کہیں ہمارا سارا معاشرہ جھوٹا تو نہیں؟

کہیں ہمارا سارا معاشرہ جھوٹا تو نہیں؟
razaasghar175@gmail.com
جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے اسے ام الخبائث کہا جاتا ہے ۔ تمام برائیوں کو ایک کمرے میں بند کریں ۔اس کی چابی جھوٹ ہے۔جب تک چابی کے ذریعے کمرے کو نہ کھولیں کمرہ بند رہتا ہے۔
جی قارئین گرامی ایک سبق آموز واقعہ جو اس وقت ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ ایک صحابی حضور اقدس صلی اللہ کے پاس آیا ۔کہنے لگا یا رسول اللہ صلی میں بہت پریشان ہوں ۔مجھ سے گناہ نہیں چھوٹتا ۔۔جتنی بھی کوشش کروں. کہ گناہ چھوڑ دوں لیکن بالآخر مجھ سے گناہ سرزد ہو ہی جاتا ہے۔
رسول الل صہ نے فرمایا :۔ میں تمہیں ایک آسان نسخہ دیتا ہوں۔ وہ یہ کہ تم بس جھوٹ نہ بولو۔اور تم وعدہ کرو کہ کبھی بھی کسی بھی حالت میں جھوٹ نہیں کہنا۔ تم سے تمام برائی چھوٹ جائے گی۔ یہ سو فیصد گارنٹی ہے ۔
عرض کی ۔اتنی سی بات یا رسول اللہ صلی اللہ۔یہ تو آسان ہے میں آیندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔واپس گھر لوٹا اتنے میں اسے حسب عادت شراب نوشی کا ذہن میں آیا۔جوں ہی بوتل سامنے آیا ۔اسے رسول اللہ صلی سے کیا ہو وعدہ یاد آیا ۔میں نے تو وعدہ کرکے آیا تھا کہ جھوٹ کبھی نہیں بولوں گا لیکن ابھی میں کیا کر نے جارہا ہوں ؟ اگر میں شراب پی کے رسول اللہ صلی کے پاس جاؤں تو پوچھے تو کیا کہوں گا؟
اگر کہہ دونگا کہ میں نے شراب نوشی کی ہے پھر شراب پینے کی سزا کیونکہ خود جواقرار کر رہا ہو گا اور اگر پینے کے بعد جھوٹ کہوں کہ نہیں میں نے کوئی شراب نوشی نہیں کی۔ توپھر بھی میں سزا کو مستحق ہو گا۔ اور وعدہ خلافی بھی۔یہ سوچ کر اس نے شراب کی بوتل کو ہاتھ لگانے سے گریز کیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا دل چاہا کہ فلاں گناہ انجام دوں۔لیکن اسے رسول اللہ سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔ کہ جھوٹ نہیں بولنا۔۔ اب اگر اس گناہ کو انجام دینے کے بعد بارگاہ اقدس میں حاضر ہو جاؤں گا میرا کیا بنے گا ۔جب کہ میں نے جھوٹ نہیں بولنا۔
حسب عادت جو جو گناہ اس کے ذہن میں آجاتا ۔ایک ایک کر اس سے چھٹکارا اس لیے ملتا کہ وہ اسے جھوٹ نہیں بولنا ہے۔جی ہاں رسول خدا صلی اللہ نے یہ بہت زبردست اور عظیم نسخہ عنایت فرمایئے تھے لیکن اگر ہم آج کے معاشرے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو یہاں معیار ہی الگ ہے۔یہاں تو جھوٹ کہنے والا چالاک ،سچ بولنے والا بے وقوف اور سادہ ۔ یہاں جھوٹ کو کوئی گناہ ہی تصور نہیں کرتے ۔ جھوٹ آج کے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ بن گیا ہے۔آپ خود تجربہ کر سکتے ہیں آپ گھر سے نکلے ٹیکسی ڈرائیور آپ سے ضرور جھوٹ بولے گا۔ بازار سے کسی دکان سے کوئی چیز خریدو گے تو دکان دار قیمت کے بارے میں جھوٹ بولے گا۔ کہے گا کہ اتنے میں ہماری خود خرید بھی نہیں ۔جھوٹ ہر گھر، گلی محلے، محفل اور ٹی وی ٹاک شوز میں بولا جاتا ہے۔حتی کہ آپ کسی سرکاری دفاتر میں جائیں وہاں بھی آپ سے کسی نہ کسی حوالے سے جھوٹ بولاجائے گا۔ حتی کہ ہمارے بڑے بڑے لوگ ہمیشہ سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ جب ہمارے بڑے دن بھر ہر جگہ کانفرنسوں ،جلسوں میں طرح طرح کے جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے.توعوام تو ہواؤں کی رخ کی جانب چلی جاتی ہیں۔
ہمارے موجود وزیراعظم عمران خان صاحب سے معذرت کے ساتھ سب سے زیادہ جھوٹ میڈیا پر وہ بولتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یو ٹرن وزیراعظم کہتےہیں ۔اگر ان کے جھوٹ کی فہرست بنانا شروع کریں تو شاید ایک کتابچہ بن جائے گی۔ اس لیے یہ سوال خود بہ خود ذہن میں آجاتا ہے کہ کہیں ہمارا سارا معاشرہ جھوٹا تو نہیں؟ ہمیں اس کے جواب مثبت دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا ہی راج ہے۔جب ہمارے بڑوں کی صورت حال یہ ہے تو بچے تو بڑوں کو ہی دیکھتے ہیں۔ان ہی کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ بھی پہلے اپنے دوستوں سے سکولوں میں جھوٹ بولتے ہیں۔ کھیلوں میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے ،پھر دیرے دیرے اپنے والدین سے جھوٹ کہنا شروع کر دیتا ہے۔جب وہ اپنے والدین کواور گھر میں جھوٹ بولنا شروع کریں سمجھئے یہاں سے اس کی تربیت میں خلل آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اب وہ ہر بات پے جھوٹ بولے گا۔ اب وہ جھوٹ بولنے کو کوئی گناہ تصور نہیں کرتا اور نہ ہی عیب سمجھتا ہے۔ جب اس حالت تک پہنچ جائے تو وہ سچ کو جھوٹ ،جھوٹ کو سچ آسانی سے بناتا ہے۔

آج جھوٹ ہمارے کلچر اور ثقافت میں شامل ہونے لگا ہے۔اس لیے ہمیں سچ کو ہمارے معاشرے میں دوبارہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔جھوٹ کی سرزنش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اس کے برعکس سچائی کی قدر نہیں کرتے۔ بچے سے اگر کوئی کوتاہی سرزد ہوجائے ۔ اگر وہ اس کوتاہی کے مرتکب ہونے کے بارے میں آپ کو بتا دیے تو بجائے اس کے کہ آپ اس کے کوتاہی ہونے پر اس کو کوسنے لگ جائے آپ اس کے سچ بولنے پر داد دیں ۔ پہلے اس کے سچ بولنے پر تعریف کریں پھر اس کے غلطیوں کی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دیں۔
اگر آپ ایسا نہ کریں تو آئندہ وہ جھوٹ بولنےپرمجبورہوجائےگا۔پھر جھوٹ بولنے کی لت میں گرفتار ہوجائے گا۔ پھر آپ بھی اس گناہ میں مدد گار بنیں گے ۔اس لیے اس طرح کے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا معاشرہ ان چیزوں کو بالکل نظر انداز کرتی ہے۔ سکولوں کے حوالے سے بھی یہ بات اساتیذ کے ذہنوں میں ہونی چاہیے کہ اگر بچہ یا بچی سکول میں ہوم ورک کر کے نہ آئے تو اسے ڈانٹنے کے بجائے اسے آرام سے کام نہ کرنے کی وجہ پوچھے ۔ اگر وہ سچ بولے دے توایک دو دفعہ اسی سچ بولنے کے انعام میں اسے سزا نہ دیں یقین کیجئے آئندہ وہ کسی سے بھی جھوٹ نہیں بولے گا مجھے پولیس والوں کا یہ جملہ بہت ہی اچھا لگتا ہے کہ وہ اپنے مجرم یا ملزم سے اقرار جرم کرانے کے لیے کہتی ہے کہ اگر تم سچ سچ بولو گے تو میں تمہاری سزا میں تخفیف کروں گا۔ ورنہ جھوٹ بولنے کی صورت میں میں تمہیں کڑی سزا دوں گا۔
۔اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ سچ شراب پی کر شراب خانے بولا جاتا ہے۔ اور اسی طرح سب سے زیادہ جھوٹ مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر عدالتوں میں بولا جاتا ہے ۔
آج کے معاشرے میں جھوٹ بولنے والے افراد کو ہی عاقل اور کامل انسان ہی گردانتے ہیں۔ جب کہ سچ بولنے والوں کو سادہ اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ جب ہم اسلامی آئین کی پاسداری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ہمیں مسلمان کہلانے کے قابل بھی نہیں۔ صرف مسجد میں پانچ سے دس منٹ مومن باقی اس سے باہر ہم سب کی زندگی میں آئین اسلام کدھر ہے ۔جب کہ دین اسلام میں آپ کے زندگی کے ہرلمحہ کے لیے احکام موجود ہے۔ جھوٹ کے نقصانات بھی کم نہیں ہے ۔دین اسلام میں یہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔اس کے علاوہ جھوٹ بولنے والا ہر مجلس میں اور ہر انسان کے سامنے بے اعتبار و بے وقار ہو جاتا ہے۔جھوٹے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہیں اور جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے کیونکہ ایسا آدمی وقتی طور پر مطمئن ہوجاتا ہے لیکن بعد میں اس کا ضمیر اُسے ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اطمینان قلب کی دولت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔سب سے بڑھ کرجھوٹ برائیوں اور گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کیلئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔آج کے اس پر آشوب دور میں جھوٹ کے عام ہونے سے عجیب چیز سچ بولنے والوں کا یہ کہہ جھوٹ بولنا کہ باقی سارے لوگ ہر بات پر جھوٹ بولتے ہیں تو میرے ایک جھوٹ سے کیا ہوتا ہے؟ کبھی کبھار وہ سچ بولنے پر پچھتاتے بھی ہیں۔


شہر والے جھوٹ پر رکھتے ہیں بنیاد خلوص

مجھ کو پچھتانا پڑا محسن یہاں سچ بول کر


لیکن یہ انسان حضرت محمد ص کی بابرکت زندگی کوبھول جاتا ہے۔ رسول کریم ص نے ابھی رسالت کا اعلان ہی نہیں کیا تھا لیکن عرب کے اس دور جاہلیت میں آپ کو صادق اور امین کے لقب سے مزین ہوئے تھے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب کے اس دور میں اکثریت جھوٹ بولتے تھے لیکن آپ ص ان کی پیروی نہیں کرتے۔ بلکہ آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔اسی لئے ہمیں تاریخ اسلام میں ملتے ہیں کہ آغاز اسلام میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ وہ آپ پر ایمان تو نہیں لائے تھے لیکن اپنے امانتوں کو آپ کے پاس رکھتے۔کیو نکہ وہ بھی آپ کو صادق و امین سمجھتے تھے۔
آخر میں ہم اس تحریر کے ذریعے حکام بالا سے درخواست کرتے ہیں۔کہ وطن عزیز پاکستان دنیا میں ایک اسلامی ملک کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے شہری اچھے ہوتو ہمیں سچ کو عام کرنا ہو گا اور جھوٹ کی سرزنش کرنی ہوگی۔ ہمارے بڑوں کو میڈیا اور اسمبلی میں سر عام جھوٹ بولنے کی اجازت نہ دیں ۔خصوصاً بپمرا میں کام کرنے والے انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہونی چاہیے کہ اگر کوئی چینل جھوٹ بولے تو اس چینل کو بند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔ اس چینل کے خلاف نوٹس لے ۔ضرورت پڑنے پر کارروائی بھی کیا جائے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے شہری اچھے ہوتو ہمیں سچ کو عام کرنا ہو گا اور جھوٹ کی سرزنش کرنی ہوگی۔ ہمارے بڑوں کو میڈیا اور اسمبلی میں سر عام جھوٹ بولنے کی اجازت نہ دیں ۔خصوصاً بپمرا میں کام کرنے والے انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہونی چاہیے کہ اگر کوئی چینل جھوٹ بولے تو اس چینل کو بند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔ اس چینل کے خلاف نوٹس لے ۔ضرورت پڑنے پر کارروائی بھی کیا جائے۔
کس معاشرے میں سب کریں گے جہاں
آج کل ہمارے معاشرے کا ایک لازمی جز بن گیا ہے-جھوٹ یعنی غلط بیانی یا قصدا کوئی بات حقیقت کے خلاف بیان کرنا نہایت عام سی بات ہے-حالانکہ یہ گناہ کبیرہ اور بے حد ناپسندیدہ عمل ہے-
جھوٹ بولنے کو آج کل فیشن کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا-فیشن کی طرح یہ جھوٹ بھی شکلیں بدلتا رہتا ہے-کبھی چھٹی کے حصول کے لیے جھوٹ بولا جاتا ہے تو خاندان کے بزرگ افراد یا فوت شدگان کو دوبارہ فوت کر دیا جاتا ہے-کبھی سفر پر جانے کو چھٹی نہ ملے تو بچے کے اسپتال میں داخل ہونے کا بہانہ بنایا جاتا ہے-کبھی قرضہ لینے کے لیے ان گنت جھوٹ بولے جاتے ہیں اور اسے واپس نہ لوٹانے کے لیے بھی بے پناہ چھوٹے بڑے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے-صبح سے شام تک ہر شخص اپنے اپنے پیمانے پر جھوٹ کا بازار گرم کیے رکھے ہے۔۔۔۔۔
ایک بار رسول اﷲ ﷺ سے دریافت کیا گیا
'' یارسول اﷲﷺ! کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
'' ہاں ہوسکتا ہے۔ ''پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا،'' کیا مومن بخیل بھی ہوسکتا ہے؟''، آپﷺ نے فرمایا: ''ہاں ہوسکتا ہے!'' پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا'' کیا مومن آدمی جھوٹا بھی ہوسکتا ہے؟ ''آپﷺ نے فرمایا'' نہیں۔''۔۔۔۔۔۔پر فی زمانہ کیا ہم میں سے کوئی یہ کہہ اکتا ہے کہ وہ جھوٹا نہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ بلاوجہ بولتے ہیں۔ ۔۔۔کاش ہم دل سے اس کی توبہ کر لیں
امام حسن عسکری علیہ السَّلام سے مروی ہے کہ

جُعِلَتِ الْخَبَآئِثُ کُلّھَافَیْ بَیْتٍ وَّاحِدٍ وَجُعِلَ مِفْتَاحُھَا الْکِذْبَ
(مستدرک الوسائل ، کتاب حج، باب ۱۳۰)۔
"تمام برائیاں ایک کمرے میں مقفّل ہیں اور اسکی چابی جھوٹ ہے!"
۔ امام علی علیہ االسَّلام فرماتے ہیں (عَنْ عَلِّیٍ)لَا یَجِدُ عَبْدُ طَعْمَ الْاِیْمَانِ حَتَّی یَدْرُکَ الْکِذْبَ ھَزْلَہُ وَ جِدَّہ (کتاب "کافی") کوئی بندہ ایمان کا ذائقہ اس وقت تک چکھنے سے محروم رہتا ہے جب تک وہ جھوٹ کو ترک نہ کرے‘ خواہ وہ جھوٹ مذاق میں ہو یا سنجیدگی کے ساتھ!"۔۔۔۔۔۔
 
کہیں ہمارا سارا معاشرہ جھوٹا تو نہیں؟
razaasghar175@gmail.com
جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے اسے ام الخبائث کہا جاتا ہے ۔ تمام برائیوں کو ایک کمرے میں بند کریں ۔اس کی چابی جھوٹ ہے۔جب تک چابی کے ذریعے کمرے کو نہ کھولیں کمرہ بند رہتا ہے۔
جی قارئین گرامی ایک سبق آموز واقعہ جو اس وقت ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ ایک صحابی حضور اقدس صلی اللہ کے پاس آیا ۔کہنے لگا یا رسول اللہ صلی میں بہت پریشان ہوں ۔مجھ سے گناہ نہیں چھوٹتا ۔۔جتنی بھی کوشش کروں. کہ گناہ چھوڑ دوں لیکن بالآخر مجھ سے گناہ سرزد ہو ہی جاتا ہے۔
رسول الل صہ نے فرمایا :۔ میں تمہیں ایک آسان نسخہ دیتا ہوں۔ وہ یہ کہ تم بس جھوٹ نہ بولو۔اور تم وعدہ کرو کہ کبھی بھی کسی بھی حالت میں جھوٹ نہیں کہنا۔ تم سے تمام برائی چھوٹ جائے گی۔ یہ سو فیصد گارنٹی ہے ۔
عرض کی ۔اتنی سی بات یا رسول اللہ صلی اللہ۔یہ تو آسان ہے میں آیندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔واپس گھر لوٹا اتنے میں اسے حسب عادت شراب نوشی کا ذہن میں آیا۔جوں ہی بوتل سامنے آیا ۔اسے رسول اللہ صلی سے کیا ہو وعدہ یاد آیا ۔میں نے تو وعدہ کرکے آیا تھا کہ جھوٹ کبھی نہیں بولوں گا لیکن ابھی میں کیا کر نے جارہا ہوں ؟ اگر میں شراب پی کے رسول اللہ صلی کے پاس جاؤں تو پوچھے تو کیا کہوں گا؟
اگر کہہ دونگا کہ میں نے شراب نوشی کی ہے پھر شراب پینے کی سزا کیونکہ خود جواقرار کر رہا ہو گا اور اگر پینے کے بعد جھوٹ کہوں کہ نہیں میں نے کوئی شراب نوشی نہیں کی۔ توپھر بھی میں سزا کو مستحق ہو گا۔ اور وعدہ خلافی بھی۔یہ سوچ کر اس نے شراب کی بوتل کو ہاتھ لگانے سے گریز کیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا دل چاہا کہ فلاں گناہ انجام دوں۔لیکن اسے رسول اللہ سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔ کہ جھوٹ نہیں بولنا۔۔ اب اگر اس گناہ کو انجام دینے کے بعد بارگاہ اقدس میں حاضر ہو جاؤں گا میرا کیا بنے گا ۔جب کہ میں نے جھوٹ نہیں بولنا۔
حسب عادت جو جو گناہ اس کے ذہن میں آجاتا ۔ایک ایک کر اس سے چھٹکارا اس لیے ملتا کہ وہ اسے جھوٹ نہیں بولنا ہے۔جی ہاں رسول خدا صلی اللہ نے یہ بہت زبردست اور عظیم نسخہ عنایت فرمایئے تھے لیکن اگر ہم آج کے معاشرے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو یہاں معیار ہی الگ ہے۔یہاں تو جھوٹ کہنے والا چالاک ،سچ بولنے والا بے وقوف اور سادہ ۔ یہاں جھوٹ کو کوئی گناہ ہی تصور نہیں کرتے ۔ جھوٹ آج کے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ بن گیا ہے۔آپ خود تجربہ کر سکتے ہیں آپ گھر سے نکلے ٹیکسی ڈرائیور آپ سے ضرور جھوٹ بولے گا۔ بازار سے کسی دکان سے کوئی چیز خریدو گے تو دکان دار قیمت کے بارے میں جھوٹ بولے گا۔ کہے گا کہ اتنے میں ہماری خود خرید بھی نہیں ۔جھوٹ ہر گھر، گلی محلے، محفل اور ٹی وی ٹاک شوز میں بولا جاتا ہے۔حتی کہ آپ کسی سرکاری دفاتر میں جائیں وہاں بھی آپ سے کسی نہ کسی حوالے سے جھوٹ بولاجائے گا۔ حتی کہ ہمارے بڑے بڑے لوگ ہمیشہ سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ جب ہمارے بڑے دن بھر ہر جگہ کانفرنسوں ،جلسوں میں طرح طرح کے جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے.توعوام تو ہواؤں کی رخ کی جانب چلی جاتی ہیں۔
ہمارے موجود وزیراعظم عمران خان صاحب سے معذرت کے ساتھ سب سے زیادہ جھوٹ میڈیا پر وہ بولتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یو ٹرن وزیراعظم کہتےہیں ۔اگر ان کے جھوٹ کی فہرست بنانا شروع کریں تو شاید ایک کتابچہ بن جائے گی۔ اس لیے یہ سوال خود بہ خود ذہن میں آجاتا ہے کہ کہیں ہمارا سارا معاشرہ جھوٹا تو نہیں؟ ہمیں اس کے جواب مثبت دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا ہی راج ہے۔جب ہمارے بڑوں کی صورت حال یہ ہے تو بچے تو بڑوں کو ہی دیکھتے ہیں۔ان ہی کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ بھی پہلے اپنے دوستوں سے سکولوں میں جھوٹ بولتے ہیں۔ کھیلوں میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے ،پھر دیرے دیرے اپنے والدین سے جھوٹ کہنا شروع کر دیتا ہے۔جب وہ اپنے والدین کواور گھر میں جھوٹ بولنا شروع کریں سمجھئے یہاں سے اس کی تربیت میں خلل آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اب وہ ہر بات پے جھوٹ بولے گا۔ اب وہ جھوٹ بولنے کو کوئی گناہ تصور نہیں کرتا اور نہ ہی عیب سمجھتا ہے۔ جب اس حالت تک پہنچ جائے تو وہ سچ کو جھوٹ ،جھوٹ کو سچ آسانی سے بناتا ہے۔

آج جھوٹ ہمارے کلچر اور ثقافت میں شامل ہونے لگا ہے۔اس لیے ہمیں سچ کو ہمارے معاشرے میں دوبارہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔جھوٹ کی سرزنش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اس کے برعکس سچائی کی قدر نہیں کرتے۔ بچے سے اگر کوئی کوتاہی سرزد ہوجائے ۔ اگر وہ اس کوتاہی کے مرتکب ہونے کے بارے میں آپ کو بتا دیے تو بجائے اس کے کہ آپ اس کے کوتاہی ہونے پر اس کو کوسنے لگ جائے آپ اس کے سچ بولنے پر داد دیں ۔ پہلے اس کے سچ بولنے پر تعریف کریں پھر اس کے غلطیوں کی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دیں۔
اگر آپ ایسا نہ کریں تو آئندہ وہ جھوٹ بولنےپرمجبورہوجائےگا۔پھر جھوٹ بولنے کی لت میں گرفتار ہوجائے گا۔ پھر آپ بھی اس گناہ میں مدد گار بنیں گے ۔اس لیے اس طرح کے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا معاشرہ ان چیزوں کو بالکل نظر انداز کرتی ہے۔ سکولوں کے حوالے سے بھی یہ بات اساتیذ کے ذہنوں میں ہونی چاہیے کہ اگر بچہ یا بچی سکول میں ہوم ورک کر کے نہ آئے تو اسے ڈانٹنے کے بجائے اسے آرام سے کام نہ کرنے کی وجہ پوچھے ۔ اگر وہ سچ بولے دے توایک دو دفعہ اسی سچ بولنے کے انعام میں اسے سزا نہ دیں یقین کیجئے آئندہ وہ کسی سے بھی جھوٹ نہیں بولے گا مجھے پولیس والوں کا یہ جملہ بہت ہی اچھا لگتا ہے کہ وہ اپنے مجرم یا ملزم سے اقرار جرم کرانے کے لیے کہتی ہے کہ اگر تم سچ سچ بولو گے تو میں تمہاری سزا میں تخفیف کروں گا۔ ورنہ جھوٹ بولنے کی صورت میں میں تمہیں کڑی سزا دوں گا۔
۔اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ سچ شراب پی کر شراب خانے بولا جاتا ہے۔ اور اسی طرح سب سے زیادہ جھوٹ مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر عدالتوں میں بولا جاتا ہے ۔
آج کے معاشرے میں جھوٹ بولنے والے افراد کو ہی عاقل اور کامل انسان ہی گردانتے ہیں۔ جب کہ سچ بولنے والوں کو سادہ اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ جب ہم اسلامی آئین کی پاسداری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ہمیں مسلمان کہلانے کے قابل بھی نہیں۔ صرف مسجد میں پانچ سے دس منٹ مومن باقی اس سے باہر ہم سب کی زندگی میں آئین اسلام کدھر ہے ۔جب کہ دین اسلام میں آپ کے زندگی کے ہرلمحہ کے لیے احکام موجود ہے۔ جھوٹ کے نقصانات بھی کم نہیں ہے ۔دین اسلام میں یہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔اس کے علاوہ جھوٹ بولنے والا ہر مجلس میں اور ہر انسان کے سامنے بے اعتبار و بے وقار ہو جاتا ہے۔جھوٹے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا ہے۔رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہیں اور جھوٹ غم و فکر پیدا کرتا ہے کیونکہ ایسا آدمی وقتی طور پر مطمئن ہوجاتا ہے لیکن بعد میں اس کا ضمیر اُسے ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اطمینان قلب کی دولت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔سب سے بڑھ کرجھوٹ برائیوں اور گناہوں کا دروازہ ہے کیونکہ ایک جھوٹ بول کر اسے چھپانے کیلئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔آج کے اس پر آشوب دور میں جھوٹ کے عام ہونے سے عجیب چیز سچ بولنے والوں کا یہ کہہ جھوٹ بولنا کہ باقی سارے لوگ ہر بات پر جھوٹ بولتے ہیں تو میرے ایک جھوٹ سے کیا ہوتا ہے؟ کبھی کبھار وہ سچ بولنے پر پچھتاتے بھی ہیں۔


شہر والے جھوٹ پر رکھتے ہیں بنیاد خلوص

مجھ کو پچھتانا پڑا محسن یہاں سچ بول کر


لیکن یہ انسان حضرت محمد ص کی بابرکت زندگی کوبھول جاتا ہے۔ رسول کریم ص نے ابھی رسالت کا اعلان ہی نہیں کیا تھا لیکن عرب کے اس دور جاہلیت میں آپ کو صادق اور امین کے لقب سے مزین ہوئے تھے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عرب کے اس دور میں اکثریت جھوٹ بولتے تھے لیکن آپ ص ان کی پیروی نہیں کرتے۔ بلکہ آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔اسی لئے ہمیں تاریخ اسلام میں ملتے ہیں کہ آغاز اسلام میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ وہ آپ پر ایمان تو نہیں لائے تھے لیکن اپنے امانتوں کو آپ کے پاس رکھتے۔کیو نکہ وہ بھی آپ کو صادق و امین سمجھتے تھے۔
آخر میں ہم اس تحریر کے ذریعے حکام بالا سے درخواست کرتے ہیں۔کہ وطن عزیز پاکستان دنیا میں ایک اسلامی ملک کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے شہری اچھے ہوتو ہمیں سچ کو عام کرنا ہو گا اور جھوٹ کی سرزنش کرنی ہوگی۔ ہمارے بڑوں کو میڈیا اور اسمبلی میں سر عام جھوٹ بولنے کی اجازت نہ دیں ۔خصوصاً بپمرا میں کام کرنے والے انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہونی چاہیے کہ اگر کوئی چینل جھوٹ بولے تو اس چینل کو بند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔ اس چینل کے خلاف نوٹس لے ۔ضرورت پڑنے پر کارروائی بھی کیا جائے۔
یوٹرن یعنی جھوٹ آج کل اسے فیشن سمجھتے ہیں
 
کس معاشرے میں سب کریں گے جہاں
آج کل ہمارے معاشرے کا ایک لازمی جز بن گیا ہے-جھوٹ یعنی غلط بیانی یا قصدا کوئی بات حقیقت کے خلاف بیان کرنا نہایت عام سی بات ہے-حالانکہ یہ گناہ کبیرہ اور بے حد ناپسندیدہ عمل ہے-
جھوٹ بولنے کو آج کل فیشن کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا-فیشن کی طرح یہ جھوٹ بھی شکلیں بدلتا رہتا ہے-کبھی چھٹی کے حصول کے لیے جھوٹ بولا جاتا ہے تو خاندان کے بزرگ افراد یا فوت شدگان کو دوبارہ فوت کر دیا جاتا ہے-کبھی سفر پر جانے کو چھٹی نہ ملے تو بچے کے اسپتال میں داخل ہونے کا بہانہ بنایا جاتا ہے-کبھی قرضہ لینے کے لیے ان گنت جھوٹ بولے جاتے ہیں اور اسے واپس نہ لوٹانے کے لیے بھی بے پناہ چھوٹے بڑے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے-صبح سے شام تک ہر شخص اپنے اپنے پیمانے پر جھوٹ کا بازار گرم کیے رکھے ہے۔۔۔۔۔
ایک بار رسول اﷲ ﷺ سے دریافت کیا گیا
'' یارسول اﷲﷺ! کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
'' ہاں ہوسکتا ہے۔ ''پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا،'' کیا مومن بخیل بھی ہوسکتا ہے؟''، آپﷺ نے فرمایا: ''ہاں ہوسکتا ہے!'' پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا'' کیا مومن آدمی جھوٹا بھی ہوسکتا ہے؟ ''آپﷺ نے فرمایا'' نہیں۔''۔۔۔۔۔۔پر فی زمانہ کیا ہم میں سے کوئی یہ کہہ اکتا ہے کہ وہ جھوٹا نہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ بلاوجہ بولتے ہیں۔ ۔۔۔کاش ہم دل سے اس کی توبہ کر لیں
امام حسن عسکری علیہ السَّلام سے مروی ہے کہ

جُعِلَتِ الْخَبَآئِثُ کُلّھَافَیْ بَیْتٍ وَّاحِدٍ وَجُعِلَ مِفْتَاحُھَا الْکِذْبَ
(مستدرک الوسائل ، کتاب حج، باب ۱۳۰)۔
"تمام برائیاں ایک کمرے میں مقفّل ہیں اور اسکی چابی جھوٹ ہے!"
۔ امام علی علیہ االسَّلام فرماتے ہیں (عَنْ عَلِّیٍ)لَا یَجِدُ عَبْدُ طَعْمَ الْاِیْمَانِ حَتَّی یَدْرُکَ الْکِذْبَ ھَزْلَہُ وَ جِدَّہ (کتاب "کافی") کوئی بندہ ایمان کا ذائقہ اس وقت تک چکھنے سے محروم رہتا ہے جب تک وہ جھوٹ کو ترک نہ کرے‘ خواہ وہ جھوٹ مذاق میں ہو یا سنجیدگی کے ساتھ!"۔۔۔۔۔۔
بہت اعلیٰ ۔۔عمدہ
 

سیما علی

لائبریرین
امامِ حسن عسکری علیہ السلام

بہترین آنکھوں، کان اور دل کے متعلق تیز ترین آنکھیں وہ ہیں جو نیکی اور اچھائی میں کھلی ہوں۔ زیادہ سننے والا کان وہ ہے جو نصیحت سنے اور اس سے فائدہ حاصل کرے۔ محفوظ ترین اور سالم ترین دل وہ ہیں جو شبہ سے پاک ہوں۔

(۱۔تحف العقول، ص۲۳۵۔۲۔بحار،ج۷۸، ص۱۰۹)۔
 

سید عمران

محفلین
اچھا مضمون ہے۔۔۔
ایک گزارش سب سے ہے کہ ہم تحریر لکھتے وقت اس میں ہزاروں الفاظ ڈالتے ہیں لیکن جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا ہے تو صلی اللہ علیہ وسلم کے چار الفاظ نہیں لکھتے۔ یا تو ’’ص‘‘ لکھ دیتے ہیں یا طغرہ لگا دیتے ہیں۔۔۔
ہماری تحریر کے لاکھوں الفاظ ایک طرف اور درود کے یہ چار الفاظ ایک طرف۔۔۔
پوری تحریر میں ہم کم از کم ایک بار ہی سہی پورا دردو شریف ضرور لکھیں۔۔۔
ساری تحریر میں یہ واحد شے ہے کہ جب تک لکھی رہے گی مسلسل ثواب ملتا رہے گا!!!
 
Top