کیا عورت مرد برابر ہیں؟

قیصرانی

لائبریرین
میں بتا دیتا ہوں، ببلیکل کے معنی ہے بائیبل ، کتابوں کی لائبریری۔
دوسری بات اگر آپ بانی ہیں تو اس میں ایک شرط عائد کردیں کہ یہاں بالکل اسلام اور پاکستان کی بات نہیں ہوگی صرف شعر و شاعری اور دیگر متفرقات۔
جو بھی ہوگی صرف اور صرف سیکولر لوگوں کی باتیں مسلمانوں کو جنگ دھکیل کی باتیں نہیں ہونگی 8 سو سال تک مسلمانوں نے برصغیر کی خدمت کی ہے
جب ان لوگوں نے کسی غیر قوم کو خطرہ قرار نہیں دیا تو انگریزوں کے آتے ہی اس خطے میں یہ تعصب کیسے ہوگیا۔
اس وقت ایسے لوگ ہوتے کہ گھر گھر جاکر تلواروں کے زوروں پر لوگوں کو کہتے مسلمان ہوجاؤ ورنہ قتل ہو جاؤگے جسطرح عیساؤں نے اسپین میں گن گن کر مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے چھوڑے آثار ختم کیے اسی طرح۔
جی، ان 800 سال کی یادگاریں ہمیں جا بجا لال قلعہ، بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، بارہ دری جیسی عمارات تک ہی ملتی ہیں۔ دین کی کتنی خدمت ہوئی ہے، وہ ہر مسلمان بادشاہ کے ذاتی کردار کا مطالعہ کر کے جان سکتے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کو سب سے نیک اور متقی بادشاہ مانا گیا ہے حالانکہ اسلام میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں ہے (اگر ہے تو میرے علم میں اضافہ کر دیں) اور یہ سب سے نیک اور متقی حکمران اپنے تمام بھائیوں کو قتل کر کے بادشاہ بنتا ہے :)
 

زیک

مسافر
اورنگ زیب عالمگیر کو سب سے نیک اور متقی بادشاہ مانا گیا ہے حالانکہ اسلام میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں ہے (اگر ہے تو میرے علم میں اضافہ کر دیں) اور یہ سب سے نیک اور متقی حکمران اپنے تمام بھائیوں کو قتل کر کے بادشاہ بنتا ہے :)
باپ کی قید تو آپ بھول ہی گئے۔
 

ظفری

لائبریرین
3-5-2014_12393_1.gif


:thinking:
 
اگر اس میں بڑا مسئلہ ہے تو اپنے قریب ہی کوئی عالم جو قرآن و حدیث کا علم رکھتا ہو اس سے پوچھ لیا جائے ، میرا مشورہ یہی ہے
تاکہ ہمارے دماغ میں جو باتیں نہیں سمارہی اسکا ادراک ہوجائے۔
کون سے عالم؟ جب سب کچھ واضع ہو تو پھر کس عالم سے کیا پوچھا جائے۔ان تفرقہ باز عالموں سے جو ہر معمولی معمولی بات میں تفرقہ بنادیتے ہیں؟
 
بات بالکل صحیح میں بھی یہی کہتا چاہ رہا ہوں کہ " عزت والے عرش کے رب نے کیا نازل کیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سنایا اور عمل کیا"
اس میں ذرا برابر کی بھی ملاوٹ اللہ کو قبول نہیں۔ انتھی۔
آپ سے کس نے کہا ہے ملاوٹ کرے کے لئے۔۔۔
 
بالکل ٹھیک کہا آپ نے سر جی
حقوق مساوی ہیں تو پھر برابری کا کیا سوال
ہاں جو زیادتی ہے اس کے خلاف آواز اٹھائی جانی چاہیئے
چاہے مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے

حقوق اور فرائض دونوں غیر مساوی ہیں۔
ہاں زیادتی یا ظلم کسی کی طرف سے ہوآواز اٹھانی چاہیے۔ سب جانتے ہیں (کم ازکم تمام شوہر) کہ ظلم عورت کی طرف سے ہی ہوتا ہے
 
میرا خیال ہے کہ مرد تاحال اپنی حاکمیت کے غلط تصور سے نجات حاصل نہیں کرسکا ۔ اگر کہیں ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تو ایسے کالم وجود میں آتے ہیں ۔ :)
گُل نوخیز اختر ایک مزاح نگار ہے ۔ اس نے جس پیرائے میں اس موضوع کو تختہِ مشق بنایا ہے ۔ اس کے برعکس کچھ صاحبان نے اس کو اپنی مذہبی اصطلاح کی آڑ میں لے لیا ہے ۔
یہ بات بلکل واضع ہے کہ اللہ نے اس دنیا میں جو بھی مخلوقات پیدا کی ہے ۔ ان کے درمیان مزاج ، عادت ، صلاحیت ، جبلت اور جسمانی ساخت کے لحاظ سے فرق رکھا ہے ۔ انسان کی حیثیت سے عورت اور مرد بلکل برابر ہیں ۔ ( یا کسی کو شک ہے ) ۔ :)
قرآن نے صاف لفظوں میں مرد و عورت کو آدم و حوا کی اولاد قرار دیا ہے ۔ نیز یہ بھی بتایا کہ " ہم نے تم کو نفسِ واحدیہ سے پیدا کیا اور اُسی سے تمہارا جوڑا بنایا ۔ لہذا اس بنیاد پر کوئی فرق مرد و عورت کے مابین نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن یہ بات بھی واضع ہے کہ اپنی عادت ، طبعیت ، مزاج اور جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے " مختلف " ہے ۔ ۔ یہاں کوئی کمتر اور کمزور ہونا زیرِ بحث نہیں ہے ۔ بلکہ مختلف ہونا زیرِ بحث ہے ۔ جب وہ مختلف ہے تو بعض احکام میں بھی اختلاف ( فرق ) رہے گا ۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ جبلتی کیفیتوں میں بھی بہت فرق ہے ۔ جنسی اور نفسیاتی بنیاد پر بھی یہ فرق پایا جاتا ہے ۔ سو یہ ایک اختلاف ( فرق) ہے ۔ اور اس فرق کے بارے میں بھی قرآن مجید نے یہ بات واضع کی ہے کہ ان میں سے ہر چیز پر ہر صنف کو فخر کرنا چاہیئے ۔ یعنی اللہ نے جس میں اسے بنایا ہے اُسی میں اس کے لیئے فضلیت کے بہت سے مواقع ہیں ۔ یہاں کمتری اور برتری کسی بھی طور پر زیرِ بحث ہی نہیں ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عورت و مرد پیدا ہو رہے ہیں ۔ ان کے درمیان بھی یہ فرق یا اختلاف اپنی اپنی فضلیت کی بنیاد پر بہت واضع ہے ۔ مردوں میں کوئی شاعر ہے ، کوئی ادیب ہے تو کوئی سائنٹیس ہے ، کسی کو قیادت کی صلاحیت بخشی ہے ، کسی کو چیزوں کو سمجھنے کی بے انتہا صلاحیت بخشی ہے ۔۔ کوئی مہیز محنت کش ہے ۔ سو یہ فرق مردوں میں بھی بہت واضع ہے ۔ اسی طرح عورتوں کو دیکھ لیں تو ہمیں بھی یہ اختلاف وہاں بھی صاف نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کائنات میں جو حسن پیدا کیا ہے وہ اختلاف اور تنوع سے کیا ہے ۔ اگر کوئی اس بات کا انکار کرتا ہے تو ایک واضع اور حقیقی بات کا انکار کررہا ہے ۔
اب اگلا مرحلہ وہ ہے جہاں سے حسبِ معمول غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہے ۔ :)
یعنی شریعت ۔۔۔ کہ اللہ تعالی نے وہاں کیا فرق رکھا ہے ۔ ہمیں اللہ نے جو شریعت دی ہے ۔ وہ فرقِ مراتب پر مبنی ہے ۔ یعنی خاندان کی بنیاد پر اللہ نے جو نظم قائم کیا ہے اس میں فرقِ مراتب کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔ مثال کے طور پر انہی انسانوںمیں سے جب ہم کسی کو اپنا حکمران بنا لیتے ہیں تو یہ یہاں ایک مرتبہ کا فرق واقع ہوجاتا ہے ۔ انہی انسانوں میں سے کسی کو جب ہم اپنا استاد قرار دیکر اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو اس کی اور ہماری خلقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا مگر مرتبہ کا فرق نمایاں ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح والدین اور اولاد میں بھی یہ فرق فضلیت کے اعتبار سے واضع ہے ۔ جن قرآنی آیتیوں کا ذکر عورت و مرد کے درمیان فرق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ وہاں یہی فرقِ مراتب بیان کیا گیا ہے ۔ عورت اور مرد کے درمیان قوام اور غیر قوام کا کوئی رشتہ نہیں قائم کیا گیا ۔ جب ایک مرد اور عورت یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب ان کو بیوی اور شوہر بن کر رہنا ہے ۔ تو بیوی اور شوہر کے درمیان یہ فرقِ مراتب قائم کیا گیا ہے ۔ جس کو عموما لوگ مرد کی فضلیت سے گردانتے ہیں ۔ جب یہی بیوی ماں بنتی ہے تو یہاں بھی اللہ نے فرقِ مراتب وضع کیا ہے کہ ماں کو اپنی اولاد پر ایک درجے فضلیت حاصل ہے ۔خواہ اس کی اولاد مرد ہی کیوں نہ ہو ۔
دوسرا معاملہ تادیب کا ہے ۔ یعنی باپ بڑی عمر کو پہنچ جائے اور وہ اپنے بیٹے کو تادیب کرے تو حفظِ مراتب کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے شرافت اسی کو سمجھا جاتا ہے کہ آدمی اس کو قبول کرے ۔ بلکل یہی معاملہ فضلیت کے اعتبار سے " بیوی اور شوہر " کے درمیان بھی ہے ۔ یہ وہ تعلقات ہیں جن کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے احکامات دیئے ہیں ۔ نہ کہ عورت و مرد کے درمیان کوئی فرق روا رکھا ہے ۔ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو ماں اور اولاد کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا ۔
شوہر کی حیثیت سے مرد کو بیوی پر ایک درجے فضلیت دی گئی کہ خاندان کا ادارہ مضبوط ہوسکے ۔ پھر وہی شوہر اور بیوی ، ماں باپ بنتے ہیں تو اولاد پر ان کو ایک درجے فضلیت حاصل ہوجاتی ہے کہ ادارے ( خاندان ) کو استحکام میسر آئے ۔ یہی حسن معاشرت ہے ۔ اور انہی اولادوں میں سے جب کوئی حکمران بنتا ہے تو اسے درجے کی فضلیت کے اعتبار سے تادیب کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔کیونکہ اس کے بغیر دنیا کا نظم نہیں چل سکتا ہے ۔
عورت و مرد میں تفریق مراتب کے فرق کی بنیاد پر رکھی گئی ہے ۔ اور یہی ہمارے معاشرے کی اساس ہے ۔ مغربی تہذیب کے بے انتہا غلبے کے باوجود ہمیں اس پر ڈٹ جانا چاہیئے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے ۔ جس دن باپ اور بیٹے ، حکمران اور رعایا اور بیوی اور شوہر کے درمیان یہ فرقِ مراتب قائم نہیں رہے گا تو خاندان ختم ہوجائیں گے اور معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے گا ۔
ظفری توتو بہت ہی کنفوژڈ ہے
یہ یہاں بھی چھاپ دیا۔
چلو بقیہ جواب یہاں ہی دے دیتا ہوں
اب اگلا مرحلہ وہ ہے جہاں سے حسبِ معمول غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہے ۔ :)
یعنی شریعت ۔۔۔ کہ اللہ تعالی نے وہاں کیا فرق رکھا ہے ۔ ہمیں اللہ نے جو شریعت دی ہے ۔ وہ فرقِ مراتب پر مبنی ہے ۔ یعنی خاندان کی بنیاد پر اللہ نے جو نظم قائم کیا ہے اس میں فرقِ مراتب کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔ مثال کے طور پر انہی انسانوںمیں سے جب ہم کسی کو اپنا حکمران بنا لیتے ہیں تو یہ یہاں ایک مرتبہ کا فرق واقع ہوجاتا ہے ۔ انہی انسانوں میں سے کسی کو جب ہم اپنا استاد قرار دیکر اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو اس کی اور ہماری خلقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا مگر مرتبہ کا فرق نمایاں ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح والدین اور اولاد میں بھی یہ فرق فضلیت کے اعتبار سے واضع ہے ۔ جن قرآنی آیتیوں کا ذکر عورت و مرد کے درمیان فرق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ وہاں یہی فرقِ مراتب بیان کیا گیا ہے ۔ عورت اور مرد کے درمیان قوام اور غیر قوام کا کوئی رشتہ نہیں قائم کیا گیا ۔ جب ایک مرد اور عورت یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب ان کو بیوی اور شوہر بن کر رہنا ہے ۔ تو بیوی اور شوہر کے درمیان یہ فرقِ مراتب قائم کیا گیا ہے ۔ جس کو عموما لوگ مرد کی فضلیت سے گردانتے ہیں ۔ جب یہی بیوی ماں بنتی ہے تو یہاں بھی اللہ نے فرقِ مراتب وضع کیا ہے کہ ماں کو اپنی اولاد پر ایک درجے فضلیت حاصل ہے ۔خواہ اس کی اولاد مرد ہی کیوں نہ ہو ۔
بات فضیلت کی نہیں ہورہی ۔ یہ بات یقینی ہے کہ مراتب میں عورت یعنی ماں افضل ہے مرد یعنی باپ سے۔
بات ہورہی ہے جسمانی ، ذہنی، نفسیاتی فرق کی۔ جو باپ اور ماں میں پایا جاتا ہے۔ جو شوہر اور بیوی میں پایا جاتا ہے۔ انہی وجہ سے ان دونوں کے حقوق اور فرض تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ انہی حقوق اور فرائض کو ادا کرنے کی وجہ سے ایک معاشرہ وجود میں اتا ہے۔ جب یہ فرائض اور حقوق ایک جیسے کردیے جائیں تو ایک دوسرے قمسم کا معاشرہ وجود میں اتا ہے۔ ظاہر ہے مختلف جسمانی اور ذہنی ساخت کی وجہ سے یہ معاشرہ بالاخر عورت کا بدترین استحصال کرتا ہے۔



دوسرا معاملہ تادیب کا ہے ۔ یعنی باپ بڑی عمر کو پہنچ جائے اور وہ اپنے بیٹے کو تادیب کرے تو حفظِ مراتب کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے شرافت اسی کو سمجھا جاتا ہے کہ آدمی اس کو قبول کرے ۔ بلکل یہی معاملہ فضلیت کے اعتبار سے " بیوی اور شوہر " کے درمیان بھی ہے ۔ یہ وہ تعلقات ہیں جن کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے احکامات دیئے ہیں ۔ نہ کہ عورت و مرد کے درمیان کوئی فرق روا رکھا ہے ۔ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو ماں اور اولاد کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا ۔
شوہر کی حیثیت سے مرد کو بیوی پر ایک درجے فضلیت دی گئی کہ خاندان کا ادارہ مضبوط ہوسکے ۔ پھر وہی شوہر اور بیوی ، ماں باپ بنتے ہیں تو اولاد پر ان کو ایک درجے فضلیت حاصل ہوجاتی ہے کہ ادارے ( خاندان ) کو استحکام میسر آئے ۔ یہی حسن معاشرت ہے ۔ اور انہی اولادوں میں سے جب کوئی حکمران بنتا ہے تو اسے درجے کی فضلیت کے اعتبار سے تادیب کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔کیونکہ اس کے بغیر دنیا کا نظم نہیں چل سکتا ہے ۔
عورت و مرد میں تفریق مراتب کے فرق کی بنیاد پر رکھی گئی ہے ۔ اور یہی ہمارے معاشرے کی اساس ہے ۔ مغربی تہذیب کے بے انتہا غلبے کے باوجود ہمیں اس پر ڈٹ جانا چاہیئے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے ۔ جس دن باپ اور بیٹے ، حکمران اور رعایا اور بیوی اور شوہر کے درمیان یہ فرقِ مراتب قائم نہیں رہے گا تو خاندان ختم ہوجائیں گے اور معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے گا ۔
فضیلت کا فلسفہ کی الگ بحث ہے۔
معاشرے کے دو بنیادی اکائیوں میں فرق موجود ہے۔ یعنی عورت اور مرد میں۔ جب فرق ہے تو پہلے فرق حقوق اور فرائض کا ائے گا۔
دراصل حقوق اور فرائض کی بنیاد پر ہی فضلیت کا جواز ہے۔ جب ایک حکمران افضل ہوجاتا ہے کیوںکہ وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ جو جتنے زیادہ حقوق ادا کرے گا یا فرض پورا کرے گا وہی افضل ہے۔
جب مرد اور عورت کے حقوق اور فرائض ایک جیسے ہوجاویں تو لامحالہ مرد افضل ہو جاوے گا کیونکہ اپنی ساخت کی بنا پر وہ یہ زیادہ بہتر طور پر کرسکتا ہے۔ جب حقوق اور فرائض مختلف ہوجاویں تو پھر عورت بھی اپنے فرائض اور حقوق پورے کرپائے گی بہتر طور پر۔ یہاں مرد اور عورت کی افضلیت کے برابر ہونے کا امکان ہے۔ مغرب کی تہذیب لامحالہ عورت کا استحصال ہی کرے گی۔ چاہے ظاہری طور پر کچھ نظر اتا رہے۔ اس معاملہ کو اپنے ذہن میں واضح کرلو کہ برابری کا معاملہ جب ہی ہوگا جب فرائض مختلف ہوجاویں
 
آپ لوگوں کے پرزور اصرار پر میں یقین کر لیتا ہوں کہ اسلام میں مرد عورت برابر نہیں ہیں۔

ہر کچھ عرصے بعد محفل کے مرد دنیا کو یہی باور کراتے نظر آتے ہیں

حقیقتا مرد اور عورت برابر نہیں ہیں
برابری جب اتی ہے جب فرائض اور حقوق میں فرق ہو
 
ظفری
تھماری سمجھ کے لیے میں نے دونوں جگہ کے جواب ادھر جمع کردیے ہیں۔ اک دو دن لگانا شاید کچھ سمجھ اوے۔ انشاللہ

اسے کہتے ہیں ٹوٹل کنفوژن۔ اندازہ تو تھا کہ ظفری کنفیوژڈ ہے پر اتنا ہے معلوم نہ تھا
چلو سمجھاتا ہوں
ظاہر ہے مرد اور عورت انسان ہی ہیں۔ یہ بات بلکل موضوع سے الگ ہے اور صرف ذہنی الجھاو کی ظاہرکرتی ہے کہ مرد اورعورت کے انسان ہونے پر بات کی جاوے۔
البتہ فرق ہے جو تم نے یہاں تسلیم کرہی لیا ہے
دیکھو اگر ذہنی، جسمانی، نفسیای بنیاد پر فرق ہے تو لازم ہے کہ دونوں جنس میں فرق ہے اور ان کے کام مختلف ہیں۔
کچھ معاملات میں عورت بہتر ہے اور کچھ میں کمتر
کچھ میں مرد بہتر ہے اور کچھ میں کمتر
مثلا مرد بچہ نہیں جن سکتا ۔ اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ بچہ جنے یا حاملہ ہو-عورت اس معاملہ میں برتر ہے۔ اسی طرح عورت اپنے جذبات پر قابو رکھنے میں دشواری کا سامنا کرتی ہے اور مرد اس معاملے میں بہترہے۔
ایک ہی صنفت میں تنوع ہونا اور دو اصناف میں فرق دو الگ باتیں ہیں :)
جاری


اب اگلا مرحلہ وہ ہے جہاں سے حسبِ معمول غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہے ۔ :)
یعنی شریعت ۔۔۔ کہ اللہ تعالی نے وہاں کیا فرق رکھا ہے ۔ ہمیں اللہ نے جو شریعت دی ہے ۔ وہ فرقِ مراتب پر مبنی ہے ۔ یعنی خاندان کی بنیاد پر اللہ نے جو نظم قائم کیا ہے اس میں فرقِ مراتب کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔ مثال کے طور پر انہی انسانوںمیں سے جب ہم کسی کو اپنا حکمران بنا لیتے ہیں تو یہ یہاں ایک مرتبہ کا فرق واقع ہوجاتا ہے ۔ انہی انسانوں میں سے کسی کو جب ہم اپنا استاد قرار دیکر اس کے پاس تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو اس کی اور ہماری خلقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا مگر مرتبہ کا فرق نمایاں ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح والدین اور اولاد میں بھی یہ فرق فضلیت کے اعتبار سے واضع ہے ۔ جن قرآنی آیتیوں کا ذکر عورت و مرد کے درمیان فرق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ وہاں یہی فرقِ مراتب بیان کیا گیا ہے ۔ عورت اور مرد کے درمیان قوام اور غیر قوام کا کوئی رشتہ نہیں قائم کیا گیا ۔ جب ایک مرد اور عورت یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب ان کو بیوی اور شوہر بن کر رہنا ہے ۔ تو بیوی اور شوہر کے درمیان یہ فرقِ مراتب قائم کیا گیا ہے ۔ جس کو عموما لوگ مرد کی فضلیت سے گردانتے ہیں ۔ جب یہی بیوی ماں بنتی ہے تو یہاں بھی اللہ نے فرقِ مراتب وضع کیا ہے کہ ماں کو اپنی اولاد پر ایک درجے فضلیت حاصل ہے ۔خواہ اس کی اولاد مرد ہی کیوں نہ ہو ۔
مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔
بات فضیلت کی نہیں ہورہی ۔ یہ بات یقینی ہے کہ مراتب میں عورت یعنی ماں افضل ہے مرد یعنی باپ سے۔
بات ہورہی ہے جسمانی ، ذہنی، نفسیاتی فرق کی۔ جو باپ اور ماں میں پایا جاتا ہے۔ جو شوہر اور بیوی میں پایا جاتا ہے۔ انہی وجہ سے ان دونوں کے حقوق اور فرض تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ انہی حقوق اور فرائض کو ادا کرنے کی وجہ سے ایک معاشرہ وجود میں اتا ہے۔ جب یہ فرائض اور حقوق ایک جیسے کردیے جائیں تو ایک دوسرے قمسم کا معاشرہ وجود میں اتا ہے۔ ظاہر ہے مختلف جسمانی اور ذہنی ساخت کی وجہ سے یہ معاشرہ بالاخر عورت کا بدترین استحصال کرتا ہے۔


دوسرا معاملہ تادیب کا ہے ۔ یعنی باپ بڑی عمر کو پہنچ جائے اور وہ اپنے بیٹے کو تادیب کرے تو حفظِ مراتب کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے شرافت اسی کو سمجھا جاتا ہے کہ آدمی اس کو قبول کرے ۔ بلکل یہی معاملہ فضلیت کے اعتبار سے " بیوی اور شوہر " کے درمیان بھی ہے ۔ یہ وہ تعلقات ہیں جن کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے احکامات دیئے ہیں ۔ نہ کہ عورت و مرد کے درمیان کوئی فرق روا رکھا ہے ۔ اگر ایسا معاملہ ہوتا تو ماں اور اولاد کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا ۔
شوہر کی حیثیت سے مرد کو بیوی پر ایک درجے فضلیت دی گئی کہ خاندان کا ادارہ مضبوط ہوسکے ۔ پھر وہی شوہر اور بیوی ، ماں باپ بنتے ہیں تو اولاد پر ان کو ایک درجے فضلیت حاصل ہوجاتی ہے کہ ادارے ( خاندان ) کو استحکام میسر آئے ۔ یہی حسن معاشرت ہے ۔ اور انہی اولادوں میں سے جب کوئی حکمران بنتا ہے تو اسے درجے کی فضلیت کے اعتبار سے تادیب کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔کیونکہ اس کے بغیر دنیا کا نظم نہیں چل سکتا ہے ۔
عورت و مرد میں تفریق مراتب کے فرق کی بنیاد پر رکھی گئی ہے ۔ اور یہی ہمارے معاشرے کی اساس ہے ۔ مغربی تہذیب کے بے انتہا غلبے کے باوجود ہمیں اس پر ڈٹ جانا چاہیئے کہ یہ وہ مقام ہے جس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے ۔ جس دن باپ اور بیٹے ، حکمران اور رعایا اور بیوی اور شوہر کے درمیان یہ فرقِ مراتب قائم نہیں رہے گا تو خاندان ختم ہوجائیں گے اور معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے گا ۔
مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔
فضیلت کا فلسفہ کی الگ بحث ہے۔
معاشرے کے دو بنیادی اکائیوں میں فرق موجود ہے۔ یعنی عورت اور مرد میں۔ جب فرق ہے تو پہلے فرق حقوق اور فرائض کا ائے گا۔
دراصل حقوق اور فرائض کی بنیاد پر ہی فضلیت کا جواز ہے۔ جب ایک حکمران افضل ہوجاتا ہے کیوںکہ وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ جو جتنے زیادہ حقوق ادا کرے گا یا فرض پورا کرے گا وہی افضل ہے۔
جب مرد اور عورت کے حقوق اور فرائض ایک جیسے ہوجاویں تو لامحالہ مرد افضل ہو جاوے گا کیونکہ اپنی ساخت کی بنا پر وہ یہ زیادہ بہتر طور پر کرسکتا ہے۔ جب حقوق اور فرائض مختلف ہوجاویں تو پھر عورت بھی اپنے فرائض اور حقوق پورے کرپائے گی بہتر طور پر۔ یہاں مرد اور عورت کی افضلیت کے برابر ہونے کا امکان ہے۔ مغرب کی تہذیب لامحالہ عورت کا استحصال ہی کرے گی۔ چاہے ظاہری طور پر کچھ نظر اتا رہے۔ اس معاملہ کو اپنے ذہن میں واضح کرلو کہ برابری کا معاملہ جب ہی ہوگا جب فرائض مختلف ہوجاویں​
 
مرد اور عورت میں برابری کا سوال ہی غلط ہے۔ یا تو یہ بحث کی جائے کہ کس بات میں برابر ہیں؟
مثال کے طور پر،
  • تقویٰ میں
  • قوت برداشت میں
  • قوتِ فیصلہ میں
  • گھریلو کام کاج میں
  • وراثت میں
  • گواہی میں
  • وغیرہ وغیرہ
یہ بحث دراصل ہماری انسانی کمزوری ہے کہ ہم مقابلہ کرتے ہیں ہر چیز میں۔
عورت اور مرد بحیثیت میاں بیوی ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ایک دوسرے سے کم کوئی نہیں ہے

1=1+1
0=2-1
 
دراصل مرد اور عورت کی برابری کی باتیں معاشرے کے بگاڑ کا ایک سبب ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اور بعد میں جب یورپ اور امریکہ کے مرد جنگ کی وجہ سے گھر سے دور رہے اور ایک بڑی تعداد میں مارے گئے۔ جس کی وجہ سے عورت کو گھر سے نکلنا پڑا - اس زمانے میں ہی گھرانہ کے ان دو اکائیوں میں مسائل پیدا ہوئے - یہی دور تھا جب سرمایہ دار نے ہر مرد و زن کو کارخانے کا ایندھن بنایا تاکہ اس کے منافع میں وسعت پیدا ہوتی رہے۔

جب عورت اور مرد کے فرائض اور حقوق کو ایک سمجھا جائے تو ان دونوں اصناف میں موافقت ختم ہوجاتی ہے اور بالاخر بات شادی اور گھر کے ادارے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی بات ہے جو ہم جنس پرستی کی اصل ہے۔
 
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا 34؀

مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔ اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو تو ان کو (پہلے تو) نصیحت کرو،پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو اور پھر (عند الضرورت) انہیں بدنی سزا بھی دو۔ پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کوئی حجت تلاش نہ کرو۔ یقیناً اللہ بہت بلند (اور) بہت بڑا ہے۔

اس آیت اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِکو ہم مرد حضرات خواتین سے برتر ہونے کے لئے پیش کرتے ہیں ،جبکہ اس میں برتری یا کمتری کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔یہ تو ایک اچھی گھریلو زندگی گزارنے کا اصول بیان کیا گیا ہے۔گھر ایک ادارہ ہے اور اگر گھر میں ایک مرد اس قابل موجود ہے تو وہ اس ادارہ کا سربراہ اور ذمہ دار ہوگا۔
 
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا 34؀

مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔ اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو تو ان کو (پہلے تو) نصیحت کرو،پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو اور پھر (عند الضرورت) انہیں بدنی سزا بھی دو۔ پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کوئی حجت تلاش نہ کرو۔ یقیناً اللہ بہت بلند (اور) بہت بڑا ہے۔

اس آیت اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِکو ہم مرد حضرات خواتین سے برتر ہونے کے لئے پیش کرتے ہیں ،جبکہ اس میں برتری یا کمتری کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔یہ تو ایک اچھی گھریلو زندگی گزارنے کا اصول بیان کیا گیا ہے۔گھر ایک ادارہ ہے اور اگر گھر میں ایک مرد اس قابل موجود ہے تو وہ اس ادارہ کا سربراہ اور ذمہ دار ہوگا۔

دیکھیے مرد اگر عورت سے افضل ہیں اس وجہ سے کہ اپنے اموال ان پر خرچ کرتے ہیں۔

اگر ذرا غور کریں گے تو بات سمجھ میں اجائی گی کہ افضلیت اس بات پر ہے کہ اپنے فرائض پورے کرتے ہیں۔ یعنی اموال خرچ کرتے ہیں۔ اگر مرد اور عورت کے فرائض اور حقوق ایک ہوں تو غالب امکان ہے کہ مرد ہر معاملہ میں افضل ہی رہے گا۔مگر چونکہ فرائض اور حقوق الگ ہیں لہذا مرد اور عورت میں برابری ممکن ہے افصلیت میں بھی

یہاں کمتری اور بہتری کی بات نہیں کررہا ۔ بلکہ مرد اور عورت کے فرائض اور حقوق میں فرق کرنا مقصود ہے۔ یہی بنیاد ہے ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں۔
 
دیکھیے مرد اگر عورت سے افضل ہیں اس وجہ سے کہ اپنے اموال ان پر خرچ کرتے ہیں۔

اگر ذرا غور کریں گے تو بات سمجھ میں اجائی گی کہ افضلیت اس بات پر ہے کہ اپنے فرائض پورے کرتے ہیں۔ یعنی اموال خرچ کرتے ہیں۔ اگر مرد اور عورت کے فرائض اور حقوق ایک ہوں تو غالب امکان ہے کہ مرد ہر معاملہ میں افضل ہی رہے گا۔مگر چونکہ فرائض اور حقوق الگ ہیں لہذا مرد اور عورت میں برابری ممکن ہے افصلیت میں بھی

یہاں کمتری اور بہتری کی بات نہیں کررہا ۔ بلکہ مرد اور عورت کے فرائض اور حقوق میں فرق کرنا مقصود ہے۔ یہی بنیاد ہے ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں۔
افضل نہیں نگران اور افضلیت تقویٰ کے ساتھ فرائض پورے کرنا ہے مرد ہونا افضل نہیں
 
Top