کہ جب سے وہ جانِ جہاں بھا گیا ہے

عظیم

محفلین
غزل


کہ جب سے وہ جانِ جہاں بھا گیا ہے
مجھے زندگی کا مزا آ گیا ہے

کوئی دیکھتے دیکھتے میرے دل پر
مرے ذہن پر ابر سا چھا گیا ہے

مگر عمر باقی ہے اب بھی کوئی دن
جوانی اگر شوق ہی کھا گیا ہے

یہ عاشق نہ جانے ہیں کس ڈھب کے بندے
جو گزرا یہاں سے وہ تڑپا گیا ہے

خدا جانے کی ہے گناہوں سے توبہ
کہ دل میرا اِس سب سے اکتا گیا ہے

اٹھا پاؤں گا اب نہ سر اس کے در سے
یہ ماتھا کچھ اس طور جم سا گیا ہے

وہ کہتے ہیں رہتا تھا اس ہی جہاں میں
جو یوں ساری دنیا کو مہکا گیا ہے

بہت دور ہے آدمی کی پہنچ سے
جسے ہر زمانے میں سمجھا گیا ہے

عظیم آگے آئیں گی اور آندھیاں بھی
اگر غم کا طوفان تھم سا گیا ہے





 
Top