حزیں صدیقی کیا مِلا ذات سے جدا ہوکر۔۔۔ حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
کیا ملا ذات سے جدا ہوکر
کھو گیا ہوں ترا پتہ ہوکر

قگسِ رنگ سے رہا ہوکر
رہ گئی بوئے گل ہوا ہو کر

نقشِ حیرت بنادیا مجھ کو
ایک پتھر نے آئینہ ہوکر

آسماں تھا اور اب زمیں بھی نہیں
رہ گیا ہائے کیا سے کیا ہوکر

زندگی خواب ہے نہ افسانہ
یہ حقیقت کھلی فنا ہوکر

تیرگی سے لرز رہا ہے جنوں
مشعلِ جادہء وفا ہو کر

پھر وہی شام سر پہ آپہنچی
مطمئن تھا سحر نما ہو کر

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 
Top