کیا آپ اس شخص کو جانتے ھیں جس کے ساتھ یہ قافلہ رواں دواں ھے؟

اسد عباسی

محفلین
167427_504758422889811_1921008494_n.jpg

کہتے ھیں کہ26 دسمبر 1950 کو اندرون سندھ کے ایک علاقہ سانگھڑ میں ایک چھوٹے سے کسان کے گھر ایک بچہ پیدا ھوا جو کہ کسی اور علاقے سے یہاں آ کر بسا تھا اور تھوڑی سی زمین خرید کر وہاں کھتی باڑی کرنے لگا اور یوں گھر کا دال دلیہ چلنے لگآ۔وہ بچہ اسی علاقے کے ایک عام سے سکول سے پڑھا۔اور پھر سندھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں جا بسا جہاں سے اس کے باپ نے کئ
سال پہلے ہجرت کر لی تھی۔
اس گریجویٹ نوجوان نے وہاں اپنے بھائی کے ساتھ کچھ پیسے ملائے اور جوتوں کا ایک چھوٹا سا کارخانہ کھول لیا مگر شاید تقدیر کو اس غریب کا ابھی امتحان لینا تھا اس لئے دونوں بھائیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی ڈوب گئی اور ان کو یہ کارخانہ بند کرنا پڑا۔
یہ نوجوان اس سوچ میں پڑ گیا کہ اب ایسا کون سا کام کیا جائے جس میں سرمایہ نہ لگانا پڑے اور کام بھی چل جائے۔لہذا کافی سوچ بچار کے بعد اس نے پراپرٹی ڈیلر کا کام شروع کر دیا اور لوگوں کے پلاٹوں کے سودے کروا کر چار پیسے کمیشن کی مد میں کمانے لگا۔
وقت بدلتا گیا اور ان سودوں میں اس کو کافی مال ملنے لگا۔اور ساتھ ھی اس نے سیاست میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی اور ملک پاکستان کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پاٹی کے ساتھ منسلک ھو گیا۔ اب سیاسی تعلقات کی بنا پر اس کا پراپرٹی ڈیلر والا کام اور چمک اٹھا جب مال کی ریل پیل ھوئی تو اس نے لیڈر بننے اور اپنے حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔چونکہ اس کے حلقہ میں مسلم لیگ کا اثر و رسوخ زیادہ تھا اس لئے اس کو اپنی حماعت نے با خوشی ٹکٹ دے دیا۔
اس پراپرٹی ڈیلر کو93،1990 اور 97 کے الیکسن میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ّپھر اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور پرویز مشرف کی حکومت بن گئی لہذا 2002 کے الیکشن میں اس کسان کے بچے کو بھی دوسرے بہت سے امیدواروں کی طرح مسلم لیگ کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے جتا دیا گیا۔
یوں پہلی مرتبہ اسمبلی میں آنے کا اس کا خواب پورا ہو گیا۔
اس کے بعد اس غریب کو دوبارہ 2008 میں الیکشن لڑنے کا جوکھن اٹھانا پڑا مگر تقدیر اس پر مہربان تھی لہذا اس کی جماعت کی لیڈر کے قتل اور پرویز مشرف کی اسی دشمنی کی وجہ سے یہ پھر کامیاب ھو گیا لیکن ان الیکشن میں پراپرٹی کے کام سے کمائی ھوئی ساری دولت ان دو الیکشن میں لگ چکی تھی۔
اس بار اس کو ایک مردہ سی آخری سانسیں لیتی وزارت کا قلم دان تھما دیا گیا اس خیال سے کہ اس غریب کے علاوہ کسی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا تو وہ اس وزارت کی زبوں حالی کی وجہ سے ھونے والی ذلالت کو برداشت نہ کر پائے گا۔
بنانے والوں نے تو اسے قبرستان کا منسٹر بنایا تھا مگر وہ پراپرٹی ڈیلر ھی کیا جو مردے سے خون حاصل کرنا نہ جانتا ھو۔اور پھر اس کو اپنے اوپر سے پیدائشی غربت کا داغ بھی تو مٹانا تھا۔
لہذا اس شخص نے بیرونے ملک سے ایک سودا کیا اور اس میں کروڑوں روپے کمیشن حاصل کر کے خد کو ایک کامیاب ڈیلر ثابت کرنے کے ساتھ کروڑ پتی بھی بن گيا۔
اس کے باپ نے اس کا نام کچھ اور رکھا تھا مگر اس کامیاب سودے کی وجہ سے عوام نے اس کو راجہ رینٹل کے خطاب سے نوازا۔
راجہ رینٹل کی اس کامیاب دیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کے صدر نے اسے بڑے سودے کرنے کے لئے ملک کا وزیراعظم بنا دیا۔
جی ہاں سکول سے واپس آ کر اپنے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرنے والا اور لوگوں کے سودے کروا کر کمیشن حاصل کرنے والا وہ شخص آج کل ان گاڑیوں کے قاضلے میں سے کسی کالے شیشوں والی گاڑی میں بیٹھا ھوتا ھے۔کیونکہ اس غریب کسان کے بچے کو اب جان کا خطرہ ھے۔
وہ الگ بات ھے کہ یہاں سے جانے کے بعد یہ پھر سے لوگوں میں گھل مل جائے گا اور جان کو کوئی خطرہ نہیں رھے گا۔کیونکہ اپنے خرچے پر اتنے حفاظتی دستے ساتھ رکھنے سے زیادہ فائدہ اس ڈیلر کو دشمن کے ہاتھوں مر جانے میں ھی نظر آئے گا۔
ابھی تو یہ عوام کے خرچے پر چل رھا ھے۔

 

عاطف بٹ

محفلین
عباسی بھائی، میں آپ کی لکھی ہوئی معلومات پر تو کوئی بات نہیں کرنا چاہوں گا، البتہ آپ نے جو تصویر لگائی ہے وہ مجھے کسی حکومتی عہدیدار کے پروٹوکول کی نہیں بلکہ پولیس کے فلیگ مارچ کی لگتی ہے۔ پروٹوکول عام طور پر ایسے نہیں ہوتا۔
 

اسد عباسی

محفلین
عباسی بھائی، میں آپ کی لکھی ہوئی معلومات پر تو کوئی بات نہیں کرنا چاہوں گا، البتہ آپ نے جو تصویر لگائی ہے وہ مجھے کسی حکومتی عہدیدار کے پروٹوکول کی نہیں بلکہ پولیس کے فلیگ مارچ کی لگتی ہے۔ پروٹوکول عام طور پر ایسے نہیں ہوتا۔
جی ہاں آپ نے ٹھیک کہا میں نے بھی پہلی نظر میں یہ ھی سمجھا اور شاید ٹھیک ھی سمجھا تھا مگر یہ تصویر مجھے میرے فیس بک پیج کے کسی فین نے ارسال کی تھی اور اس پر کچھ تبصرہ کرنے کو کہا تو میں نے کر دیا اس کا خیال یہ تھا کہ یہ پروٹوکول کی ھے۔
 

اسد عباسی

محفلین
عاطف بٹ بھائی لیجئیے یہ جناب وزیراعظم کا اصل پروٹوکول ھے مگر معذرت کے ساتھ کہ موبائل سے بنی اس ویڈیو کی کوالٹی کچھ خاص نہیں ھے۔
 
جن لوگوں کو میری طرح اس پوسٹ کو پڑھنے میں مشکل پیش آئے(فونٹ کی وجہ سے)ان کے لیے پوسٹ نستعلیق میں حاضر ہے۔

کہتے ھیں کہ26 دسمبر 1950 کو اندرون سندھ کے ایک علاقہ سانگھڑ میں ایک چھوٹے سے کسان کے گھر ایک بچہ پیدا ھوا جو کہ کسی اور علاقے سے یہاں آ کر بسا تھا اور تھوڑی سی زمین خرید کر وہاں کھتی باڑی کرنے لگا اور یوں گھر کا دال دلیہ چلنے لگآ۔وہ بچہ اسی علاقے کے ایک عام سے سکول سے پڑھا۔اور پھر سندھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں جا بسا جہاں سے اس کے باپ نے کئ سال پہلے ہجرت کر لی تھی۔
اس گریجویٹ نوجوان نے وہاں اپنے بھائی کے ساتھ کچھ پیسے ملائے اور جوتوں کا ایک چھوٹا سا کارخانہ کھول لیا مگر شاید تقدیر کو اس غریب کا ابھی امتحان لینا تھا اس لئے دونوں بھائیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی ڈوب گئی اور ان کو یہ کارخانہ بند کرنا پڑا۔
یہ نوجوان اس سوچ میں پڑ گیا کہ اب ایسا کون سا کام کیا جائے جس میں سرمایہ نہ لگانا پڑے اور کام بھی چل جائے۔لہذا کافی سوچ بچار کے بعد اس نے پراپرٹی ڈیلر کا کام شروع کر دیا اور لوگوں کے پلاٹوں کے سودے کروا کر چار پیسے کمیشن کی مد میں کمانے لگا۔
وقت بدلتا گیا اور ان سودوں میں اس کو کافی مال ملنے لگا۔اور ساتھ ھی اس نے سیاست میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی اور ملک پاکستان کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پاٹی کے ساتھ منسلک ھو گیا۔ اب سیاسی تعلقات کی بنا پر اس کا پراپرٹی ڈیلر والا کام اور چمک اٹھا جب مال کی ریل پیل ھوئی تو اس نے لیڈر بننے اور اپنے حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔چونکہ اس کے حلقہ میں مسلم لیگ کا اثر و رسوخ زیادہ تھا اس لئے اس کو اپنی حماعت نے با خوشی ٹکٹ دے دیا۔
اس پراپرٹی ڈیلر کو93،1990 اور 97 کے الیکسن میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ّپھر اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور پرویز مشرف کی حکومت بن گئی لہذا 2002 کے الیکشن میں اس کسان کے بچے کو بھی دوسرے بہت سے امیدواروں کی طرح مسلم لیگ کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے جتا دیا گیا۔
یوں پہلی مرتبہ اسمبلی میں آنے کا اس کا خواب پورا ہو گیا۔
اس کے بعد اس غریب کو دوبارہ 2008 میں الیکشن لڑنے کا جوکھن اٹھانا پڑا مگر تقدیر اس پر مہربان تھی لہذا اس کی جماعت کی لیڈر کے قتل اور پرویز مشرف کی اسی دشمنی کی وجہ سے یہ پھر کامیاب ھو گیا لیکن ان الیکشن میں پراپرٹی کے کام سے کمائی ھوئی ساری دولت ان دو الیکشن میں لگ چکی تھی۔
اس بار اس کو ایک مردہ سی آخری سانسیں لیتی وزارت کا قلم دان تھما دیا گیا اس خیال سے کہ اس غریب کے علاوہ کسی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا تو وہ اس وزارت کی زبوں حالی کی وجہ سے ھونے والی ذلالت کو برداشت نہ کر پائے گا۔
بنانے والوں نے تو اسے قبرستان کا منسٹر بنایا تھا مگر وہ پراپرٹی ڈیلر ھی کیا جو مردے سے خون حاصل کرنا نہ جانتا ھو۔اور پھر اس کو اپنے اوپر سے پیدائشی غربت کا داغ بھی تو مٹانا تھا۔
لہذا اس شخص نے بیرونے ملک سے ایک سودا کیا اور اس میں کروڑوں روپے کمیشن حاصل کر کے خد کو ایک کامیاب ڈیلر ثابت کرنے کے ساتھ کروڑ پتی بھی بن گيا۔
اس کے باپ نے اس کا نام کچھ اور رکھا تھا مگر اس کامیاب سودے کی وجہ سے عوام نے اس کو راجہ رینٹل کے خطاب سے نوازا۔
راجہ رینٹل کی اس کامیاب دیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کے صدر نے اسے بڑے سودے کرنے کے لئے ملک کا وزیراعظم بنا دیا۔
جی ہاں سکول سے واپس آ کر اپنے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرنے والا اور لوگوں کے سودے کروا کر کمیشن حاصل کرنے والا وہ شخص آج کل ان گاڑیوں کے قاضلے میں سے کسی کالے شیشوں والی گاڑی میں بیٹھا ھوتا ھے۔کیونکہ اس غریب کسان کے بچے کو اب جان کا خطرہ ھے۔
وہ الگ بات ھے کہ یہاں سے جانے کے بعد یہ پھر سے لوگوں میں گھل مل جائے گا اور جان کو کوئی خطرہ نہیں رھے گا۔کیونکہ اپنے خرچے پر اتنے حفاظتی دستے ساتھ رکھنے سے زیادہ فائدہ اس ڈیلر کو دشمن کے ہاتھوں مر جانے میں ھی نظر آئے گا۔
ابھی تو یہ عوام کے خرچے پر چل رھا ھے۔
 

اسد عباسی

محفلین
جن لوگوں کو میری طرح اس پوسٹ کو پڑھنے میں مشکل پیش آئے(فونٹ کی وجہ سے)ان کے لیے پوسٹ نستعلیق میں حاضر ہے۔

کہتے ھیں کہ26 دسمبر 1950 کو اندرون سندھ کے ایک علاقہ سانگھڑ میں ایک چھوٹے سے کسان کے گھر ایک بچہ پیدا ھوا جو کہ کسی اور علاقے سے یہاں آ کر بسا تھا اور تھوڑی سی زمین خرید کر وہاں کھتی باڑی کرنے لگا اور یوں گھر کا دال دلیہ چلنے لگآ۔وہ بچہ اسی علاقے کے ایک عام سے سکول سے پڑھا۔اور پھر سندھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں جا بسا جہاں سے اس کے باپ نے کئ سال پہلے ہجرت کر لی تھی۔
اس گریجویٹ نوجوان نے وہاں اپنے بھائی کے ساتھ کچھ پیسے ملائے اور جوتوں کا ایک چھوٹا سا کارخانہ کھول لیا مگر شاید تقدیر کو اس غریب کا ابھی امتحان لینا تھا اس لئے دونوں بھائیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی ڈوب گئی اور ان کو یہ کارخانہ بند کرنا پڑا۔
یہ نوجوان اس سوچ میں پڑ گیا کہ اب ایسا کون سا کام کیا جائے جس میں سرمایہ نہ لگانا پڑے اور کام بھی چل جائے۔لہذا کافی سوچ بچار کے بعد اس نے پراپرٹی ڈیلر کا کام شروع کر دیا اور لوگوں کے پلاٹوں کے سودے کروا کر چار پیسے کمیشن کی مد میں کمانے لگا۔
وقت بدلتا گیا اور ان سودوں میں اس کو کافی مال ملنے لگا۔اور ساتھ ھی اس نے سیاست میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی اور ملک پاکستان کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پاٹی کے ساتھ منسلک ھو گیا۔ اب سیاسی تعلقات کی بنا پر اس کا پراپرٹی ڈیلر والا کام اور چمک اٹھا جب مال کی ریل پیل ھوئی تو اس نے لیڈر بننے اور اپنے حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔چونکہ اس کے حلقہ میں مسلم لیگ کا اثر و رسوخ زیادہ تھا اس لئے اس کو اپنی حماعت نے با خوشی ٹکٹ دے دیا۔
اس پراپرٹی ڈیلر کو93،1990 اور 97 کے الیکسن میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ّپھر اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور پرویز مشرف کی حکومت بن گئی لہذا 2002 کے الیکشن میں اس کسان کے بچے کو بھی دوسرے بہت سے امیدواروں کی طرح مسلم لیگ کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے جتا دیا گیا۔
یوں پہلی مرتبہ اسمبلی میں آنے کا اس کا خواب پورا ہو گیا۔
اس کے بعد اس غریب کو دوبارہ 2008 میں الیکشن لڑنے کا جوکھن اٹھانا پڑا مگر تقدیر اس پر مہربان تھی لہذا اس کی جماعت کی لیڈر کے قتل اور پرویز مشرف کی اسی دشمنی کی وجہ سے یہ پھر کامیاب ھو گیا لیکن ان الیکشن میں پراپرٹی کے کام سے کمائی ھوئی ساری دولت ان دو الیکشن میں لگ چکی تھی۔
اس بار اس کو ایک مردہ سی آخری سانسیں لیتی وزارت کا قلم دان تھما دیا گیا اس خیال سے کہ اس غریب کے علاوہ کسی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا تو وہ اس وزارت کی زبوں حالی کی وجہ سے ھونے والی ذلالت کو برداشت نہ کر پائے گا۔
بنانے والوں نے تو اسے قبرستان کا منسٹر بنایا تھا مگر وہ پراپرٹی ڈیلر ھی کیا جو مردے سے خون حاصل کرنا نہ جانتا ھو۔اور پھر اس کو اپنے اوپر سے پیدائشی غربت کا داغ بھی تو مٹانا تھا۔
لہذا اس شخص نے بیرونے ملک سے ایک سودا کیا اور اس میں کروڑوں روپے کمیشن حاصل کر کے خد کو ایک کامیاب ڈیلر ثابت کرنے کے ساتھ کروڑ پتی بھی بن گيا۔
اس کے باپ نے اس کا نام کچھ اور رکھا تھا مگر اس کامیاب سودے کی وجہ سے عوام نے اس کو راجہ رینٹل کے خطاب سے نوازا۔
راجہ رینٹل کی اس کامیاب دیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کے صدر نے اسے بڑے سودے کرنے کے لئے ملک کا وزیراعظم بنا دیا۔
جی ہاں سکول سے واپس آ کر اپنے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرنے والا اور لوگوں کے سودے کروا کر کمیشن حاصل کرنے والا وہ شخص آج کل ان گاڑیوں کے قاضلے میں سے کسی کالے شیشوں والی گاڑی میں بیٹھا ھوتا ھے۔کیونکہ اس غریب کسان کے بچے کو اب جان کا خطرہ ھے۔
وہ الگ بات ھے کہ یہاں سے جانے کے بعد یہ پھر سے لوگوں میں گھل مل جائے گا اور جان کو کوئی خطرہ نہیں رھے گا۔کیونکہ اپنے خرچے پر اتنے حفاظتی دستے ساتھ رکھنے سے زیادہ فائدہ اس ڈیلر کو دشمن کے ہاتھوں مر جانے میں ھی نظر آئے گا۔
ابھی تو یہ عوام کے خرچے پر چل رھا ھے۔
بہت شکریہ محسن وقار علی
 

اسد عباسی

محفلین
یو آر ویلکم۔ایک بات بتائیں گے؟اس پوسٹ اور آپ کے دستخط میں کون سا فونٹ استعمال ہوا ہے؟
جی بھائی میرا علم فونٹ کے بارے میں ذرا ناقص ھے ہاں اتنا بتا سکتا ھوں کہ پوسٹ فیس بک پر ٹائپ کی تھی تو وہاں سے کاپی کی ھے۔اور جو دستخط ھیں وہ ایم ایس ورڈ سے کاپی کئے تھے۔
 
اگر آپ اپنے دستخط کو سادہ(محفل کے ڈیفالٹ فونٹ پر) کرنا چاہتے ہیں تو اسے کاپی کرکے نوٹ پیڈ میں پیسٹ کیجیے۔سلیکٹ آل کرکے دوبارہ کاپی کرکے محفل میں دستخط کے طور پر پیسٹ کر دیجیے۔
 

اسد عباسی

محفلین
اگر آپ اپنے دستخط کو سادہ(محفل کے ڈیفالٹ فونٹ پر) کرنا چاہتے ہیں تو اسے کاپی کرکے نوٹ پیڈ میں پیسٹ کیجیے۔سلیکٹ آل کرکے دوبارہ کاپی کرکے محفل میں دستخط کے طور پر پیسٹ کر دیجیے۔
جی بہت شکریہ ابھی کئے دیتا ھوں مگر میرے پاس یہ سب پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ھو رہی اس کی وجہ کیا ھو سکتی ھے کہ باقی لوگوں کو دشواری ھو رھی ھے اب مجھے تو یاد بھی نہیں کہ کون سا اردو فونٹ انسٹال کیا تھا پھر سے چیک کرتا ھوں ویسے آپ کیا تجویز کرتے ھیں جو بہتر ھو ؟
 
آپ کے سسٹم میں اردو ٹھیک طرح سےانسٹال نہیں لگتی۔کیونکہ جب میں آپ کے دستخط کو کاپی کرکے ورڈ میں پیسٹ کرتا ہوں تو وہاں الفاظ
کٹے پھٹے نظر نہیں آتے۔
نوٹ:اس طرح سے ورڈ میں پیسٹ کرتے وقت ٹیکسٹ فارمیٹنگ کے ساتھ پیسٹ ہوتا ہے۔
 
Top