یاز
محفلین
دائرہ
روز بڑھتا ھوں جہاں سے آگے
پھر وہیں لوٹ کے آ جاتا ھوں
بار ہا توڑ چکا ھوں جن کو
انھیں دیواروں سے ٹکراتا ھوں
روز بستے ہیں کئی شہر نئے
روز دھرتی میں سما جاتے ہیں
زلزلوں میں تھی ذرا سی گرمی
وہ بھی اب روز ہی آ جاتے ہیں
جسم سے روح تلک ریت ہی ریت
نہ کہیں دھوپ، نہ سایہ، نہ سراب
کتنے ارمان ہیں کس صحرا میں
کون رکھتا ھے مزاروں کا حساب
نبض بجھتی بھی بھڑکتی بھی ھے
دل کا معمول ھے گھبرانا بھی
رات اندھیرے نے اندھیرے سے کہا
ایک عادت ھے جیے جانا بھی
قوس اک رنگ کی ھوتی ھے طلوع
ایک ہی چال بھی پیمانے کی
گوشے گوشے میں کھڑی ھے مسجد
شکل کیا ھو گئی میخانے کی
کوئی کہتا ھے سمندر ھوں میں
اور مری جیب میں قطرہ بھی نہیں
خیریت اپنی لکھا کرتا ھوں
اب تو تقدیر میں خطرہ بھی نہیں
اپنے ہاتھوں کو پڑھا کرتا ھوں
کبھی قرآن، کبھی گیتا کی طرح
چند ریکھاؤں میں سیماؤں میں
زندگی قید ھے سیتا کی طرح
(کیفی اعظمی)