کیا خالہ ماں ہوتی ہے؟ ایک روایت یا ۔۔۔

ابن آدم

محفلین
بخاری کی ایک روایت
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا اسرائیل سے ، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھا ۔ لیکن مکہ والوں نے آپ کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا ۔ آخر صلح اس پر ہوئی کہ ( آئندہ سال ) آپ مکہ میں تین روز قیام کریں گے ۔ جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا گیا کہ یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ۔ لیکن مشرکین نے کہا کہ ہم تو اسے نہیں مانتے ۔ اگر ہمیں علم ہو جائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ روکیں ۔ بس آپ صرف محمد بن عبداللہ ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں ۔ اس کے بعد آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو ، انہوں نے عرض کیا نہیں خدا کی قسم ! میں تو یہ لفظ کبھی نہ مٹاوں گا ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دستاویز لی اور لکھا کہ یہ اس کی دستاویز ہے کہ محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی ہے کہ مکہ میں وہ ہتھیار میان میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں گے ۔ اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو وہ اسے ساتھ نہ لے جائیں گے ۔ لیکن اگر ان کے اصحاب میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو اسے وہ نہ روکیں گے ۔ جب ( آئندہ سال ) آپ مکہ تشریف لے گئے اور ( مکہ میں قیام کی ) مدت پوری ہو گئی تو قریش علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے صاحب سے کہئے کہ مدت پوری ہو گئی ہے اور اب وہ ہمارے یہاں سے چلے جائیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے روانہ ہونے لگے ۔ اس وقت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک بچی چچا چچا کرتی آئیں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے ساتھ لے لیا ، پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہاتھ پکڑ کر لائے اور فرمایا ، اپنی چچا زاد بہن کو بھی ساتھ لے لو ، انہوں نے اس کو اپنے ساتھ سوار کر لیا ، پھر علی ، زید اور جعفر رضی اللہ عنہم کا جھگڑا ہوا ۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کا میں زیادہ مستحق ہوں ، یہ میرے چچا کی بچی ہے ۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں بھی ہیں ۔ زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے بھائی کی بچی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے ، پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو ۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی ۔
لنک

میں حضرت زید کو انت اخونا و مولانا کہا گیا ہے- حضرت حمزہ مدنی صحابی تھے، غزوہ احد میں شہید ہوئے، ان کی بیوی سلمی بنت عمیس بھی مسلمان تھیں- اس میں پہلا سوال تو یہی اٹھتا ہے انکی بیٹی غزوہ احد کے بعد مدینہ سے مکہ میں اپنے غیر مسلم چچا حضرت عباس کے گھر کیسے پہنچ گئی؟

دوسری بات یہ کہ مواخات مہاجرین و انصار میں کسی فوری ضرورت کے تحت کرائی گئی تھی، (مستقبل میں مناقب وضع کرنے کے لیے نہیں) یہ حضرت حمزہؓ اور حضرت زیدؓ کے درمیان مواخات کا کیا مطلب ہوا؟ لڑکی کو مدینہ لانا ہی صلح حدیبیہ کی بنیادی شق کے خلاف تھا، رسول اللہ ﷺ کیونکر ساتھ لاتے؟

کہا جاتا ہے کہ حضرت جعفرؓ کے حوالے اس لیے کی کیونکہ انکی بیوی لڑکی کی خالہ تھیں- تو جناب جن کے پاس لڑکی موجود تھیں، یعنی کہ حضرت عباسؓ، انکی بیوی ام فضلؓ بھی اس لڑکی کی خالہ تھیں اور روایات کے مطابق اس وقت مسلمان بھی تھیں۔ جبکہ اس سے بھی بڑی بات یہ کہ خود رسول اللہ کی بیوی حضرت میمونہؓ اس لڑکی کی خالہ تھیں- خالہ ہونے کی بنیاد پر جب فیصلہ ہونا تھا، تو پہلا حق تو حضرت عباسؓ کی بیوی کا ہی تھا، دوسرا حق رسول اللہ ﷺ کی بیوی کا بنتا تھا، کیونکہ لڑکی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی تھی ازروئے روایت، اور مدینہ کی ریاست کے سربراہ بھی رسول اللہ ﷺ تھے، انکی بیوی بھی لڑکی کی خالہ تھیں، اور رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کے رضائی بھائی بھی تھے-

یہ پوری روایت انتہائی مشکوک ہے- راوی بھی ابی اسحق ہے- غالباً حکایاتی روپ میں گھڑی گئی اس روایت کا مقصد مباہلہ کی نجرانی کہانی میں پنجتن کا قرانی ثبوت لانے کے لیے سپورٹ میٹیریل فراہم کرنا تھا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس روایت کی رو سے حضرت علیؓ کو فرمایا انت منی و انا منک- یہی وجہ ہے کہ آج تک مباہلہ کی اس مبینہ کہانی پر غور و خوض کیا ہی نہیں جاتا کہ کیا آیات بھی وہ کچھ کہہ رہی ہیں، جو کچھ روایات ہمیں بیان کرتی ہیں- یا سب سے بڑی بات کہ جس تقریر کا مباہلہ کی آیات حصہ ہیں، ان کا مخاطب نصرانی/نجرانی ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں۔

مباہلہ کی پنجتنی کہانی ابن اسحق اپنی تاریخ میں لکھ گئے ہیں، اور جس سے متاثر ہوکر امام بخاری اپنی کتاب مین حضرت حمزہ کی بیٹی کی روایت، اور امام مسلم اپنی کتاب میں حضرت امیر معاویہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے مبینہ مکالمے کی روایت درج کر گئے ہیں
 
Top