کہاں کی مٹی ہے ہم کو کہاں بلاتی ہے(منور رانا)

قربان

محفلین
احمد فرازؔ اور میں
ہندو پاک کے تعلقات ہمیشہ سیاسی دھوپ چھاؤں کے زیرِ اثر رہتے ہیں۔دونوں طرف کے سیاسی شکاری اپنی اپنی گردن میں بیزاری کی غُلیلیں لٹکائے ایوانِ سیاست میں گھومتے رہتے ہیں، لیکن ان بے پناہ شطرنجی چالوں کے باوجود اردو غزل کے ملائم، ریشمی اور بے پناہ خوبصورت ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں کی سرسراہٹ دونوں ملکوں کے عوام اور خواص اپنے اپنے شانوں پر محسوس کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے 54برسوں اور اکیسویں صدی کے گذرتے ہوئے آٹھ برسوں میں سیاسی اُٹھا پٹک کی بدولت دونوں طرف کی بہت سی آنکھیں خونِ کبوتر کی طرح لال ہوئیں۔ کئی بار نوبت جنگوںتک بھی پہونچی۔ دونوں طرف کے سفارتی تعلقات منتشر بھی ہوئے، ایمبیسی کے دروازوں پر تالے پڑ گئے۔ دونوں طرف ایک دوسرے کی صورتیں دیکھ کر منھ پھیرلینے کی عادت سی پڑ گئی۔ بظاہر سفارتی عملہ خوبصورت جہازوں میں بیٹھ کر اپنے اپنے ملکوں کے لئے روانہ بھی ہو گیا، سرحدوں پر خاردار تاروں کو لپیٹ دینے سے ملک تو تقسیم ہو سکتے ہیں لیکن زمین اور ماں کی دودھ ابلتی ہوئی چھاتیوں کو دنیا کی کوئی بھی سائنس تقسیم نہیں کر سکتی۔ یہ تو ممکن ہے کہ ماں اپنے جُڑواں بچوں کو الگ الگ چھاتیوں سے دودھ پلا کر تناور درخت بنا دے، لیکن ماں کی موجودگی میں تقسیم جیسے گھناؤنے لفظ کو کبھی اہمیت حاصل نہیں ہو پاتی۔کاش یہ دونوں ملک بھی ماں کی چھاتیوں کیطرح ہوتے، کبھی ہم اِس طرف رہتے کبھی ہم اُس طرف رہتے۔
احمد فرازؔبظاہر خوش نصیب لیکن وہ بد نصیب انسان تھے جنھیں کبھی مملکت پاکستان نے کسی ملک کا سفارتی عہدہ نہیں پیش کیا ، لیکن احمد فرازؔ کو دنیاکی عظیم ترین زبان اردو سے محبت کرنے والوں نے ہمیشہ پروشوتم بھگوان رام کی سرزمینِ ہند پر پاکستان کا سب سے لائق ترین پاکستانی سفیر تصور کیا۔
شاعری کے حوالے سے بیسویں صدی میںعلامہ اقبالؔ کے علاوہ کسی بھی خوش نصیب شاعر کو یہ اعزاز نصیب نہیں ہوا۔ احمد فرازؔ کے پاس گرین ویزا تھا لیکن یہ بہت معمولی چیز ہے۔کبھی کبھی ایوانِ اقتدار کے چوبداروں تک کو اس اعزاز سے سرفراز کر دیا جاتا ہے۔ احمد فرازؔ کو تو یہ اعزاز حاصل تھا کہ فراخدل ہندوستان میں ان کو جسم کی تلاشیوں کی منزل سے نہیں گذرنا پڑتا تھا۔ الیکٹرانک ڈٹیکٹروں کا اس وقت گلا بیٹھ جاتا تھا جب وہ احمد فرازؔ کے نزدیک پہنچتے تھے، یہ خداداد اعزاز انھیں کسی سیاسی پارٹی کے جھنڈے کی بدولت نصیب نہیںہوا تھا ،بلکہ یہ اعزاز اس بات کا اعلان کرتا رہتا تھا کہ اگر ہندوستان اور پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں کو ایمبیسی کی بھول بھلیّا سے گذرنے کا دکھ نہ اٹھانا پڑے تو ان دو سگے بھائیوں جیسے ملکوں کو سفارتی دفتر کھولنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، میں نے کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کو بھی پاکستان ایمبیسی میں ایسے چلتے دیکھا ہے، جیسے لوگ اپنے ڈرائنگ روم میں چلتے ہیں، شیر اپنی کچھار میں چلتا ہے، ہوا اپنی وادی میں چلتی ہے، کرنسی اپنے ملک میں چلتی ہے، دوست اپنے دوست کے گھر میں چلتے ہیں۔
میری نوجوانی میں احمد فرازؔ میرے سب سے پسندیدہ شاعر تھے۔ جوانی کے دنوں میں وہ میرے آئیڈیل ہو چکے تھے، اور پچاس برس کی عمر کا حصہ پار کرتے کرتے وہ میرے لئے نشانِ امتیاز جیسے ہو چکے تھے۔ ان کی شاعری ان کے رکھ رکھاؤ سے متأثر تھی، ان کی غزل میں ان کی خدا داد خود اعتمادی شامل تھی،ان کے قلم کو اللہ نے وہ نور بخشا تھا کہ اگر وہ کاغذ کے کسی کونے میں صرف لفظ ’غزل‘ لکھ کر اپنا نام بھی لکھ دیں تو ان کے معاصرین کے چہرے اتر جاتے تھے۔ ان کے فن کو تولنے کے لئے کسی نام نہاد ناقد کی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے جوہری کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اپنی ترنگ میں زندہ رہنے کا ہُنر احمد فرازؔ سے زیادہ کسی کا نصیب نہیں بن سکا۔ موجودہ عہد میں بین الاقوامی شہرت یافتہ جیسے بد قلعی لفظ کی آبرو کا نام احمد فرازؔ تھا۔ غزل کو سچ مُچ کی آبرو بخشنے والے اس شاعر کی بد نصیبی یہ تھی کہ وہ اس زمانے میں پیدا ہوا ،جب معمولی سے معمولی شاعر کے سینے پر بین الاقوامی شہرت کا بازاری Batchلگا ہوتا ہے۔ اس نے غزل کی نوک پلک کو درست کرنے میں جس مہارت سے کام لیا تھا وہ صرف اور صرف اسی کا حصہ تھی۔ غزل کو نیم وحشی صنف ِ سخن کہنے والے کلیم الدین احمد اگر زندہ ہوتے اور اپنی تحریر کی بیباکی کے برابر ایماندار بھی ہوتے تو یقینا وہ احمد فرازؔ کی کلیات کو یوںسیلوٹ کرتے جیسے ایک بہادر فوج کا افسر شہید فوجی کی لاش کو سلامی دیتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں انھوں نے اپنی زندگی کے کافی دن جلا وطنی کی آگ میں جل کر گزارے، بظاہر جلا وطنی ایک مردہ سا لفظ ہے، لیکن اسے زندہ کرنے کے لئے کبھی اپنے گھر کے اس روشن دان کو بند کر دیجئے جہاں کبوتر کا گھونسلہ ہوتا ہے۔ پھر آپ کچھ دنوں تک کبوتروں کی چھٹپٹاہٹ دیکھئے۔ ان کی بے بسی ملاحظہ فرمائیے۔ ان کی اداس آنکھوں میں تیرتے ہوئے کرب کو محسوس کیجئے۔ ان کے بار بار بازو تولنے کا عمل دیکھئے، تب آپ کو تھوڑا بہت جلا وطنی کے دکھ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ احمد فرازؔ کی جلا وطنی کے زمانے میں یہ خاکسار ،یہ بے سرو ساماں شخص تقریباً ایک مہینے تک ان کا میزبان رہا ہے، شاید جلا وطنی کی سزا کا کلکتے سے ہمیشہ ایک خاص تعلق رہا ہے۔ نواب واجد علی شاہ نے لکھنؤ کے بعد کلکتے میں رہنا قبول کیا۔ ٹیپو سلطان کے بچوں نے اپنی وفادار مٹی سے بنگال کی سرزمین کو سرخرو کیا، تو پھر احمد فرازؔ کلکتہ کیوں نہیں آتے۔ کلکتہ تو وہ احاطۂ عافیت ہے جس نے لاکھوں مہاجرین بنگلہ دیش کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔
کلکتہ جس نے شاہِ اودھ کو پناہ دی
اپنا بنا کے وضعِ مروّت نباہ دی​
ایک جلاوطن کے ساتھ شب وروز گذارنا بھی دنیاکا تکلیف دہ عمل ہے، کیوں کہ وہ ہر آتے جاتے پرندے میں اپنے وطن کی خوشبو تلاش کرتا ہے، باد صبا ہو یا نسیم سحر، اسے اپنے ملک سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ رات وہ خیمۂ تاریکی ہے، جس کے آتے ہی جلا وطن انسان ایسے بے چین ہو جاتا ہے، جیسے نافے سے پھوٹنے والی خوشبو ہرن کو پاگل کر دیتی ہے۔ کبھی غریب الوطنی کے موسم میں رات کے وقت غور سے چاند تاروں کی طرف دیکھئے تو محسو س ہوتا ہے کہ جیسے یہ اپنے گھر کی چھت پر کھلے ہوئے وہ پھول ہیںجنھیں ہم راتوں میں دیکھتے آئے ہیں۔
فرازؔ بھائی سے میرے مراسم دوستانہ بالکل نہیں تھے، کیوں کہ نہ تو میں ان کا ہم عمر تھا، نہ ہم مشرب اور نہ ہی میں نے کبھی اپنے آپ کو اتنا بڑا شاعر سمجھنے کی غلطی کی جو عموماً رسائل میں’’شائع شدہ‘‘اورمشاعروں میںضائع شدہ شعراء کر بیٹھتے ہیں۔ لہذا میرے اور ان کے درمیان ہمیشہ ایماندارانہ مراسم رہے، جس میں نہ خوف شامل تھا، نہ احساس کمتری ، نہ لالچ شامل تھا، نہ خود سری، ہم دونوں کے تعلقات میں ایک دوسرے کے لئے بے پناہ محبتیں شامل رہیں۔ ان پر ہمیشہ ایک بیزاری کی کیفیت طاری رہتی تھی۔اسے ان کے تمام ہم عصر ان کا غرور بے جا سمجھتے تھے، لیکن ان کی اس کیفیت کو میں نے ہمیشہ ان کی سیماب مزاجی کے درجے میں رکھا۔1990میں شہر قائد کے ایک مشاعرے میں فرازؔ صاحب اسٹیج پر آئے اور جوتوں سمیت گورنر سندھ کے برابر میں بیٹھ گئے ، ظاہر ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا شاعر یہ جرأت ِ رندانہ نہیں کر سکتا کہ وہ عزت مآب گورنر کے برابر میں جوتوں سمیت آکر بیٹھ جائے، لیکن احمد فرازؔ معصومیت، مقبولیت اور محبوبیت کی اس منزل پر تھے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے گورنر کے برابر میں جوتوں سمیت بیٹھ سکتے تھے۔ آپ اسے میری بے جا ضد پر محمول کریں گے لیکن میں اسے کسی بھی شاعر کی فقیرانہ بے نیازی کی معمولی سی ادا سمجھتا ہوں۔ آپ خود غور فرمائیں کہ سندھ کے اُس گورنر کا نام کسی کو بھی یاد نہیں ہو گا لیکن فراز ؔکی موت کی خبر سُن کر دنیا میں ان کے ہزاروں چاہنے والوں نے اپنے سامنے سے کھانے کی پلیٹیں ہٹا دی تھیں۔ سلطان مسعود سلجوقی کے عہدِ حکومت کے ایک مشہور قاضی کمال الدین شہرزوری نے دربار میں موجود ایک دوسرے قاضی سے مخاطب ہو تے ہوئے کہا تھا کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں، جن میں سے دو جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں! جہنم میں جانے والے قاضی ہم دونوں ہیں جو بادشاہوں کے آستانوں پر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیںاور جنتی قاضی وہ ہے جس کی شکل نہ ان بادشاہوں نے کبھی دیکھی ہے اور نہ اس نے ان بادشاہوں کی صورت دیکھی ہے۔
شاعری کے لئے غالبؔ کا پھکڑ پن ہی نہیں، میرؔ جیسا متلون مزاج ہونا بھی ضروری ہے، مومنؔ کی طرح حسن پرست ہونے کے ساتھ ساتھ یگانہؔ جیسی خود سری کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ان تمام قلندرانہ خوبیوںیا خرابیوں کے ساتھ دنیاکو خاص طور سے اپنے ہم عصروں کو خوش رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اچھے تالے ہر چابی سے نہیں کھلا کرتے ، اسی طرح غزل کے گیسوئے پریشاں میں کھویا ہوا ایک دیوانہ اپنے پیرہن کی سلوٹوں کی طرف کب دیکھتا ہے۔ کوزہ گر صرف چاک سے کھیلتی مٹی کی ناز برداری کرنا جانتا ہے، اُسے کھلونوں کی نمائش سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ سنگ تراش چھینی اور ہتھوڑی سے صورتیں ابھارنا چاہتا ہے، اسے فقیر کی دعا اور بادشاہ کا انعام ایک جیسے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ خاکسار کے ان دلائل کی روشنی میں اگر آپ احمد فرازؔ کی شخصیت کا جائزہ لیں گے، تووہ اپنے عہد کی غزل کا سب سے بڑا بُت تراش دکھائی دے گا ۔
فرازؔ بھائی بظاہر چڑچڑے دکھائی دیتے تھے ،بہت سنجیدہ بھی نظر آتے تھے، ہر وقت کسی فکر میں کھوئے کھوئے رہتے تھے، لیکن ان کے اندر ایک بے حد ہنس مکھ بچہ موجود تھا۔ ان کی گل افشانیٔ گفتار سے بہت کم سماعتیں آشنا تھیں۔ ان کے بے ساختہ قہقہوں میں آبشاروں جیسی گنگناہٹ شامل تھی، وہ جب بھی مجھے ملتے سورج مکھی کی طرح کھِل جاتے تھے، پھر دلچسپ واقعات کی جھڑی لگا دیتے تھے۔ ان کے سنائے ہوئے کچھ واقعات یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قارئین کو احمد فرازؔ کی بے انتہا بذلہ سنجی کا اندازہ بھی ہو جائے۔
ایک دن انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ تقسیم کے بعد ایک صاحب پاکستان سے ہندوستان آئے ۔ اپنی شام کو یادگار بنانے اور اپنے بوسیدہ غموں کی ترپائی کے لئے ایک شراب خانے میں داخل ہوئے، ایک میز پر بیٹھ کر انھوں نے اپنا غم غلط کرنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کی نگاہ ایک سردار جی کی طر ف گئی جو پاس والی میز پر بیٹھے ہوئے مئے نوشی کر رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ سردار جی میز پر اکیلے تھے، لیکن ان کی میز پر دو گلاس رکھے تھے، ایک گلاس مستقل ان کے استعمال میں تھا اور دوسرا گلاس میز کے دوسرے کونے پر بھرا رکھا ہوا تھا۔ جام خالی ہوتے ہی وہ پھر نیا جام منگواتے اور اپنی تشنگی دور کرنے میں مصروف ہو جاتے، پاکستان سے آئے ہوئے شخص نے سردار جی کی میز پر پہنچ کر بیٹھنے کی اجازت طلب کی، اور پوچھا کہ جناب اکیلے ہیں لیکن آپ کی میز پر بیرا ہمیشہ دوگلاس لا کر رکھتا ہے۔ سردار جی نے بوجھل پلکوں کو اٹھا یا اور رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگے کہ یہ سامنے والا گلاس میرے بے وفا دوست چودھری انورؔ کا ہے جو مجھے چھوڑ کر پاکستان چلا گیا ہے۔ میں اس کے بغیر شراب خانے میں آتا ہوں تو میرا غم اور بھی جوان ہو جاتا ہے لیکن دوستی کے درد کو سرحدوں پر لگائی گئی خار دار تاروں کی باڑھ نہیں سمجھ سکتی، لہذا میں نے اپنا یہ معمول بنا رکھا ہے کہ میں اپنے یار چودھری انورؔ کے لئے بھی ایک گلاس بناتا ہوں، اس طرح میرے ٹوٹے ہوئے دل کے کچھ ٹکڑے آپس میں اپنے آپ جُڑنے لگتے ہیں۔
کئی برس بعد وہی پاکستانی صاحب دوبارہ ہندوستان تشریف لائے اور اسی درِمیخانہ تک پہونچ گئے، جہاں پچھلی دفعہ بھی انھوں نے کئی شامیں گذاری تھی۔ حسب ِ معمول سردار جی میز پر بیٹھے ہوئے شغلِ مئے نوشی میںمصروف تھے، لیکن اس بار میز پر صرف ایک ہی گلاس موجود تھا۔ ان صاحب نے سردار جی سے اس اکیلے پن کا سبب پوچھا تو سردار جی نے بہت اداس لہجے میں بتانا شروع کیا کہ جناب! ڈاکٹر نے مجھے شراب چھونے سے سختی کے ساتھ منع کر دیا ہے لہذا میں نے تو شراب چھوڑ دی ہے صرف چودھری انورؔ کے حصے کی شراب پی کر بچی کھچی زندگی گذار رہا ہوں۔
ان کا سنایا ہوا ایک ایسا ہی دلچسپ قصہ اور ہے جسے ضابطۂ تحریر میں لانا دشوار ہے، لیکن میں تحریر کرنا چاہتا ہوں ، تاکہ اپنے چاہنے والوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر جانے والے شہنشاہِ غزل احمد فرازؔ کی خوش مزاجی کو مستند ثابت کیا جا سکے، ایک حکیم صاحب کے مطب میں ایک خان صاحب تشریف لائے، کافی دیر تک اپنا نمبر آنے اور تھوڑی سی تنہائی ہو جانے کا انتظار کرتے رہے، غرض کہ اپنا نمبر آنے پر انھوں نے حکیم صاحب کو اپنی بیماری کا حال بتانا شروع کردیا ۔ تفصیل سے خاں صاحب کی بیماری کے بارے میں سننے کے بعد حکیم صاحب نے خاں صاحب سے کہا کہ آپ کو آتشک نام کی ایک جنسی بیماری ہو گئی ہے۔ اس بیماری کے ہونے کی تین وجوہات ہیں۔ ایک تو آپ نے کسی بازاری عورت کے ساتھ مباشرت کی ہوگی۔ دوسرے آپ اغلام بازی جیسے بے ہودہ عمل سے گذرے ہوں گے۔ تیسرے آپ نے دوپہر کے وقت سورج کی طرف رخ کر کے ریت پر پیشاب کیا ہو گا۔ یہ تینوں وجوہات ہیںجس کے سبب اس غلیظ بیماری نے آپ کے صحت مند جسم میں اپنا گھر بنا لیا ہے۔ لہذا خاں صاحب اب آپ سو چ کر بتائیں کہ آپ سے کون سی غلطی سرزد ہوئی ہے جس کے سبب آپ اس بیماری کی چپیٹ میں آگئے ہیں۔خاں صاحب ایک لمحے کے لئے ٹھٹکے، ادھر اُدھر دیکھا،پھر کہنے لگے کہ حکیم صاحب جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، میں نے سورج کی تیز روشنی میں جلتی ہوئی ریت پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا تھا۔ پھر بھی احتیاطاً آپ دوا اغلام بازی کی دیجئے گا۔ایسے بہت سے دلچسپ واقعات سے ان کی گفتگو آراستہ رہتی تھی۔
غالباً رامپور کے مشاعرے میں فرازؔبھائی آئے ہوئے تھے، میں کچھ گھریلو الجھنوں کی وجہ سے رامپور کے مشاعرے میں شریک نہیں ہو سکا۔ دوسرے دن فراز بھائی لکھنؤ آئے تو مجھے فون کر کے حالات پوچھے اور میری پریشانیوں کے دور ہونے کی دعائیں دیتے رہے۔ میں ان سے ملنے میزبان ہوٹل گیا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ کھل گئے اور میں بھی تھوڑی دیر کے لئے اپنے گھریلو دکھوں کو بھول گیا۔ میرے یاد دلانے پر انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا جو ان کی بے پناہ مقبولیت اور محبوبیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ میں امریکہ کے کسی شہر میں مشاعرہ پڑھ رہا تھا ۔مشاعرے کے اختتام پر ایک نوجوان لڑکی آٹو گراف بُک پر ایک شعر اور دستخط کی فرمائش کر نے لگی۔ میں نے اس بچی سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے اپنا نام فرازہ ؔبتایا۔ میں نے اس بچی سے کہا کہ بیٹے فرازہؔ تو کوئی مستند لفظ نہیں ہے۔ اس بچی نے بڑی معصومیت سے بتایا کہ سر! اتفاق سے آپ میرے پاپا اور میری ممی دونوں کے ہی پسندیدہ شاعر ہیں۔ شادی کے بعد ممی اور پاپا کا مشترکہ عہد تھا کہ وہ اپنے بیٹے کا نام فراز رکھیں گے، لیکن قسمت کا کھیل دیکھئے کہ میں پیدا ہو گئی، لہذا میرے ممی پاپا نے میرا نام فرازہ رکھ دیا۔
اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پہ بچوں کا نام رکھ دیا
(انتخاب از :پھنّک تال) منور رانا
 
Top