زیف آپ نے جو کھڑی بولی کی بابت تحقیق کی ہے کیا اس کو یہاں ہم لوگوںسے شیئر نہیںکریںگے ۔۔ویسے کیا آپ اس بات سے متفق ہیںکہ پشاور اور ہزارہ کی ہند کو بولی سے برما کی سرحد پر بولی جانے والی بہاری بولی اور بنگلہ تک تمام بولیاں بشمول پوربی ، دکھنی ، بھوج پوری ، پنجابی ، آسامی ، چھتیس گڑھی ، ہریانوی ، اور دیگر اپنی اصل میں ایک ہی ہیں۔۔ ذرا پنجابی کے اس جملے پر غور کیجئے گا ( بھور ویلے قران پڑھو ) اور بنگلہ زبان میں اسی جملے کو دیکھیں (بھور بیلا قران پڑھو ) ۔۔میری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ شمالی ہند و پاکستان کی زبان اصل میںایک ہی ہے ۔۔۔ لیکن یہ بات سمجھ میںنہیںآتی کہ پشتو اور ہندکو اتنے آس پاس رہتے ہوئے اتنا دور کیسے ہو گئیں۔۔
اردو کے ارتقا سے متعلق کچھ پڑھنے کا موقع ملا ، سوچا کہ آپ سے بھی شیئر کر لوں۔۔۔شائد اس کے بعد کوئی اور صاحب بھی اس جانب متوجہ ہوں کہ کافی دن سے کسی نے اس دھاگے کا سرا پکڑنے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برصغیر میں آریاوںکی آمد کے بعد مقامی زبانوں اور آریائی زبان کے اختلاط سے ایک نئی زبان نے جنم لیا جسے “پراکرت “کہا گیا ۔۔جلد ہی پراکرت کو ادبی زبان کا درجہ مل گیا اور حکمراں اور اعلیٰ طبقے نے مذہب اور سیاست کے لئے پراکرت کے استعمال کو فروغدیا ۔۔ اسی دور میں عوامی حلقوںمیں زبان کی ایک اور قسم نے ابھرنا شروع کیا جسے‘ اپ بھرناس “ کا نام ملا ۔۔پراکرت سنسکرت سے زیادہ متاثر تھی جبکہ “ اپ بھرناس “ پر سنسکرت کا اثر کم تھا اور اس میں مقامی زبانوں کی آویزش زیادہ تھی ۔۔ “ پراکرت کے زیر اثر اس دور کی زبانوںکو تین گروپس میںتقسیم کیا گیا ہے ۔۔ ایک ۔۔ دراوڈی ( تمل ، تیلگو ، ملیالم ، کنڑ وغیرہ ) دو ۔۔۔۔۔ پشاچی ( کھڑی بولی ، سندھی ، پنجابی ، سرائیکی ، ہریانوی ، ہندکو وغیرہ ) تین ۔۔۔۔ داردا ( پشتو ، بلوچی ، دری وغیرہ ) کھڑی بولی کا تعلق پراکرت کی قسم شورسینی سے جوڑا جاتا ہے۔۔ کھڑی بولی کا سیدھا سا مطلب ہے کہ اس بولی میں فعل کے آخر میں الف (آ ) لگایا جاتا ہے ۔جیسے کہ آیا ،، کھایا ،، اٹھایا ،، کھینچا وغیرہ ،،، اس کے مقابلے میں اس دور کی دیگر بولیوں میںفعل کے ساتھ واو کا اضافہ کیا جاتا تھا جیسے ، کھایو ،، جایو ،، کھینچیو ،، اٹھایو ((شمالی ہند کی کئی بولیوںمیںاب بھی فعل کے آخر میں واو کا اضافہ دیکھا جا سکتا ہے ،خاص طور پر راجھستان اور ملحقہ علاقوں کی بولی میں ، سندھی میں بھی فعل کا اختتام واو پر ہوتا ہے )) ۔۔ اکثر مورخین کا خیال ہے کہ کھڑی بولی کا چلن دلی اور اس سے ملحقہ علاقوںمیں شروع ہوا۔۔تاہم کھڑی بولی کا علاقہ محدود تھا اور پنجابی خطے کی سب سے بڑی بولی کی شکل میںموجود تھی ۔۔۔ ہریانوی کو پنجابی اور کھڑی بولی کے درمیان کی شکل قرار دیا جا سکتا ہے ۔۔گیارہویں اور بارھویں صدی عیسوی میں دہلی میںاسلامی سلطنت کے اولین قیام کے دوران ، عربی اور فارسی کے الفاظ کھڑی بولی کا حصہ بنے ،، اسی دور میں اردو کی کچھ کچھ شکل نکلنے لگی تھی تاہم ،، عرب اور اہل فارس اسے ہند کے تناظر میں “ ہندی اور ہندوی “ کے نام سے پکارتےاور جانتے تھے۔۔ مورخین کے نذدیک یہی اردو زبان کا ابتدائی دور ہے ۔۔اس دور میں اردو پر پنجابی بولی کا اثر زیادہ تھا ،، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اردو نے اپنی الگ اور منفرد شناخت بنالی ۔۔