کیا کسی مسلم یا غیر مسلم کو کافر کہا جا سکتا ہے

امن وسیم

محفلین
تحریر : رضوان ٱللَّه

یہ مضمون ماہنامہ اشراق میں چار قسطوں میں شائع ہوا۔ جسے کچھ رد و بدل کے ساتھ یہاں ارسال کیا جائے گا۔
 

امن وسیم

محفلین
تکفیر

ہر مذہب اور اس کے ماننے والوں کے ہاں کچھ مخصوص اصطلاحات ہوتی ہیں۔ دین اسلام میں اسی طرح کی ایک اصطلاح *تکفیر* ہے جو مسلمانوں کے علم میں شروع دورسے رائج رہی ہے۔

اس کامطلب یہ ہے کہ کوئی شخص جو اصلاً مسلمان نہیں ہے، یا کسی وجہ سے اب مسلمان نہیں رہا، اُسے باقاعدہ طور پر کافر قرار دے دیا جائے۔

کسی کو کافر قرار دینے کا یہ کام چونکہ اپنی ذات میں نہایت پیچیدہ اور بہت سے مضمرات لیے ہوئے ہے ، اس لیے احتیاط پسند طبیعتیں بالعموم اس سے احتراز ہی کرتی رہی ہیں۔ تاہم یہ بھی واقعہ ہے کہ علما کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف یہ کہ اسے روا رکھا ، بلکہ اپنے ایمان و اسلام کا ایک ناگزیر تقاضا بھی سمجھا ہے۔ ان میں سے بعض کے ہاں یہ عافیت ضرور رہی کہ انھوں نے مسلمانوں کی تکفیر کو نامناسب اور ناجائز خیال کیا، مگر ان کی غالب اکثریت نے عقیدے سے انحراف اور ضروریات دین سے انکار کرنے پر اُنھیں بھی کافر قرار دے دینا جائز اور بے حد ضروری جانا۔ بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ ابتدائی دور میں وہ حضرات بھی ہوئے کہ جنھوں نے اس کی لَے اس حد تک بڑھا دی کہ وہ محض کبیرہ گناہوں کے ارتکاب پر اس کا اطلاق کر دیا کرتے اور پھر یہاں تک چلے جاتے کہ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما جیسے بزرگ صحابہ کو بھی کافر قرار دینے میں لمحہ بھر کی دیر نہ کرتے۔

تکفیر کے متعلق ان معروف آرا کے مقابلے میں ایک راے اور بھی ہے۔ یہ راے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کے مطابق کسی مسلمان کو کافر قرار دینا تو بہت دور کی بات ، کسی غیر مسلم کو کافر قرار دینا بھی جائز نہیں ہے ۔ مزید یہ کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے ، اُسے غیر مسلم قرار دینے کا حق بھی اب کسی فرد یا گروہ، حتیٰ کہ کسی ریاست کو بھی حاصل نہیں ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں، جب کہ مسلم دنیا میں انتشار اور باہمی جنگ و جدل اپنے عروج پر ہے اور اس سارے عمل میں تکفیر کا مسئلہ کلیدی حیثیت اختیار کر چکا ہے، ضرورت ہے کہ اس راے کا بھی قدرے سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے۔ ایسا ہوا بھی اور ایک سے زائد علماے کرام نے اس پر گراں قدر تنقیدات لکھیں اور اپنے موقف کو بہ حسن و خوبی بیان کیا۔ یہ بات تو سب پر واضح ہے کہ دینی معاملات میں اصل معیار کسی راے کا قدیم یا جدید ہونا نہیں، بلکہ اُس کا صحیح اور غلط ہونا ہی ہے ۔
اس بات پر کم و بیش سب علما کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اتمام حجت کے بعد حق بات کا انکار کر دے تو اسے کافر قرار دیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ یہ اتمام حجت اور اس کے بعد کفر، اصل میں یہی تکفیر کے دو بنیادی شرائط ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرائط میں اس قدر اتفاق کے باوجود، اطلاق میں یہ جوہری فرق کیوں واقع ہو گیا ہے کہ کچھ علما تکفیر کے قائل اور کسی حد تک اس کے متمنی اور ان کے مقابلے میں کچھ علما اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ضروری ہے کہ اس بحث کو چند عنوانات کے تحت ذرا تفصیل سے دیکھ لیا جائے۔

باب 1 : اتمام حجت
باب 2 : کفر کا مفہوم
باب 3 : تکفیر کے نتائج
باب 4 : تکفیر کا جواز
باب 5 : تکفیر کی ضرورت
باب 6 : مسلم اور غیر مسلم
 

امن وسیم

محفلین
باب 1 : اِتمام حجت

علماے قدیم ہوں یا جدید، یہ بات تقریباً سب کے ہاں طے شدہ ہے کہ کسی شخص کی تکفیر کے لیے پہلے اُس پر اتمام حجت کا ہو جانا ضروری ہے۔ لیکن یہ اتمام حجت ہے کیا اور یہ کس طرح سے واقع ہوتا ہے، اس امر میں ان کے درمیان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ علما کی عام طور پر راے یہ ہے کہ مخاطب تک دین کی بات کا اِبلاغ کر دیا جائے تو اصل میں یہی اتمام حجت ہے۔ اب وہ مخاطب اُس بات کا انکار کر دے تو اُس کے اِس ظاہری انکار کی بنیاد پر بلا تردد اُس کی تکفیر کی جا سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک اتمام حجت صرف ابلاغ کا نام نہیں ہے۔ ہماری راے میں اول تو یہی ضروری ہے کہ مخاطب تک دین کی بات کا اِبلاغ مکمل طور پر ہو چکا ہو، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُس پر اس بات کی وضاحت بھی پوری طرح سے ہو چکی ہو۔ نیز، یہ وضاحت اس قدر ہو که خدا کے سامنے پیش کرنے کے لیے اب اُس کے پاس کوئی عذر نہ رہ گیا ہو۔ یہ ابلاغ اور وضاحت اپنی ذات میں کیا ہیں، اور یہ دونوں اتمام حجت کے لیے لازم کیوں ہیں، مزید یہ کہ یہ اتمام حجت کا ذریعہ کس طرح سے بنتے ہیں، ان تمام باتوں کی تفصیل ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:

الف۔ ابلاغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ب۔ وضاحت
۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

الف۔ اِبلاغ

اس سے مراد حق بات کا پہنچ جانا ہے۔ خدا کے ہاں اس چیز کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ حق بات لوگوں تک مکمل طور پر پہنچ چکی ہو۔ اس لیے کہ دین کے سارے تقاضے اُسی صورت میں جائز قرار پاتے ہیں کہ جب ان کے بارے میں پہلے سے آگاہ کر دیا گیا ہو۔ کسی بے خبر آدمی سے یہ تقاضا کرنا که وہ انھیں اپنے علم اور عمل میں لازماً اختیار کرے، نہایت ہی نامعقول اور ناروا بات ہے ۔ چنانچہ خداے برحق نے سب لوگوں تک حق بات کو پہنچانے کا پورا پورا انتظام کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دنیا میں اپنے پیغمبروں کو بھیجتا ہے تو ابلاغ کے اس کام کو اُن کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ یہ لوگ اسے ادا کرتے ہیں یا نہیں، یہ جاننے کے لیے وہ اُن کے آگے اور پیچھے پہرے لگا دیتا ہے۔ ۱؂ بلکہ اگر کوئی پیغمبر، بہ فرض محال، اس کام کو بھرپور طریقے سے انجام نہیں دیتا تو وہ اُس کے نزدیک گویا اپنے منصب کا حق ہی ادا نہیں کرتا۔۲؂ غرض یہ کہ ہدایت کے ابلاغ کی یہی اہمیت ہے کہ پروردگار کی طرف سے اس کے لیے بنیادی طور پر دو طرح کے انتظامات کیے گئے ہیں:

ایک : داخلی انتظام
دو : خارجی انتظام


۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

ایک : داخلی انتظام

یہ انسان کے باطن میں کیا گیا ہدایت کا انتظام ہے۔ یعنی، دین کے بارے میں کچھ بنیادی حقیقتیں اس کی فطرت ہی میں ودیعت کر دی گئی ہیں ۔ مثال کے طور پر:

خدا کی ربوبیت کا علم شروع دن سے اس کی فطرت کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس لیے کہ دین کی پوری عمارت خدا ہی کے وجود پر قائم ہوتی اور اُس کا انکار درحقیقت دین کے بنیادی مقدمے کا انکار ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ عالم ارواح میں تمام بنی آدم سے اس علم کا باقاعدہ اقرار بھی لیا گیا :

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ م بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلآی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا.(الاعراف۷: ۱۷۲)
’’یاد کرو ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ اُس نے پوچھا تھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، (آپ ہی ہمارے رب ہیں)، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔‘‘

اسے نیکی اور بدی میں امتیاز کرنے کی فطرت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا۔ نیکی کے لیے محبت اور اس کی طرف میلان اور بدی سے نفرت اور اس سے گریز کی صالح فطرت بھی اسے دے دی گئی ۔ مقصد یہ تھا که اسے اخلاقیات کے معاملے میں ایک واضح ہدایت میسر آ سکے:

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا، فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا.(الشمس۹۱: ۷۔ ۸)
’’اور گواہی دیتا ہے نفس اور جیسا اُسے سنوارا، پھر اُس کی بدی اور نیکی اُسے سجھا دی۔‘‘

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۱؂ الجن ۷۲: ۲۸۔ ’’ وہ اُن کے آگے اور پیچھے پہرا لگا دیتا ہے تاکہ معلوم رہے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں، اور وہ اُن کے ماحول کو گھیر ے میں اور اُن کی ہر چیز کو گنتی میں رکھتا ہے‘‘۔
۲؂ المائدہ ۵: ۶۷۔’’اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ انھیں پہنچا دو اور (یاد رکھو کہ) اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کا پیغام نہیں پہنچایا‘‘۔
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
باب 1 : اِتمام حجت

دو : خارجی انتظام

جس طرح انسان کے باطن میں کچھ ہدایات رکھ دی گئیں، اسی طرح اس کے خارج میں بھی اس کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔ مثال کے طور پر:

حضرت آدم علیہ السلام کو یہ شرف عطا ہوا کہ اُنھوں نے براہ راست خدا کی بات سنی اور اس طرح خدا کے ہونے کا یہ خارجی علم اس پہلے انسان کو ابتدا ہی میں حاصل ہو گیا۔ بعدازاں یہ اُن کی اولاد میں بھی متوارث ہوتا چلا گیا اور ان سب کی ہدایت کا ایک عظیم ذریعہ بن گیا:

قَالَ یٰٓاٰدَمُ اَنْبِئۡھُمْ م بِاَسْمَآءِ ھِمْ.(البقرہ۲: ۳۳)
’’ اللہ نے فرمایا: آدم اِن ہستیوں کے نام اِن فرشتوں کو بتاؤ۔‘‘

پروردگار نے بہت ساری نشانیاں کائنات میں رکھ چھوڑیں ۔ یہ اپنے وجود سے اگر اپنے خالق کا تقاضا کرتی ہیں تو ان میں جھلکتی ہوئی اُس کی بے پناہ ربوبیت اور قدرت، یوم حساب کی ایک واضح دلیل ٹھیرتی ہیں:

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۶۴)
’’اس میں شبہ نہیں کہ آسمان اور زمین کے بنانے میں، اور شب و روز کے بدل کر آنے میں ، اور لوگوں کے لیے دریا میں نفع کی چیزیں لے کر چلتی ہوئی کشتیوں میں، اور اس پانی میں جس کو الله نے آسمان سے اتارا ہے، پھر اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کیا ہے اور اس میں ہر قسم کے جان دار پھیلائے ہیں — اور ہواؤں کے پھیرنے میں، اور آسمان و زمین کے درمیان حکم کے تابع بادلوں میں ، بہت سی نشانیاں ہیں ان کے لیے جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘

اُس نے مختلف زمانوں میں بہت سے انبیا کو مبعوث کیا جو اپنی ذات میں سراج منیر، یعنی ہدایت کے روشن مینار ہوئے۔ انھوں نے اُس کی دی ہوئی سند کے ساتھ لوگوں کو ہدایت دی اور فطرت اور آفاق میں موجود حقائق کی بے مثل تذکیر کی اور ان کی تفصیلات کو اس قدر کھول کر بیان کیا که اس سے زیادہ وضاحت کا تصور کرنا بھی محال ہے:

وَجَعَلْنٰھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا.(الانبیاء ۲۱: ۷۳)
’’اور ہم نے اُن کو امامت عطا فرمائی کہ ہماری ہدایت کے مطابق (دنیا والوں کی) رہنمائی کرتے تھے۔‘‘

اس کے ساتھ بہت سے نبیوں کو رسول بنا کر بھی بھیجا جنھوں نے دوسرے انبیا کی طرح آخرت کے بارے میں انذار کیا اور اچھے انجام کی خوش خبری سنائی۔ ان کے مقابلے میں جب انکار اور تکذیب کی روش اپنائی گئی تو مزید یہ ہوا کہ پروردگار عالم کی عدالت پوری شان سے اس زمین پر برپا ہو گئی اور یوں رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے آسمانی عدالت کی ایک محسوس دلیل قرارپائی:

وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ.(یونس۱۰: ۴۷)
’’ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آ جاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘

ان نبیوں اور رسولوں کے ساتھ خدا نے بہت سی کتابیں اور صحیفے بھی اُتارے۔ یہ حق و باطل کا معیار قرار پائے اور ان کے ہوتے ہوئے اس معاملے میں ہدایت کے کسی اور انتظام کی ضرورت نہ رہ گئی:

وَ اَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ.(البقرہ ۲: ۲۱۳)
’’اور اللہ نے ان نبیوں کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے‘‘

خلاصہ بحث

پروردگار کی طرف سے کیے گئے یہ ہدایت کے داخلی اور خارجی انتظامات ہیں۔ یہاں ایک بات واضح رہنی چاہیے کہ جس سے ناواقفیت اس باب میں اکثر لوگوں کے ہاں علمی مغالطوں کا سبب بن جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اس ہدایت کا انسان کے اندر اور اُس کے گرد و پیش میں موجود ہونا، یہ ابلاغ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ سب انتظامات اپنی اصل میں ہدایت کے محض ذرائع ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر، اس ہدایت کا کانوں میں پڑ جانا یا اس کے آثار کا نگاہوں کے سامنے آ جانا، یہ بھی ابلاغ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ سماعت و بصارت بھی اسے دل و دماغ تک پہنچانے کے بس ذریعے ہی ہیں۔ ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ کسی شخص کے داخل میں دوسرے انسانوں کی طرح فطری ہدایت موجود ہوتی ہے اور وہ خارج سے اس کی بصارت اور اس کی سماعتوں سے بھی ٹکرا رہی ہوتی ہے، مگر وہ اس کے علم اور شعور تک بالکل نہیں پہنچ پاتی، اس لیے کہ وہ مثال کے طور پر، مجنون اور دیوانہ ہوتا ہے۔ یا دوسری صورت میں وہ دانا اور بینا تو ہوتا ہے اور اُس کے خارج میں خدا کی اتاری ہوئی کتابیں اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر بھی موجود ہوتے ہیں ، مگر کسی قدرتی اور واقعی حجاب کی وجہ سے اُس تک ان چیزوں کا اِبلاغ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم اس کے بارے میں بھی یہ کہہ سکیں کہ وہ ان باتوں کو ’’جانتا‘‘ ہے۔
( ایسا ہو جانا، اس دنیا میں معمول کی بات ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین پر عذاب کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا تو اس مرحلے پر بھی فرمایا گیا کہ ان میں سے جو کوئی پناہ کا طالب ہو، اُسے پناہ دے کر الله کی بات سنائی جائے، اس لیے کہ یہ اُس قوم کے افراد ہیں جو دین اور نبوت سے زیادہ واقف نہیں )(التوبہ۹: ۶)۔
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
باب 1 : اِتمام حجت

ب۔ وضاحت

اس سے مراد حق بات کا واضح ہو جانا ہے۔ وضاحت کا یہ عمل، اتمام حجت کا دوسرا لازمی جز ہے۔ کسی شخص پر اتمام حجت کے لیے ضروری ہے کہ اُس تک حق بات کا نہ صرف یہ کہ ابلاغ ہو چکا ہو، بلکہ وہ آخری درجے میں اس پر واضح بھی ہو چکی ہو۔ یہ وضوح دو چیزوں میں ہوتا ہے :

ایک اُس بات کے مطلب اور مفہوم میں اور
دوسرے اس کے حق اور سچ ہونے میں۔

اگر وہ شخص اُس بات کو ابھی تک سمجھا ہی نہیں یا وہ بات حق ہے اور اس کے مقابلے میں باقی سب کچھ باطل، یہ بات نہیں سمجھ سکا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس پر وضوح کا ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ انسان دنیا میں ہونے والے امتحان میں اپنے علم اور سمجھ کی بنیاد پر مسؤل ٹھیرایا گیا ہے۔ چنانچہ جب تک وہ کسی چیز کو اچھی طرح سے سمجھ نہ لے، اس سے کوئی باز پرس ہرگز نہیں ہونی چاہیے ۔ خدا کی صفت عدل بھی اس طرح کے ظلم سے شدید اِبا کرتی ہے کہ وہ کسی شخص کو علم دیے بغیر اُس کا مواخذہ کرے یا وہ بات کو ابھی سمجھ نہ پایا ہو اور وہ پھر بھی اُس کو سزا دے ڈالے۔ اتمام حجت کے ذیل میں اس کی یہی حیثیت ہے کہ خدا نے اس کا بہت زیادہ اہتمام کیا ہے۔ مثال کے طور پر:

وہ اپنے پیغمبروں کو جس طرح ہدایت پہنچانے کا ذمہ دار ٹھیراتا ہے ، اسی طرح ان سے یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ وہ اس کے متعلق ہر چیز لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان کر دیں. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ.(النحل۱۶: ۴۴)
’’اور یہ یاددہانی ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، اس لیے کہ تم اِن لوگوں کے لیے اُس چیز کو کھول کر بیان کر دو جو اِن کی طرف نازل کی گئی ہے ۔‘‘

دعوت کے دوران میں لوگ سوال اٹھاتے ہیں تو پروردگار عالم خود ان کے جوابات دیتا ہے اور ہر طرح کے دلائل سے اپنی بات کو واضح کرتا ہے:

کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۸۷)

’’اللہ اسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں ۔‘‘

اس کی طرف سے نازل ہونے والی کتابیں بھی اسی تبیین و وضاحت کی حامل ہوتی ہیں ۔چنانچہ آخری کتاب کا تعارف اس نے کئی جگہ کتاب مبین کے الفاظ سے کرایا بھی ہے:

الٓرٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ.(یوسف۱۲: ۱)
’’یہ سورہ ’اآر‘ ہے۔ یہ اُس کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنا مدعا پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔‘‘

یہاں تک کہ وہ اسی مقصد کے پیش نظر کسی دوسری زبان میں نہیں ، بلکہ لوگوں پر اُنھی کی زبان میں اپنا کلام نازل کرتا ہے :

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ.(ابراہیم۱۴: ۴)
’’ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اُس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے، اس لیے کہ وہ اُنھیں اچھی طرح کھول کر سمجھا دے۔‘‘

بلکہ وہ ہدایت کا اِبلاغ ہو جانے کے فوری بعد اگر لوگوں کی پکڑ نہیں کرتا اور انھیں ایک خاص مدت تک کے لیے مہلت دیتا ہے تو اس کی ایک وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ اسے اچھی طرح سے سمجھ لیں ۔ یہ مہلت حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو تقریباً ساڑھے نو سو سال تک دی گئی:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا.(العنکبوت۲۹: ۱۴)
’’ہم نے نوح کو اُس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا تو وہ پچاس کم ایک ہزار سال اُن لوگوں میں رہا۔‘‘

یہ سب ہدایت کی وضاحت کے لیے کیا گیا اہتمام ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسان کو کچھ مخصوص صلاحیتوں ، یعنی سماعت و بصارت اور عقل و فکر سے بھی نوازا گیا ہے۔۴؂ ان صلاحیتوں کا فقدان یا ان میں کوئی واقعی نقص نہ پایا جاتا ہو اور آدمی نفسانی عوارض سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے تو دین کی ہدایت جو اپنی حقیقت اور اپنے بیان میں انتہا درجے کی سادگی لیے ہوئے ہے، اس کے سامنے بالکل واضح ہو جاتی ہے ۔ البتہ ، یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہر ایک کے لیے ہدایت کے مواقع اور اسے اخذ کرنے والی صلاحیتیں چونکہ ایک جیسی نہیں ہوتیں ، اس لیے وضاحت کا یہ عمل بھی ہر کسی کے لیے ایک جیسا نہیں ہوتا۔

خلاصۂ بحث

علما ے کرام جن جن دلائل کی بنیاد پر ابلاغ کو لازم قرار دیتے ہیں ، کم و بیش وہی دلائل اتمام حجت کے دوسرے جز، یعنی ، وضاحت کے حق میں بھی موجود ہیں۔ اگر ابلاغ کا ہونا عقل و فطرت کا تقاضا ہے اور اس دنیا میں برپا ہمارے امتحان کا ایک لازمہ ہے تو اس کی وضاحت بھی انھی اصولوں پر واجب ٹھیرتی ہے ۔ ابلاغ کے لیے خدا نے بہت سے انتظامات کیے ہیں تو اس کی وضاحت کے لیے بھی کچھ کم انتظام نہیں کیا اور ان دونوں کے بارے میں یہ خصوصی اہتمام خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں ہی اصل میں مقصود ہیں کہ یہ سب اُس ذات کی طرف سے ہوا ہے جو کسی بھی طرح کی بے مقصدیت سے بالکل پاک ہے۔ سو کوئی وجہ نہیں ہے کہ تکفیر کے عمل میں ابلاغ اور وضاحت میں سے ایک کو شرط کے طور پر قبول کیا جائے اور دوسرے کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۴؂ ان صلاحیتوں کا یہ واجبی حق بھی ہے کہ ہدایت کو پانے کے لیے انھیں لازماً استعمال میں لایا جائے کہ ایسا نہ کرنا حقیقت میں ان کی ناقدری کرنا ہے (المومنون ۲۳: ۷۸)۔
بلکہ یہی وہ صلاحیتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان جانوروں سے الگ ایک نوع قرار پاتا اور اگر اِن سے فائدہ نہ اٹھائے تو اُنھی کا ایک فرد ہو کر رہ جاتا ہے (الانفال ۸: ۲۲)۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 2 : کفر کا مفہوم

’کفر‘ عربی زبان کا ایک لفظ ہے اور کئی مفاہیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ علما کے ہاں تکفیر کی بحث میں عام طور پر اس کے ایک سے زائد مفاہیم کا لحاظ رکھا جاتا اور ان تمام معنوں میں اس کا ارتکاب کرنے والوں کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان کے مقابلے میں ہم اس کے ایک خاص معنی کو سامنے رکھتے ہیں۔ وہ یہ کہ کوئی شخص اِتمام حجت کے بعد حق بات کا انکار کر دے ۔ یعنی، بات اُس تک پہنچ جائے اور آخری درجے میں اُس پر واضح بھی ہو جائے اور وہ پھر بھی اسے مان لینے سے انکاری رہے۔ ہمارے نزدیک یہ اِنکار ہی اصل میں وہ کفر ہے کہ جس کی بنیاد پر کوئی شخص کافر قرار پاتا ہے ۔ نیز، یہ شرط بھی لازمی ہے کہ اس انکار کے پیچھے ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہ ہو، اس لیے کہ کسی معقول عذر کی بنیاد پر کیا جانے والا انکار اگرچہ صریح ہو، پھر بھی ’کفر‘ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اتمام حجت کے بعد محض انکار نہیں، اِس طرح کا انکار ہے جو تکفیر کی دوسری لازمی شرط قرار پاتا ہے۔ اِس بات کی وضاحت ہم دو عنوانات کے تحت دیکھ سکتے ہیں:

الف۔ کفر کا مطلب ۔۔۔۔۔ ب۔ عذر
۔➖➖➖➖➖➖➖➖➖.

الف۔ کفر کا مطلب


’کفر‘ کا اصل مطلب چھپانا ہے۔ یہیں سے اس کے اندر کسی چیز کی ناشکری اور اُس کے انکار کا معنی پیدا ہوا۔ جب یہ ایمان کے مقابلے میں آئے تو اس کا مطلب نہ ماننا اور انکار کر دینا ہوتا ہے۔ سردست ہماری ساری بحث ’کفر‘ کے اس دوسرے معنی تک محدود ہے۔ اس معنی میں اسے قرآن نے بہت سارے مقامات پر استعمال کیا ہے۔

مثالیں

اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ.(ابراہیم۱۴: ۲۲)
’’تم نے جو مجھے شریک ٹھیرایا تھا، میں نے اُس کا پہلے ہی انکار کر دیا ہے۔‘‘ (میں اس بات کو ماننے سے انکار کرتا ہوں)

لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ.(المائدہ۵: ۷۲)
’’اُن لوگوں نے بھی یقیناً کفر کیا ہے جنھوں نے کہا کہ خدا تو یہی مسیح ابن مریم ہے‘‘ ( انھوں نے یہ شرک کر کے ایک مذہبی حقیقت کو ماننے سے انکار کر دیا ہے)

کَیْفَ یَھْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ وَشَھِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآءَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ.(آل عمران۳: ۸۶)
’’اللہ اُن لوگوں کو ہدایت کس طرح دے گا جو ماننے کے بعد منکر ہو گئے، دراں حالیکہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ رسول سچے ہیں اور (ان کی سچائی پر گواہی کے لیے) اُن کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں بھی آ چکی ہیں۔‘‘ ( اُنھوں نے دل سے مان کر پھر جانتے بوجھتے ہوئے انکار کر دیا )


لفظِ ’کفر‘ کے ان تینوں استعمالات کو جان لینے کے بعد بہ خوبی واضح ہو جاتا ہے کہ پہلے دو معنوں میں کسی شخص کو کافر کہہ دینا، اصل میں اس لفظ کا فقط لغوی استعمال ہے۔ اس طرح کے استعمال کو یہ کہتے ہوئے جائز قرار دیا جاتا ہے کہ ہم کسی فعل کو ادا کرنے والے شخص کو عام بول چال میں اُس کا فاعل ہی کہتے ہیں، جیسے مارنے والے کو ’ضَرَبَ‘ کی مناسبت سے ’ضَارِب‘ کہہ دیا جائے۔ لیکن اس معاملے میں واضح رہے کہ یہاں فاعل کے اصول پر کسی کو کافر کہہ دینا ہرگز جائز نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی لفظ باقاعدہ اصطلاح بن جائے تو اُسے بغیر کسی قرینے ۶؂ کے اُس کے اصطلاحی مفہوم سے ہٹ کر دوسرے مفاہیم میں استعمال کرنا اب ممکن نہیں رہتا۔

مثال کے طور پر، ہم ’مسلم‘ کی اصطلاح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے لیے بولتے ہیں۔ اسے اِطاعت گزار یا کسی بھی دینی حقیقت کا اقرار کرنے والوں کے لیے اب ہرگز نہیں بولا جا سکتا، الاّ یہ کہ کسی قرینے سے اس کی وضاحت کر دی جائے۔ اسی طرح کا معاملہ لفظ ’بدعت‘ کا بھی ہے ۔ اصطلاح بن جانے کے بعد اب ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح کے نت نئے کام کرتا ہو، اُسے بھی محض فاعل کے قیاسی اصول پر ہم بدعتی نہیں کہہ سکتے۔ تاہم، اس کے باوجود اگر کوئی شخص اول الذکر دو معنوں میں اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے کافر ہی کے لفظ پر اصرار کرے تو یہ اپنے منہ سے بس ایک بات کہہ دینا ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

البتہ، جب تیسرے معنی میں کسی کو کافر کہا جاتا ہے تو اس کے بارے میں
اول تو یہ بات واضح رہے کہ اصل میں یہی تکفیر ہے جو اپنے ساتھ بہت سے مقدمات اور نتائج لیے ہوئے ہے ، اور اسی کے جواز میں ہم دیگر علماے کرام سے اختلاف کرتے ہیں۔
دوم یہ کہ قرآن جب کسی شخص کی تکفیر کرتا ہے تو وہ لفظِ ’کفر‘ کو اسی تیسرے معنی میں استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ ذیل کی یہ آیت ان دونوں باتوں کی صریح دلیل ہے:

فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ.(البقرہ ۲: ۸۹)
’’پھر جب وہ چیز ان کے پاس آئی جسے خوب پہچانے ہوئے تھے تو یہ اُس کے منکر ہو گئے۔ سو اللہ کی لعنت ہے اِن کافروں پر۔‘‘

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۶؂ جیسا که اس آیت میں ’کافر‘ چونکہ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے، اس لیے ’ ملاقات ‘ کا قرینہ بھی اس کے ساتھ لایا گیا ہے: ’وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّہِمْ لَکٰفِرُوْنَ‘، ’’بے شک ، لوگوں میں بہت سے ہیں جو اپنے پروردگار سے ملاقات کے منکر ہیں‘‘ (الروم ۳۰: ۸)۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 2 : کفر کا مفہوم

ب۔ عذر

یہ علم و عقل اور اخلاق سے متعلق ہر نظام میں بنیادی مسلمات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نہ تو کسی قادرِ مطلق ہستی کا نام ہے اور نہ ہر وقت اُس کی طبیعت اور حالات ہی ایک جیسے ہوتے ہیں کہ تعمیل حکم میں اُس کے سارے افراد سے ایک جیسا تقاضا کیا جائے۔ دینِ اسلام کی بھی ہر بات میں ، وہ عقیدے کی ہو یا عمل کی، ان اعذار کو مرکزی حیثیت دی جاتی ہے۔۷؂ اگر کوئی شخص حقیقی اور اصطلاحی معنی میں کفر کرے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اُس کی تکفیر ضرور ہی کر دی جائے ۔ اس لیے کہ اس بات کا امکان کبھی رد نہیں کیا جا سکتا که وہ اس کفر میں اپنے پاس کوئی عذر رکھتا ہو۔ یہ اعذار بہت سے ہو سکتے ہیں اور حق بات کو سمجھنے ، اُس کا اقرار یا اُس پرعمل کرنے کے دوران میں کسی بھی وقت لاحق ہو سکتے ہیں، ہم ان میں سے تین کو ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں:

⏪ایک۔ عدم استطاعت
⏪دو۔ خطا
⏪تین۔ جبر و اکراہ

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

ایک۔ عدم استطاعت

ہر بات مخاطب کی استطاعت کے مطابق اُس پر لازم کی جاتی ہے، اس لیے کہ یہی عدل اور یہی انصاف ہے۔ کسی لنگڑے شخص سے بھاگنے اور کسی اندھے شخص سے دیکھنے کا مطالبہ کرنا، تکلیف مالایطاق ہے جو صریح طور پر ناروا اور ایک نا جائز امر ہے۔ دین کی بھی ہر بات میں مخاطب کی استطاعت کی رعایت ہوتی ہے۔ جس شخص میں یہ استطاعت موجود نہ ہو، وہ کسی بات کا مکلف ہی نہیں رہتا که خدا اس بارے میں اُس سے کوئی جواب دہی کرے۔ ارشاد ہوا ہے:
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا.(البقرہ ۲: ۲۸۶)
’’اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘


دو۔ خطا

غلطیوں سے درگذر کرنا عین رحمت ہے۔ والدین بچے کی غلطیوں سے اعراض کرتے ہیں جو اُن کی محبت اور شفقت کی دلیل ہوتا ہے۔ خدا بھی بڑا مہربان ہے اور اُس کی رحمت اُس کے غضب سے آگے بڑھ گئی ہے۔ وہ اپنے بندوں کی غلطیوں پر کبھی اُن کا مواخذہ نہیں کرتا۔ اُس کے ہاں بس وہی گناہ قابل گرفت ہیں جو غلطی اور اتفاق سے نہیں، دل کے ارادے کے نتیجے میں واقع ہوں۔ فرمایا ہے:
وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.(الاحزاب۳۳: ۵)
’’تم سے جو غلطی اِس معاملے میں ہوئی ہے، اُس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، (اُس پر ضرور گرفت ہے)۔ اور اللہ بخشنے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘


تین۔ جبر و اکراہ

کسی شخص کو اُس کام پر جواب دہ ٹھیرانا جو اس نے کسی جبر اور اِکراہ کے تحت کیا ہو، صریح ظلم اور حد درجے کی زیادتی ہے۔ اللہ کی ذات اس طرح کے ہرظلم سے پاک ہے۔ ٱللَّه کے ہاں پرسش اس عمل کی ہوتی ہے جو کسی مجبوری سے نہیں، بلکہ آزادانہ مرضی سے کیا گیا ہو۔ سو اس نے بتا دیا ہے کہ اگر دل میں ایمان موجود ہو اور کسی مجبوری کے باعث کفر کرنا پڑے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے:
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ م بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.(النحل۱۶: ۱۰۶)
’’جو اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کریں گے، اُنھیں اگر مجبور کیا گیا ہو اور اُن کا دل ایمان پر مطمئن ہو، (تب تو کچھ مواخذہ نہیں)، مگر جو کفر کے لیے سینہ کھول دیں گے، اُن پر اللہ کا غضب ہے اور انھیں بڑی سخت سزا ہو گی۔‘‘


خلاصۂ بحث

کفر اپنے ہر معنی میں تکفیر کا موجب نہیں ہے،
جیسا کہ علما کا عمومی رجحان ہے۔ کسی شخص کا اِتمام حجت کے بعد جانتے بوجھتے ہوئے دین کی بات کا انکار کر دینا، اصل میں یہی وہ کفر ہے جو تکفیر کی بحث سے متعلق ہے ۔ اس پر یہ شرط بھی عائد ہو گی کہ اس کفر کا ارتکاب کرنے والے کے پاس اس معاملے میں کوئی عذر بھی نہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ عین ممکن ہے کہ اُس شخص میں ہدایت کو اخذ کرنے والی صلاحیتیں بالکل معدوم ہوں یا اُن میں کوئی واقعی خلل پایا جاتا ہو یا اُس کے ماحول میں وہ تحریک ہی موجود نہ ہو که ہدایت اُس کے علم و شعور تک رسائی پا سکے ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دل و جان سے ہدایت کو پانے کی جستجو کرے، مگر اس میں کسی سنگین غلطی کا ارتکاب کرے، حتیٰ کہ صریح کفر کا اظہار اور اُس کا اقرار کر بیٹھے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حق بات کو جان تو لے، مگر کسی جبر کے مانع ہو جانے کی وجہ سے اُس کا انکار کر دے۔ اب ظاہر ہے کہ اس طرح کی تمام صورتوں میں وہ عدم استطاعت، خطا اور جبر و اکراہ کی وجہ سے جواب دہ ہی نہیں رہ جاتا، چہ جائیکہ کوئی اُس کی تکفیر کر دے ۔

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۷؂ ان اعذار کے بارے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ یہ کہیں باہر سے آ کر حکم میں شامل نہیں ہوتے، بلکہ ایک عقلی اقتضا کے طور پر اُس کی ابتدا ہی سے اس کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضروری نہیں ہوتا که انھیں ہر حکم کے ساتھ الگ سے بیان بھی کیا جائے۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 3 : تکفیر کے نتائج

کسی شخص کی تکفیر کر دینا، یہ محض اُسے برا بھلا کہہ دینا نہیں، بلکہ یہ اپنی ذات میں ایک نہایت پیچیدہ امر ہے۔ جس طرح تکفیر کے کچھ مقدمات ہیں، جیسا که تفصیل گزری، اسی طرح دنیا اور آخرت میں مرتب ہونے والے اس کے کچھ سنگین نتائج بھی ہیں۔ ان نتائج کو ماننا ہر اُس شخص کے لیے ضروری ہے جو تکفیر کا ارادہ کرے۔ *عام طور پر دوسروں کی تکفیر تو کر دی جاتی ہے، مگر اس کے تمام نتیجوں کو نہ خود قبول کیا جاتا ہے اور نہ بعض مصلحتوں کے پیش نظر دوسروں کے سامنے اُن کے واقع ہو جانے کا اظہار ہی کیا جاتا ہے* ۔ ذیل میں ہم تکفیر کے چار نتائج کا ذکر کر تے ہیں کہ جنھیں تسلیم کرنا، مکفرین کے لیے بہر صورت لازم ہے:

الف۔ لعنت ب۔ ختم قلوب
ج۔ ابدی جہنم د۔ دنیوی سزا

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

الف۔ لعنت

’لعنت‘ کا لفظ رحمت کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے۔ *جب کوئی شخص جان بوجھ کر حق بات کا انکار کر دے اور اس کے بعد توبہ و استغفار کرنے کے بجاے اس پر اصرار کیا کرے تو وہ الله کی رحمت سے بہت دور ہو جاتا ہے* ۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے کہ فرشتے اور سب انسان ، خدا کے اس فیصلے کی تائید میں اُس پر لعنت کی بد دعائیں کرتے ہیں۔ لہٰذا، *جو شخص دوسروں کی تکفیر کرتا ہے، اُسے یہ بات ضرور ماننی چاہیے کہ اب وہ اُن ’کافروں‘ کے لیے نہ کبھی ہدایت کی دعا کرے گا اور نہ کبھی خدا سے اُن کے لیے رحمت ہی طلب کرے گا* :

فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ.(البقرہ ۲: ۸۹)
’’پھر جب وہ چیز ان کے پاس آئی جسے خوب پہچانے ہوئے تھے تو یہ اُس کے منکر ہو گئے۔ سو اللہ کی لعنت ہے اِن کافروں پر۔‘‘


کَیْفَ یَھْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ وَشَھِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآءَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ. اُولٰٓءِکَ جَزَآؤُھُمْ اَنَّ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَالْمَآٰءِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ.(آل عمران۳: ۸۶۔۸۷)
’’اللہ اُن لوگوں کو ہدایت کس طرح دے گا جو ماننے کے بعد منکر ہو گئے، دراں حالیکہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ رسول سچے ہیں اور (ان کی سچائی پر گواہی کے لیے) اُن کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں بھی آ چکی ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ اِس طرح کے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہی ہیں کہ جن کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ اور اُس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔‘‘


ب۔ ختم قلوب

سمع و بصر کی صلاحیتیں اور ہمارے دلوں کی حیات، یہ سب خدا کی رحمت کے مرہون منت ہیں۔ جن لوگوں پر اُن کے مسلسل انکار کی وجہ سے اُس کی طرف سے لعنت کر دی جاتی ہے، اُن کی یہ صلاحیتیں کند اور اُن کے دل مکمل طور پر زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ ہدایت کے ان ذرائع کی یہ حالت ہو جاتی ہے گویا کسی نے اُنھیں مہر بند کر دیا ہو۔ کفر کے اس نتیجے کو اِصلاح میں ’ختم قلوب‘ کہتے ہیں۔۸؂ یہ صورت حال اس بات کا اعلان ہوتی ہے کہ اُنھیں لاکھ سمجھایا جائے، وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے اور لازم ہے کہ اُن کی موت اسی کفر کے اوپر واقع ہو۔ چنانچہ *جو شخص دوسروں کی تکفیر کرتا ہے، اُسے چاہیے کہ وہ اُن کی ہدایت کے اِمکان کو اب مکمل طور پر رد کرے اور دوسرے یہ کہ اُنھیں ہدایت کی امید میں کبھی دین کی دعوت نہ دے* کہ اُن کی موت لازماً کفر پر ہونے کی وجہ سے یہ ایک عبث کا کام ہو گا:

فَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا کَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِ الْکٰفِرِیْنَ.(الاعراف۷: ۱۰۱)
’’سو، ایسا نہیں ہوا که یہ ایمان لاتے ، اِس لیے کہ پہلے جھٹلاتے رہے تھے۔ اللہ کافروں کے دلوں پر اسی طرح مہر لگا دیتا ہے۔‘‘


اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ. خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ وَعَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ.(البقرہ ۲: ۶۔۷)
’’جن لوگوں نے کفر کا فیصلہ کر لیا ہے، اُن کے لیے برابر ہے، تم اُنھیں خبردار کرو یا نہ کرو، وہ نہ مانیں گے۔ اُن کے دلوں اور کانوں پر اب اللہ نے مہر لگا دی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ ہے۔‘‘

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۸؂ کسی پر ختم قلوب کر دیا جانا، یہ اُس پر ظلم نہیں ہے، اس لیے کہ جو لوگ اپنی صلاحیتوں کی ناقدری کریں اور جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پرقانع ہو جائیں، اُنھیں ان نعمتوں سے محروم کر دینا ہی قرین انصاف ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 3 : تکفیر کے نتائج

ج۔ ابدی جہنم

جو لوگ اللہ سے بے پروا ہوں یا اُس کے سامنے سرکشی اختیار کریں، اُنھیں وہ ابدی جہنم کی وعید سناتا ہے۔ جو شخص جانتے بوجھتے ہوئے کفر کرتا ہے ، وہ اصل میں بے پروائی اور سرکشی ہی کا جرم کرتا ہے، چنانچہ وہ آخرت میں ابدی جہنم کی سزا کا مستحق ٹھیرایا جاتا ہے جس میں کوئی کمی ہو گی اور نہ ذرا سی دیر کے لیے اُسے دم لینے کی مہلت ہی ملے گی۔ سو *جو شخص دوسروں کی تکفیر کرتا ہے، اُسے یہ بھی ماننا چاہیے کہ اُن کے لیے قطعی طور پر جہنم کا فیصلہ ہو چکا* ،۹؂ اور مزید یہ کہ *اُسے خدا کے اس فیصلے کے خلاف اس سزا میں کسی تخفیف یا اس سے نجات کی کوئی دعا، کسی صورت میں بھی نہ کرنی چاہیے* :

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓءِکَ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَ الْمَآٰءِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ. خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۶۱۔۱۶۲)
’’جو اپنے انکار پر قائم رہے اور مرے تو اِسی طرح منکر تھے، یقیناً وہی ہیں جن پر اللہ اور اُس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ اُن کی سزا میں کمی کی جائے گی اور نہ اُنھیں کوئی مہلت ہی ملے گی۔‘‘


د۔ دنیوی سزا

کفر کی سزا جس طرح آخرت میں دی جائے گی، اسی طرح اس دنیا میں بھی بعض اوقات اس کی سزا دی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ علما جانتے ہیں کہ اس سزا کی تمہید میں ایمان والوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ کفر کرنے والوں سے معاشرتی طور پر قطع تعلق کر لیا جائے۔ اُن سے پیار اور محبت کے تمام رشتے کاٹ دیے جائیں۔ یہاں تک کہ اُن کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اور ان کی میّتوں پر نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیا جائے۔ اس مقاطعہ کے بعد اسے دو طرح سے نافذ کیا جاتا ہے۔ تند و تیز
ہواؤں ، طوفانوں اور سیلابوں کی صورت میں یا پھر رسولوں اور اُن پر ایمان لانے والوں کے ہاتھوں قتل اور قتال کی صورت میں۔ *کفر کی پاداش میں دی جانے والی یہ دنیوی سزا، شریعت کا بیان نہیں، بلکہ یہ خدا کی سنت اور اُس کے رسولوں کے ساتھ خاص ایک قانون ہے* ۔

لیکن جو حضرات اس قانون کے قائل نہیں ہیں، اُن کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو اگر کافر قرار دیں تو اس کے نتیجے کے طور پر دو باتوں کو بھی ضرور تسلیم کریں:

اول یہ کہ اُن سے مکمل طور پر قطع تعلق کریں اور اُن کے ساتھ کسی بھی قسم کے سماجی اور معاشرتی روابط کو ختم کر دیں اور
دوم یہ کہ اُن سب سے قتال ، بلکہ اُن میں سے بعض کو قتل کرنا بھی لازم قرار دے ڈالیں:

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ.(آل عمران ۳: ۲۸)
’’ایمان والے اب مسلمانوں کو چھوڑ کر اِن کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور (یاد رکھیں) جو یہ کریں گے، اُن کو الله سے کوئی تعلق نہ ہو گا۔‘‘


وَلَا تُصَلِّ عَلآی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَھُمْ فٰسِقُوْنَ.(التوبہ ۹: ۸۴)

’’اور آیندہ ان میں سے جو مر جائے، اُس (کے جنازے) پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اُس کی قبر پر (دعا کے لیے کھڑے ہونا)، اِس لیے کہ اُنھوں نے اللہ اور اُس کے رسول کا انکار کیا ہے اور اِس حال میں مرے ہیں کہ بد عہد تھے۔‘‘


وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْبِاَیْدِیْنَا.(التوبہ ۹: ۵۲)
’’اور ہم تمھارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تم پر اپنے ہاں سے عذاب بھیجے گا یا ہمارے ہاتھوں سے۔‘‘

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۹؂ کچھ ’’احتیاط پسند‘‘ حضرات دوسروں کے بارے میں جہنم کا فیصلہ سنانے سے اس لیے رک جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اُن کے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے کوئی عذر ہو، مگر یہی حضرات جب دوسروں کی تکفیر کرتے ہیں تو اس طرح کے تمام عذرات کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

تمام علما میں اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اتمام حجت کے بعد حق بات کا انکار کر دے تو اُسے بہرحا ل، کافر قرار دیا جا سکتا ہے۔

لیکن پھر بھی *ہم* کسی فرد، یہاں تک کہ کسی گروہ کو بھی اس کا حق دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے موقف کا تفصیلی جائزہ پیش کریں اور یہ بھی دیکھیں کہ جو لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں ، وہ اس سلسلے میں کیا کیا دلائل دیتے ہیں۔ یہ ساری تفصیل دو عنوانات کے تحت دیکھ لی جا سکتی ہے:

الف- تکفیر پر اٹھنے والے سوال
ب- تکفیر کے حق میں دلائل
اور ان کا جواب
۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

الف- تکفیر پر اٹھنے والے سوال

تکفیر اپنی ذات میں کوئی ممنوع اور ناجائز امر نہیں ہے۔ *قرآن کی بہت سی آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ منکرین حق کو باقاعدہ کافر قرار دیا گیا* اور اس حوالے سے خصوصی احکام بھی نازل کیے گئے۔ لیکن جن مقدمات اور شرائط کی بنیاد پر یہ سب کچھ ہوا، آج اُن کے واقع ہو جانے کا کوئی اِمکان نہیں ہے۔

*اس بات کو اگر ہم چند سوالات کی صورت دیں اور ان کے بارے میں کوئی حتمی راے قائم کر سکیں تو کسی کی تکفیر کر دینا بالکل جائز ہو گا ورنہ یہ کام قطعی طور پر نا جائز ہو جائے گا* ۔

❓پہلا سوال

کیا مخاطب تک حق بات مکمل طور پر پہنچ گئی ہے؟

✔ جواب

اس سوال کے جواب میں کسی بھی شخص کے متعلق ایک حد تک راے ضرور قائم کی جا سکتی ہے۔ ہم یہ بات تو جانتے ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح اُسے بھی باطن میں کچھ ہدایات دی گئی ہیں۔ جو صلاحیتیں اُسے حاصل ہیں، اُن کی واقفیت بہم پہنچانا بھی کچھ مشکل کام نہیں۔اُس کے خارج میں موجود ہدایت کا اِبلاغ جاننے کے لیے بھی ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ اُس کے ماحول کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیں۔ یہ دیکھ لیں کہ کیا اُس کے اردگرد یہ انتظامات پائے جاتے ہیں اور یہ بھی تحقیق کر لیں کہ اُن تک اُس کی رسائی کس قدر ہے۔ ہدایت کو اُس نے ’’جان‘‘ لیا ہے یا نہیں، اس چیز کو مکمل طور پر جان لینا البتہ مشکل کام ہے۔ تاہم، یہ بھی ناممکن نہیں ہے۔ اُس کے ساتھ مکالمے کے نتیجے میں اسے بھی کسی حد تک جانا جا سکتا ہے۔ غرض یہ کہ ان ساری معلومات کے بعد اب ہم پورے اعتماد سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بات مکمل طور پر اس تک پہنچ چکی ہے یا نہیں۔

❓ دوسرا سوال

کیا حق بات اُس کے سامنے بالکل واضح بھی ہو گئی ہے؟

✔ جواب

اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔ *کس پر بات مکمل طور پر واضح ہو گئی ہے اور کس پر نہیں؟ ظاہر ہے، اس بارے میں ہمارے پاس ظن اور گمان کے سوا کچھ بھی نہیں* ۔ کسی شخص کا دانا و بینا ہونا اور اُس تک حق بات کا اِبلاغ ہو جانا یہ تو کسی حد تک جانا جا سکتا ہے، مگر اس بنیاد پر یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا که وہ بات اُس پر کھل بھی گئی ہو گی ، اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں وضوح کی کوئی لزومی دلیل نہیں ہیں۔ ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ اچھا خاصا سمجھ دار آدمی ہوتا ہے، مگر نفس کے داعیات اُس پر لاعلمی اور جہالت کے وہ دبیز پردے تان دیتے ہیں کہ وہ حق کو جانتے ہوئے بھی اُس کی تفہیم سے یک سر محروم رہ جاتا ہے۔

❓ تیسرا سوال

کیا اُس نے جان بوجھ کر اس کا انکار کیا ہے اور اُس کے پاس کیا اپنے اس انکار کے لیے کوئی عذر بھی موجود نہیں ہے؟

✔ جواب

ہمارے پاس بہ حیثیت انسان وہ استعداد ہی نہیں ہے کہ ہم اس کا کوئی حتمی جواب دے سکیں۔ *ہم میں سے کسی کے بس میں نہیں کہ وہ لوگوں کے باطن میں جھانک کر یہ فیصلہ سنا سکے کہ حق بات کا جان بوجھ کر انکار کر دیا گیا ہے* ۔ یہ صرف اور صرف پروردگار عالم کی شان ہے کہ وہ دلوں کے احوال سے واقف ہو اور یہ جانتا ہو که کس دل میں ایمان نے گھر کیا ہے ، اور کس میں کفر آن گھسا ہے اور اس سب کے پیچھے کون سی نیتیں اور کیا کیا ارادے کار فرما ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے باپ کے کفر کی وجوہات اور اس کے محرکات بالکل نہ جان سکے اور اُسے محض ایک ابتدائی درجے کا گمراہ سمجھتے رہے۔ یہی وجہ ہوئی کہ اُس کے لیے دعاے مغفرت کا وعدہ کیا اور اسے نبھایا بھی، حتیٰ کہ خداے علّام الغیوب نے خبر دی کہ اُن کا باپ محض خطاکار نہیں، بلکہ اُس کا کھلا دشمن ہے۔

اسی طرح کفر کا ارتکاب کرنے والے کے پاس کوئی حقیقی عذر موجود ہے یا نہیں، اسے حتمی طور پر معلوم کر لینا بھی ممکن نہیں۔ فلاں شخص ضرور صاحب استطاعت ہے، وہ غلطی سے نہیں، جان بوجھ کر یہ کام کر رہا ہے اور اس وقت اس پر کسی قسم کا کوئی جبر بھی نہیں ہے، یہ سب معاملات، بہرصورت، سادہ نہیں ہوتے۔ انسانی نفسیات کی اتھاہ گہرائیاں اور باہر سے اثر انداز ہونے والے امور کا عظیم تنوع، انھیں اس قدر پیچیدہ بنا دیتے ہیں کہ ان کا ادراک کر لینا، انسان کی دسترس سے باہر ہو جاتا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

الف- تکفیر پر اٹھنے والے سوال

❓ چوتھا سوال

کیا ہم اس شخص کے لیے تکفیر کے تمام نتائج بھی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟

✔ جواب

چوتھا سوال یہ تھا که اس کفر کے دنیوی اور اخروی نتیجوں کے بارے میں ہماری کیا راے ہے؟یعنی، کیا ہم اس بات کو ماننے اور اس کا برملا اظہار کرنے کے لیے تیار ہیں کہ مذکورہ شخص اب خدا کے ہاں ملعون قرار پایا ہے؟ اُس کا دل مہر بند ہو چکا ہے؟ اُسے ابدی جہنم کا مستحق قرار دے دیا گیا اور اُس سے براء ت کا اظہار کرنا اور اُس کے ساتھ تمام معاشرتی روابط کو توڑ دینا، اب ہم پر لازم ہو گیا ہے؟ مزید یہ کہ اُس کے لیے اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا که وہ اپنے کفر کی پاداش میں یا تو قتل کر دیا جائے ۱۰؂ یا ہمیشہ کے لیے مغلوب اور زیر دست بن کر رہے؟ اس سوال کا جواب دینا اس لیے ضروری ہے کہ کفر اور اس کے نتیجے، جیسا که پیچھے تفصیل گزری، آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جو کسی کی تکفیر کرنا چاہے ، اُس پر لازم ہے کہ وہ ان سب کو بھی قبول کرے، وگرنہ اس کے جواز کی بات بالکل نہ کرے۔ سردست یہ بات بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ ان نتائج کو ماننا یا نہ ماننا تو بہت دور کی بات، کیا اس وقت مذکورہ شخص پر ان کا اطلاق شروع ہو چکا ہے؟ *ہمارے پاس غیب کی ان باتوں کو جاننے کا سرے سے کوئی ذریعہ ہی نہیں ہے* ۔ *سواے اس ایک صورت کے کہ کوئی شخص خدا بن جانے کی جسارت کرے یا کم سے کم اپنے اوپر وحی کے اترنے کا دعویٰ کرے جو ہم جانتے ہیں کہ اب کسی طرح ممکن نہیں رہا* که اس طرح کے تمام اِمکانات کا راستہ مستقل طور پر مسدود کر دیا گیا ہے۔

یہاں ایک بات کہی جا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ ہم دلوں کے احوال سے تو واقف نہیں ، لیکن کسی شخص میں پائی جانے والی ظاہری علامتیں بہرحال اس کے دل کی حالت کا پتا دیتی ہیں۔ سو جس طرح ہم ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے کسی شخص کو مسلمان کہہ دیتے ہیں، اسی طرح اُسے کافر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس استدلال کے جواب میں چند باتیں پیش نظر رہیں:
۔
ایک یہ کہ ظاہری علامتوں سے دل کے احوال کو قطعی طور پر جان لینا، کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ ان سے زیادہ سے زیادہ ایک تاثر قائم کیا جا سکتا ہے جو اپنی ذات میں صحیح بھی ہو سکتا ہے اور بالکل غلط بھی۔ اور ہم اس طرح کے تاثرات کے بارے میں یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کسی فیصلۂ خداوندی کے متبادل ہرگز نہیں ہو سکتے۔
۔
دوسرے یہ کہ *جب ہم کسی شخص کو مسلمان کہتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ ہم اُسے حقیقی معنی میں مسلمان کہہ رہے ہیں کہ اس مثال پر کسی دوسرے کو کافر قرار دے ڈالیں* ۔ *حقیقی ایمان بھی دلوں کے احوال میں سے ہے* اور اس کی بھی کسی کے پاس کوئی حتمی اطلاع نہیں۔ ہاں، ظاہری طور پر کسی کو مسلمان کہنا اور اُس کے ساتھ کچھ دنیوی معاملات کرنا، یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی کو غیر مسلم کہیں اور اُس کے ساتھ کچھ دنیوی معاملات کریں۔ لیکن اس پرقیاس کرتے ہوئے کسی کو کافر کہہ دینا، اس لیے جائز نہیں ہے کہ یہ معاملہ ظاہری اِنکار کا ہے ہی نہیں ، بلکہ دل سے جان بوجھ کر انکار کر دینے کا ہے اور اسے یقینی طور پر جان لینے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔
( یہاں یہ بحث نہیں ہونی چاہیے کہ اگر قرائن سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ قتل جان بوجھ کر ہوا ہے تو کفر کیوں معلوم نہیں ہو سکتا؟ اس لیے کہ تکفیر میں نیت اور ارادے کا علم ہونا ضروری ہوتا ہے جو بالکل محال ہے۔ حتیٰ کہ قتل میں بھی قرائن صرف یہ بتاتے ہیں کہ یہ کام غلطی سے نہیں ، ارادۃً ہوا ہے۔ یہ نہیں بتاتے کہ اس کے پیچھے ارادہ کیا تھا )

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۱۰؂ قدما کے ہاں کسی شخص کا کافر ہو جانا، کم و بیش اس کے واجب القتل ہو جانے کے مترادف ہے۔ یہاں تک کہ بعض حضرات تارکِ نماز کو بھی کافر قرار دے کر اُس کے قتل کے قائل ہو گئے ہیں۔ البتہ، اس بات میں اختلاف ہو جاتا ہے کہ اُسے دو نمازیں چھوڑنے پر قتل کیا جائے یا دو سے کم اور زیادہ نمازوں پر۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

ب- تکفیر کے حق میں دلائل
اور ان کا جواب


جو لوگ دوسروں کی تکفیر کرنے کے قائل ہیں، ان کی طرف سے عام طور پر یہ دلائل بیان کیے جاتے ہیں:

⏩۱۔ اِباحت

اُن کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی تکفیر کی ممانعت وارد نہیں ہوئی، اس لیے یہ اپنی اصل میں ایک جائز کام ہے ۔ البتہ، عام لوگوں کے بجاے یہ صرف دین کے جید علما کا حق ہے اور اُنھیں بھی اس معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔

❔ پہلی دلیل

دوسرے بہت سے عام امور کی طرح یہ تکفیر بھی اپنی ذات میں ایک جائز امر ہے، اس لیے کہ دین میں اس کی ممانعت پر کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔

✔ جواب

تکفیر کسی شخص کا ذاتی معاملہ نہیں ہے کہ اس میں اباحت کے عمومی قاعدے سے استدلال کیا جا سکے ۔ یہ دوسرے لوگوں سے براہ راست متعلق اور اُن کے بارے میں ایک فیصلہ سنا دینا ہے کہ جس کے نتیجے میں بہت سی شرعی حرمتیں اب قائم نہیں رہیں گی۔ اگر دوسروں کے متعلق فیصلے محض اِباحت کے اصول پر جائز قرار دیے جا سکتے ہیں تو پھر چوری کے مقدمے میں بھی مثال کے طور پر، قاضی کے ساتھ ساتھ ہر غیر قاضی کو یہ حق دے دینا چاہیے کہ وہ اُٹھے، اپنی عدالت سجائے اور ملزم کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم سنا دے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر مقدمے میں ہمیشہ پہلے اس بات کو ثابت کیا جاتا ہے کہ عدالت کیا اس کی سماعت کا حق بھی رکھتی ہے یا نہیں۔ سو تکفیر کی بحث میں بھی یہ لازم ہے کہ اِباحت کے عمومی قاعدے سے دلیل فراہم کرنے کے بجاے پہلے *علما کے حقِ فیصلہ کو ثابت کیا جائے جو اُنھیں اس بات کا اختیار دیتا ہو کہ وہ لوگوں کے دلوں میں جھانک کر اُن کے ایمان اور کفر کا فیصلہ سنا سکتے ہیں*

❔ دوسری دلیل

تکفیر اپنی ذات میں عام نہیں ، بلکہ دینی نوعیت رکھنے والا ایک امر ہے، مگر یہ اس لیے جائز ہے کہ دین میں اس کی ممانعت پر کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔

✔ جواب

یہاں ایک بنیادی اصول سامنے رہنا چاہیے۔ وہ یہ کہ *دنیا کا ہر کام اپنی اصل میں مباح اور جائز ہے، یہاں تک کہ اُس کی حرمت پر کوئی شرعی دلیل قائم ہو جائے* ۔ اس کے مقابلے میں *دین کے نام سے کیا جانے والا ہر کام اپنی ذات میں غیر مباح اور ناجائز ہے، سواے اِس ایک صورت کے کہ اُس کے حق میں کوئی شرعی دلیل قائم کر دی جائے* ۔ اگر تکفیر ایک دینی امر ہے تو اس کے لیے اِباحت کے اصول سے کسی بھی صورت میں استدلال نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ضروری ہے کہ اسے اُس وقت تک عمل میں نہ لایا جائے جب تک کوئی شرعی دلیل اس کا تقاضا نہ کرے ۔ *بغیر شرعی دلیل کے کسی کام کو دین قرار دے دینا، اصطلاح میں ’بدعت‘ کہلاتا ہے جو خدا کے ہاں نہ صرف یہ کہ ناقابل قبول ہے، بلکہ دین میں اضافہ کرنے کی وجہ سے قابل مواخذہ بھی ہے* ۔ مزید یہ بات بھی یاد رہے کہ *تکفیر دوسری بے ضرر بدعات کے مقابلے میں اس لیے بھی دلیل کی زیادہ محتاج ہے کہ اس پر بعض اوقات لوگوں کی زندگی اور موت بھی منحصر ہو جایا کرتی ہے* ۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

ب- تکفیر کے حق میں دلائل
اور ان کا جواب


⏩۲۔ آیات

❓ دلیل

تکفیر کے جواز کی ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ
قرآن کی بہت سی آیات اپنے منکرین کو کافر کا نام دیتی ہیں۔
کئی آیتوں میں کچھ خاص اعمال کی بنیاد پر اُنھیں کافر قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ آج بھی جن میں یہ اعمال پائے جائیں ، انھیں کافر کہا جا سکتا ہے۔
بلکہ ایک آیت میں صرف تکفیر ہی نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ منکرین کو کافر کہہ کر مخاطب کریں:

✔ جواب

اس میں شک نہیں کہ قرآن نے بہت سے مقامات پر اپنے مخاطبین کے لیے ’’کافر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ استعمال لفظ کے لغوی اعتبار سے بھی ہوا ہے اور خالص مذہبی اعتبار سے بھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سے مقامات پر اس لفظ کو اصطلاحی معنی میں بھی برتا گیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تکفیر کے جواز کی بحث میں اس طرح کے اصطلاحی استعمالات بھی اِثبات مدعا میں بالکل بے فائدہ ہیں۔ کیونکہ ہم تکفیر کی مطلق نفی نہیں کرتے، بلکہ ہم اس کے اصلاً جائز ہونے کے قائل ہیں، البتہ ہمارے نزدیک صرف الله اس بات کا پورا پورا حق رکھتا ہے کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے اور قرآن مجید کے مذکورہ مقامات میں اُس کے اِسی حق کا اظہار ہوا ہے۔
*سوال صرف یہ ہے کہ خدا کی ذات کے سوا کسی اور کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ خدا ہی کی طرح لوگوں کو کافر قرار دے سکے* ؟ اگر یہ حق کسی اور کو حاصل نہیں تو ان آیتوں میں محض ’کافر‘ کا لفظ دیکھ کر اپنے لیے تکفیر کا استدلال کرنا بالکل ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی شخص خدا کے حاکم، مالک اور بادشاہ ہونے کی حیثیت سے کیے گئے فیصلوں کی آیتیں پڑھے اور اس بنیاد پر اپنے آپ کو بھی ان فیصلوں کا مجاز سمجھنا شروع کر دے۔

اب ہم ان آیات پر بحث کریں گے جو دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہیں

❔ پہلی آیت

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ.(المائدہ ۵: ۴۴)
’’اور جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں ، وہی کافرہیں۔‘‘

✅ جواب

ان آیات کے بارے میں واضح ہو که یہ صرف اتنا بیان کر رہی ہیں کہ فلاں اور فلاں کام کفر ہے ، اس لیے ان کا ارتکاب کرنے والا کافر۔ یعنی، صرف قانون کا بیان کر رہی ہیں، نہ کہ اُس کے اِطلاق کا۔ چنانچہ ان سے استدلال کرتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا که جو شخص بھی یہ کفر کرے گا، وہ لازماً کافر قرار پا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی بنیاد پر ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ قرآن کے انداز میں اس بات کو ہم ایک اصول اور قاعدے کی صورت میں بیان کر دیں۔ مثال کے طور پر ہم یہ کہیں کہ جو شخص خدا کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہ کافر ہے۔ *اس سے آگے بڑھ کر خاص زید اور بکر کے بارے میں یہ کہنا که چونکہ اُنھوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا، اس لیے وہ کافر ہو گئے ہیں، یہ اپنے حدود سے صریحاً تجاوز ہے* اور اس کے لیے ان آیتوں میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔

❔ دوسری آیت

اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا. اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا.(النساء۴: ۱۵۰۔۱۵۱)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے منکر ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اُس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہیں مانیں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان اور کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکالیں، وہی پکے کافر ہیں اور ہم نے ان کافروں کے لیے رسوا کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

✅ جواب

جن آیتوں میں کفریہ اعمال پر بعض لوگوں کے کافر ہو جانے کی بات ہوئی ہے، وہ در اصل، اُنھی لوگوں کے بارے میں ہو چکے خدائی فیصلے ہیں۔ ان سے یہ نتیجہ بالکل نہیں نکالا جا سکتا که کفر کرنے والے ہر شخص کو اب اس طرح کے فیصلوں کی بنیاد پر کافر کہا جا سکتا ہے۔۱۲؂ *جب عدالت میں کسی شخص کو مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا که اب رہتی دنیا تک محض یہ فیصلہ ہر ملزم کو مجرم بنا دیا کرے گا* ۔ بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ ہر مرتبہ نئے سرے سے عدالت قائم ہو، اُس کا حقِ سماعت بھی ثابت ہو، شہادتیں سنی اور دیکھی جائیں اور اُن کی روشنی میں کسی ملزم کو مجرم قرار دے کر سزا سنائی جائے یا باعزت بری کر دیا جائے۔ لہٰذا، صحیح بات یہی ہے کہ ہم ان آیات کے اتباع میں اُنھی افراد اور گروہوں کو کافر کہیں جو اِن میں مذکور ہوئے۔ اور ایسا کرتے ہوئے ہم اُن کی تکفیر نہیں کریں گے ، بلکہ اُن کے بارے میں سنائے جا چکے خدائی فیصلوں کی صرف حکایت اور اُس کا اعلان ہی کریں گے۔

یہاں ایک سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہ آیتیں، صحیح ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ مخصوص ہیں، مگر جن اوصاف کی وجہ سے اُنھیں کافر قرار دیا گیا ہے، وہ اوصاف اگر کسی اور میں بھی پائے جاتے ہوں تو کیا اُن پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہو جانا چاہیے؟ اس کے جواب میں یہ اصول یاد رہے کہ ہر آیت اپنے اندر پائی جانے والی علت کی بنیاد پر دوسروں تک ممتد ہوتی ہے۔ یہاں علت اُن لوگوں کا محض انکار کرنا نہیں، بلکہ جانتے بوجھتے ہوئے اور بغیر کسی عذر کے انکار کر دینا ہے۔ اور ظاہر ہے ، اس طرح کی کسی علت کی خبر ہمیں ہو سکے، اس بات کا کوئی امکان ہی نہیں کہ ہم اس بنیاد پر ان آیتوں کے حکم کا کسی دوسرے شخص پر اطلاق کر سکیں۔

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۱۲؂ شروع زمانے میں جب یہ روش چل پڑی کہ اس طرح کی آیتوں کو دوسرے لوگوں پر بھی چسپاں کیا جانے لگا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر سخت نکیر فرمائی (بخاری، ص۱۴۵۴)۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

ب- تکفیر کے حق میں دلائل
اور ان کا جواب


⏩۲۔ آیات

❔ تیسری آیت

قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ.(الکافرون ۱۰۹: ۱)
’’تم اعلان کرو، (اے پیغمبر) کہ اے کافرو۔‘‘

✅ جواب

اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو کافر کے لفظ سے خطاب کرتے ہوئے براء ت کا اظہار کریں تو اس سے بھی تکفیر کے جواز پر استدلال کرنا ممکن نہیں ہے۔ اول تو *آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کو اس بات کا حکم اللہ دے رہا ہے جو حقیقت حال سے خوب واقف اور کسی کو بھی کافر قرار دینے کا پورا پورا حق رکھتا ہے* ۔ دوسرا یہ کہ *وہ خاص اُن لوگوں کے متعلق یہ حکم دے رہا ہے کہ جن پر اس کی طرف سے ختم قلوب ہو چکا* اور یہ طے ہے کہ وہ اُس کے پیغمبر کی دعوت پر کبھی بھی ایمان نہ لائیں گے۔ چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا ہے: ’وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ‘، ’’نہ تم کبھی (تنہا) اُس کی عبادت کرو گے جس کی عبادت میں کرتا ہوں‘‘ (الکافرون ۱۰۹: ۳)۔

لہٰذا اس آیت سے تکفیر کا جواز اُسی صورت میں پیدا کیا جا سکتا ہے جب مکفر خدائی صفات کا حامل ہو، اور جن لوگوں کی تکفیر اُس کے پیش نظر ہے، اُن کے دلوں پر مہر ہو جانے سے اچھی طرح واقف بھی ہو چکا ہو۔

❔ چوتھی آیت

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ م بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلآی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا.(الاعراف۷: ۱۷۲)
’’یاد کرو ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ اُس نے پوچھا تھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، (آپ ہی ہمارے رب ہیں)، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔‘‘


اس سے بعض حضرات نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ خدا کے وجود کے معاملے میں ہر انسان پر اِتمام حجت ہو چکا ہے اور اس مقصد کے لیے الگ سے کسی اتمام حجت کی ضرورت نہیں، چنانچہ ملحدین اگر آج خدا کا انکار کریں تو کم سے کم اُنھیں اس عہدِ الست کی بنیاد پر کافر ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔

✅ جواب

اس نکتہ کے جواب میں عرض ہے کہ اتمام حجت کے وقوع کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ ہدایت کا اِبلاغ اور اُس کا وضوح ہو چکا ہو، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مخاطب کے پاس اس معاملے میں کوئی عذر نہ رہ گیا ہو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عہد الست کی مذکورہ آیتوں میں صرف یہ بیان ہوا ہے کہ ہماری فطرت میں خدا نے اپنی ربوبیت کا علم ودیعت کیا۲۲؂ اور ہم سے عالم ارواح میں اس پر عہد بھی لیا ہے اور اس کا مطلب ظاہر ہے کہ یہی ہے کہ اُس کی طرف سے اس سلسلے میں اتمام حجت کر دیا گیا ہے، چنانچہ اب ہم آخرت کے دن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری ہدایت کا کوئی بندوبست نہیں ہوا اور ہم اس باب میں سراسر غافل تھے۔ ان آیات میں یہ بالکل بھی بیان نہیں ہوا که یہ اتمام حجت ہم میں سے ہر ایک پر واقع بھی ہو گیا ہے اور اس معاملے میں ہم پر ہمیشہ کے لیے ہر طرح کا قطع عذر بھی کر دیا گیا ہے، چنانچہ اب ہم اُس کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ سو قطع عذر کے بغیر، یہ سب اتمام حجت کا محض انتظام ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ *صرف انتظام کی بنیاد پر نہ تو کسی متعین شخص پر اس کے وقوع کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے اور نہ اس بنیاد پر اُس کی کسی صورت میں تکفیر ہی کی جا سکتی ہے* ۔ اس کی بہت اچھی مثال ہمارے خارج میں کیا گیا اتمام حجت کا انتظام ہے۔ اس کے لیے بھی بالکل یہی کیا گیا کہ خدا نے اپنے پیغمبروں کو بھیجا، اُنھوں نے بھی ہدایت کے علم کو لوگوں تک پہنچایا اور اس کے بارے میں اُن سے بارہا اقرار بھی لیا، جیسا که مثال کے طور پر ان سے پوچھا کہ بتاؤ، زمین اور آسمانوں کا رب کون ہے ؟ اُن کی تخلیق کرنے والا اور اُن میں رزق کا انتظام کرنے والا کون ہے؟ اُنھوں نے اقرار کیا که یہ وہی پروردگار عالم ہے تو اس پر پیغمبروں نے اُن کے اخروی مواخذے کو بھی تفصیل سے بیان کیا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اُن کی طرف سے اتمام حجت کے اس قدر اہتمام کے بعد بھی اس بات کا امکان بہرحال موجود رہا که اُن کے مخاطبین میں سے کسی کے پاس اس سلسلے میں کوئی عذر رہ جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ہر مرحلے میں، حتیٰ کہ اُن کی طرف سے براء ت کا اعلان ہو جانے کے بعد بھی، نہ صرف یہ کہ اس کے امکان کو تسلیم کیا گیا، بلکہ اس بنیاد پر منکرین کو اُن کے مواخذے میں کچھ مہلت بھی دی گئی(التوبہ ۹: ۶) غرض یہ ہے کہ آج کسی ملحد کو بھی ہدایت کے ان سارے انتظامات کے باوجود کافر قرار نہیں دیا جا سکتا ، اس لیے کہ شاید اس کے پاس بھی اس معاملے میں کوئی ایسا عذر موجود ہو جو خدا کے ہاں قابل قبول ٹھیرے اور آخرت میں اس کے لیے کچھ نہ کچھ رعایت کا سبب بن جائے، اور ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ *آج کے دنوں میں ہم مسلمانوں کی بے دینی کی وجہ سے ان اعذار کے لاحق ہو جانے کے امکانات رسول اللہ کے زمانے کی نسبت کئی گنا مزید بڑھ بھی گئے ہیں* ۔

۔➖➖➖➖➖➖➖➖۔

۲۲؂ فطرت میں ودیعت کردہ اس علم سے مراد، اصل میں اس کی وہ مخفی بنیاد ہے جو خارج کے زیر اثر جب ظاہر ہو جاتی تو باقاعدہ علم قرار پا جاتی ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

ب- تکفیر کے حق میں دلائل
اور ان کا جواب


⏩۳۔ احادیث

❔ پہلی دلیل

کئی حدیثوں میں لوگوں کا ایمان ختم ہونے کی بات کی گئی ہے، جیسے یہ حدیث:

یمرقون من الدین مروق السہم من الرمیۃ.(مسلم، رقم ۲۴۵۵)
’’وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر اپنے ہدف کو چیر کر نکل جاتا ہے۔‘‘

اس سے بعض حضرات نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ کسی کا دین سے نکل جانا اصل میں اُس کا کافر ہو جانا ہے اور کسی کا کافر ہو جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اُسے کافر قرار دے سکتے ہیں

✅ جواب

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ہر دم کفر کا ارتکاب ہوتا ہو گا اور لوگ دین سے نکل کر کافر بھی ہو جایا کرتے ہوں گے، مگر کسی شخص کا واقعے میں کافر ہو جانا اور دوسروں کا اِس حقیقت کو جان کر اُسے کافر قرار دے دینا، یہ دو مختلف باتیں ہیں اور ان دونوں میں کوئی لزوم بھی نہیں کہ ایک کا اِثبات دوسری کو لازم کر دے۔ بلکہ واقعے میں تو لوگ جنت اور جہنم کے بھی مستحق ہو جاتے ہوں گے، مگر ہم جانتے ہیں کہ اس بنیاد پر *کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو جنتی اور جہنمی قرار دیتا پھرے* ۔ بحث دراصل اس بات میں نہیں ہے کہ دنیا میں کفر واقع ہو رہا ہے یا نہیں ؟ بحث اس بات میں ہے کہ جب کوئی شخص ظاہر میں دین سے نکل جائے تو کیا ہم اُسے یہ کہتے ہوئے کافر قرار دے سکتے ہیں کہ اُس نے یہ کفر جان بوجھ کر کیا ہے؟ اگر کوئی اس کا جواب ہاں میں دے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان روایات میں ہمارے اِس استحقاق کی دلیل کیا ہے؟ کیونکہ روایات تو اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا رہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ واقعہ ہو کر رہے گا که بظاہر مسلمان کہلانے والے کچھ لوگ حقیقت میں دین اسلام سے نکل جائیں گے ، یعنی بالکل کافر ہو کر رہ جائیں گے۔
( یہی وجہ ہے کہ اول زمانے میں جب بعض لوگوں کو ’مروق السہم من الرمیۃ‘ کی ان روایات کا مصداق سمجھا گیا تو اُنھیں بھی کم سے کم کافر قرار نہیں دیا گیا )

❔ دوسری دلیل

کئی احادیث میں قرآن ہی کی طرح مختلف گناہوں پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے اور ظاہر ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جو کوئی ان کفریہ اعمال کا ارتکاب کرے گا، وہ کافر قرار پا جائے گا، جیسا که ذیل کی یہ حدیث:

سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر.(بخاری، رقم ۴۸)
’’مسلمان کوگالی دینا فسق اور اُس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘

اس سے یہ دلیل اٹھائی گئی ہے کہ جو لوگ کفریہ اعمال کا ارتکاب کریں، اُنھیں کافر کہا جا سکتا ہے۔

✅ جواب

واضح رہے کہ نیکی اور بدی کی طرح کفر کے بھی بہت سے درجات ہیں۔ ان میں سے ابتدائی درجے کے کفر شدید نوعیت کے گناہ تو ہوتے ہیں، مگر اس معنی میں کفر نہیں ہوتے کہ اپنے مرتکب کو کافر بنا ڈالیں۔ کسی مسلمان سے لڑائی کرنا کفر ہے، مگر یہ بھی اُس درجے کا کفر ہے جو اپنی شناعت میں شدید ہونے کے باوجود اپنے مرتکب کو کافر نہیں بنا ڈالتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے آپس میں لڑائی کرنے والے مسلمانوں کو اِس کفر کے ہوتے ہوئے بھی کافر قرار نہیں دیا (الحجرات ۴۹: ۹۔۱۰) - لہٰذا، اس طرح کے کسی کفر پر تکفیر کرنے کا جواز ثابت کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں۔ بلکہ فرض کیجیے، اگر کسی روایت میں آخری درجے کا کفر بیان ہو، تب بھی اُس سے فقط یہی کہنا ثابت ہو گا که یہ کفر ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والا کافر۔ یہ ثابت نہ ہو گا که جو اس کفر کا ارتکاب کرے ، اُس خاص شخص کو کافر قرار بھی دے دیا جائے، اس لیے کہ *کسی شخص کا کفر میں پڑنا اور کافر ہو جانا ایک چیز ہے اور اُسے کافر قرار دے دینا بالکل دوسری چیز ہے* ۔

❔ تیسری دلیل

بعض احادیث وہ بھی ہیں جن میں لوگوں کے لیے ’کفر‘ کے لفظ سے آگے بڑھ کر ’کافر‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے، جیسا کہ

لا ترجعوا بعدي کفارًا یضرب بعضکم رقاب بعض.(بخاری، رقم ۱۲۱)
’’میرے بعد کافر نہ ہو جانا که ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔‘‘

✅ جواب

جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ اس سے بھی تکفیر پر دلیل نہیں لائی جا سکتی۔ ایک تو اس لیے کہ اس میں بیان کردہ کفر بھی اُس نوعیت کا نہیں ہے جو کسی شخص کو کافر بنا دے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اُس مسلمان کو جس نے دوسرے مسلمان کی گردن مار دی ہو، کافر قرار نہیں دیا، بلکہ مسلمان سمجھتے ہوئے اُس کے ساتھ قصاص کا معاملہ کیا ہے (البقرہ ۲: ۱۷۸) ۔ دوسرے اس لیے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر تم ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے تو کافر ہو جاؤ گے اور دوسروں کو بھی تمھیں کافر کہنے کا حق حاصل ہو جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارا کرتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد الله نے تمھارے اندر محبت اور الفت پیدا کر دی ہے۔ دیکھو، اب لوٹ کر پھر وہی کافروں والے کام نہ شروع کر دینا۔ اس روایت میں ’’کافر نہ ہو جانا‘‘ سے مراد ’’کافروں کے سے کام نہ کرنا‘‘ ہے۔ یہ ایسا ہی اسلوب ہے جیسے ہم *کسی شخص کو جو سکھ سے مسلمان ہوا ہو اور اُس کے بارے میں اندیشہ ہو که وہ دوبارہ سے پگڑی باندھ لے گا، کہیں کہ دیکھو، تم دوبارہ سے سکھ نہ ہو جانا که سر پر پگڑی باندھے پھرو* ۔ ظاہر ہے، اس جملے میں متکلم کی مراد یہ بالکل نہیں ہے کہ پگڑی باندھنے سے تم اسلام کے دائرے سے نکل کر دوبارہ سے سکھ ہو جاؤ گے، بلکہ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم مسلمان ہو کر اس طرح کے سب کام چھوڑ چکے ہو، اس لیے اب دوبارہ سے سکھوں جیسے کام نہ کرنا۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

ب- تکفیر کے حق میں دلائل
اور ان کا جواب


⏩۳۔ احادیث

❔ چوتھی دلیل

إذا قال الرجل لأخیہ یاکافر فقد باء بہ أحدہما.(بخاری، رقم ۶۱۰۳)
’’جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے ایک پر یہ لفظ چسپاں ہو کر رہتا ہے۔‘‘

اسی طرح فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے ، اگر وہ حقیقت میں کافر نہ ہو تو یہ کفر اُس پر لوٹ آتا ہے۔

اس حدیث سے تکفیر کے قائلین نے استدلال کیا ہے کہ یہ الفاظ ہمیں تکفیر کا حق اس تنبیہ کے ساتھ دے رہے ہیں کہ اس کام کو حد درجہ احتیاط کے ساتھ کیا جائے، وگرنہ عین ممکن ہے کہ یہ کفر ہم پر لوٹ آئے۔

✅ جواب

واضح رہنا چاہیے کہ یہ حدیث کسی مفتی اور قاضی کے لیے کسی فقہی اور قانونی حق کا سرے سے کوئی بیان نہیں کر رہی کہ اس سے تکفیر کرنے کا حق کشید کیا جا سکے۔ ایسا ہوتا تو اس میں یہ کبھی نہ کہا جاتا که اگر تکفیر کا اِطلاق صحیح نہ ہوا تو اس کا وبال مکفر پر آن پڑے گا۔ہم جانتے ہیں کہ انسان جب تک انسان ہے ، اس بات کا اِمکان ہر وقت موجود ہے کہ وہ فیصلہ سنانے میں غلطی کرے اور حقیقت کے خلاف کوئی فیصلہ سنا دے۔ اب یہ بات مبنی بر ظلم ہو گی کہ اُسے اِس پر بھی گناہ اور سزا کی وعید سنا دی جائے۔ *خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا تھا که تم اپنے مقدمات میرے پاس لے کر آتے ہو اور میں ایک انسان ہی ہوں* ۔ *ہو سکتا ہے کہ تم میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت اپنے دلائل کو زیادہ اچھے طریقے سے بیان کرے اور میں اُس کے حق میں فیصلہ دے دوں* (بخاری، رقم ۷۱۶۹)۔ بلکہ ہم جانتے ہیں کہ احادیث میں تو اس طرح کے غلط فیصلوں پر کسی گناہ اور وبال کی نہیں، بلکہ کم سے کم ایک اجر ملنے کی نوید سنائی گئی ہے (مسلم، رقم ۴۴۸۷)۔ لہٰذا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ *یہ روایت دوسروں کو کافر قرار دینے کا حق بیان نہیں کر رہی* ۔ بلکہ اس کے اسلوب پر اگر غور کیا جائے تو *یہ اُلٹا روک رہی ہے کہ ہم یہ کام بالکل نہ کریں اور جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہا ہو ، اسے کافر ہرگز نہ کہیں* ۔ اس لیے کہ اگر وہ حقیقت میں کافر ہوا تو اِس صورت میں یہ خیر رہے گی کہ ہم ایک واقعی کافر کو کافر کہیں گے، مگر اُس کے ظاہری ایمان کی نفی کر کے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب بہرحال ضرور کریں گے۔ اور *اگر وہ کافر نہ ہوا تو اِس صورت میں ہم اُس پر کفر کی تہمت جڑیں گے اور اِس طرح ظاہر ہے خود ایک بڑے کفر کا ارتکاب کر بیٹھیں گے* ۔ گویا دونوں صورتوں میں یہ ایک ناجائز اور غلط کام ہو گا جس سے ایک مسلمان کو بہرصورت بچنا ہی چاہیے۔ (یہ اسلوب ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی شخص کو دشنام طرازی سے روکنا چاہیں اور کہیں کہ دیکھو، تم فلاں شخص کو کمینہ کہہ رہے ہو۔ اگر وہ واقعہ میں ایسا ہوا تو تمھاری بات تو غلط نہیں، مگر گالی ہونے کی وجہ سے یہ غلطی ضرور ہے۔ اور اگر یہ اُس پر الزام ہے تو اس طرح کا الزام لگا کر تم تو اپنا کمینہ پن بہرحال دکھا چکے)

❔ پانچویں دلیل

اٰیۃ المنافق ثلاث: إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان.(مسلم، رقم۲۱۱)
’’منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور اُس کے پاس امانت رکھی جائی تو اُس میں خیانت کرے۔‘‘

أربع من کن فیہ کان منافقًا خالصًا، ومن کانت فیہ خلۃ منہن کانت فیہ خلۃ من نفاق حتی یدعہا: إذا حدث کذب، وإذا عاہد غادر، وإذا وعد أخلف، وإذا خاصم فجر.(مسلم، رقم۲۱۰)

’’چار عادتیں ایسی ہیں کہ وہ جس میں پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور اگر ان میں سے ایک پائی جائے تو اُس میں نفاق کی ایک عادت پائی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ وہ عادتیں یہ ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے، جب عہد باندھے توڑ دے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب کسی سے لڑے تو برائی کا ارتکاب کرے۔‘‘

ان روایات سے استدلال کیا گیا ہے کہ بعض علامتوں کو دیکھ کر اگر ہم دوسروں کے نفاق کا فیصلہ کر سکتے ہیں جو اپنی حقیقت میں کفر ہی کی ایک صورت ہے تو ہم دوسروں کے کافر ہو جانے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔

✅ جواب

غور کیا جائے تو اس استدلال میں روایت کے الفاظ اور اُس کے اُسلوب سے صرف نظر ہو گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں کچھ لوگ بظاہر مسلمان ، مگر حقیقت میں پکے منافق تھے، اور اُن کی اس منافقت کا پردہ قرآن نے جگہ جگہ چاک کیا ہے۔ اسی سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ علامتیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں عام طور پر یہ برائیاں پائی جاتی تھیں کہ وہ بات بات پر جھوٹ بولتے ، امانتوں میں خیانت کرتے، کسی عہد اور وعدے کا پاس نہ کرتے اور جھگڑا ہو جاتا تو بداخلاقی کی سب حدوں کو پھلانگ جایا کرتے تھے۔ مزید یہ کہ اُس وقت یہ برائیاں مسلمانوں کے بجاے منافقین ہی میں پائی جاتی تھیں، اس لیے یہ ایک لحاظ سے اُن کی علامتیں قرار پا گئی تھیں۔ آپ نے اسی تناظر میں فرمایا که یہ چیزیں جس میں پائی جائیں، وہ چاہے اپنے آپ کو مسلمان کہے، پکی بات ہے کہ وہ مسلمان نہیں، بلکہ منافق ہے۔ *گویا ان علامتوں کا ذکر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اُن لوگوں کی پہچان بتانا تھا جو پہلے سے منافق تھے* ۔ آپ کے پیش نظر یہ بتانا ہرگز نہیں تھا که جن جن میں یہ علامتیں ہوں گی ، وہ ضرور اسلام کے دائرے سے باہر نکل کر منافق ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس روایت سے بعض علامتوں کی بنیاد پر کسی کو منافق اور کسی کو کافر قرار دینے کا قاعدہ اخذ کر لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے، وگرنہ یہ ’’سخن فہمی‘‘ کی ایسی ہی مثال ہو گی کہ *کوئی نیم حکیم کسی حاذق طبیب کی یہ بات سن کر کہ بخار اور کھانسی تپ دق کی علامتیں ہوا کرتی ہیں، ہر اُس شخص کو تپ دق کا مریض قرار دے بیٹھے جو اُسے بخار اور کھانسی میں مبتلا نظر آئے* ۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

ب- تکفیر کے حق میں دلائل
اور ان کا جواب


⏩۳۔ احادیث

❔ چھٹی دلیل

من بدل دینہ فاقتلوہ.(بخاری، رقم ۳۰۱۷)
’’جو اپنا دین بدل لے، اُسے قتل کر دو۔‘‘

اس روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ اس میں کافر قرار دینے کا باقاعدہ جواز پایا جاتا ہے، اس لیے کہ اس میں قتل کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ اُسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب متعین طور پر اِرتداد کا حکم لگایا جا چکا ہو۔

✅ جواب

یہ روایت شریعت کا بیان نہیں، بلکہ خدا کی سنت سے متعلق ایک معاملے کا بیان ہے۔ جب رسولوں کی طرف سے اُن کی قوموں پر اِتمام حجت کر دیا جاتا ہے تو اس کے بعد اُن کے منکرین پر خدا کا عذاب نازل ہو کر رہتا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ مومنین کی تلواریں اس عذاب کا ذریعہ بنا دی جائیں۔ یہ تلواریں جس طرح منکرین پر بے نیام ہو جاتی ہیں ، اسی طرح وہ لوگ بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں جو اسلام میں داخل ہو کر پھر مرتد ہو جائیں، اس لیے کہ وہ اپنے ارتداد کے نتیجے میں دوبارہ سے منکرین کی صف میں جا ملتے ہیں۔ مذکورہ روایت میں اسی طرح کے لوگوں کے لیے جو اپنا دین بدل کر پھر سے منکر ہو جائیں، خدائی عذاب کا امتداد بیان ہوا ہے۔ یہ سارا معاملہ چونکہ رسولوں کے ساتھ خاص ایک خدائی سنت کا بیان ہے ، اس لیے اس سے تکفیر کی شریعت پر استدلال کرنا ممکن نہیں ہے ۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ یہ امر صرف رسولوں کے ساتھ خاص ہے، پھر بھی اس سے یہ تو ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ اُن کے زمانے میں کفر کوئی مخفی اور نا قابل معلوم شے نہیں تھا، بلکہ اُسے بہ خوبی جان لیا جاتا اور اس کے حاملین پر سزاؤں کا باقاعدہ اِطلاق کر دیا جاتا تھا۔

اس سوال کے جواب میں واضح ہو که کفر جان بوجھ کر انکار کر دینے کا نام ہے اور دل کے اس معاملے کی خبر اُن کے زمانے میں بھی ممکن نہیں ہوتی، سواے اِس ایک صورت کے کہ خدا اپنے پیغمبروں کو اس بارے میں خبر کر دے۔ البتہ، جہاں خدا خبر نہیں کرتا، وہاں ایمان اور کفر کے فیصلے حقیقت حال پر نہیں، ظاہر ہی پر ہوتے ہیں تاکہ مخاطبین کو جزا و سزا کے مرحلے سے بہرحال گزارا جا سکے۔ اس ظاہری امتیاز کے لیے ہوتا یہ ہے کہ کچھ پیمانے مقرر کر دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ مثال کے طور پر، یہ ضروری قرار دے دیا جاتا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کریں، وہ اپنے ایمان کی شہادت میں رسول کی امامت میں نماز ادا کریں یا اُس کی طرف سے حکم ہو تو ہجرت کر کے اُس کے پاس آ جائیں یا سب کو چھوڑ کر اُسی کی معیت کو اختیار کر لیں یا اُس کے اشارے پر جان و مال لٹا دینے اور ہر طرح کا اِقدام کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ سو اسی طرح کے ظاہری احکام ہوتے ہیں جن کو ماننے والے مومنین اور ان سے روگردانی کرنے والے کافر قرار پا جاتے ہیں، وگرنہ جہاں تک کفر کی بات ہے تو وہ اُس زمانے میں بھی مخفی اور نا قابل معلوم شے ہی ہوتا ہے۔ (یہ سب فیصلے چونکہ حقیقت حال پر نہیں ، بلکہ ظاہر پر ہوتے ہیں ، اس لیے لازم نہیں ہوتا که ہر مومن اور کافر دنیا میں اپنے حقیقی انجام سے دوچار بھی ہو جائے۔)

❔ ساتویں دلیل

إلا أن تروا کفرًا بواحًا عندکم من اللّٰہ فیہ برہان.(مسلم، رقم ۴۷۷۱)
’’تم حکمرانوں سے اقتدار کے معاملے میں جھگڑا صرف اُس صورت میں کر سکتے ہو جب کوئی کھلا کفر اُن کی طرف سے دیکھو اور تمھارے پاس اس معاملے میں اللہ کی واضح حجت موجود ہو۔‘‘

یعنی، خروج تب تک نہیں ہو سکتا جب تک حکمرانوں کی تکفیر نہ کر دی جائے۔

✅ جواب

اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر نہ حکمرانوں کی تکفیر کرنے کی شرائط بتانا ہے اور نہ اُن کے خلاف کسی اِقدام یا خروج کرنے کا جواز بیان کرنا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اور صرف اُن کی اطاعت کے حدود بیان فرمائے ہیں۔ قرآن نے جب حکمرانوں کی اطاعت کا تقاضا کیا تو اُن کے بارے میں یہ لازم قرار دیا تھا کہ وہ خود بھی مسلمان ہوں، ’وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ‘ میں ’مِنْکُمْ‘ کے الفاظ اسی بات پر دلالت کرتے ہیں (النساء ۴: ۵۹) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیعت لیتے ہوئے یہ صراحت فرمائی کہ لوگ سنیں اور مانیں اور اِقتدار کے معاملے میں اُن سے کوئی جھگڑا نہ کریں، سواے اِس ایک صورت کے کہ وہ کھلے کفر کا ارتکاب کرنے لگیں اور اس طرح مسلمان ہونے کی حیثیت سے حاصل اپنی اطاعت کے حق سے محروم ہو جائیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہاں سرے سے یہ مسئلہ ہی زیر بحث نہیں ہے کہ لوگ کیا اُن کے خلاف خروج کر سکتے اور اس کے لیے اُنھیں کافر قرار دے سکتے ہیں، بلکہ صرف اور صرف اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی اطاعت کے کب تک پابند ہیں۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم حکمرانوں سے جھگڑو گے نہیں، سواے اس ایک صورت کے کہ وہ کھلا کفر کریں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ *تم اُن کی اطاعت ہی کرو گے اور ہرگز اُن سے جھگڑا نہ کرو گے، البتہ، اُن کی یہ اطاعت اُس وقت تک تم پر لازم رہے گی جب تک وہ کھلے کفر کا ارتکاب نہ کرنے لگیں* ۔
 

امن وسیم

محفلین
باب 4 : تکفیر کا جواز

ب- تکفیر کے حق میں دلائل
اور ان کا جواب


⏩۴- متفرق دلائل

❔ پہلی دلیل

سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انھوں نے اپنے دور خلافت میں مرتدین سے قتال کیا۔ ظاہر ہے، کچھ لوگوں کو مرتد قرار دے دینا، اصل میں اُن کی تکفیر کرنا ہی تھا۔

✅ جواب

اُس زمانے کے مخصوص حالات اور ارتداد کے موقع پر کی گئی خلیفۂ رسول کی گفتگو اگر سامنے رکھی جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ صحابہ کے اس اِقدام کا بھی تکفیر کی بحث سے کوئی تعلق نہیں۔
سورۂ توبہ میں اُن مشرکین کے لیے جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت ہو چکا تھا، ایک خدائی عذاب کا اعلان ہوا ہے۔ فرمایا ہے کہ اس طرح کے تمام لوگوں کو ایک مخصوص مدت کے گزر جانے کے بعد قتل کر دیا جائے، یہاں تک کہ وہ اپنے کفر سے باز آ جائیں اور اسلام کو قبول کر لیں اور اس کی شہادت میں نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام کریں۔ اس عذاب سے بچنے کی عملی صورت یہ ہوئی کہ اُنھوں نے کفر و شرک سے تائب ہونے اور اسلام کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور چونکہ اُس وقت مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حکومت قائم تھی، اس لیے یہ بھی اقرار کیا که وہ اپنی زکوٰۃ اسی حکومت کو ادا کریں گے۔ اُن سمیت سب پر یہ بات بھی بالکل واضح تھی کہ وہ اپنے جیتے جی اس عہد پر کاربند رہیں گے کہ اُن پر ہونے والا اتمام حجت اور اُس کے نتائج کچھ مدت کے لیے نہیں، بلکہ زندگی بھر کے لیے تھے۔ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو اس عہد کی رو سے اُن پر لازم تھا که وہ ایمان پر قائم رہیں، نماز ادا کرتے رہیں اور اپنی زکوٰۃ اب اُس نظم اجتماعی کو ادا کریں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت بالاتفاق منتقل ہو چکی تھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا اور بہت سے لوگوں نے اپنا عہد توڑ دیا۔ بعض نے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کو نبی مان لیا اور بعضوں نے یہ کیا که مرکز خلافت کو زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور اس طرح یہ دونوں گروہ مسلمانوں کے نزدیک مرتدین اور دوبارہ سے خدائی عذاب کے مستحق قرار پا گئے ۔ صحابہ کے اس فیصلے میں یہ اس عہد کی مرکزی حیثیت ہی تھی کہ بعض لوگوں نے جب یہ کہا که وہ ایمان پر قائم رہیں گے اور نماز و زکوٰۃ کا بھی اہتمام کریں گے، مگر اپنی زکوٰۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرکز خلافت کو ادا نہیں کریں گے تو اُنھیں بھی مرتد قرار دے کر اُن سے قتال کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس موقع پر سیدنا ابوبکر نے یہی وضاحت فرمائی: ’واللّٰہ لو منعوني من الزکاۃ عقالًا مما کان یاخذ منہم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقاتلتہم علیہ أبدًا‘۔ (کتاب الردۃ، واقدی ۵۲) *یہ لوگ اللہ کے رسول کو جو زکوٰۃ دیا کرتے تھے، اگر اُس میں سے ایک جانور بھی روک لیں گے تو میں اس پر اُن سے ضرور قتال کروں گا* ۔ اس تفصیل سے غرض یہ ہے کہ *صحابۂ کرام نے اُن سے قتال محض اس لیے نہیں کیا که وہ لوگ اسلام اور اُس کے احکام چھوڑ کر مرتد ہو گئے تھے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ اپنی عہد شکنی سے اُس امان سے محروم ہو گئے تھے جو خدا کے عذاب کے مقابلے میں اُنھیں حاصل ہوئی تھی* اور اس طرح وہ اپنی موجودہ حیثیت سے محروم ہو کر پہلی حیثیت میں آ گئے اور دوبارہ سے خدا کے عذاب کے حق دار ٹھیرا دیے گئے تھے۔ سو یہ اُس معنی میں کسی کو کافر قرار دے دینا نہیں تھا جس معنی میں ہم یہاں بحث کر رہے ہیں ، بلکہ یہ اُن لوگوں کو دوبارہ سے کافر قرار دے دینا تھا جو پہلے بھی کافر ہی تھے ، مگر رسول اللہ کی طرف سے اتمام حجت ہو جانے کے بعد ایک عہد کے نتیجہ میں مسلمان قرار پا گئے تھے ۔

❔ دوسری دلیل

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خوارج سے قتال کیا گیا۔

✅ جواب

خوارج مسلمانوں میں سے وہ حضرات تھے جو سب سے بڑھ کر اسلام کے دعوے دار اور نماز روزے کا نہایت سختی سے التزام کرنے والے تھے ، مگر ان کے فہم کی کجی تھی کہ حضرت علی کے خلاف خروج کر بیٹھے تھے۔ چنانچہ *اُن سے قتال اُنھیں مرتد یا کافر قرار دے کر نہیں ، بلکہ مسلمان سمجھتے ہوئے کیا گیا* ۔ اور یہی وجہ تھی کہ مرتدین کے برعکس، *مرنے والوں کے جنازے پڑھے گئے ، اُن کی عورتیں اور بچے غلام نہیں بنائے گئے* ، بلکہ جب تک وہ عملی اِقدام سے دور رہے، اُن سے کسی قسم کا تعرض بھی نہیں کیا گیا۔

❔ تیسری دلیل

جو لوگ ہمیں کافر قرار دیں ،اُنھیں محض اس وجہ سے کافر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ اسلام کا انکار کریں اور خود اپنے آپ کو کافر کہیں ، اُنھیں کافر کہنا بھی بالکل جائز ہونا چاہیے۔

✅ جواب

تکفیر اس لیے نہیں کی جاتی کہ کوئی ہماری تکفیر کر رہا ہے ، بلکہ اس کے کچھ بنیادی شرائط ہیں کہ جن کا پورا ہونا ازحد ضروری ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کم سے کم دوسروں کی تکفیر کرنا اس کی کوئی شرط نہیں ہے۔ بلکہ اس دلیل کی *اگر حقیقت دیکھی جائے تو یہ گالی کے جواب میں گالی دے دینا ہے* اور کچھ نہیں۔

جہاں تک اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو اِسلام کا انکار کریں اور خود اپنے آپ کو کافر کہیں ، انھیں کافر ضرور کہا جا سکتا ہے ، مگر یاد رہے یہ حقیقت میں انھیں کافر کہنا نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک نام ہے جو اُنھوں نے خود اپنے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ *آخر بہت سے لوگ اوٹ پٹانگ نام رکھ ہی لیا کرتے ہیں* ۔
 
Top