کیمیا اور کیمسٹری کے اشعار

عرفان سعید

محفلین
بہت پہلے ایک تُک بندی کی کوشش کی تھی

وہ کیمیا گر تو محوِ افشائے سرِ ترکیبِ روشنائی
یہ تجربہ گاہ تو سکھاتی نہیں نگارش سے آشنائی
 
وہ کیمیا گر تو محوِ افشائے سرِ ترکیبِ روشنائی
یہ تجربہ گاہ تو سکھاتی نہیں نگارش سے آشنائی
نگارش سال اول میں رہی تھی
ہمارا آخری تھا چل رہا تھا
بنانے روشنائی کے بہانے
وہی تو تھا جو لمحہ ٹل رہا تھا
 

عرفان سعید

محفلین
فریاد ظریفانہ

آتى نہیں كيمسٹری تو كوئى غم نہیں ہے
آخر ہمیں بنانا كوئى ايٹم بم نہیں ہے !

انسانيت كا خُون نہیں چاہیے ہمیں
لِلہ يہ سائنس نہ پڑھائیے ہمیں !

فزكس كے یہ مراحِل كِس كام كے بھلا؟
يہ مشكليں جو جِھیل لیں آخر ملے گا كيا ؟

ايكسئين كى پوسٹ نہیں چاہیے ہمیں
لِلہ يہ سائنس نہ پڑھائیے ہمیں !

يہ بيالوجى بھی روگ ہے او روگ بھی عجيب
كہ بے زبان مينڈکوں پہ ظلم بے سبب !

يہ كينچؤوں پر ظلم نہیں چاہیے ہمیں
لِلہ يہ سائنس نہ پڑھائیے ہمیں !

لنک
 

عرفان سعید

محفلین
کیمسٹری لیب کا عشق

نہ کیمسٹری ہوتی، نہ میں اسٹوڈینٹ ہوتا
نہ یہ لیب ہوتی، نہ یہ ایکسڈینٹ ہوتا

ابھی Practical میں نظر آئی اک لڑکی
سندر تھی ناک اسکی Test Tube جیسی

باتوں میں اسکی Glucose کی مٹھاس تھی
سانسوں میں Ester کی خوشبو بھی ساتھ تھی

آنکھوں سے جھلکتا تھا کچھ اس طرح کا پیار
بن پئیے ہو جاتا تھا Alcohol کا خمار

Benzene سا ہوتا تھا اسکی Presence کا احساس
اندھیرے میں ہوتا تھا Radium کا احساس

نظریں ملیں reaction ہوا
کچھ اس طرح Love کا Production ہوا

لگنے لگے اس کے گھر کے چکر ایسے
Nucleus کے گرد Electron ہو جیسے

اس دن ہمارے Test کا Confirmation ہوا
جس دن اس کے ڈیڈی سے ہمارا Introduction ہوا

سن کر ہماری بات وہ ایسے اچھل پڑے
Ignesiun Tube میں جیسے Sodium بھڑک اٹھے

وہ بولے ہوش میں آؤ، پہچانو اپنی اوقات
Iron مل نہیں سکتا کبھی Gold کے ساتھ

یہ سن کر ٹوٹا ہمارا ارمانوں بھرا Beaker
اور ہم چپ رہے Benzaldehyde کا کڑوا گھونٹ پی کر

اب اسکی یادوں کے سوا ہمارا کام چلتا نہ تھا
اور لیب میں ہمارے دل کے سوا کچھ جلتا نہ تھا

زندگی ہو گئی Unsaturated Hydrocarbon کی طرح
اور ہم پھرتے ہیں آوارہ Hydrogen کی طرح

لنک
 

ہادیہ

محفلین
کیمسٹری لیب کا عشق

نہ کیمسٹری ہوتی، نہ میں اسٹوڈینٹ ہوتا
نہ یہ لیب ہوتی، نہ یہ ایکسڈینٹ ہوتا

ابھی Practical میں نظر آئی اک لڑکی
سندر تھی ناک اسکی Test Tube جیسی

باتوں میں اسکی Glucose کی مٹھاس تھی
سانسوں میں Ester کی خوشبو بھی ساتھ تھی

آنکھوں سے جھلکتا تھا کچھ اس طرح کا پیار
بن پئیے ہو جاتا تھا Alcohol کا خمار

Benzene سا ہوتا تھا اسکی Presence کا احساس
اندھیرے میں ہوتا تھا Radium کا احساس

نظریں ملیں reaction ہوا
کچھ اس طرح Love کا Production ہوا

لگنے لگے اس کے گھر کے چکر ایسے
Nucleus کے گرد Electron ہو جیسے

اس دن ہمارے Test کا Confirmation ہوا
جس دن اس کے ڈیڈی سے ہمارا Introduction ہوا

سن کر ہماری بات وہ ایسے اچھل پڑے
Ignesiun Tube میں جیسے Sodium بھڑک اٹھے

وہ بولے ہوش میں آؤ، پہچانو اپنی اوقات
Iron مل نہیں سکتا کبھی Gold کے ساتھ

یہ سن کر ٹوٹا ہمارا ارمانوں بھرا Beaker
اور ہم چپ رہے Benzaldehyde کا کڑوا گھونٹ پی کر

اب اسکی یادوں کے سوا ہمارا کام چلتا نہ تھا
اور لیب میں ہمارے دل کے سوا کچھ جلتا نہ تھا

زندگی ہو گئی Unsaturated Hydrocarbon کی طرح
اور ہم پھرتے ہیں آوارہ Hydrogen کی طرح

لنک
سرجی کہیں فارمولے نا لکھنا شروع کردیجیے گا اب شاعری میں۔۔ :p
 

عرفان سعید

محفلین
ٹیسٹ ٹیوب

کاش میں تیری لیب میں اک ٹیسٹ ٹیوب ہوتا
تو پریکٹیکل سے کچھ پہلے، بڑے مان کے ساتھ
اپنے پھول سے نازک ہاتھوں سے پکڑتی مجھ کو
اور بے تابی سے ٹیچر کے لیب آنے سے پہلے
تو کسی سوچ میں ڈوبی دھیرے دھیرےدھلاتی مجھ کو

میں تیرے ہاتھ کے لمس سے بہک سا جاتا
جب کبھی تجربے کے دوران مجھے دیکھا کرتی
تیری آنکھوں کی قندیلوں سے دہک سا جاتا

کام کی لگن میں جب تو ڈیسک پر چھوڑ جاتی
تو میرا سراپا، میری روح، میرا دل توڑ جاتی

تیرے انتظار میں دیر تک خود کلامی کرتا
تیری چاہت کے بازار میں اپنی نیلامی کرتا

کن انکھیوں سے تیرے لوٹنے کا اشارہ پاتا
تو ملکۂ حسن جیسی تیری چال کا نظارہ کرتا

کیمیکل کی تیزی و تندی میں بھی یہ اقرار رہتا
تیرے وجود کی خوشبو سے ہر دم سرشار رہتا
تیری اک جھلک کو، اک آہٹ کو بے قرار رہتا

کچھ نہیں تو بس اتنا تومیں تجھ سے منسوب ہوتا
کاش میں تیری لیب میں اک ٹیسٹ ٹیوب ہوتا

لنک
 

عرفان سعید

محفلین
نزدیک سوزِ سینہ سے رکھ اپنے قلب کو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرم گداز ہو
(میر)

نزدیک سوز سینہ سے رکھ اپنے قلب کو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرم گداز ہو
میرؔ
:):):)
میں نے بھی "پیسٹری" تو نہیں چھین لی!
 

ہادیہ

محفلین
ٹیسٹ ٹیوب

کاش میں تیری لیب میں اک ٹیسٹ ٹیوب ہوتا
تو پریکٹیکل سے کچھ پہلے، بڑے مان کے ساتھ
اپنے پھول سے نازک ہاتھوں سے پکڑتی مجھ کو
اور بے تابی سے ٹیچر کے لیب آنے سے پہلے
تو کسی سوچ میں ڈوبی دھیرے دھیرےدھلاتی مجھ کو

میں تیرے ہاتھ کے لمس سے بہک سا جاتا
جب کبھی تجربے کے دوران مجھے دیکھا کرتی
تیری آنکھوں کی قندیلوں سے دہک سا جاتا

کام کی لگن میں جب تو ڈیسک پر چھوڑ جاتی
تو میرا سراپا، میری روح، میرا دل توڑ جاتی

تیرے انتظار میں دیر تک خود کلامی کرتا
تیری چاہت کے بازار میں اپنی نیلامی کرتا

کن انکھیوں سے تیرے لوٹنے کا اشارہ پاتا
تو ملکۂ حسن جیسی تیری چال کا نظارہ کرتا

کیمیکل کی تیزی و تندی میں بھی یہ اقرار رہتا
تیرے وجود کی خوشبو سے ہر دم سرشار رہتا
تیری اک جھلک کو، اک آہٹ کو بے قرار رہتا

کچھ نہیں تو بس اتنا تومیں تجھ سے منسوب ہوتا
کاش میں تیری لیب میں اک ٹیسٹ ٹیوب ہوتا

لنک
اب ایسی شاعری پہ "لاحول ولا قوۃ" ہی پڑھنے کو دل کررہا۔۔ :p
اے شاعری کم پوسٹ مارٹم زیادہ لگ ریا۔۔:rollingonthefloor:
 
Top