کیفی اعظمی کی منتخب شاعری

یاز

محفلین


دائرہ

روز بڑھتا ھوں جہاں سے آگے
پھر وہیں لوٹ کے آ جاتا ھوں
بار ہا توڑ چکا ھوں جن کو
انھیں دیواروں سے ٹکراتا ھوں

روز بستے ہیں کئی شہر نئے
روز دھرتی میں سما جاتے ہیں
زلزلوں میں تھی ذرا سی گرمی
وہ بھی اب روز ہی آ جاتے ہیں

جسم سے روح تلک ریت ہی ریت
نہ کہیں دھوپ، نہ سایہ، نہ سراب
کتنے ارمان ہیں کس صحرا میں
کون رکھتا ھے مزاروں کا حساب

نبض بجھتی بھی بھڑکتی بھی ھے
دل کا معمول ھے گھبرانا بھی
رات اندھیرے نے اندھیرے سے کہا
ایک عادت ھے جیے جانا بھی

قوس اک رنگ کی ھوتی ھے طلوع
ایک ہی چال بھی پیمانے کی
گوشے گوشے میں کھڑی ھے مسجد
شکل کیا ھو گئی میخانے کی

کوئی کہتا ھے سمندر ھوں میں
اور مری جیب میں قطرہ بھی نہیں
خیریت اپنی لکھا کرتا ھوں
اب تو تقدیر میں خطرہ بھی نہیں

اپنے ہاتھوں کو پڑھا کرتا ھوں
کبھی قرآن، کبھی گیتا کی طرح
چند ریکھاؤں میں سیماؤں میں
زندگی قید ھے سیتا کی طرح
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل

خارو خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے

چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم
خیر بجھنے دو ان کو ھوا تو چلے

حاکم شہر! یہ بھی کوئی شہر ھے
مسجدیں بند ہیں، میکدہ تو چلے

اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو
خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے

اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا
آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے

بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
نذرِ کراچی

عجب کیا دامنِ یوسف کی عظمت ان کو مل جائے
کراچی میں جو کچھ تار گریباں چھوڑ آیا ہوں

کوئی دست حنائی یونہی لہرایا تھا چلمن میں
میں ٹکڑے کر کے اپنے جیب و دامان چھوڑ آیا ہوں

پریشاں خواب جتنے سندھ کی زلفوں نے بخشے تھے
انھیں کے نام وہ خوابِ پریشاں چھوڑ آیا ہوں

رجزخوانوں کو بھی اک دن غزلخوانی سکھا دیں گے
وہ میرے ہم نوا جن کو غزل خواں چھوڑ آیا ہوں

جہاں ملتی ہے بے مانگے بھی سب کو دین کی دولت
میں اس بستی میں اپنا دین و ایماں چھوڑ آیا ہوں
(کیفی اعظمی)​
 
مدیر کی آخری تدوین:

یاز

محفلین
مکان
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو،میں بھی اٹھوں،تم بھی اٹھو،تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی

یہ زمیں تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی
پاؤں جب ٹوٹتی شاخوں سے اتارے ہم نے
ان مکانوں کو خبر ہے نہ مکینوں کو خبر
ان دنوں کی جو گھپاؤں میں گزارے ہم نے
ہاتھ ڈھلتے گئے سانچے میں تو تھکتے کیسے
نقش کے بعد نئے نقش نکھارے ہم نے
کی یہ دیوار بلند ، اور بلند ، اور بلند
بام و در اور ، ذرا اور سنوارے ہم نے
آندھیاں توڑ لیا کرتی تھیں شمعوں کی لویں
جڑ دئیے اس لئے بجلی کے ستارے ہم نے

بن گیا قصر تو پہرے پہ کوئی بیٹھ گیا
سو رہے خاک پہ ہم شورش تعمیر لئے
اپنی نس نس میں لئے محنت پیہم کی تھکن
بند آنکھوں میں اسی قصر کی تصویر لئے
دن پگھلتا ہے اسی طرح سروں پر اب تک
رات آنکھوں میں کھٹکتی ہے سیہ تیر لئے

آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو،میں بھی اٹھوں،تم بھی اٹھو،تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
(کیفی اعظمی)​
 
مدیر کی آخری تدوین:

یاز

محفلین
مشورے

پیری:
یہ آندھی، یہ طوفان، یہ تیز دھارے
کڑکتے تماشے، گرجتے نظارے
اندھیرے فضا سانس لیتا سمندر
نہ ہمراہ مشعل، نہ گردوں پہ تارے
مسافر! کھڑا رہ ابھی جی کو مارے


شباب:
اسی کا ہے ساحل اسی کے کگارے
تلاطم میں پھنس کر جو دو ہاتھ مارے
اندھیری فضا سانس لیتا سمندر
یونہی سر پٹکتے رہیں گے یہ دھارے
کہاں تک چلے گا کنارے کنارے
(کیفی اعظمی)​
 
مدیر کی آخری تدوین:

یاز

محفلین
ایک لمحہ!

زندگی نام ہے کچھ لمحوں کا
اور ان میں بھی وہی اک لمحہ
جس میں دو بولتی آنکھیں
چائے کی پیالی سے جب اٹھیں
تو دل میں ڈوبیں
ڈوب کے دل میں کہیں
آج تم کچھ نہ کہو
آج میں کچھ نہ کہوں
بس یونہی بیٹھے رہو
ہاتھ میں ہاتھ لئے
غم کی سوغات لئے
گرمیٔ جذبات لئے
کون جانے کہ اسی لمحے میں
دور پربت میں کہیں
برف پگھلنے ہی لگے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل
لائی پھر اِک لغزشِ مستانہ تیرے شہر میں
پھر بنیں گی مسجدیں میخانہ تیرے شہر میں

آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں
آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں

جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا
کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں

شاہ نامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر
ہر جگہ دفن اک افسانہ تیرے شہر میں

کچھ کنیزیں جو حریمِ ناز میں ہیں باریاب
مانگتی ہیں جان و دل نذرانہ تیرے شہر میں

ننگی سڑکوں پر بھٹک کر دیکھ، جب مرتی ہے رات
رینگتا ہے ہر طرف ویرانہ تیرے شہر میں
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمیں نیا آسماں نہیں ملتا

نئی زمیں، نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

وہ تیغ مل بھی گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولہے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں
مجھے خود اپنے قدم کا نشاں نہیں ملتا

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
فرغانہ

یہی تحفہ ہے یہی نذرانہ
میں جو آوارہ نظر لایا ہوں
رنگ میں تیرے ملانے کے لئے
قطرۂ خونِ جگر لایا ہوں
اے گلابوں کے وطن

پہلے کب آیا ہوں کچھ یاد نہیں
لیکن آیا تھا قسم کھاتا ہوں
پھول تو پھول ہیں کانٹوں پہ ترے
اپنے ہونٹوں کے نشاں پاتا ہوں
میرے خوابوں کے وطن

چوم لینے دے مجھے ہاتھ اپنے
جن سے توڑی ہیں کئی زنجیریں
تو نے بدلا ہے مشیت کا مزاج
تو نے لکھی ہیں کئی تقدیریں
انقلابوں کے وطن

پھول کے بعد نئے پھول کھلیں
کبھی خالی نہ ہو دامن تیرا
روشنی روشنی تیری راہیں
چاندنی چاندنی آنگن تیرا
ماہتابوں کے وطن
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
زیرِ نظر نظم کیفی اعظمی نے کمیونسٹ اکائی یعنی سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ کہی۔ یہ ایک طرح سے ان کے (کمیونزم سے محبت والے) خیالات کا مرثیہ ہے۔

آوارہ سجدے

اک یہی سوز نہاں کل مرا سرمایہ ہے
دوستو میں کسے یہ سوزِ نہاں نذر کروں
کوئی قاتل سرِ مقتل نظر آتا ہی نہیں
کس کو دل نذر کروں اور کسے جاں نذر کروں

تم بھی محبوب مرے،تم بھی ہو دلدار مرے
آشنا مجھ سے مگر تم بھی نہیں تم بھی نہیں
ختم ہے تم پہ مسیحا نفسی، چارہ گری
محرمِ دردِ جگر تم بھی نہیں تم بھی نہیں

اپنی لاش آپ اٹھانا کوئی آسان نہیں
دست و بازو مرے ناکارہ ہوئے جاتے ہیں
جن سے ہر دور میں چمکی ہے تمہاری دہلیز
آج سجدے وہی آوارہ ہوئے جاتے ہیں

دور منزل تھی،مگر ایسی بھی کچھ دور نہ تھی
لے کے پھرتی رہی رستے ہی میں وحشت مجھ کو
اک زخم ایسا نہ کھایا کہ بہار آ جاتی
دار تک لے کے گیا شوقِ شہادت مجھ کو

راہ میں ٹوٹ گئے پاؤں تو معلوم ہوا
جز مرے اور میرا راہ نما کوئی نہیں
ایک کے بعد خدا ایک چلا آتا تھا
کہہ دیا عقل نے تنگ آکے خدا کوئی نہیں
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
زیرِ نظر نظم فلم تمنا میں بھی شامل کی گئی تھی
عورت
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں
نبضِ ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں
اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خمِ گیسو میں نہیں
جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں
اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لئے
فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لئے
قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لئے
زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لئے
رُت بدل ڈال اگر پھلنا پھولنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں، اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ کر رسم کے بت بندِ قدامت سے نکل
ضعفِ عشرت سے نکل وہمِ نزاکت سے نکل
نفس کے کھینچے ہوئے حلقہء عظمت سے نکل
قید بن جائے محبت، تو محبت سے نکل
راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تو فلاطون و ارسطو ہے، تو زہرہ پروین
تیرے قبضے میں ہےگردوں تری ٹھوکرمیں زمیں
ہاں اُٹھا جلد اُٹھا، پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں تو بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل

کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیرِ قدم رات آئے ہیں کیا کیا

نشیبِ ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے
فرازِ دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا

جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا
تمام ذخمِ جگر مسکرائے ہیں کیا کیا

چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل
وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا

اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے
کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا

میں کچھ سمجھ گیا اور کچھ سمجھ نہیں سکا
جُھکی نظر نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا

جو ہو لیا تھا مرے ساتھ چاند چوری سے
اندھیرے راستے کے جگمگائے ہیں کیا کیا

کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب
چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا
(کیفی اعظمی)​

نوٹ: آخری شعر فیض، جوش اور فراق کی وفات کے تناظر میں لکھا گیا تھا
 

یاز

محفلین
دوپہر

یہ جیت ہار تو اس دور کا مقدر ہے
یہ دور جو کہ پرانا نہیں نیا بھی نہیں
یہ دور جو کہ سزا بھی نہیں جزا بھی نہیں
یہ دور جس کا بظاہر کوئی خدا بھی نہیں

تمھاری جیت اہم ہے نہ میری ہار اہم
کہ ابتدا بھی نہیں ہے یہ انتہا بھی نہیں
شروع معرکۂ جاں ابھی ہوا بھی نہیں
شروع ہو تو یہ ہنگامِ فیصلہ بھی نہیں

پیامِ زیرِ لب اب تک ہے صورِ اسرافیل
سنا کسی نے،کسی نے ابھی سنا بھی نہیں
کیا کسی نے،کسی نے یقین کیا بھی نہیں
اٹھا زمین سے کوئی، کوئی اٹھا بھی نہیں

یہ کارواں ہے تو انجامِ کارواں معلوم
کہ اجنبی بھی نہیں کوئی آشنا بھی نہیں
کسی سے خوش بھی نہیں ہے کوئی خفا بھی نہیں
کسی کا حال کوئی مڑ کے پوچھتا بھی نہیں
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
برسات کی ایک رات

یہ برسات ، یہ موسمِ شادمانی
خس و خار پہ پھٹ پڑی ہے جوانی
بھڑکتا ہے رہ رہ کے سوزِ محبت
جھما جھم برستا ہے پر شور پانی

فضا جھومتی ہے گھٹا جھومتی ہے
درختوں کو ضو برق کی چومتی ہے
تھرکتے ہوئے ابر کا جذب دیکھو
کہ دامن اٹھائے زمیں گھومتی ہے

کڑکتی ہے بجلی، چمکتی ہیں بوندیں
لپکتا ہے کوندا، دمکتی ہیں بوندیں
رگِ جاں پہ رہ رہ کے لگتی ہیں چوٹیں
چھما چھم خلا میں کھنکتی ہیں بوندیں

فلک گا رہا ہے زمیں گا رہی ہے
کلیجے میں ہر لے چبھی جا رہی ہے
مجھے پا کے اس مست شب میں اکیلا
یہ رنگیں گھٹا تیر برسا رہی ہے

چمکتا ہے، بجھتا ہے، تھرا رہا ہے
بھٹکنے کی جگنو سزا پا رہا ہے
ابھی ذہن میں تھا یہ روشن تخیل
فضا میں جو اڑتا چلا جا رہا ہے

لچک کر سنبھلتے ہیں جب ابر پارے
برستے ہیں دامن سے دمدار ستارے
مچلتی ہے رہ رہ کے بادل میں بجلی
گلابی ہوئے جا رہے ہیں کنارے

فضا جھوم کر رنگ برسا رہی ہے
ہر اک سانس شعلہ بنی جا رہی ہے
کبھی اس طرح یاد آتی نہیں تھی
وہ جس طرح اس وقت یاد آ رہی ہے

کوئی لطف کیا منظرِ پُر اثر دے
کہ آنکھوں پہ اشکوں نے ڈالے ہیں پردے
کہیں اور جا کر برس مست بادل
خدا تیرا دامن جواہر سے بھر دے
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
غزل
کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ
تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ

گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو
ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ

منزل سے وہ دور تھا اور ہم بھی دور تھے
ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہنما کے ساتھ

رقصِ صبا کے جشن میں ہم تم بھی ناچتے
اے کاش تم بھی آ گئے ہوتے صبا کے ساتھ

اکیسویں صدی کی طرف ہم چلے تو ہیں
فتنے بھی جاگ اٹھے ہیں آوازِ پا کے ساتھ

ایسا لگا غریبی کی ریکھا سے ہوں بلند
پوچھا کسی نے حال کچھ ایسی ادا کے ساتھ
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
دعوت

کوئی دیتا ہے در دل پہ مسلسل آواز
اور پھر اپنی ہی آواز سے گھبراتا ہے

اپنے بدلے ہوئے انداز کا احساس نہیں
میرے بہکے ہوئے انداز سے گھبراتا ہے

ساز اٹھایا ہے کہ کوسم کا تقاضا تھا یہی
کانپتا ہاتھ مگر ساز سے گھبراتا ہے

راز کو ہے کسی ہم راز کی مدت سے تلاش
اور دل صحبتِ ہم راز سے گھبراتا ہے

شوق یہ ہے کہ اڑے وہ تو زمیں ساتھ اڑے
حوصلہ یہ ہے کہ پرواز سے گھبراتا ہے

تیری تقدیر میں آسائش انجام نہیں
اے کہ تو شورش آغاز سے گھبراتا ہے

کبھی آگے کبھی پیچھے کوئی رفتار ہے یہ
ہم کو رفتار کا اپنی آہنگ بدلنا ہو گا

ذہن کے واسطے سانچے تو نہ ڈھالے گی حیات
ذہن کو آپ ہی ہر سانچے میں ڈھلنا ہو گا

یہ بھی جلنا کوئی جلنا ہے کہ شعلہ نہ دھواں
اب جلا دیں گے زمانے کو جو جلنا ہوگا
ہم کسی رخ سے چلیں ساتھ ہی چلنا ہو گا
(کیفی اعظمی)​
 

یاز

محفلین
چراغاں
(آزادی کی چھبیسویں سالگرہ کے موقع پر)

ایک دو بھی نہیں چھبیس دیئے
ایک اک کر کے جلائے میں نے
اک دیا نام کا آزادی کے
اس نے جلتے ہوئے ہونٹوں سے کہا
چاہے جس ملک سے گیہوں مانگو
ہاتھ پھیلانے کی آزادی ہے
اک دیا نام کا خوشحالی کے
اس کے جلتے ہی یہ معلوم ہوا
کتنی بد حالی ہے
پیٹ خالی ہے مرا،جیب مری خالی ہے
اک دیا نام کا یک جہتی کے
روشنی اس کی جہاں تک پہنچی
قوم کو لڑتے جھگڑتے دیکھا
ماں کے آنچل میں ہیں جتنے پیوند
سب کو اک ساتھ ادھڑتے دیکھا
دور سے بیوی نے جھلا کر کہا
تیل مہنگا بھی ہے ملتا بھی نہیں
کیوں دیئے اتنے جلا رکھے ہیں
اپنے گھر میں نہ جھروکہ نہ منڈیر
طاق سپنوں کے سجا رکھے ہیں
آیا غصے کا اک ایسا جھونکا
بجھ گئے سارے دیئے
ہاں مگر اک دیا نام ہے جس کا امید
جھلملاتا ہی چلا جاتا ہے
(کیفی اعظمی)​
 
غزل

خارو خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے

چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم
خیر بجھنے دو ان کو ھوا تو چلے

حاکم شہر! یہ بھی کوئی شہر ھے
مسجدیں بند ہیں، میکدہ تو چلے

اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو
خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے

اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا
آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے

بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ھوں پتہ تو چلے

(کیفی اعظمی)​
یاز صاحب اس غزل کے آخری مصرع میں ایک لفظ ٹائپنگ سے رہ گیا ہے۔ ہوں کے بعد "یہ "ہے یا "کچھ "ہے ؟۔
میں کہاں دفن ھوں پتہ تو چلے​
 

یاز

محفلین
یاز صاحب اس غزل کے آخری مصرع میں ایک لفظ ٹائپنگ سے رہ گیا ہے۔ ہوں کے بعد "یہ "ہے یا "کچھ "ہے ؟۔
میں کہاں دفن ھوں پتہ تو چلے
توجہ دلانے کا شکریہ سلمان دانش بھائی۔ واقعی اس مصرعے میں "کچھ" لکھنا رہ گیا۔ اس غلطی پہ معافی کا خواستگار ہوں۔ مزید پشیمانی اس بات کی ہے کہ کیفی اعظمی کی تمام شاعری میں سے یہ میرا پسندیدہ ترین شعر ہے اور اسی میں غلطی ہو گئی۔
بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے​

اصل پوسٹ کی غلطی کی تصحیح اب انتظامیہ میں سے کوئی ہی کر سکتا ہے۔ درخواست ابھی روانہ کرتا ہوں۔ ایک بار پھر شکریہ اس غلطی کی نشاندہی کرنے پہ​
 
Top