کیا یہودی سامی النسل ہیں؟

ابن آدم

محفلین
غزہ جنگ کے بعد بننے والے حالات نے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے، ایک وہ جو کہتے ہیں کہ غزہ کے مسلمانوں پر مظالم بند کرو اور دوسرے وہ جو کہتے ہیں کہ جو ایسا کہہ رہے ہیں وہ یہودی دشمن یا انٹی سمیٹک ہیں.

یہودی وہ قوم ہے جس کا قرآن میں سب سے زیادہ تذکرہ ہے اور قرآن بتاتا ہے کہ مسلمانوں سے پہلے الله کی طرف بلانے کی دعوت کی ذمہ داری الله نے بنی اسرائیل کو دی تھی. بنی اسرائیل کو دی جانے والی فضیلتوں کے بعد، قرآن میں ان کی نافرمانیوں اور فتنہ پردازیوں کا بھی ذکر کثرت سے ہے. یہودیوں کی برائیوں میں ایک بڑی برائی ان کے اندر حد سے زیادہ نسلی تفاخر اور فضیلت کی برائی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر دوسرے کو اپنےسےحقیر اور کمتر جانتے ہیں. یہ ایک بنیادی وجہ تھی جس کی وجہ سے انھوں نے ایک عالمی دین کو نسلی دین اور تمام عالموں کے الله کو بنی اسرائیل کےرب تک محدود کردیا. اپنے آپ کو برتر دکھانے کی خواہش ان کی پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اسی لئے انھوں نے حضرت موسیٰ(ع) سے قبل کے مشہور واقعات اور شخصیات کو بھی اپنے ساتھ جوڑ لیا، جس کی واضح مثال حضرت ابراہیم کا اپنے بیٹے کی قربانی کی ہے جو یہودی حضرت اسحاق(ع) کو قرار دیتے ہیں

اس کی دوسری مثال حضرت نوح(ع) کی ہے. یہودیت میں حضرت نوح علیہ السلام کو ایک مؤمن نبی اور انسانیت کے لئے اللہ کی رحمت ہونے کا تصور کیا جاتا ہے جو اپنی قوم کو ابراہیم علیہ السلام کی طرح توحید (توحیدِ الہی) پر لے کر لے آئے اور اُن کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی دعوت دی. اس کے علاوہ حضرت نوح(ع) کوعالمی رہنما اصولوں کا بانی بھی مانا جاتا ہے اور یہ اصول یہودیوں کے نزدیک تمام لوگوں پرلاگو ہوتے ہیں جن میں شرک سے بچنا، قتل خطا، چوری اور دیگر بنیادی اخلاقی باتیں شامل ہیں. بائبل میں حضرت نوح(ع) کےاعلیٰ مقام کو دیکھتے ہوئے یہودیوں نے حضرت نوح(ع) کو اپنے آباؤاجداد میں شامل کرلیا.

یہودی حضرت نوح(ع) کو آدم ثانی بھی مانتے ہیں جسکا مطلب یہ ہوا کہ یہودیوں کے نزدیک اس دور کے تمام لوگ بالاخر حضرت نوح(ع) کی اولاد ہی ہیں تو پھر یہودی اپنے آپ کو افضل اور برتر کیسے دکھا سکتے تھے؟ اس کے لئے انھوں نے اس کے ساتھ ایک اور کہانی گھڑی کے حضرت نوح(ع) کے تین بیٹے تھے، سام، حام، اور یافت۔ یہودی روایات کے مطابق حضرت نوح (ع) اللہ کی ہدایت پر جہاز بناتے ہیں اور وہ اور ان کے بیٹے اور اپنی بیویوں کے ساتھ جہاز میں چڑھتے ہیں اور طوفان سے بچ جاتے ہیں۔ جو سب سے اچھا اورنیک بیٹا تھا وہ سام تھا جس سے تمام یہودی ہیں اور اس کو امامت ملی. حام کو افریقہ لوگوں کی نسل کا وارث دکھایا جو انتہائی بدکردار اور شرابی ہوتا ہے. کیونکہ یہودیوں کی مصریوں اوردیگر ہمسایہ قوموں سےدشمنی رہی ہے تو اس نفرت کے اظہار کے لئے یہودیوں کو برے شخص کی اولاد دکھاتے ہیں. اور تیسرے بیٹے یافت کو آسٹریلیشیا (جنوب مشرقی علاقہ) کے لوگوں کا سردار دکھایا گیا ہے.
اور اس خودساختہ تقسیم کے ذریعہ، یہودی اپنے آپ کو سب سے افضل اور برتر دکھا کر دنیا میں ظلم و ستم و فساد کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں.

لیکن کیا قرآن اس بات کی تائید کرتا ہے؟
قرآن حضرت نوح(ع) کو ایک اعلیٰ مرتبت رسول کے طور پر پیش کرتا ہے جنھوں نے انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں بھی اپنی بستی میں دعوت دین کا کام انتہائی جانفشانی سے سرانجام دیا لیکن ساتھ ہی یہودیوں کو مخاطب ہو کر صاف طور پر بتا دیا کہ تم لوگ حضرت نوح(ع) کی اولاد سے نہیں. سوره الاسراء کی آیت ٣ میں الله نے فرمایا کہ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ ایک شکر گزار بندہ تھا. وَءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَ۔ٰبَ وَجَعَلْنَ۔ٰهُ هُدًۭى لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا۟ مِن دُونِى وَكِيلًۭا ٢ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَبْدًۭا شَكُورًۭا ٣
یعنی بنی اسرائیل (یہودی) ایک ایسے شخص کی اولاد ہیں جو حضرت نوح (ع) کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا تھا. لہٰذا یہودیوں کا اپنے آپ کو آل نوح یا سامی النسل کہلانا بالکل باطل، جھوٹ اور حقیقت سے انحراف ہے.

اسی طرح سوره ال عمران میں الله نےدو نبیوں اوردو نبوت کے خاندانوں کا ذکرفرمایا. اورپھرفرمایا کہ بعض بعض کی اولاد ہیں یعنی سب ایک کی اولاد نہیں. ۞ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰٓ ءَادَمَ وَنُوحًۭا وَءَالَ إِبْرَٰهِيمَ وَءَالَ عِمْرَٰنَ عَلَى ٱلْعَ۔ٰلَمِينَ ٣٣ ذُرِّيَّةًۢ بَعْضُهَا مِنۢ بَعْضٍۢ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ٣٤تو پھرسوچنا پڑے گا کہ کون ساخاندان کس نبی کی اولاد ہے؟ پھرسوره الاسراء کی آیت کے تناظر میں اس کو دیکھیں گےتوواضح ہوگا کہ آل ابراہیم حضرت آدم کی اولاد سے ہیں اور آل عمران حضرت نوح(ع) کی اولاد سے ہیں. آل عمران سے حضرت عیسیٰ (ع) مراد ہیں جن کو یہودیوں نے صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی ایک طرف توالله نےیہودیوں کےاس دعوی کی نفی کی کہ وہ حضرت نوح(ع) کی اولاد سے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی بتا دیا کہ ان کا اپنا بیٹا سیلاب کی نظرہوگیا یعنی اگرحضرت نوح(ع) کی حقیقی اولاد بھی ہدایت پر نہیں چلے گی توحضرت نوح(ع) بھی اسکوبچا نہیں سکتے لہٰذا ایک بیٹے کواچھا دکھا کر اپنے آپ کو اچھا سمجھنا کافی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں الله کے احکامات پر چلنا ہی الله کے قرب اور کامیابی کی ضمانت ہے. لہٰذا یہودیوں کا اپنے آپ کو سامی النسل کہنا ایک دھوکہ ہے جس کی قرآن واضح تردید کر رہا ہے اور تمام دنیا کے لوگوں کو حضرت نوح (ع) کی اولاد سے ظاہر کرنا بھی حقیقت کے برخلاف ہے.

قرآن اور تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ٢٠٠٠ سال پہلے بھی یہودی آل نوح کے نبی حضرت عیسیٰ (ع) کو صلیب پر چڑھانے کی کوشش کر رہے تھے اور آل نوح کے دشمن اور انٹی سمیٹک تھے اور آج کے یہودیوں کے رویے بھی اسی دشمنی اور نفرت کا مظہر ہیں. اور چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے کی مثال یہ ہے کہ یہودی دوسروں کو انٹی سمیٹک ہونے کا طعنہ دیتے ہیں

قرآن کو الله نے فرقان بتایا ہے جو کہ حقیقی معنوں میں پروپیگنڈا کا توڑ ہے لیکن ہم مسلمان اس سے جڑ کر نہ صرف دنیا میں عزت کما سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے پروپیگنڈا کا بھرپور توڑ بھی کر سکتے ہیں. الله ہم کو قرآن کو سمجھنے اور اس کو اپنانے اور اپنے لیے مشعل راہ بنانے کی توفیق دے. امین
 
آخری تدوین:
Top