کیا خدا ہماری قسمت لکھتا ہے؟؟؟

آپ کی طرح کئی لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال ہوتا ہے کہ اگر خدا ہی ہر چیز کرتا ہے اور خدا ہی ہے جو میری زندگی میں ہونے والی تمام چیزوں کے فیصلے کرتا ہے تو پھر میرے پاس عمل کا انتخاب کہاں ہے؟ میری زندگی تو اُس کے کیے ہوئے فیصلوں کی پابند ہے۔ اگر میری زندگی میں ہونے والی تمام تر پریشانیاں اور مسائل خدا کی طرف سے ہوں تو پھر میرے پاس اُن سے نمٹنے اور انھیں حل کرنے کے لیے کیا انتخاب ہو گا۔جب سب کچھ کا فیصلہ میرے لیےخدا ہی کرتا ہے تو پھر میں اپنی قسمت کیسے بنا سکتا ہوں۔
بچپن سے ہم یہ سنتے آرہے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اور ہو رہا ہے وہ سب خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔ اور خدا ہی کی مرضی سے ہوتا ہے۔ کیا ہم سب اس پر یقین نہیں رکھتے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے خدا کی مرضی ہی سے ہوتا ہے؟ آئیے اس بات پر غور کرتے ہیں۔
فرض کریں کہ آپ کو لوگوں کی قسمت لکھنے کا اختیار دے دیا جائے۔ یعنی آپ سے کہا جائے کہ آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی قسمت لکھیں۔تو سوال یہ ہے کہ آپ اُن کی قسمت کیسی لکھیں گے۔ آپ یقینا اُن کی قسمت میں سکھ، خوشیاں اور سکون لکھیں گے۔ کیا آپ اُن کی قسمت میں کینسر، طلاق اور بے وقت کی موت لکھیں گے؟ کیا آپ کسی کی قسمت اس طرح لکھیں گے کہ اس کا کاروبار تباہ ہو جائے اور وہ ہارٹ اٹیک کا شکار ہو جائے؟ کیا آپ کسی شادی شدہ جوڑے کے آٹھ سال بعد ہونے والے بچے کی دو سال بعد موت لکھیں گے؟ یقینا نہیں اور ہر گز نہیں ۔ بلکہ آپ سب لوگوں کی قسمت میں ایک پرفیکٹ لائف لکھیں گے۔
اب فرض کریں کوئی شخص ایسا ہے کہ جس سے آپ کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ یا جس سے آپ کا جھگڑا چل رہا ہے۔ اب اگر آپ کو اس کی قسمت لکھنے کا اختیار دے دیا جائے تو کیا آپ اس کی قسمت میں ساری دنیا کے دکھ اور درد لکھ دیں گے۔ یقینا آپ کا جواب نہیں ہوگا۔ باوجود اسکے کہ وہ آپ کو پسند نہیں ہے اور آپ کا اُس سے جھگڑا ہے تب بھی آپ اس کی قسمت میں خراب چیزیں لکھنا پسند نہیں کریں گے۔ اور اگر آپ کو اپنے بچوں کی قسمت لکھنے کا اختیا ر دے دیا جائے تو آپ ان کی قسمت میں کیا لکھیں گے۔ یقینا آپ ان کی قسمت میں خوشیاں مسرتیں اور آسانیاں لکھیں گے۔
خدا جو کہ ہمارا خالق ہے۔ ہمارا رب ہے ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ اور وہ تمام قوتوں کے ساتھ با اختیار ہے اور وہ غلطی کرنے والا نہیں ہے۔ اس تناظر میں رہتے ہوئے اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ہماری قسمتیں لکھ رہا ہے ۔ تو پھر اُسے ہماری قسمت کیسی لکھنی چاہیے؟
آپ جو کہ مکمل نہیں ہیں طاقتور نہیں ہیں اور ہر لحاظ سے با اختیا ر نہیں ہیں۔ اور اپنی اچھی اور بُری خوبیوں کے ساتھ اگر لوگوں کی قسمت لکھیں تو اُس میں خوشیاں اور مسرتیں لکھیں اور وہ خدا جو سب سے بڑی طاقت اور اختیار کا مالک ہے اور اعلیٰ صفات کا حامل ہے ۔ جب وہ انسانوں کی قسمت لکھے تو دکھ ، بیماریاں، بے وقت کی موت، کینسر، بے چینی ، ڈپریشن، حسد، غربت ، افلاس بھوک اور جہالت جیسے مسائل لکھے جو کہ آج پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ؟ یہ بات بالکل ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔کسی کے گھر میں لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ کسی کا ایکسیڈینٹ ہو رہا ہے۔ کسی کو طلاق ہو رہی ہے۔ کوئی ماں چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر دنیا سے جارہی ہے۔ کہیں قحط ہے،لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ کسی کو کینسر ہے، کسی کو شوگر ہے۔ کسی کی زندگی میں ساس زہر گھول رہی ہے، کسی کی زندگی میں بہو سوہان روح بن گئی ہے۔ کسی کو اولاد نا فرمان ہے تو کسی کے والدین ظالم ہیں۔ کسی کے ہاں پیدائشی ذہنی یا جسمانی بچہ ہو رہا ہے۔ کہیں پولیو ہے کہیں ڈینگی وائرس سے لوگ مر رہے ہیں۔ کسی کے رشتے ٹوٹ رہے ہیں کوئی بغیر شادی کے دنیا سے جارہے ہیں۔ کسی کا بزنس تباہ ہو رہا ہے۔ کوئی ہارٹ اٹیک سے مر رہا ہے۔کیا یہ سب قسمت خدا لکھ رہا ہے؟میرے منہ میں خاک ، یہ کس قسم کا پالنے والا ہے؟ یہ کس قسم کا خیال رکھنے والا ہے؟ یہ کس قسم کا نگہبا ن ہے؟ کیا آپ حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں کہ خدائے مہربان و رحیم اس قسم کی قسمت لکھ رہا ہے؟
اگر خدا حقیقت میں ہماری قسمت لکھتا تو آپ کے خیال میں وہ کس طرح کی قسمت ہم انسانوں کی لکھتا؟ آپ اپنے بچوں کی قسمت کیسی لکھتے اگرچہ کہ آپ کے بچے آپ کے نافرمان ہوں ااپ کا کہنا نہ مانتے ہوں۔ ان سب کے باوجود آپ اُن کی قسمت اچھی لکھتے ۔اگر خدا بھی ہماری قسمت لکھتا تو کیسی لکھتا؟ مگر آج کل جس قسمت کا ہم سب کو سامنا ہے وہ کیسی ہے۔ کیا آپ اب بھی حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اوپر بیٹھا ہماری ایسی قسمت لکھ رہا ہے؟اِس کو یہ پرابلم دے دو۔ اُس کو وہ پرابلم دے دو۔ ایسے دیکھو تو آج کل وہ صرف لوگوں کو پرابلم ہی بانٹ رہا ہے۔ کیوں کہ کوئی ایک بھی فیملی ایسی نہیں ہے جس کے ہاں پرابلم نہ ہو۔ تو کیا ساری پرابلم خدا ہماری قسمت میں لکھ رہا ہے نہیں ایسا نہیں ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہم عادی ہو چکے ہیں کہ جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اور جو کچھ بھی بُر ا ہم محسوس کر رہے ہیں اُس کا ذمہ دار کسی نہ کسی کو ٹہرا دیں۔ میں غصہ میں ہو ں تمھاری وجہ سے۔ میں اپ سیٹ ہوں اُس کی وجہ سے۔ میری زندگی میں ایسا اُن لوگوں کی وجہ سے ہوا۔ اُس واقع نے جس کے ذمہ دار وہ تھے میری زندگی میں طوفان برپا کر دیا۔ اور جب ہمیں ذمہ دار ٹہرانے کے لیے کوئی بھی نہیں ملتا تو ہم بڑی آسانی اور ڈھٹائی سےتمام چیزوں کا ذمہ دار خدا کو ٹہرا دیتے ہیں۔ کیوں کہ وہ تو فوری طور پر ہمیں کچھ کہہ بھی نہیں رہا۔لہٰذا سب چیزوں کا ذمہ دار اُسے ہی ٹہرا دو۔ سب چیزوں کا الزام خدا پر ڈال دو یہ بڑا ہی آسان طریقہ ہے۔
اور سب چیزوں کا ذمہ دار خدا کو ٹہراتے ٹہراتے ہم اُس سے ناراض بھی ہو گئے ہیں۔ کیوں کہ جب ہم اپنی تمام تر پریشانیوں کا ذمہ دار خدا کو سمجھیں گے تو یقینا اُس سے ناراض بھی ہو جائیں گے۔ آج دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو خدا سے ناراض ہیں۔ اور خدا پر غصہ ہوتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا خدا ہےہم نہیں مانتے ایسے خدا کو۔ خدا نے میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا۔ وہ میرے ساتھ ہمیشہ سے ایسے ہی کرتا ہے۔ اس طرح لوگ اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار خدا کو ٹہرا کر خدا سے ناراض ہو جاتے ہیں اور خدا سے اپنے تعلق کو خراب کر لیتے ہیں ۔ اُس کا شکر ادا کرنا اور اُس سے محبت کرنا ختم ہو جاتا ہے
آج آپ اس کےبارےمیں ضرور سوچیں کہ جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ۔ اچھا بھی اور برا بھی وہ دراصل ہماری اپنی وجہ سے ہو رہا ہے ہم کیوں اس کا ذمہ دار خدا کو ٹہرائیں۔ بات دراصل یہ ہےکہ جس وقت ہم بھلے اور برے کا ذمہ دار خدا کو ٹہرا دیتے ہیں اُس وقت تبدیلی لانے کے لیے اور برے کو ٹھیک کرنے کے لیے ، غموں کو خوشیوں میں بدلنے کے لیےبذاتِ خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ خدا نے ہماری قسمت میں لکھا ہے۔اسی لیے خدا ہی ان سب کو ٹھیک بھی کرے گا۔ اور پھر ہر وقت اُس سےٹھیک ہونے کی دعائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور خود تمام معاملات سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اور اکثر معاملات میں یہ کہتے ہیں کہ بھئی خدا کی مرضی ہے اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ حالانکہ کہ غور سے دیکھنے پر پیش آنے والے مسائل ہمارے ہی کاموں کا نتیجہ نظر آتےہیں۔
مسائل دراصل ہم خود پیدا کرتے ہیں اس لیے انھیں حل بھی ہمیں خود ہی کرنا ہوگا۔ خدا پر مسائل کی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے ہمیں ہر مسائل کی ذمہ داری خود قبول کرنا ہوگی۔ خدا آپ کو اُن مسائل کے حل کرنے کی توفیق، قوت اور ہمت عطا فرمائے گا۔ اور آپ کے ذہن میں مناسب حل خیال کی صورت میں ڈالے گا۔ لیکن معاملات کو حل کرنے کے لیے عملی اقدام تو آپ کو خود ہی اُٹھانا ہو ں گے۔ آپ کو اپنے ہر معاملے، ہر عمل اور ہر عمل کے نتیجے کی ذمہ داری خود قبول کرنا ہوگی۔ہم جیسا بوتے ہیں ویسا ہی کاٹتے ہیں۔ جو جیسا کرے گا وہ ویسا ہی بھرے گا۔ یہ بات ہمیں اُلٹی طرف سے سوچنا ہوگی۔ آج جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہےیعنی ہم جو فصل بھی کاٹ رہے ہیں وہ ہماری ہی بوئی ہوئی ہے۔ بڑےتناظر میں اگر ہم نے نہیں بوئی تو ہمارے بڑوں نے ضرور بوئی ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قسمت کیا ہوتی ہے۔ جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ میری تو قسمت خراب ہے۔ میری آج کل بیڈ لک چل رہی ہے۔ کیا قسمت بھی کچھ ہوتی ہے۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ وہ بہت لکی ہے۔ اُس کےساتھ ہمیشہ گُڈ لک ہوتی ہے اور میرے ساتھ ہمیشہ بیڈ لک ہی ہوتی ہے۔ اور پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی میرے لک ٹھیک نہیں چل رہی ہے۔ ابھی میرے ستارے گردش میں ہیں۔ جب میری لک ٹھیک ہو جائے گی تو اپنے آپ ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
اس سلسلے میں ہمیں اپنے ذہن کو مکمل صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اور قسمت کو نئے انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ہمارا ہر عمل تین چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ فزیکل ایکشن، الفاظ اور سوچ۔ اور ہر عمل کے نتیجے میں خواہ ہو فزیکل ہو ، الفاظ ہوں یا پھر سوچ ہو ، ایک انرجی کی وائبریشن ہمارے دماغ سےنکلتی ہے۔ جو دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔ بعض اوقات ہم کسی دوسرے سے نرمی سے بات تو کر رہے ہوتے ہیں اور الفاظ کے ذریعے محبت کا اظہار تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن اندر سوچ میں ہم اُسے بُرا بھلا کہ رہے ہوتے ہیں اور اُس سے نفرت کرتے ہیں۔ ’’مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی الفاظ ہیں لیکن سوچ میں مجھے آپ سے مل کر تکلیف ہوئی اور میرا وقت ضائع ہوا‘‘ اب آپ سوچیں ایسے میں آپ کا عمل کیسا ہوگا۔ اور پھر اس عمل کا نتیجہ کیسا ہوگا۔
اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی کے ساتھ کبھی بھی غلط نہیں کیا۔ میں نے کسی کے ساتھ آج تک بُرا نہیں کیا پھر بھی میرے ساتھ ایسا ہی کیوں ہو رہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کسی کے بارے میں کبھی بُرا سوچا بھی نہیں ہے؟ جی نہیں ہم نے صبح سے شام تک بُرا ہی برُا سوچا ہے۔ تو پھر ہمارا عمل کیسا ہوا۔ ہمارے عمل کی کوالٹی کیسی ہوئی۔ ہر ایک منٹ میں بیس سے پچیس سوچیں ہم سوچتے ہیں۔ کیا ہم صبح سے شام تک سب کچھ ٹھیک سوچتے ہیں۔ جی نہیں۔ پریشانیاں اور منفی سوچیں بھی ہمارے اعمال ہیں۔ جس کی وائبریشن ہم دماغ سے باہر کی دنیا کو بھیج رہے ہیں۔ اور وہ دوسروں کو متا ثر کر رہی ہیں۔
جو کچھ بھی ہمارے اعمال کا نتیجہ ہمیں دنیا میں ملتا ہے اُسے دراصل قسمت کہتے ہیں۔ اگر ہماری قسمت بری ہے یعنی اعمال کا نتیجہ ٹھیک نہیں ہے تو اس کا براہ راست تعلق ہمارے عمل کی کوالٹی سے ہے۔ بڑوں کا کہنا ہے کہ کسی کے لیے بدگمانی نہ رکھو۔ مایوس نہ ہو ۔ ہمیشہ اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ کرو۔ یہی وہ سب چیزیں ہیں جو ہماری سوچ کی کوالٹی کا تعین کرتی ہیں۔ اور ہماری سوچ کی کوالٹی ہمارے عمل کا تعین کرتی ہے۔ اور ہمارا عمل نتائج پیدا کرتا ہے جو کہ ہماری قسمت کہلاتی ہے۔
جب میں کسی کے ساتھ بات کرتا ہوں تو یہ میرا عمل ہے جواب میں وہ میرے ساتھ جو ردعمل کرتا ہے وہ میری قسمت ہے۔ جب میں کسی کے ساتھ تعلق استوار کرتا ہوں تو یہ میرا عمل ہوتا ہے اس کے نتیجے میں دوسرے لوگ جو میرے ساتھ برتاؤ اور رویہ رکھتے ہیں وہ میری قسمت کہلاتی ہے۔ اگر ہم اپنی قسمت یعنی نتائج کو اچھا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا عمل اچھا کرنا ہوگا۔ اگر ہم سگریٹ نوشی کا عمل کریں گے اور تواتر سے کریں گے تو کینسر ہی ہماری قسمت ہوگا۔لہٰذا اب ہمیں ادھورا جملہ نہیں بولنا چاہیے کہ ’’میرے ساتھ ہی ایسا کیوں‘‘ بلکہ اب ہمیں پورا جملہ بولنا چاہیے۔ ’’میرے ساتھ ہی ایسا کیوں، کیونکہ میں نے ایسا کیا تھا۔ لہٰذا اب مجھے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اے خدا تو مجھے اسے ٹھیک کرنے کی ہمت ، طاقت اور توفیق عطا فرما۔‘‘ آپ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسے مستقل کوسنا بھی آپ کا ایک عمل ہے جس کا نتیجہ مزید بُرا ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ لہٰذا اپنی قسمت کو کوسنا بند کریں او ر اسے ٹھیک کرنے کے لیے اپنے اعمال کی کوالٹی جس میں ایکشن، الفاظ اور سوچ شامل ہے کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات شروع کردیں۔
تو پھر اب یہ بات یاد رکھ لیں کہ ہماری قسمت کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم خود اپنی قسمت کے ذمہ دار ہیں۔ تو پھر خدا کا کردار اس میں کیا ہے ؟ اس بات کو سمجھنےکے لیے ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔
آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کو کہتے ہیں کہ بیٹا ہوم ورک کر لو۔ آپ کا یہ رول ہے کہ اپنے بچے کو ہوم ورک کرنے کے لیے کہیں۔ اور اُسے ضروری چیزیں جس میں غذا، صحت ، روشنی، ٹیبل ، کتابیں ، کاپیاں اور دیگر ضروری وسائل شامل ہیں مہیا کردیں۔ اب یہ اُسکا کا م ہے کہ وہ ہوم ورک کرے۔ آپ خود اُسکا ہوم ورک نہیں کرتےہیں۔ آپ اُسے صرف بولتے ہیں۔ یاد دلا تے ہیں۔ بالآخر ہوم ورک کرنے یا نہ کرنےکا انتخاب آپ کے بچے ہی کو کرنا ہے۔ فرض کریں کہ آپ کا بچہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے ہوم ورک نہیں کرنا ہے۔ اور وہ ہوم ورک کیے بغیر اسکول چلا جاتا ہے۔ اور اُستاد اسے سزا دیتا ہے۔ ہوم ورک نہ کرنے کی سزا۔ ایسے میں آپ جائیں اور بچے اور اُستاد کے سامنے کھڑے ہو جائیں کہ بچے کو سزا نہ دیں۔ کیا آپ ایسا کریں گے؟ اور اگر ایسا کریں گے تو آپ کیسے والدین کہلائیں گے۔ اور کیا اس طرح کرنے سے آپ کا بچہ قابل اور تعلیم یافتہ ہو جائے گا۔؟ نہیں آپ چاہیں گے کہ آپ کا بچہ کام نہ کرنے کی سزا سے گزرے تاکہ وہ اگلے دن جم کر کام کرے اور قابل بن جائے۔
بالکل اسی طرح خدا بھی ہمیں گائیڈ کرتا ہے۔ کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ وہ ہمیں طاقت ، ہمت ، توفیق اور تمام دیگر وسائل بھی مہیا کر دیتا ہے۔ اب کام کو کرنا ، نہ کرنا، اچھی کوالٹی سے کرنا یا خراب کوالٹی سے کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اور پھر ہمارے کام نہ کرنے یا خراب کوالٹی کے ساتھ کام کرنے کا نتیجہ برا نکلتا ہے تو خدا اس نتیجے اور ہمارے درمیان کبھی بھی کھڑا نہیں ہوتا۔ بلکہ ہمیں سبق حاصل کرنے دیتا ہے کیونکہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتاہے۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ جب ہمارے اعمال کا نتیجہ خراب نکلے تو کیا ہمیں خدا سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ آئے اور ہمارے اعمال کے نتیجے کو ہمارے لیے ٹھیک کر دے؟۔ کیا ہمیں اُس سے یہ کہنا چاہیے کہ وہ ہمارے بگڑے ہوئے کام بنا دے۔ ؟ہمارے اعمال کے نتیجے میں آنے والی مشکلات کو خدا آسان نہیں کرتا۔ اسی لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ کہ ’’خدا سے مشکلات میں آسانی طلب مت کرو بلکہ مشکلات کے حل کے لیے رہنمائی، ہمت اور طاقت طلب کرو‘‘
اے خدا مجھے ہمت اور طاقت دے کہ میں حالات بدل ڈالوں ۔ ایک تو یہ بات ہے۔ اور دوسری بات ہے کہ اے خدا تو خود ہی حالات بدل ڈال۔ آپ کی نظر میں کونسی بات درست ہے اور کائنات کے تناظر میں کونسی بات آپ کو ٹھیک لگتی ہے۔ ہم خدا کے نائب اور اشرف المخلوقات ہیں۔ دوسری بات تو ایسےہے جیسے کہ ہم اپنے بچے کہیں کہ بیٹا تم سوجاؤ میں تمھارا سارا ہوم ورک کر دیتا ہوں۔
ایک حقیقت پر غور
چیزیں عدم سے وجود میں آتی ہیں۔ فنا سے بقا کا یہ سفر تخلیقی پہلو لیے ہوئے ہے۔ قدرت ایک مخصوص انداز میں فنا سے بقا کی طرف بر سرِ پیکار ہے۔ ہر چیز جو پہلے نہیں تھی وہ وجود میں آتی ہے۔ اور وجود میں آنے کےبعد اپنی معراج تک پہنچ کر فنا ہو جاتی ہے۔ بیج سے پودا تخلیق ہوتا ہے۔ یہ فنا سے بقا کی طرف سفر ہے۔ اور پھر پودا بقا کا سفر طے کرتا ہے اور پودے سے تناور درخت اور پھل دار درخت بن کر اپنی معراج کو پہنچ جاتا ہے۔ اپنی معراج تک پہنچنے کے بعد درخت پھر بقا سے فنا کا سفر شروع کر دیتاہے۔
انسان کو قدرت نے تخلیق کی صلاحیت عطا کی ہے۔ انسان کے عمل کی بنیاد پر بھی چیزیں عدم سے وجود میں آتی ہیں۔ انسان کھیتوں میں ہل چلا کر اناج اُگاتا ہے۔ قدرت اپنی تخلیقی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھنے کے لیے انسانوں کا انتخاب بھی کرتی ہے۔ پھر ہر چیز کی بقا کے لیے بھی انسانی عمل کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اور انسانی عمل ہی چیزوں کو اپنی پوری کارکردگی تک پہنچانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اور پھر بقا سے فنا کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
جس طرح ہمارا ہر عمل نتائج پیدا کرتا ہے۔ اُسی طرح ہمارا بے عمل رہنا بھی نتائج پیدا کرتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ چیزوں کا بقا سے فنا ہونا تیز تر ہو جاتا ہے۔ ہماری بے عملی کی وجہ سے چیزیں اپنی پوری کارکردگی اور معراج تک پہنچے بغیر ہی فنا کا سفر شروع کر دیتی ہیں۔ قدرت ہمیں جن چیزوں سے نوازتی ہے۔ ہماری بے عملی اُن چیزوں سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے انھیں تلف ہوجانے دیتی ہے۔ قدرت ہمیں صحت دیتی ہے۔ اگر ہم اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے کام نہ کریں اچھی خوراک نہ لیں، ورزش نہ کریں اور اس کو کار کردگی کی معراج تک پہنچانے کے لیے کوئی کام نہ کریں۔ تو پھر صحت کا بقا سے فنا کا سفر تیز تر ہو جاتا ہے۔ اور ہم وقت سے پہلے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا آج جو کچھ بھی حالات ہمارے سامنے ہیں وہ ہمارے خراب عمل اور بے عملی کا نتیجہ ہیں جو چیزیں زندگی میں نہیں ہیں وہ ہمارے عمل نہ کرنے کا سبب ہیں اور جو چیزیں ہیں تو لیکن درست نہیں ہیں اور اپنی پوری کار کردگی نہیں دکھا پا رہی ہیں۔ وہ بھی ہماری بے عملی کی وجہ سے ہیں۔ قدرت ہمیں بے شمار چیزیں عطا کرتی ہے۔ اپنی بے عملی اور کاہلی کے ذریعے ہم اُن چیزوں کو بے کار اور بے مصرف فنا کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ ان سب خرابیوں کی وجہ ہمارا عمل ، عمل کی کوالٹی اور کافی حد تک بے عملی ہے۔ قدرت کا اس میں ذرہ بھر بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ تو اپنا کام مسلسل کیے جارہی ہے۔ ساری کی ساری خرابیوں کی ذمہ داری پوری کی پوری ہمارے عمل اور ہماری بے عملی پر آتی ہے۔

ہمارے ہر عمل اور ہماری ہر بے عملی کا ایک نتیجہ نکلتا ہے یہ نتیجہ ہماری قسمت کہلاتا ہے​
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب سوچ سے عمل کی جانب ابھارتی اک بہترین تحریر ۔
بلا شک اللہ سے توفیق ہی طلب کرنی چاہیئے ۔
اے خدا مجھے ہمت اور طاقت دے کہ میں حالات بدل ڈالوں ۔
 
Top