کیا کوئی مجھے "ولی دکنی۔ سودا۔ درد کے غزلوں کو سمجھا یا تشریح کر سکتا ہے؟

نالہ و آہ کی تفصیل نہ پٗوچھ مجھ سوں
دفتر درد بسا عشق کے دامان میں آ
میرا اندازہ ہے کہ شعر میں لفظ پوچھ نہیں پوچھو ہو گا۔ واللہ اعلم
نالہ: رونا، نالہ و آہ: آہ و زاری۔ دفترِ درد : درد کا دفتر یعنی بہت سارے درد، غم ۔ دامان: پہلے بیان ہو چکا۔
میری آہ و زاری کا کیا پوچھتے ہو، میرے دل میں تو کتنے ہی درد بسے ہوئے ہیں یا بھرے ہوئے ہیں۔
 
آخری تدوین:
پنجۂ عشق نے بے تاب کیا جب سوٗں مجھے
چاک دل تب سوٗں بسا چاک گریبان میں آ
یہاں کوئی نیا لفظ نہیں آیا۔
جب سے مجھے عشق کے پنچے نے بے تاب کیا ہے، تب سے دل کا چاک گریبان کے چاک سے آن ملا ہے۔
پنجہء عشق، جیسے عشق سے وحشت مراد لیتے ہیں، سو اُس وحشت نے پنجہ مارا تو میرا دل زخمی ہو گیا، چِر گیا اور ایسا چِرا گریبان چِرا ہوا ہوتا ہے۔
گریبان کا عمومی معنی ہے قمیص کا سامنے کا وہ کھلا حصہ جہاں ہم بٹن لگا کر بند کرتے ہیں، اس کو شاعر نے چیرا کہا ہے تاکہ پنجے سے لگنے والے لموترے زخم سے تشبیہ بن سکے۔
 
آخری تدوین:
حسن تھا پردہ تجرید میں سب سوٗں آزاد
طالب عشق ہوا ' پردۂ انسان میں آ
حسن تجرید کے پردے میں سب سے آزاد تھا، جب انسان کے پردہ (روپ) میں آیا تو اس نے عشق کی طلب کی۔
اس شعر کا ایک ظاہری معنی ہے کہ میرا محبوب جو حسن کی مجرد صورت میں سب تعلقات اور خواہشوں سے آزاد تھا، انسان کی صورت میں ظاہر ہوا تو اس نے چاہا کہ کوئی اس سے عشق کرے۔
دوسرا معنی باطنی ہے۔ حسنِ مجرد سے کچھ لوگ اللہ کی ذات مراد لیتے ہیں اور اس امر کی طرف تلمیح کرتے ہیں کہ اللہ نے جب چاہا کہ کوئی مجھے اپنی سعی سے بھی پہچانے تو اس نے انسان کو تخلیق کیا، یعنی انسان پر اللہ سے عشق کرنا (عشقِ حقیقی) واجب و لازم ہے۔
 
آخری تدوین:
غم سوٗں تیرے ہے ترحم کا محل حال ولی
ظلم کوٗں چھوڑ سجن ! شیوۂ احسان میں آ
محل سے مراد ہے موقع محل، مقام۔ شیوہء احسان: نیکی کرنے کی عادت۔ حالِ ولی: ولی (شاعر بہ اشارہ عاشق یا محب) کا حال۔ ترحم: رحم آنا، ترس آنا۔
خطاب محبوب سے ہے کہ تیرے غم کی وجہ سے (ظاہر ہے نہ ملنے کا غم ہے) ولی کے حال پر ترس آتا ہے۔ لہٰذا تو ظلم (جدائی میں تڑپانے کا عمل) ترک کر کے احسان کی روش اپنا یعنی نیکی کر اور اپنے عاشق کو وصال سے نواز دے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
جب ہم کہتے ہیں کہ یہ میر کی غزل ہے تو داد کیا، سارے اعتراف اس ایک نام میں آ جاتے ہیں۔ ادب میں کتنے ہی میر اور رہے ہوں گے، پر ایک لفظ کے نام والا میر ایک ہی ہے۔

اور اس " ایک " میر کی غزل ۔۔۔۔۔۔۔ اور تشریح اتنی آسان ۔۔۔۔۔؟
استاد محترم کیا اس غزل کے پہلے مصرع کا ہر لفظ ہی اپنی تشریح میں دیوان سے بڑھ کر وسعت نہیں رکھتا ۔۔ ؟
" کیا " مجھ " عشق"نے " ظالم "کوں " آب" آہستہ آہستہ "
یہ صرف مجاز کا بیان نہیں ۔۔۔
"یہ میرے عشق نے کس ظالم کو آہستگی سے پانی کر دیا " کتنی پرتیں ہیں اس مصرعے کی ۔ کتنی پرتوں کو کھولے سامع و قاری ۔
سبحان اللہ
بلاشک " میر" میر ہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں

بالکل جناب ۔۔۔ میر صحیح معانی میں نابغہ عصر ہے۔

وہ صنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ
آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ
سوں، کوں سے تو آپ شناسا ہو چکے ہیں۔ اب بات آسان ہو جانی چاہئے۔
جب سے وہ صنم (محبوب کو بُت کہنا اردو شعر کی روایات میں شامل ہے، اور میر روایت ساز شاعر ہے) میری چشمِ حیران میں میں آن بسا ہے (آنکھوں میں بسنا: اچھا لگنا، محبوب ہونا) عشق کی آگ عقل کے سامان میں آ پڑی ہے، یعنی عقل کام نہیں کر رہی۔ مختصر الفاظ میں: عشق نے مت مار دی ہے۔

مگر مذکورہ غزل میر کی تو ہے ہی نہیں 'اس غزل کے شاعر تو ولی دکنی ہیں -
 
مگر مذکورہ غزل میر کی تو ہے ہی نہیں 'اس غزل کے شاعر تو ولی دکنی ہیں -

بے شک یہ غزل ولی دکنی کی ہے۔ہمارے خیال میں استادِ محترم نے میر کا نام کنایۃٓ استعمال کیا ہے۔ یہاں پر بات ہورہی ہے اساتذہ کے کلام کی۔ ایک محفلین نے داد دینے کی اجازت مانگی، جس پر کہا گیا کہ سورج کو کیا چراغ دِکھانا۔ میر ، درد اور ولی دکنی ، یہ سب اردو ادب کے مستند اساتذہ مانے جاتے ہیں جن کا کلام خیال آفرینی، الفاظ کے چناؤ، محاورات کی ندرت اور صنعتوں کے خوبصورت استعمال سے مالامال ہے۔وللہ اعلم
 
آخری تدوین:
مگر مذکورہ غزل میر کی تو ہے ہی نہیں 'اس غزل کے شاعر تو ولی دکنی ہیں -
بے شک یہ غزل ولی دکنی کی ہے۔ہمارے خیال میں استادِ محترم نے میر کا نام کنایۃٓ استعمال کیا ہے۔ یہاں پر بات ہورہی ہے اساتذہ کے کلام کی۔ ایک محفلین نے داد دینے کی اجازت مانگی، جس پر کہا گیا کہ سورج کو کیا چراغ دِکھانا۔ میر ، درد اور ولی دکنی ، یہ سب اردو ادب کے مستند اساتذہ مانے جاتے ہیں جن کا کلام خیال آفرینی، الفاظ کے چناؤ، محاورات کی ندرت اور صنعتوں کے خوبصورت استعمال سے مالامال ہے۔وللہ اعلم


اچھا نوٹ کیا ہے، وہ بات پتہ نہیں کیسے میر کی طرف مڑ گئی۔ اور پھر میر ہی بحث کا موضوع بن گئے۔
کنایہ نہیں صاحب، بھول ہوئی ہے۔ توجہ دلانے پر ممنون ہوں، تاہم ان پوسٹوں کو جوں کا توں رہنے دیتے ہیں کہ موضوعِ سخن میر تھا، سو وہی رہے۔
 
ولی کا اپنا انداز ہے جس میں دکنی زبان کی خاص چاشنی موجود ہے، جو ان کے کلام کی چغلی کھاتی ہے۔ ان کے کلام پر ایک دن برادرِ خرد محمد حفیظ الرحمٰن سے بات ہورہی تھی، انہوں نے ایک خوبصورت بات کہی جو یہاں شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ کہا کہ جس زمانے میں ولی اپنی دکنی اردو میں شاعری فرمارہے تھے ، اسی زمانے میں سراج اورنگ آبادی کس قدر خوبصورت اردو کہہ رہے تھے۔

 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
بے شک یہ غزل ولی دکنی کی ہے۔ہمارے خیال میں استادِ محترم نے میر کا نام کنایۃٓ استعمال کیا ہے۔ یہاں پر بات ہورہی ہے اساتذہ کے کلام کی۔ ایک محفلین نے داد دینے کی اجازت مانگی، جس پر کہا گیا کہ سورج کو کیا چراغ دِکھانا۔ میر ، درد اور ولی دکنی ، یہ سب اردو ادب کے مستند اساتذہ مانے جاتے ہیں جن کا کلام خیال آفرینی، الفاظ کے چناؤ، محاورات کی ندرت اور صنعتوں کے خوبصورت استعمال سے مالامال ہے۔وللہ اعلم

میرا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ استاد محترم نے یہ فروگزاشت جان بوجھ کے اختیار کی ہے تاکہ معلوم ہوسکے لوگ متوجہ بھی ہیں کہ نہیں -کیونکہ شرح کرتے ہوئے تو مقطع بھی سامنے آتا ہے 'جس میں "ولی" تخلص بھی موجود ہوتا ہے -
 

نایاب

لائبریرین
آپ کی اعلیٰ ظرفی ہے جنابِ نایاب!
استاد محترم دلی معذرت بلاشبہ آپ کی اس بھول میں میرا ہی ہاتھ ہے ۔۔
آپ کی جانب سے " جناب میر " کو داد پڑھ کر بنا یہ دیکھے کہ کس کی غزل ہے ۔ جناب میر کا ذکر چھیڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔
بہت معذرت
 
میرا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ استاد محترم نے یہ فروگزاشت جان بوجھ کے اختیار کی ہے تاکہ معلوم ہوسکے لوگ متوجہ بھی ہیں کہ نہیں -کیونکہ شرح کرتے ہوئے تو مقطع بھی سامنے آتا ہے 'جس میں "ولی" تخلص بھی موجود ہوتا ہے -

نہیں شاہ جی! یہ ارادی عمل قطعاً نہیں تھا۔ میں اپنی کوتاہی تسلیم کر چکا ہوں۔ کسی کو امتحان میں ڈالنا میرے نزدیک اپنے آپ کو امتحان میں ڈالنا ہے۔خیر، چھوڑئیے! اس امتحان میں ڈالنے پر ایک پرانا شعر یاد آ گیا۔

مرے کہے پہ کہ بہتر ہے آزما لینا
مجھی کو اُس نے کڑے امتحاں میں ڈال دیا
۔۔۔
 
10620679_603842163092579_5949215066880520213_n.jpg
 
Top