کھومبے کی شکست

کھومبے کی شکست
ابرار محسن
جھرّیوں بھرے چہرے والا بوڑھا جادوگر قبیلے والوں سے بار بار یہی کہتا تھا، "خبردار! جو تم میں سے کسی نے جھیل کے اس پار قدم رکھا! اگر تم میں سے کوئی ادھر گیا تو وہ خود بھی دردناک موت مرے گا اور قبیلے کو بھی تباہ کردے گا۔ جھیل کے اس پار بری روحوں اور خوفناک بلاؤں کا مسکن ہے۔ وہاں جا کر تم انہیں طیش دلا دوگے اور وہ تمہاری دشمن ہوجائیں گی۔ تم نہیں جانتے کتنی بھیانک چیزیں ہیں وہاں۔ راتوں کو وہاں جنگل میں بدروحیں ہوا کے جھونکے بن کر کانٹے دار جھاڑیوں میں سرسراتی ہیں۔ ہمارے قبیلے کا کوئی مرد کبھی جھیل کے اس پار نہیں گیا۔"
قبیلے والوں کے دلوں میں ایسا خوف بیٹھ گیا تھا کہ وہ کبھی خواب میں بھی اس پار جانے کا نہیں سوچتے تھے۔
جمّا اور چروا گاؤں کے دو بہادر لڑکے تھے اور آپس میں گہرے دوست تھے۔ ان کی فطرت میں تجسّس بہت تھا۔ وہ جھیل کے اس پار جا کر جاننا چاہتے تھے کہ وہاں کیا ہے۔ بدروحوں اور بری بلاؤں کے وہ قائل نہ تھے۔ ان کی بستی جھیل کے کنارے پر آباد تھی۔ جھیل کیا تھی، سمندر سا تھا۔ اس کا دوسرا کنارہ چالیس میل دور تھا۔ کشتی کے ذریعے سے بھی اتنا لمبا سفر خطرے سے خالی نہ تھا۔ دور تک پھیلا ہوا جھیل کا پانی موجیں مارتا تھا۔ کبھی کبھار بستی والوں نے دور بہت دور جھیل میں رنگین حرکت کرتے ہوئے دھبے بھی دیکھے تھے۔ نجانے وہ بری روحیں تھیں یا اجنبی کشتیاں۔
آخر ان دونوں دوستوں نے جھیل کے اس پار جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
وہ جھیل کے کنارے ایک کشتی بنانے لگے۔ گاؤں والوں نے بہت منع کیا، بدروحوں کا خوف دلایا، دھمکایا، مگر انہوں نے پروا نہ کی۔
وہ یہی جواب دیتے تھے، "بدروحوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اگر اس پار بدروحیں ہیں تو پھر انھیں چھلانگ لگا کر یہاں آنے سے کون روک سکتا ہے؟ ہم خود وہاں جا کر ان بے بنیاد وہموں کا پردہ چاک کریں گے۔ ہم ضرور جائیں گے۔"
اس کی خبر جادوگر کھومبے کو بھی ہوگئی۔ اسے بہت غصّہ آیا۔ وہ آ کر لڑکوں کو ڈانٹنے لگا، "نادان لڑکو! تم اس پار نہیں جا سکتے۔ تمھاری کشتی راستے ہی میں ٹوٹ جائے گی۔ یہ میری پیشگوئی ہے۔ جھیل کے پار جانا قبیلے کے دستور کے خلاف ہے۔"
کھومبے دھمکیاں دیتا رہا۔ برے انجام سے ڈراتا رہا، مگر دونوں کو یقین تھا کہ وہ اس پار ضرور پہنچیں گے۔
مقررہ دن بعد جب دونوں دوست کشتی میں بیٹھ کر لمبے سفر پر روانہ ہونے والے تھے تو کنارے پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان سب کو یقین تھا کہ کشتی ضرور ڈوب جائے گی، کیوں کہ جادوگر کی یہی پیشگوئی تھی۔ کھومبے بھی وہیں موجود تھا۔ اس کا چہرہ غصّے سے سرخ ہورہا تھا۔ وہ ہاتھ اٹھا کر کچھ بدبدا رہا تھا۔
کشتی کنارے سے روانہ ہوئی۔ بستی والوں کے دل دھڑک رہے تھے۔ اچانک کشتی ڈوبنے لگی۔ دونوں نے فورا جھیل میں چھلانگ لگا دی اور تیر کر کنارے پر آگئے۔ کشتی ڈوب گئی۔ کھومبے قہقہہ لگا کر کہہ رہا تھا، "ارے بہادرو! تم گئے نہیں اس پار؟ کشتی ڈوب گئی؟ ہا ہا ہا!"
وہ خاموش رہے۔ اگلے دن انہوں نے کشتی پانی سے باہر نکالی۔ انہیں جادوگر کی پیشگوئی پر ذرا بھی یقین نہ تھا، مگر وہ کشتی ڈوبنے کا سبب معلوم کرنا چاہتے تھے اور وہ سبب انہیں مل گیا۔ کشتی کے پیندے میں ایک سوراخ تھا، انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا۔
وہ مسکرا دیے اور دل میں کہا، "تو یہ ہے تمہاری پیشگوئی کی سچائی کا راز! ہم بھی دیکھتے ہیں تم کتنی بار سوراخ کرتے ہو کھومبے!"
اس بار دونوں دوستوں نے کشتی کو لمحہ بھر کے لئے بھی اکیلا نہ چھوڑا۔ وہ بڑی محنت سے کشتی کی مرمّت کرنے لگے۔
تین دن بعد پھر کنارے پر لوگ جمع ہوئے۔ وہ آپس میں کہہ رہے تھے، "ان دونوں کی عقل ماری گئی ہے۔"
"کھومبے کی پیشگوئی کی سچائی دیکھ چکے ہیں، پھر بھی اپنی ضد سے باز نہیں آتے۔"
"اس بار ان کا زندہ بچنا ناممکن ہے۔"
"کشتی تباہ ہوجائے گی۔"
"جھیل کے اس پار جانا گناہ ہے۔ ہمارے بزرگوں میں سے کوئی ادھر نہیں گیا۔"
"وہاں بھیانک بلائیں ہیں۔"
"کھومبے یہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ اس کی بوڑھی آنکھیں جھیل کے پار دیکھ سکتی ہیں، وہ ان دیکھی بلاؤں کو دیکھ سکتا ہے۔"
"اس کا علم بہت بڑا ہے۔"
کشتی کنارا چھوڑ کر پانی میں دھیرے دھیرے تیرنے لگی۔ بستی والے دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی بھی لمحے کشتی ٹوٹ کر ڈوبنے والی ہے۔ تین دن پہلے کا منظر ان کی نگاہوں میں گھوم رہا تھا۔ کھومبے جادوگر سب سے الگ تھلگ اداس کھڑا سوچ رہا تھا، "نہیں، نہیں اس بار کشتی نہیں ڈوبے گی۔ پچھلی بار میں نے چپکے سے اس کے تلے میں سوراخ کر کے مٹی سے بھر دیا تھا تاکہ وہ نظر نہ آئے۔ پانی میں مٹی گھل گئی اور سوراخ کھل گیا۔ اس بار موقع ہی نہیں مل سکا۔ یہ بہادر لڑکے اس پار ضرور پہنچیں گے۔"
لوگ آپس میں کہہ رہے تھے، "تم دیکھنا، بس کشتی ڈوبنے والی ہے۔"
مگر جادوگر سوچتا رہا، "کشتی سلامت رہے گی۔ یہ لڑکے اس پار جا کر مہذب لوگوں سے عقل کا سبق لیں گے، ان سے علم حاصل کریں گے اور پھر دور دراز علاقوں سے اجنبی یہاں آنے لگیں گے۔ نئی تہذیب اور نئے خیالات لے کر۔ نئی روشنی اور نئی زندگی لے کر۔ میرے بزرگوں نے ڈرا دھمکا کر ان لوگوں کو دوسرے کنارے سے دور ہی رکھا تاکہ یہاں ہم جادوگروں کی حکمرانی رہے، مگر اب میں زیادہ دیر انہیں جہالت اور وہموں کے اندھیرے میں نہیں رکھ سکتا۔ ہم جادوگروں کا دور ختم ہورہا ہے۔ اب علم و عقل کی روشنی یہاں بھی آجائے گی۔ پرانے خیالات کی جگہ نئے خیالات کا دور دورہ ہوگا۔ اس نئے زمانے میں مجھ جیسے جھاڑ پھونک کرنے والے جادوگروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ الوداع، اے بستی والو! میں جا رہا ہوں۔"
اس نے بھیگی ہوئی آنکھیں پوچھیں اور دھیرے دھیرے قدم اٹھا تا ہوا جنگل میں گم ہوگیا۔
 
مقدس
MidRj.jpg
QtqW1.jpg
Y1JPJ.jpg
 

عثمان

محفلین
یار فارمیٹنگ تو مٹا دو۔ صحیح فونٹ میں آئے گی پھر ہی پڑھ سکوں گا۔ :)
فارمیٹنگ درست کرنے کے لئے اس ٹائپنگ باکس کے اوپر دائیں کونے میں لگا ریزر دیکھو۔ :)
 
یار فارمیٹنگ تو مٹا دو۔ صحیح فونٹ میں آئے گی پھر ہی پڑھ سکوں گا۔ :)
فارمیٹنگ درست کرنے کے لئے اس ٹائپنگ باکس کے اوپر دائیں کونے میں لگا ریزر دیکھو۔ :)
پر اب تو تدوین نہیں ہوسکتی اس میں۔
کوئی طریقہ ہو تو بتائیے۔
 

عثمان

محفلین
کھومبے کی شکست
ابرار محسن
جھرّیوں بھرے چہرے والا بوڑھا جادوگر قبیلے والوں سے بار بار یہی کہتا تھا، "خبردار! جو تم میں سے کسی نے جھیل کے اس پار قدم رکھا! اگر تم میں سے کوئی ادھر گیا تو وہ خود بھی دردناک موت مرے گا اور قبیلے کو بھی تباہ کردے گا۔ جھیل کے اس پار بری روحوں اور خوفناک بلاؤں کا مسکن ہے۔ وہاں جا کر تم انہیں طیش دلا دوگے اور وہ تمہاری دشمن ہوجائیں گی۔ تم نہیں جانتے کتنی بھیانک چیزیں ہیں وہاں۔ راتوں کو وہاں جنگل میں بدروحیں ہوا کے جھونکے بن کر کانٹے دار جھاڑیوں میں سرسراتی ہیں۔ ہمارے قبیلے کا کوئی مرد کبھی جھیل کے اس پار نہیں گیا۔"
قبیلے والوں کے دلوں میں ایسا خوف بیٹھ گیا تھا کہ وہ کبھی خواب میں بھی اس پار جانے کا نہیں سوچتے تھے۔
جمّا اور چروا گاؤں کے دو بہادر لڑکے تھے اور آپس میں گہرے دوست تھے۔ ان کی فطرت میں تجسّس بہت تھا۔ وہ جھیل کے اس پار جا کر جاننا چاہتے تھے کہ وہاں کیا ہے۔ بدروحوں اور بری بلاؤں کے وہ قائل نہ تھے۔ ان کی بستی جھیل کے کنارے پر آباد تھی۔ جھیل کیا تھی، سمندر سا تھا۔ اس کا دوسرا کنارہ چالیس میل دور تھا۔ کشتی کے ذریعے سے بھی اتنا لمبا سفر خطرے سے خالی نہ تھا۔ دور تک پھیلا ہوا جھیل کا پانی موجیں مارتا تھا۔ کبھی کبھار بستی والوں نے دور بہت دور جھیل میں رنگین حرکت کرتے ہوئے دھبے بھی دیکھے تھے۔ نجانے وہ بری روحیں تھیں یا اجنبی کشتیاں۔
آخر ان دونوں دوستوں نے جھیل کے اس پار جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
وہ جھیل کے کنارے ایک کشتی بنانے لگے۔ گاؤں والوں نے بہت منع کیا، بدروحوں کا خوف دلایا، دھمکایا، مگر انہوں نے پروا نہ کی۔
وہ یہی جواب دیتے تھے، "بدروحوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اگر اس پار بدروحیں ہیں تو پھر انھیں چھلانگ لگا کر یہاں آنے سے کون روک سکتا ہے؟ ہم خود وہاں جا کر ان بے بنیاد وہموں کا پردہ چاک کریں گے۔ ہم ضرور جائیں گے۔"
اس کی خبر جادوگر کھومبے کو بھی ہوگئی۔ اسے بہت غصّہ آیا۔ وہ آ کر لڑکوں کو ڈانٹنے لگا، "نادان لڑکو! تم اس پار نہیں جا سکتے۔ تمھاری کشتی راستے ہی میں ٹوٹ جائے گی۔ یہ میری پیشگوئی ہے۔ جھیل کے پار جانا قبیلے کے دستور کے خلاف ہے۔"
کھومبے دھمکیاں دیتا رہا۔ برے انجام سے ڈراتا رہا، مگر دونوں کو یقین تھا کہ وہ اس پار ضرور پہنچیں گے۔
مقررہ دن بعد جب دونوں دوست کشتی میں بیٹھ کر لمبے سفر پر روانہ ہونے والے تھے تو کنارے پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان سب کو یقین تھا کہ کشتی ضرور ڈوب جائے گی، کیوں کہ جادوگر کی یہی پیشگوئی تھی۔ کھومبے بھی وہیں موجود تھا۔ اس کا چہرہ غصّے سے سرخ ہورہا تھا۔ وہ ہاتھ اٹھا کر کچھ بدبدا رہا تھا۔
کشتی کنارے سے روانہ ہوئی۔ بستی والوں کے دل دھڑک رہے تھے۔ اچانک کشتی ڈوبنے لگی۔ دونوں نے فورا جھیل میں چھلانگ لگا دی اور تیر کر کنارے پر آگئے۔ کشتی ڈوب گئی۔ کھومبے قہقہہ لگا کر کہہ رہا تھا، "ارے بہادرو! تم گئے نہیں اس پار؟ کشتی ڈوب گئی؟ ہا ہا ہا!"
وہ خاموش رہے۔ اگلے دن انہوں نے کشتی پانی سے باہر نکالی۔ انہیں جادوگر کی پیشگوئی پر ذرا بھی یقین نہ تھا، مگر وہ کشتی ڈوبنے کا سبب معلوم کرنا چاہتے تھے اور وہ سبب انہیں مل گیا۔ کشتی کے پیندے میں ایک سوراخ تھا، انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا۔
وہ مسکرا دیے اور دل میں کہا، "تو یہ ہے تمہاری پیشگوئی کی سچائی کا راز! ہم بھی دیکھتے ہیں تم کتنی بار سوراخ کرتے ہو کھومبے!"
اس بار دونوں دوستوں نے کشتی کو لمحہ بھر کے لئے بھی اکیلا نہ چھوڑا۔ وہ بڑی محنت سے کشتی کی مرمّت کرنے لگے۔
تین دن بعد پھر کنارے پر لوگ جمع ہوئے۔ وہ آپس میں کہہ رہے تھے، "ان دونوں کی عقل ماری گئی ہے۔"
"کھومبے کی پیشگوئی کی سچائی دیکھ چکے ہیں، پھر بھی اپنی ضد سے باز نہیں آتے۔"
"اس بار ان کا زندہ بچنا ناممکن ہے۔"
"کشتی تباہ ہوجائے گی۔"
"جھیل کے اس پار جانا گناہ ہے۔ ہمارے بزرگوں میں سے کوئی ادھر نہیں گیا۔"
"وہاں بھیانک بلائیں ہیں۔"
"کھومبے یہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ اس کی بوڑھی آنکھیں جھیل کے پار دیکھ سکتی ہیں، وہ ان دیکھی بلاؤں کو دیکھ سکتا ہے۔"
"اس کا علم بہت بڑا ہے۔"
کشتی کنارا چھوڑ کر پانی میں دھیرے دھیرے تیرنے لگی۔ بستی والے دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی بھی لمحے کشتی ٹوٹ کر ڈوبنے والی ہے۔ تین دن پہلے کا منظر ان کی نگاہوں میں گھوم رہا تھا۔ کھومبے جادوگر سب سے الگ تھلگ اداس کھڑا سوچ رہا تھا، "نہیں، نہیں اس بار کشتی نہیں ڈوبے گی۔ پچھلی بار میں نے چپکے سے اس کے تلے میں سوراخ کر کے مٹی سے بھر دیا تھا تاکہ وہ نظر نہ آئے۔ پانی میں مٹی گھل گئی اور سوراخ کھل گیا۔ اس بار موقع ہی نہیں مل سکا۔ یہ بہادر لڑکے اس پار ضرور پہنچیں گے۔"
لوگ آپس میں کہہ رہے تھے، "تم دیکھنا، بس کشتی ڈوبنے والی ہے۔"
مگر جادوگر سوچتا رہا، "کشتی سلامت رہے گی۔ یہ لڑکے اس پار جا کر مہذب لوگوں سے عقل کا سبق لیں گے، ان سے علم حاصل کریں گے اور پھر دور دراز علاقوں سے اجنبی یہاں آنے لگیں گے۔ نئی تہذیب اور نئے خیالات لے کر۔ نئی روشنی اور نئی زندگی لے کر۔ میرے بزرگوں نے ڈرا دھمکا کر ان لوگوں کو دوسرے کنارے سے دور ہی رکھا تاکہ یہاں ہم جادوگروں کی حکمرانی رہے، مگر اب میں زیادہ دیر انہیں جہالت اور وہموں کے اندھیرے میں نہیں رکھ سکتا۔ ہم جادوگروں کا دور ختم ہورہا ہے۔ اب علم و عقل کی روشنی یہاں بھی آجائے گی۔ پرانے خیالات کی جگہ نئے خیالات کا دور دورہ ہوگا۔ اس نئے زمانے میں مجھ جیسے جھاڑ پھونک کرنے والے جادوگروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ الوداع، اے بستی والو! میں جا رہا ہوں۔"
اس نے بھیگی ہوئی آنکھیں پوچھیں اور دھیرے دھیرے قدم اٹھا تا ہوا جنگل میں گم ہوگیا۔
 
Top