کہیں طالبان تو کہیں بلوچ مزاحمت کار

130427065755_karachi_blast_3.jpg

ان حملوں سے انتخابی مہم بری طرح متاثر ہوئی ہے

پاکستان میں 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے قریب آتے ہی ملک کے تین صوبوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
فاٹا ،خیبر پختون خوا اور کراچی میں طالبان جبکہ بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند قوتیں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ایک جانب طالبان نے پاکستان پیپلز پارٹی عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے تو دوسری جانب بلوچستان میں مسلم لیگ نواز، جمعیت علماء اسلام ف اور بی این پی عوامی کے انتخابی امیدواروں پر بلوچ مزاحمتی تنظمیں حملے کر چکی ہیں۔
ان حملوں سے نہ صرف انتخابی مہم بری طرح متاثر ہوئی بلکہ خوف اور بے یقینی کی فضا کومزید تقویت ملی ہے۔
گزشتہ ہفتے تک کالعدم تنظیم تحریک طالبان نے خیبر پختون خوا کو زیادہ تر حملوں کا نشانہ بنائے رکھا لیکن اس ہفتے ان کے حملوں کا تر زور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی جانب ہے۔
کراچی کواس لیے بھی حساس قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہاں سے وہ تینوں سیاسی جماعتیں ایک ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جن کو طالبان نے دھمکی دی رکھی ہے ۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان نے گزشتہ دو دنوں میں کراچی میں تین بڑے حملے کیے ہیں۔ ان حملوں میں ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی مراکز کو نشانہ بنایا گیا جس میں سولہ افراد ہلاک جبکہ چالیس زخمی ہوئے ہیں۔
تشدد کا تازہ واقعہ کراچی غربی کے علاقے مومن آباد سے متصل بسم اللہ کالونی میں پیش آیا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری جنرل کو مارنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے، اس واقعہ میں دس افراد ہلاک ہوئے۔
کراچی میں جہاں پہلے سے انتخابی مہم کے حوالے خاموشی موجود تھی اب ان حملوں کے بعد اس میں مزید سکوت کا امکان ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے ان واقعات کا زیادہ اثر ووٹنگ والے دن پڑے گا۔ طالبان کی جانب سے کراچی میں پے در پے ہونے والے حملوں سے جہاں ایک جانب شہر میں طالبان کی مضبوطی کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ریاستی اداروں کی ناکامی بھی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔
دوسری جانب صوبے بلوچستان میں جہاں طویل عرصے سے بلوچ مزاحمتی گروپوں کے حملے جاری ہیں، انتخابات کے قریب آتے ہی ان حملوں میں بھی تیزی آئی ہے۔

130111023052_pakistan_blast_304x171_ap_nocredit.jpg

انتخابات کے قریب آتے ہی ان حملوں میں بھی تیزی آئی ہے

کوئٹہ میں گزشتہ ماہ ضلعی الیکشن کمیشن ضیاءاللہ قاسمی کے قتل بعد 4 اپریل کو خاران اور 6 اپریل کو نوشکی میں الیکشن کمیشن کے دفاتر پر حملے ہوئے۔
سب سے بڑا واقعہ 16 اپریل کو خضدار میں پیش آیا جہاں پاکستان مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر سردار ثناءاللہ زہری کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس میں ان کے بیٹے بھائی اور بھتیجے کی ہلاکت ہوئی۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ نے قبول کی تھی ۔
22 اپریل کو ضلع پنجگور میں بی این پی عوامی کی انتخابی ریلی پر حملہ کیا گیا جبکہ 26 اپریل کو بولان کے علاقے مچھ میں جے یو آئی ایف کے امیدورار کے قافلے پر فائرنگ کی گئی جس میں چار افراد زخمی ہوئے۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان کا کہنا ہے تینوں سیاسی جماعتوں پر حملے کی وجہ ان کا سیکولر ہونا اور پچھلی حکومت میں شامل ہونا ہے۔
طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے مطابق کسی اورسیاسی جماعت کے خلاف ان کی کوئی جنگ نہیں۔
اگرچہ طالبان ملک میں رائج جمہوری نظام کے سخت مخالف ہیں لیکن اس وقت پورے جمہوری اورپوری انتخابی مہم کے بجائے وہ تین جماعتوں کے خلاف سرگرم نظر آرہے ہیں۔

ادھر بلوچ مزاحمت صوبے میں سیاسی عمل کے مخالف ہیں اس لیے ان کی جانب سے الیکشن کمیشن کے دفاتر سمیت سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور لوگوں کو انتخابات کے عمل سے دور رہنے کا کہا گیا ہے۔
اس پورے منظرنامے میں ایک سوال اہمیت کا حامل بنتا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ طالبان اور بلوچ مزاحمت کارروں کے خوف تلے ہونے والے انتخابات میں کون متاثر ہو گا اور کس کو فائدہ پہنچے گا؟ یہ انتخابات کتنے شفاف ہوں گے اور اس کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی کا کیا حال ہوگا؟

احمد ولی مجیب
بی بی سی نیوز، کوئٹہ
 
Top