کھوج( کہانی ۲) از سحرش سحر

سحرش سحر

محفلین
( بچوں اور بڑے بچوں کیلیے کہانیوں کا سلسلہ) از : سحرش سحر
ابا آپ مجھے قصبہ کب لے کر جا رہے ہیں ؟؟؟ ابا نے مسکراتے ہوتے اس کی پیشانی پر اس کا بوسہ لیا اور کہنے لگے کہ جیسے ہی وہ بیماری سے شفا یاب ہوتے ہیں وہ اسے ضرور لے کر جائیں گے ۔اور دھیرے سے کہا کہ اب تو خدا نے پیسیے بھی دے دئے ہیں تو اپنے بیٹے کو نئے کپڑ ے بھی لے کردےگا اور اسے نئی کتابیں بھی لا کر دے گا ۔
اور ہاں ایک گائے اور دو بھیڑیں بھی لے کر دےگا ۔ ننھا چرواہا یہ سب سن کر بہت خوش ہو گیا ۔
بعد از دوپہر وہ اباکے پاس سے ا ُٹھ کر باہر نکل آیا۔ اس نے جنگل کی جانب جانے والے راستہ کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی گیا ۔ پھر وہ دنیا ومافیہا سے بے خبراپنی جھونپڑی کے پچھواڑے منڈیر کی طرف گیا اور اس پر ببیٹھ گیا ۔ وہ دیر تک بیٹھے بیٹھے زمیں پر دائرے اور لکیریں کھینچتا چلا گیا جیسے کوئی گتھی سلجھا نا چاہتا ہو ۔ دائرے بنانے کی آڑ میں وہ گذشتہ وقوع پذیر واقعات کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ وہ دوبارہ جنگل کی طرف جانا چاہتا تھا ۔ وہ ایک کھوج لگانا چاہتا تھا
اور ادھر والدین ڈاکووں کے ہاتھوں قصبہ کے نواب کے اغواء کی بنا پر اسے کسی صورت ڈنگر چرانے کے لیے جنگل کے طرف جانے کو راضی نہیں تھے ۔ ابا کی بیماری کی بناء پر گھر کے قریبی چراگاہ سے ماں بیٹا گھاس پتے وغیرہ لا کرجانوروں کے آگے ڈال دیتے تھے ۔
والدین سہمے ہوئے تھے ۔ وہ اسے کھونا نہیں چاہتے تھے ۔
وہ منڈیر پر سے اٹھ کر جانوروں کے باڑ کی طرف آیا ۔ وہ وہاں کھڑا ہو گیا ۔ اتنے میں ایک بکری اس کی طرف آئی ۔ اس نے بھی اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکے سراور منہ پر شفقت سے ہاتھ پھیرا ۔ بکری کچھ کھانے کی جستجو میں اس کے ہاتھ پر اپنی کھردری ...رال زدہ زبا ن پھیرتی رہی مگر اس کا دھیان ابھی بھی رات والے واقعات کی طرف تھا ۔ وہ اپنےہاتھ کی انگلیاں اس کے منہ میں ڈالے سوچتا گیا ۔
اس کے زہن پر اتنا بوجھ کبھی نہ ہوتا اگر وہ تمام واقعات اپنے والدین کوبتا دیتا ۔ وہ انھیں یہ سب کچھ بتا کر مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایسے ہی اس کے دن ورات بے چینی میں گزرتے گئے .... گزرتے گئے ۔ پھر ایک رات...........
" اندھیری رات کا وقت ہے ۔ چہار سو گھپ اندھیرا ہے اور جنگل میں خوفناک سناٹا ہے وہ سہما سہما اکیلا تنہاکھڑا ہے ۔ تاریکی میں دور دور تک دو دو، چار چار، لال انگارہ انکھیں اسے تکتی جا رہی ہیں ۔ اتنے میں سیاہ اندھی آتی ہے اور ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ جیسے کوئی گرداب ہو ۔ وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا ہے اس کے قدم لڑکھڑانے ہی کو تھے کہ سفید روشنی کا ایک ہالہ سا اس کے گرد بن گیا ۔ دیکھا کہ وہی بزرگ ہے جس نے پچھلی رات اس کی مدد کی تھی ۔ ان کے ہاتھ مین مشعل بردار لاٹھی ہے ۔ وہ اپنی لاٹھی ہوا میں بلند کرتا ہے اور اسے بہت بارعب آواز میں انکھیں بند کرنے کو کہتا ہے ۔ چند لمحوں بعد اسے اپنی انکھیں کھولنے کو کہتا ہے ۔ لڑکا خود کو ایک نئے جہاں میں پاتا ہے ۔ عجیب و غریب مخلوق اس کے ارد گرد جمع ہو گئی ہے ۔ کوئی کھڑ ا ہے کوئی ہوا میں معلق ہے.... کوئی درخت سے لٹکا ہے....، کوئی ایک تانگ پر کھڑا ہے.....تو کوئی ایک سے زائد ٹانگوں پر.... ، کو ئی نیچے پڑا رینگ ر ہا ہے.....، کہیں ہوا میں صرف ایک سیاہ آنکھ نظر آ رہی ہے .......کہیں دو انکھیں..... وہ ڈر کے مارے ایک ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔
بزرگ اسے اپنے ساتھ آگے چلنے کو کہتے ہیں ۔ وہ عجیب و غریب راستوں پر بزرگ کے ساتھ چل پڑتا ہے ۔ اچانک بزرگ رکتا ہے کیونکہ سامنے دیکھا تو ایک خوفناک تاریک غارہے ۔ اسی غار میں اس کے والدین مدد کے لیے چیخ رہے ہیں ۔ وہ گھبرا جاتا ہے بزرگ اسے یہ کہہ کر ایک لاٹھی تھما دیتے ہیں کہ آگے بڑھو اور "" بسم اللہ، با ذن اللہ""" کہہ کر اس سے کام لو ۔ "
اتنے میں اس کی آنکھ کھلی اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ ہوا میں معلق تھا اور اب بستر میں آن گرا ہو.....اس کا جسم پسینہ پسینہ ہو چکاتھا ۔ اس نے ارد گرد دیکھا تو دیےکی مدھم سی روشنی میں خود کو اپنی جھونپڑی میں پایا اور اپنے سرہانے پڑی ہوئی لاٹھی کو حیرت سے دیکھا ۔ اس نے فورا ہی اپنی اماں ابا کو پکارا .....
مگر اس کی آواز تو اس کے والدین کی بد حواس آوازوں میں کہیں کھو گئی ۔ اس کی اماں باربار اس کے ابا کی منّت کر رہی تھی کہ وہ بیمار ہے.... خود کو خطرہ میں ڈال کر باہر نہ جائیں مگر وہ تلوار ہاتھ میں لیے بضد تھے کہ وہ خود اکیلے ہی مقابلہ کریں گے ...اماں نے بھی ایک تلوار اٹھالی اور ایک لالٹین جلا کر اٹھا لی اور ان کے ساتھ نکلنے لگی ۔
وہ اٹھ کر اماں کی جانب لپکا اور اپنی اماں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ؟؟
اماں نے اسے یہ کہہ کر دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ رہنے کی تاکید کی کہ باہر مویشی مسلسل شور مچا رہے ہیں اور ان کے پالتو کتے کی آواز بھی نہیں سنائی دے رہی شاہد کوئی جنگلی درندے ہوں یا پھر چور ڈاکو؟ ؟؟
ان حالات میں وہ اپنے ڈراونے خواب کو بھی یکسر بھول گیا ۔ دیے کی مدھم روشنی میں وہ آہستہ چل کر اپنے بستر کی طرف آیا ۔ اور دروازہ پر اپنی نگاہیں اور کان لگا لیے ۔ وہ اٹھ کر پھر دروازہ کی طرف گیا کہ باہر کا جائزہ لے مگر اماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے وہ واپس آیا اوراپنے ابا کی بستر پر بیٹھ گیاوہ سوچ رہا تھا کہ وہ ایک دس سالہ بچہ اپنے والدین کے لیے کر بھی کیا سکتا ہے ۔
اچانک اس کی نظر اپنے بستر پر پڑی وہاں اسے ایک لاٹھی نظر آئی ۔ جو اس بزرگ نے اسے دی تھی، اس کے والدین کی مدد کے لیے ۔اس نے قریب آ کر جیسے ہی اس لاٹھی کو اٹھا نے کے لیے ہاتھ بڑھایا ابھی اس کو چھوا بھی نہیں تھا کہ ایک زوردار آواز سےوہ خوف سےلرز اٹھا اس کے حواس شل ہو گئے ۔ پھر سے زور کی اواز آئی تو اس کے حواس نے کام کرنا شروع کیا کیونکہ یہ تو دروازہ کھٹکھٹانے کی اواز تھی اس کی امی اسے پکار رہی تھی ۔
اس نے فورا ہی دروازہ کھولا ۔ اس کے والدین آپس میں یہ کہتے ہوئے تھوڑا مطمئن انداز مین اندر داخل ہوئے کہ اب اس بوڑھے بیمار کتے کی بجائے نئے اور جوان کتے کا بندوبست کرنا چاہیے ورنہ درندے......
ان کی باتوں سے اسےیہ بھی اندازہ ہوا کہ ان کے مویشی بچ گئے تھے اور اب خطرہ سے باہر تھے کیونکہ انھوں نے باڑ کے گرد جگہ جگہ الاو روشن کردیا تھا ۔ اور اس کے ابا گھڑی دو گھڑی بعد باہر ہو آتے تھے ۔
اماں نے اسے بھی تسلی دے کر بستر پر لٹا دیاکہ کچھ نہیں ہے وہ سو جائے ۔ پر نیند تو اس سے کوسوں دور کہیں چلی گئی تھی ۔ وہ مدھم مدھم جلتے دیے کو دیکھتا چلا گیا کہ یہ کیسا خواب تھا ....وہ بزرگ ... آخر کون ہیں؟ ؟؟ .....اس کی لاٹھی ....اور اس تاریک غار میں مصیبت میں مبتلا اس کے والدین؟ ؟؟؟؟.......
بسم اللہ ....باذن اللہ .........با ذ ن اللہ.......!!!!
.اس نے جب آنکھیں کھولیں تو صبح ہو چکی تھی ۔ روزن میں سے سورج کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں جس نے جھونپڑی کو روشن کر دیا تھا ۔اس بھیانک رات کا نام ونشان تک نہ تھا.....کیوں نہیں تھا ....نشان تو تھا ....وہ لاٹھی ؟؟؟؟
اس نے اپنے بوسیدہ سے بستر کو ٹٹولا تو اپنے سرہانے لاٹھی پا کر اسے حیرت سے تکتا چلا گیا ۔ اس نے اپنا ایک کانپتا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا ۔ اور اسے مضبوطی سے پکڑکر اپنے سے کچھ پرے پکڑے رکھا وہ کانپ رہا تھا ۔ وہ ڈر رہا تھا ۔ اتنے میں باہر اس کی اماں کے زور زور سے بولنے کی آواز آئی ۔شاید وہ شدید پریشان تھی اور غصہ میں تھی ۔ اس نے جلدی سے لاٹھی اپنے سرہانے چھپا دی ۔
اماں بولے جا رہی تھی کہ خدا کی مار پڑے ان ظالموں پر جو ہم جیسے غریبوں کو لوٹنے سے نہیں کتراتے ۔ اللہ انھیں غارت کرے ۔
اماں کی زبانی اسے پتہ چلا کہ رات کو ڈاکووں نے حملہ کیا تھا ۔ قرب و جوار کے دو کسانوں کو نہ صرف لوٹ لیا تھا بلکہ ان کی مزاحمت کے سبب ان کے گھر والوں کو زخمی بھی کر دیا تھا ۔ رات کو ان کے مویشی اس لیے بے چین تھے کہ شایدان ظالموں کا گزر یہاں سے بھی ہوا تھا ۔ اب انھیں ایک نیا اور جوان کتا رکھ لینا چاہیے ۔
اس کے والدین سہم گئے تھے کہ کہیں اب کہ ان کی باری نہ ہو ......
ماح نے دوپہر کے بعد اماں کی نگاہوں سے بچ کر لا ٹھی اتھائی اور چپکے سے گھر کے پچھواڑے نکل گیا ۔ وہاں منڈیر پر بیٹھ کر اس نے اسے غور سے دیکھا اور اس کے سرے کو غور سے دیکھنے لگا ۔ اس سمے اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ وہ خواب....!!!اس بزرگ کی نصیحت......!!!!
اس سے ہمت جمع کر کے لاٹھی اتھائی اور گھر سے کچھ فاصلے پر گیا ۔ وہاں ارد گرد دور دور تک لمبی لمبی گھاس تھی ۔جو یخ بستہ ہوا میں لہہلہا رہی تھی کچھ فاصلے پر تین درخت تھے ۔ ہوا میں کچھ پرندے اڑان بھرنے میں مصروف تھے ...بزرگ کی لاٹھی کے کرشمے اسے یاد تھے ۔ وہ کھڑا کچھ سوچتا رہا کہ اخر اسے کس چیز پرآزمائے ۔ پھر لاٹھی کو ہوا میں اٹھا کر ایک پرندے کا نشانہ لیا اور تھوڑا زور سے" بسم اللہ باذن اللہ" کہا ۔ ایک شعلہ لاٹھی کے سرے سے سیدھا اس پرندے کے لگا اور وہ نیچے آن گرا ۔ اس کے ہاتھ سے لاٹھی گر پڑی ۔ وہ زمیں پر پڑی لاٹھی سے چند قدم پیچھے کھڑا ہو گیا ۔
ارے یہ کیا ہو گیا .....وہ دم بخود دھڑکتے دل کے ساتھ اس لاٹھی کو غور سے دیکھتا گیا ۔
کچھ روز تک تو اس نے لاٹھی کو ہاتھ تک نہیں لگایا اسے اپنی جھونپڑی کے چھت کی بلیوں میں ٹکا دیا تھا مگر اپنے والدین کو کچھ نہیں بتایا ۔
وہ آتے جاتے اسے دیکھتا رہتا مگر اسے اٹھانے کی ہمت اس میں نہیں تھی ۔
کوئی اٹھارہ دن بعدوہ ایک اماوس رات تھی ۔ کالی سیاہ رات ....دور دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ ماح نیند کی وادیوں میں کہیں دور کچھ بیریوں کے درختوں سے بیر توڑنے میں مصروف تھا اس کی بکریاں گھاس چمچرنے میں مگن تھیں کہ اچانک کچھ ڈاکو سامنے آئے اور اس کی بکریوں کو پکڑ کر لے جانے لگے ۔ وہ بے بسی سے انھیں دیکھنے لگا کہ اچانک وہ بزرگ نمودار ہوئے اور اس کی لاٹھی جو نیچےپڑی تھی اس کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ لاٹھی کو اٹھانے ہی لگا تھا کہ..............
اس کی امی نے اسے جگا کر کہا کہ باہر کتا بہت بھونک رہا ہے شاید خطرہ ہے ....ہم باہر نکل رہے ہیں ...تم دروازہ بند ہی رکھنا جب تک ہم واپس نہ آیئں ۔ اماں ابا ہاتھ میں تلوار اور لالٹین لیے ڈرتے ہوئے دروازے سے چھپکے چھپکے نکل گئے ۔
ماح بد حواسی کے عالم میں اٹھا ۔ دروازہ جلدی سے بند کر دیا اور اپنے حواس درست کرنے لگا ۔ وہ مدھم سی چراغ کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھنے لگا ...وہ لاٹھی !!!! وہ اپنی چارپائی کی پائنتی پر کھڑا ہو گیا کہ اس لاٹھی کو نیچے اتار لے ۔ وہ اسے بڑے احتیاط سے اتارنے ہی لگا تھا کہ اس کا پاؤں بستر میں الجھ گیا اور وہ بہت زور سے نیچے آ گرا مگر خدا کا کرم یہ ہو گیا کہ اس کی امی نے کچھ میلے کپڑوں کی ایک پوٹلی بنا ئی تھی اسی پر وہ گرا، جس سے وہ شدید چوٹ لگنے سے محفوظ رہا ۔ لاٹھی اٹھا کر وہ
دروازہ کی طرفلنگراتا ہوا آیا اور آہستہ آہستہ دروازہ کھولنے لگا کہ اچانک اس نے تلواروں کے ٹکرانے کی آواز سنی اور اس کی اماں کی چیخ وپکار ...اور ان کے کتے کی دردناک کراہنے کی آوازیں ....وہ بغیر جوتی کے باہر نکلا اور ان آوازوں کے تعاقب میں چھپتا چھپتا وہاں پہنچ گیا ۔ وہ اپنی جھونپڑی کی آڑ میں بیٹھ گیا ۔اسے صرف سائے ہی نظر آ رہے تھے مگر آوازوں سے اس مقام کا اندازہ ہو رہا تھا جہاں ڈاکو گھوڑوں پر سوار کھڑے تھے ۔ ان میں سے ایک کی تو اس کے ابا کے ساتھ لڑائی ہو رہی تھی اور ان میں سے ایک قہقہہ مار کر بولا ........ارے تُو اکیلا ! کس کس کے ساتھ مقابلہ کرے گا ....دوسرےنے کہا ..اس کی بیوی کو اٹھا لو ۔ ادھر اس کی اماں بے بسی کے عالم شوہر کی بچانے کی کوشش میں لگی تھی .....اب اسے اپنی جان کے بھی لالے پڑ گئے ۔
اس دس سالہ با ہمت چرواہے نے خوف و غصہ کے عالم میں اپنی لاٹھی اٹھا ئی ۔ اور آواز کے تعاقب میں ایک ڈاکو پر وار کیا ۔
"""بسم اللہ، باذن اللہ """ ............ایک شعلہ لپکا اور ڈاکو کو لگا ۔ وہ گھوڑے سےگرپڑا .......بس ایک اور وار.....دوسرے وار کے ساتھ ہی ڈاکو دم دبا کر بھاگ نکلے ۔ اس کے والدین کے لیے یہ سب نا قابل یقین تھا ۔....ناقابل یقین ......
اس کی اماں اس کے ابا کے پاس دوڑی دوڑی گئی اور ماح جلدی سے چھڑی لیے جھونپڑی میں داخل ہوا ۔ چڑھی رکھ دی اور باہر والدین کے پاس دوڑ تا ہوا آیا ۔ ابا اماں سے ان کی خیریت دریافت کی ۔ پھرانھیں لے کر اندر آیا ۔والدین بےانتہا سہمے ہوئے تھے کیونکہ ان پر قیامت گزری تھی ۔ ماح کا اپنا دل بھی زور زور سے ایسے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے سے باہرآجائیگا ۔ اس کے ابا کا ایک بازو زخمی تھا ۔ اماں نے جلدی جلدی مرہم پٹی شروع کی اور ماح نے آنسووں سے ڈبڈباتی انکھوں کے ساتھ ان کے زخم پر کچھ آیات پڑھ کر پھونک دیں ۔
ابا کے پاس وہ دیر تک بیٹھ کر روتا رہا ۔ اماں ابا اسے مسلسل تسلیاں دے رہے تھے کہ ہمت کرو گھبراو مت .... یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے ۔ یہاں اکثر یہ واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر اب نواب کے اغواء کے بعد ڈاکوووں کی ہمت بڑھ گئی ہے ۔
اس رات وہ اپنی اماں کے ساتھ ہی لیٹ گیا اور سو گیا ۔ صبح بہت دیر سے اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کچھ لوگ اس کے ابا کے پاس ارد گردبیٹھے تھے ۔ اور اس کی اماں انھیں رات کے واقعات کی تفصیل بتا رہی تھی کہ کیسے اس کے ابا نے تن تنہا ڈاکووں کو مار بھگایا ۔
ماح یہ سن کر مسکرایا اور رب کا شکر ادا کیا کہ اس کی مدد سے آج اس کے ابا اور امی سلامت ہیں ۔ اس نے چھپکے سے ایک نظر بلیوں میں اٹکی اپنی لاٹھی پر ڈالی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top