کیا عالمی چیمپئن کا فیصلہ ٹاس پر ہوگا؟

حسیب

محفلین
سب سے پہلے 30 مارچ کو بھارت-آسٹریلیا مقابلے میں آسٹریلیا 160 رنز کے تعاقب میں صرف 86 رنز پر ڈھیر ہوا جبکہ اگلے ہی دن انگلستان نیدرلینڈز جیسے کمزور حریف کے خلاف 134 رنز کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس کی اننگز صرف 88 رنز پر تمام ہوئی۔ مزید تشویشناک بات یہ کہ 'کوارٹر فائنل' نما دونوں مقابلے، جن کے بارے میں توقع تھی کہ انتہائی سنسنی خیز ہوں گے، ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوئے۔ پہلے نیوزی لینڈ سری لنکا کے خلاف 120 رنز کے تعاقب میں 60 پر ڈھیر ہوا اور پھر پاکستان 166 رنز کے پیچھے دوڑتے ہوئے 82 رنز پر منہ کے بل گر گیا۔

یعنی کہ تین دن کے مختصر وقفے میں چار بہترین ٹیموں کے بلے باز سر دھڑ کی بازی لگا کر بھی ٹیم کو تہرے ہندسے میں نہ پہنچا سکے۔ آخر کیوں؟ یہ سوال ایسا ہے جو اب کافی ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔ یہ بات بجا کہ پاکستان کے بیٹسمین ہدف کے تعاقب میں کمزور ہیں اور ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی اور ڈیوین براوو کے 'بلّا چارج ' کے بعد نفسیاتی دباؤ میں آ گئے لیکن نیوزی لینڈ کو تو ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں تھا وہ تو صرف 120 رنز کے ہدف کا تعاقب کررہا تھا اور ٹورنامنٹ میں اب تک ان کی کارکردگی بہت ہی شاندار رہی تھی۔ پھر نیدرلینڈز کے خلاف انگلستان کے ان بلے بازوں کا آل آؤٹ ہوجانا بھی سمجھ سے بالاتر ہے جنہوں نے سری لنکا کے خلاف 192 رنز کا ریکارڈ ہدف حاصل کیا تھا۔ آسٹریلیا جو پاکستان کے مقابلے میں آخری لمحے تک ڈٹا رہا، بھارت کے خلاف محض 86 رنز پر کیسے آؤٹ ہو گیا۔

دراصل اتنے بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی صرف دو میدانوں کو سونپی گئی۔ ایک ظہور احمد چودھری اسٹیڈیم، چٹاگانگ اور دوسرا شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم، میرپور، ڈھاکہ ۔ ان میدانوں میں بنائی گئی پچوں کو بارہا استعمال کیا گیا اور ان کی حالت ایسی ہوچکی ہے کہ معمولی مرمت کے بعد انہیں کھیلنے کے قابل تو بنا دیا جاتا ہے لیکن جب دوسری اننگز شروع ہوتی ہے تو ہدف کا تعاقب کرنے والے بلے بازوں کے لیے وہ بارودی سرنگوں سے اٹا ہوا میدان بن جاتی ہیں۔ پاکستان کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلستان اتنے کم درجے کی ٹیمیں نہیں کہ 100 رنز کے معمولی ہندسے کو بھی نہ پہنچ پائیں۔ ایک ٹیم کے ساتھ ایسا ہوتا تو سمجھ میں بھی آتا لیکن تین دن میں چار ٹیموں کے ساتھ یہ "حادثہ" ہوجانا حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ بات تو واقعی ٹھیک ہے کہ اس بار "کنڈیشنز" کی وجہ سے بہت سارے میچ خراب ہو گئے۔ یعنی اکثر میچز میں کسی ایک ٹیم کو undue favor ملا اور نتائج اثر انداز ہوئے۔
 

حسیب

محفلین
پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی تقریبا یہی صورتحال تھی جو ٹیم پہلے بیٹنگ کرتی تھی 60 سے 70 فیصد میچ اُس کے ہاتھ میں ہوتا تھا
 
Top