو چھپائے ہوئے لب بستہ کھڑے ہیں
کس درد کی مانگی تھی دوا یاد نہیں ہے

رہ کس کی تکی ایسی کہ پتھرا گئیں آنکھیں
کیوں رکھا دریچے میں دیا یاد نہیں ہے

ہر عیب ہنر بن گیا دنیا کی نظر میں
لگتا ہے کہ لوگوں کو خدا یاد نہیں ہے​
 
Top