کیا کھویا کیا پایا

بزم خیال

محفلین
خدا خدا کر کے زندگی کا ایک سال اور گزر گیا ۔ امید و آس کے ساتھ جس کا آغاز ہوا تھا ۔ نا امیدی و مایوسی کے ساتھ انجام پزیر ہوا ۔ دنیا کے نقشے میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر ہر ملک اپنی حدوں کے اندر ہی پناہ گزیں رہا۔ جگمگاتی روشنیوں کا فائر ورکس نئی امیدوں کا چراغ بن کر پھر آنکھوں کو چندھیاگیا ۔ ہر سال ہی ہم خوشیوں کے ساتھ نئے سال کا استقبال کرتے ہیں ۔ اور گزشتہ برس پر افسوس کا اظہار کر کے پھر ایک نئی منزل کی امید میں نظریں باندھ لیتے ہیں ۔جیسے ریگستان میں بھٹکا قافلہ ہر پڑاؤ پر نیا سراب دیکھتا ہے ۔ مگر جونہی قریب پہنچتا ہے تو خواب بکھر جاتے ہیں ۔ ہر بار وہی پشیمانی ، وہی درد افسوس سے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔جن سے امید باندھ لیتے ہیں وہی نا امیدی کے دھکتے انگاروں پر چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔مجھے اب نئے سال کی خوشی نہیں ہوتی اگر کوئی یہ سمجھے کہ ہونی چاہیئے تو پھر احمقوں کی جنت میں رہنے کا اب شوق نہیں رہا۔ ایک کے بعد ایک جزباتی انداز میں فلسفہء زندگی کو ایسے تاک تاک کر نشانے پر بٹھاتے ہیں کہ اب تختہ مشق بننے پر دل آمادہ نہیں ۔حلق سے نیچے تو اب کسی بات کی اثر انگیزی نہیں رہی ۔تر نوالہ کی طرح لعاب دہن ہی اب لفظوں کو گولی میں ڈھال کر حلق سے اتارنے کی کوشش میں ہیں ۔آج سائنس کا یہ کہنا کہ قلب تو بس ایک خون کے بہاؤ کے لئے پمپ کا کام کرتا ہے ، ان کی زبان سے نکلتے الفاظ اور دعوے اس کی دلالت کے غماز ہیں ۔کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کے قلب ہر کیفیت سے عاری ہیں اور واقعی انہیں وہ صرف پمپ کاکام ہی دیتے ہیں۔ مگر درد دل رکھنے والا ہر انسان اس مفروضے پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے سے قاصر ہے۔جس عقل کی بنیاد پر لوٹ مار کا بازار گرم رکھا جاتا ہے ۔وہ اگر سو بھی جائے تو وہی قلب اس کی حفاظت کا حصار بنا رہتا ہے۔اگر وہ بھی غافل ہو جائے تو منوں مٹی کے نیچے دفن ہونے سے کوئی کیا بچا پائے گا۔ مگر ان کے نزدیک ہر منزل کا راستہ عقل کی راہوں سے گزرتا ہے۔ اور اسی راستے پر چلنے والے تو بہک سکتے ہیں مگر دل کی بات سننے والے ہمیشہ ہی شش و پنج کا شکار رہتے ہیں۔شیطان کا بہکاوہ کمزور عقل مالک پر گہری چوٹ رکھتا ہے۔وگرنہ مٹی سے بنا انسان اسی زمین پر تکبر نہ کرتا ۔کامیابی کا حصول ، دوسروں سے معتبر کرنے میں اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔برداشت ، صبر ، عجز و انکساری کی جگہ اب لالچ خود غرضی نے لے لی ہیں ۔ فلسفہ حیات و ممات اب صرف کتابوں کی زینت رہ گیا ہے۔دوسروں سے بڑھ جانے کی تگ و دو میں روندنے کا عمل اپنی دانست میں عقل کی معراج سمجھا جانے لگا ہے۔ بیوقوف انسان تصور کیا جاتا ہے جو اپنا مستقبل ، بڑھاپا اور اولاد کی جوانی محفوظ نہیں رکھتا ۔کامیابی کی سیڑھی جزبات کے کھیل سے تیار کی جاتی ہے۔مفاد پرستی میں کینہ و بغض کو جھوٹ کی تراوٹ سے تازگی کے دھوکہ میں بہلایا جاتا ہے۔ سیاست سے لیکر کاروبار تک اور حکومت سے لیکر گھریلو انتظامات تک فرد فرد سے شکوہ و شکایت کے دربار شاہی کا طلبگار ہے۔ہر شخص اپنے مسائل و مشکلات کا شکار ہے ۔جسے جو مسئلہ درپیش ہو ۔ اسی کا مداوا چاہتا ہے ۔مردوں کو نوکریوں کے لالے پڑے ہیں تو خواتین کو مردوں سے برابری کی جنگ جیتنے کی جستجو ہے۔والدین اولادوں سے نالاں ہیں ، تو اولادیں والدین کو اپنی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں کہ سفارش یا رشوت کی سیڑھی سے انہیں منزل مراد تک پہنچنے میں مددگار نہیں ہوئے۔احسان ہی بھول چکے ہیں کہ تابعداری میں حکم کیا ہے۔بس صرف شکوہ میں زبان ذکر کرتی ہے۔دولت کا حصول ہی مقصدحیات ٹھہر چکا۔ رشتوں میں بناوٹ و تصنع نے اصل چہرے چھپا لئے ۔ پردہ اٹھنے پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اگر ملک میں انصاف نہیں تو خود میں بھی برداشت نہیں۔جلوس ریلیاں نکال نکال کر نوجوانوں کو توڑ پھوڑ کا ڈھنگ سکھا دیتے ۔ پھر شکوہ دوسروں سے کہ اپنی حدوں سے آگے گزر گئے ہیں۔ہر عروج کو زوال سے ہمکنار کرنے میں سب کا ایک ہی ڈھنگ اور کام ہونے کے بعد پھر وہی رنگ۔قوم تتلیوں کی مانند کبھی ایک ڈالی پہ تو کبھی دوسری ڈالی پہ۔ظالموں نے قوم کے خوبصورت رنگوں کو ہی بکھیر دیا ۔ روز ہی ٹی وی مناظروں میں لوٹا لفافہ کریسی سے بات اب آگے بڑھ کر کردار کشی تک جا پہنچی۔لفظوں کی نورا کشتی سے اب آگے تھپڑوں گھونسوں کی باری ہے جو پارلیمنٹ کی بجائے قوم کو گھروں میں دیکھنے کو ملے گی۔کوئی ستر ہزار ووٹ سے جیتنے کے دعوی سے ہر الزام سے بری الزمہ ہو گیا ۔ تو کوئی ان کے کندھوں پر ہی پوری قوم کا نا خدا بن جا تا ہے ۔نہ الیکشن صفاف اور نہ ہی ریفرنڈم ۔ بس بھیڑوں کا ایک باڑا ہے جو چاروں اطراف سے گھرا ہوا ہے۔ ایک ہانکتا ہے تو باقی ارد گرد سے گھیرا ڈال کربکھرنے سے بچاتے ہیں۔بھوک سے لاچار بھی ہوں قدم ڈگمگانے کی اجازت نہیں ۔بچا کر رکھتے ہیں کیونکہ دولت کے انبار انہی کی کھالوں سےتو لئے جاتے ہیں۔جس کو ہاتھ لگاؤ ڈنک بھرے تیار بیٹھےہے۔ ہر بار اس سال کی امید بہار میں ہمارے بالوں میں بھی چاندنی پوری طرح سے پھیل چکی ہے۔ ہم تو بچپن سے لاٹھی جلوس کی تزکیہ نفسی کے شکار رہے اور اب ہمارے بچے بھی دھکم پیل کے اس کھیل میں کہیں عمر نہ گنوا دیں۔اور دوسروں کو اپنے ماموں کے پودینہ کے باغات کے قصے سنا کر مرعوب کرنے کی ناکام کوشش میں اپنی شناخت ہی بھول جائیں ۔ اور جو غریب ہیں ان پر ظلم ڈھانے کے لئے امارت کا رعب ہی کافی ہے۔غریب وکمزور کو اوئے ،تو کہ کر بلانا اور امیر طاقتور کو آپ جناب کی گردان سےعزت افزائی سے طاقت بڑھائی جاتی ہے۔تو غریب بچہ کوئی ایسا ہی فعل انجام دے گا جس کی ایک مثال نیلا گنبد میں پارکنگ سٹینڈ پر گاڑی صاف کرنے والا ایک بچے نے کالی بڑی گاڑی کے شیشےکو اچھی طرح آئینہ کی طرح صاف کیا ۔ اور خود کا چہرہ دیکھا پھر اسی شیشے پر تھوک کر چلا گیا ۔مگر دوسری طرف وی آئی پی کلچر کے دلدادہ وطن میں ہوں تو ملازموں کی فوج ظفر موج انتظار میں پسند فرماتے ہیں۔ اور اگر باہر سے آئیں توامیگریشن سے پہلے اپنے نام کے ساتھ استقبال پر مامور سرکاری ملازم کا پروٹوکول چاہتے ہیں ۔آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ دو سو سال بعدبھی کس کی حکومت ہے یہاں مغل بادشاہ کی ، ریاست کے راجہ مہاراجہ کی یا پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی۔ کیونکہ جمہوریت عوام سے ہے مگر عوام کہاں ہیں؟
مگر ان تمام کے باوجود میرے لئے یہ ایک اہم سال تھا ۔ میں زندگی میں مرحوم و مغفوربوڑھے والدین کے ساتھ اس لئے جڑا رہا کہ دنیا تو شائد مجھے کچھ نہ دے سکے ۔مگر ان کی خدمت سےجو اطمینان قلب آج مجھے نصیب ہے ۔ وہ دولت سے بڑھ کر بیش بہا خزانہ تسکین ہے ۔ خاص طور پر آٹھ جنوری 2009 کو شروع ہونے والا میرا یہ سفر در دستک ہے۔ موسل بار ، برگ بار، روشن عطار، خندہ جبین ، بادِ امنگ، بر عنبرین اور خیال رست جیسی تخلیق قلم نے آسودہ کیا۔


محمود
 
Top