کیسے معمار ملت؟ تعلیم برائے فروخت ہے

کعنان

محفلین
کیسے معمار ملت؟ تعلیم برائے فروخت ہے
خواجہ مظہر صدیقی
29/12/2016


Education-for-sale-Laaltain-890x395_c.jpg

آج جی چاہتا ہے کہ اپنے قارئین سے ایک اہم، سنجیدہ اور انتہائی حساس نوعیت کے ایک سلگتے موضوع پر بات کروں. میرا یہ منتخب موضوع مستقبل کے معماروں، والدین اور تعلیم کے محکمے سے وابستہ ارباب اختیار کے لیے اچھی خاصی توجہ کا متقاضی ہے. اور اس پر کبھی کوئی قلم کار خیال آرائی و قلم آرائی کرتا ہی نہیں. افسوس کا مقام ہے جن تعلیمی اداروں کو ہم اہل سمجھ کر اپنے بچے ان کے سپرد کرتے ہیں. ان تعلیمی اداروں کو اہلیت اور قابلیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مگر یہ نا اہل اور ناکارہ ثابت ہو رہے ہیں.

آج صبح خاکسار نے ملتان کے ایک نجی سکول کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات میں شرکت کی تھی. مجھے اس شرکت سے شدید ذہنی اذیت اور کوفت ملی. میں جس سکول میں گیا تھا، اس کی ملتان میں سب سے زیادہ برانچیں ہیں. وہاں سکول انتظامیہ کی بد انتظامی دیکھ کر بہت زیادہ دلی دکھ ہوا. یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے ہر گلی کوچے میں تعلیم برائے فروخت کے بورڈ آویزاں ہیں. بھاری فیسوں کے عوض بچوں کو صحیح تعلیم دی جا رہی ہے نہ کسی قسم کی درست سمت کی کوئی تربیت.

کسی کو برا نہ لگے تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں قائم سکولوں کا کام صرف پیسے کمانا ہی رہ گیا ہے. پبلسٹی کے وقت دعوے اور وعدے ایسے کیے جاتے ہیں کہ زمین اور آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں. سچ تو یہی ہے کہ جھوٹے دعوے اور غلط نعرے لگا کر اس تعلیم کے شعبے کو بدنام کیا جا رہا ہے. اس طرح کے مواقع پر میں نے دیکھا ہے کہ تمام سکولوں کی انتظامیہ انتظامی صلاحیتوں سے بے بہرہ ہی نظر آتی ہے.

آج جس سکول میں مجھے جانا ہوا، وہاں بچوں سے اس سالانہ فنکشن کے لیے فی طالب علم ڈیڑھ سو روپے لیے گئے تھے، مگر وہاں حاضرین کے لیے پینے کا پانی تک موجود نہ تھا. مہمانوں کے استقبال کے لیےکوئی کاؤنٹر تھا نہ کوئی پرسان حال. سال بعد سکول میں آئے والدین کے لیے ریفریشمنٹ کا نام و نشان بھی نہ تھا. دوران تقریب کوئی ڈسپلن، انتظام و انصرام ایسا نہ تھا کہ جس کی تعریف کی جائے. سکول اور پنڈال مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا تھا.

سٹیج کے قریب یعنی آگے بیٹھے افراد کو تو کچھ نہ کچھ ہوتا دکھائی دے رہا تھا، اور آواز بھی سنائی دے رہی تھی. پچھلی نشستوں پر بیٹھے والدین اور بچے مناظر اور آواز سے محروم ہی رہے. جو نغمے، ٹیبلو اور خاکے پیش کیے گئے، ان میں بچوں کے لیے کسی قسم کی تربیت کا کوئی پہلو نہ تھا. بچوں کے ہمدرد کے طور پر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اصل میں بچوں سے زیادہ سکول سربراہان کو تربیت کی ضرورت ہے. ان کی برین واشنگ اور ذہن سازی ہر صورت اور ہر قیمت پر شروع ہونی چاہیے.

ہمارے ہاں سکولوں کی سربراہ اکثر خواتین ہوتی ہیں اور میرا کہنا ہے کہ خواتین کبھی اچھی منتظم ثابت نہیں ہوتیں. میرا خیال ہے کہ سالانہ فنکشن کے نام پر بھی سکول نفع کماتے ہیں. چودہ سو بچوں سے دو لاکھ دس ہزار روپے جمع کیے گئے. کیا سالانہ فنکشن پر کیٹرنگ اور ساؤنڈ سسٹم پر دو لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی ہو گی؟

سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ معصوم بچوں کی جیبوں سے جیب خرچ نکلوا کر اس سے سالانہ تقریب تقسیم انعامات منعقد کروانے اور اس سے نفع کمانے سے سکول کون سی خدمت سر انجام دیتے ہیں؟

ح
 
Top