کہے فقیر از سرفراز شاہ ۔۔۔ اقتباسات

نور وجدان

لائبریرین
مہرم کا مہینہ اسلام کی آمد سے قبل حرمت کا مہینہ سمجھا جاتا تھا اور معتبر گردانا جاتا تھا.اسی طرح یوم ِ عاشورہ یعنی دس محرم کے دن کو اسلام سے پہلے بھی مختلف قوموں کے نزدیک حرمت والا مہینہ گردانا جاتا تھا.یہودی دس محرم کو روزہ بھی رکھتے ہیں.

سائنس جس چیز کو big bang کے نام سے جانتی کہ زمین ایک بڑے دھماکے یعنی bang سے وجود آئی.اسی بارے میں قران پاک میں ارشاد ہو کہ ہم نے اسے چاہا اور چھ دن میں زمین و آسمان بن گئے. یہ زمین و آسمان یومِ عاشورہ کو تخلیق کیے گئے. حضرت آدم علیہ سلام کو یوم عاشورہ کو جنت میں داخل کیا گیا.حضرت آدم علیہ اسلام کی پیدائش کا دن بھی یوم ِ عاشورہ ہے.جس دن حضرت اسماعیل علیہ سلام کا فدیہ اور قربانی دی گئ وہ بھی یومِ عاشورہ ہے.

آپ صلی علیہ والہ وسلم نے یومِ عاشورہ کی اہمیت کو مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے واضح کیا. آپ صلی علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے محرم کا ایک روزہ رکھا، اس کو پورے تیس روزوں کا ثواب ملے گا.

آپ صلی علیہ والہ وسلم کے پردہ فرما جانے کے بعد واقعہ کربلا رونما ہوا اور مسلمانوں کے لیے یوم ِ عاشوہ کی اہمیت اور بڑھ گئی.اس دن حضرت امام حسین رض نے بندگی، اطاعت اور صبر کی انتہائی حدوں کو چھو لیا اور ثابت کردیا کہ کس طرح انسان ہوتے ہوئے بھی انسان فرشتوں سے آگے نکل جاتا ہے.

ہم میں.سے جو صاحبِ اولاد لوگ ہیں وہ اس بات کی حقیقت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی باپ میں یہ حوصلہ نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو گھوڑے پر سوار کرکے میدانِ جنگ بھیج کر اسے لڑتا ہوا دیکھیں اور اپنے ہاتھوں سے جوان بیٹے کی لاش کو خیمے میں واپس لے آئیں.حضرت امام حسین نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کے لاڈلے تھے اور کہتے تھے کہ حسین میرا ہے اور جس نے حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اس سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی. حضرت امام حسین رض کو پتا تھا کہ ان کے ساتھ کیا پیش آنا ہے کہ شہادت ان کا انتظار کر رہی ہے. مگر ایک دن کی مسافت کے طے کرتے ہوئے کربلا تشریف لے گئے.

آپ کی شہادت صبر، بندگی اور وفا کا عملی ثبوت ہے جا نے ثابت کردیا کہ اسلام تسبیحات و عبادات کا نام نہیں. یہ ایک complete package ہے جسے بتدریج اپنی زندگی میں داخل کرلینا چاہیے. حضرت امام حسین دض کا ایک پہلو واقعہ کربلا سے رو نما ہوتا ہے. نو اور دس محرم کی درمیانی رات جب حضرت امام حسین رض نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کیا .. یہ خطاب اخلاق کا انتہائی اعلیٰ نمونہ ہے. سب حالات بیان کرنے کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں سے ایسی بات کی کہ جس پر ہم ایک فیصد بھی عمل کر لیں تو انسانیت کے اعلیٰ مقام کو پہنچ جائیں گے. وہ تاریخی جملے یہ ہیں:

تم میں سے جو، واپس جانا چاہے، جا سکتا ہے، مجھے شکایت نہیں ہوگی .......میں چراغ بجھائے دیتا ہوں تاکہ تم میں سے جانے والوں کو شرمندگی نہ ہو.

ملاحظہ کیجیے کہ اخلاق و کردار کے کس اعلیٰ درجے کے غماز ہیں یہ جملے ... جب سامنے شہادت یقینی ہو اور معلوم ہوجائے کہ کل طلوع ہونے والا سورج بہت سے ساتھیوں کے بچھڑ جانے کے بعد بھی پیغام لے کر آئے گا.اور وہ وقت ایسا تھا کہ جب زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن پھر بھی آپ نے کسی پر جبر نہیں کیا بلکہ چراغ بجھا کر پردہ رکھا.

یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھنا چاہیں تو سیکھ سکتے ہیں

1۔ جب انسان کسی دوسرے انسان کو دکھ دے تو اس کا ری ایکشن اس کی اصلیت کو ظاہر کردیتا ہے ۔ اگر کسی شخص کے جان ومال کو کسی دوسرے کی وجہ سے نقصان پہنچے اور ایسے میں اس کا رو عمل اس کی فطرت کہلائے گا۔

2۔ انسان کے اخلاق کا معیار کے معیار کا اندازہ اس وقت ہوگا جس وقت وہ شدید غصے میں ہوگا کہ وہ کیسے بی ہیو کرتا ہے ؟ یہ اس کی اصل فطرت ہے ۔

3۔ جب کوئی شخص شدید دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہو تو اس وقت وہ کیسے برتاؤ کرتا ہے ۔


ہم اپنے اسلاف کی چیزوں پر 'واہ واہ' کرنے کے بعد ان کو بھلا دیتے ہیں حالانکہ ان چیزوں سے تو زندگی کا چلنا سکھایا جاتا ہے اور اس کو تجربتا طاری کرلینا ہی پیروی کہلاتا ہے ۔

ہم فقیری ڈھونڈتے ہیں ۔دقت ہمیں وہاں پیش آتی ہے جہاں ہم فقیری کو وظائف و تسبیحات میں ڈھونڈنے لگتے ہیں ۔ تسبیحات تو محض concentration span بڑھا دیتی ہیں ۔ انسان زیادہ یکسو ہوجاتا ہے ورنہ تسبیحات ہاتھ میں لے کر پھیرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ ہاں دنیاوی فائدہ ضرور ہے کہ میرے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر لوگ مجھے عبادت گزار سمجھیں گے اور سادہ لوح لوگ مجھے سلام کریں گے ۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تسبیحات نہیں دیکھتا کہ کوئی آدمی دن میں کتنی بار تسبیح پڑھ رہا ہے اس سے رب کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔

بہت سی چیزیں جو ہندو کلچر سے ہمارے تمدن کا حصہ بنیں ان میں''مالا جپنے '' کا تصور بھی ہے کہ ہر کام کے لیے وظیفہ تلاش کیا جائے جہاں مشکل آئی وظیفہ پڑھ لیا

جو لوگ اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور جن کو اللہ اپنا دوست بنا لیتا ہے اور جن لوگوں کو اللہ نے عظمت عطا فرمائی ، ان کا زاویہ دیکھیں کیا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ اگر حضرت امام حسین رض ایک بار رب کے آگے دعا کرتے کہ یا اللہ ! ہم پر اس وقت کو ٹال دے تو کیا رب ان کی نہ سنتا ؟

کیا حضرت امام حسین رض کو کسی ولی اللہ سے کم وظائف معلوم تھے ؟

لیکن حضرت امام حسین رض نے اس وقت کو ٹالنے کی دعا نہیں فرمائی ۔۔۔ عین شہادت کے وقت بھی یہ دعا نہیں فرمائی کہ یا اللہ ! اس وقت کو ٹال دے ۔

انہوں نے یہ بھی نہیں کیا کہ چپ چاپ خود کو دشمنوں کے حوالے کردیا بلکہ ایک باقاعدہ جدو جہد کی ۔ تمام دوست ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوگئے ۔ آپ اکیلے رہ گئے مگر پھر بھی surrender نہیں کیا ۔ جدوجہد جاری رکھی یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔ انہوں نے میدان جنگ کی طرف جاتے ہوئے تسبیح و وظائف نہیں پڑھے ۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے نقش و قدم پر ہم کو چلنا ہوگا
 

نایاب

لائبریرین
آگہی سے بھرپور شراکت
اللہ سوہنا ہم سب کو راہ ہدایت پہ رہنے کی توفیق سے نوازے آمین
بہت دعائیں
 
Top