کیمپ بیسشن کی تقریب نامراد

کیمپ بیسشن کی تقریب نامراد
On Friday, October 31st, 2014
0 Comments | By Shams Khan
26 اکتوبر2014ء کو افغان صوبہ ہلمند ایک ایسی خبر سے گزرا، جس سے ایک عالم بے خبر ہی رہا… مگر تاریخ کی نظر نہیں چُوکی۔ نیٹو، امریکہ اور برطانیہ کے پرچم اتارکر لپیٹ دیئے گئے… چالیس ہزار فوجیوں اور ٹھیکیداروں کے ٹھکانے ’’لیدر نیک‘‘ اور’’بیسشن‘‘ اڈے ویرانہ نظر آنے لگے… یہاں گونجنے والے اتحادیوں کے ترانے شکست خوردہ آہیں ہوگئے۔ فوجی اڈے سائیں سائیں کرنے لگے… 13 سالہ مہنگی ترین جارحیت کے چلے جانے کا بگل بجا… برطانوی جنگی مشن کے خاتمے کا اعلان ہوگیا۔ جنگی مشن کے آخری برطانوی فوجیوں نے بیگ پیک کرلیے… سیکورٹی خدشات کے سبب فوجیوں کے نکلنے کا وقت نہیں بتایا گیا، مگر جب برطانوی فوجیوں نے اڈے کو الوداع کہا تو آخری فوجی کے ہاتھ میں یونین فلیگ لپٹا ہوا تھا۔ یہ تاریخ ساز منظر تھا۔
اس تقریبِ نامراد میں خالی الذہن فوجیوں سے خطاب میں برطانوی وزیر دفاع مائیکل فیلون نے کہا: ’’افغانستان میں ہم سے غلطیاں سرزد ہوئیں، 453 برطانوی فوجیوں کی جانیں ضائع ہوگئیں، سیاستدانوں اور جرنیلوں نے انتہائی برے فیصلے کیے۔ یہ غلطیاں، یہ فیصلے پورے 13 سالوں پر پھیلے ہوئے ہیں، مگر جو کچھ ہم نے حاصل کیا اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ برطانوی جنگجو فوجی کرسمس اپنے گھروں میں منا سکیں گے۔ چند سو فوجی افغان آرمی کی تربیت کے لیے یہاں رہیں گے۔ گو کہ طالبان کو شکست نہیں دی جاسکی مگر افغان فورسز نے ذمے داریاں سنبھال لی ہیں‘‘۔
13 سالہ طویل ترین جنگ کے بعد پرچم لپیٹتے ہوئے برطانوی وزیر دفاع کا یہ خطاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اہلِ باطل، منافق، افغان جہاد کو امریکہ کے نام کرنے والے، اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کا سہرا امریکہ کے سر باندھنے والے اپنے سیاہ مکروہ چہرے دیکھ سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ آئینہ مزید بھیانک حقائق ظاہر کرے گا۔
افغانستان میں مغربی شکست و ریخت کو تو ایک طرف رکھیے، افغانستان سے فرارکا خیال ہی اوباما انتظامیہ کے پیروں سے لپٹ گیا ہے۔ سی آئی اے کا سابق سربراہ لیون پنیٹا اپنی کتاب Worthy Fights میں لکھتا ہے کہ پینٹاگون کے آخری دنوں میں صدراوباما پر دباؤ ڈالا کہ افغانستان میں جنگی مشن کے خاتمے کے بعد بھی آٹھ سے دس ہزار فوجی باقی رہنے دئیے جائیں (حالات افغان فورسزکے بس میں نہیں)۔ بھارت کا قاتل وزیراعظم نریندر مودی بھی حالیہ دورۂ امریکہ میں اوباما انتظامیہ کی جان کو آگیا کہ ’’برائے مہربانی عراق والی غلطی افغانستان میں نہ دوہرائی جائے، افغانستان سے دھیرے دھیرے ہی نکلنا، کہیں طالبان پھر نہ سر اٹھالیں‘‘۔ جبکہ حال یہ ہے کہ جس روز ہلمند میں برطانوی و امریکی فوجی اڈے افغان فورسز کے حوالے کیے جارہے تھے، طالبان صوبہ بدخشاں میں افغان فورسزکے آٹھ اہلکاروں کو ٹھکانے لگارہے تھے، اگلے ہی روز قندوز میں ایک عدالت پر حملے میں سات پولیس اہلکار اور وکلاء کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔ آگے کیا کچھ ہوگا، نوشتہ دیوار ہے۔
برطانیہ کے بدنام زمانہ اور عیسائی انتہا پسند سابق وزیراعظم ٹونی بلیئرکے دورۂ ہلمند کی جانب تاریخ کا پہیہ الٹا گھماکر مضمون لپیٹتے ہیں۔ 21 نومبر2006ء کو ٹونی بلیئرنے ہلمند کے کیمپ بیسشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اس فوجی اڈے میں اکیسویں صدی کی دنیا کی سلامتی اور تقدیرکا فیصلہ ہونے جارہا ہے‘‘۔ ٹونی بلیئر نے اپنی زندگی میں جانے انجانے، بھولے بھٹکے جو چند سچ بولے ہوں گے، یہ اُن میں سے ایک سچ تھا۔ یقینا افغانستان کے ان فوجی اڈوں میں دنیا کی تقدیر اور سلامتی کا فیصلہ ہوچکا۔ یہ تقدیر ہلمند کی تقریبِ نامراد میں نمایاں ہوئی۔ تقدیر یہ ہے کہ نیٹو، امریکہ اور برطانیہ کے پرچم اتارکر لپیٹ دیئے گئے۔ ناکامیوں، غلطیوں اور جنگی حماقتوں کا اعتراف کرلیا گیا، برطانوی فوجیوں کی اموات کے لیے ’’ضائع‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا، مجاہدین کی ناقابلِ شکست موجودگی تسلیم کرلی گئی، افغانستان میں سلامتی نہیں لائی جاسکی۔ عالمی دائرے میں جہاں جہاں تک نظروں کو دوڑایا جائے گا، یہی حقائق نظرآئیں گے، یہی تقدیر رہے گی۔ اسلام کے خلاف محاذ آرائی کرنے والا ہر پرچم خود اپنے ہاتھ ہی لپیٹ دیا جائے گا۔ یہی اس روئے زمین کے ہر فرعون کی تقدیر ہے، یہی قادرِ مطلق کا فیصلہ ہے۔
عمر ابراہیم
 
Top