حزیں صدیقی کیا دھوم آزمائشِ دارو رسن کی تھی

مہ جبین

محفلین
کیا دھوم آزمائشِ دارو رسن کی تھی
بات ایک ضربِ نعرہء باطل شکن کی تھی

اک خوابِ دل نشیں پہ حقیقت کا تھا گماں
شاید وہ چھوٹ تیرے حسیں بانکپن کی تھی

تو میرے آس پاس ہے محسوس یہ ہوا
خوشبو ہوا میں رات ترے پیرہن کی تھی

چمکی تھی جس سے میرے حریفوں کی انجمن
وہ روشنی بھی میرے چراغِ سخن کی تھی

دامن میں بڑھ کے ابرِ شفق نے چھپالیا
سورج کی لاش کو بھی ضرورت کفن کی تھی

حزیں صدیقی
 
Top