کھوجے ماروں کی مشکلات۔ ابو الحسینی

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی مبارک بادوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سحر و افطار کیلئے خریداریاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ کوئی روزہ رکھے یا کھائے سحر و افطار کا اہتمام ہر گھر میں ضرور ہوتا ہے۔ جیسے جیسے کنپٹیوں پر برف رنگ اترتا ہے تحریر و تقریر میں ماضی کے قصے زیادہ ذکر ہونے لگتے ہیں۔ سو یوں یاد پڑتا ہے کہ ہم بچپن میں جب روزہ نہیں رکھتے تھے تو امی ہمارا ناشتہ یا کھانا وغیرہ سحری کے ساتھ ہی بنا دیتی تھیں کہ اڑوس پڑوس میں روٹی کی مہک نہ پہنچے۔ بچے چھپ چھپ کر کھانا کھاتے اور جلدی سے چڑی روزہ بند کر لیتے تھے۔
آج کل کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ جناب جب اللہ پاک کا ڈر نہیں تو بندوں سے کیا ڈرنا۔ سو ہم تو جو کچھ کرتے ہیں سر عام کرتے ہیں۔ میاں ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ برملا سگریٹ نوشی، کھانا پینا کچھ لوگوں میں عام سی بات ہے۔ ہم ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتے جن کی آنکھ کا پانی مر گیا ہے۔ بلکہ ان کا تذکرہ ہو رہا ہے جن کی آنکھ میں ابھی حیا باقی ہے۔ ہمارے گھر میں کسی طور بھی ممکن نہ تھا کہ علی الاعلان روزہ کھا لیا جائے۔ اگر کوئی روزہ چھوڑ بھی دیتا اور امی ابو کے علم میں ہوتا کہ اس کا روزہ نہیں ہے اسے بھی کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا۔ صرف چھپ کر پانی پینے کی اجازت ہوتی تھی۔ ایک دن ہمارا روزہ نہیں تھا سو ناچار بازار کا رخ کرنا پڑا۔
اب کسی ایسی دور دراز دکان کی تلاش شروع کی جہاں گاہک ہونے کا کوئی امکان نہ ہو، نیز دکاندار کی سات پشتوں میں بھی کسی سے کوئی آشنائی نہ نکلے۔ دکاندار سے جھجکتے ہوے کہا ” ایک سپر بسکٹ اور ایک گولڈ لیف دے دیں ” دکاندار نے ہمیں حقارت سے یوں دیکھا جیسے رشتہ مانگ لیا ہو۔ ہم نے فوراً وضاحت کی کہ ” انکل مریض کیلئے لے کر جانے ہیں میرا تو روزہ ہے۔ ” سوچا ایک بسکٹ کے پیکٹ اور ایک گولڈ لیف کیلئے روزے کا ثواب چھوڑنا تو حماقت ہے۔۔ سو کچھ اور بھی ہونا چاہیئے۔ دونوں چیزیں جیب میں ڈالیں اور بازار کا چکر لگایا کچھ بھی ایسا نظر نہ آیا جو حاسد دنیا کی نظروں سے بچا کر کھایا جا سکے۔ چاٹ میں ڈلنے والی پھلکیاں تھیں، پاپڑی تھی یا نمک پارے۔ نہ چاٹ نہ برگر، نہ سموسے نہ پکوڑے نہ کچوریاں۔ ہوٹل بند دکاندار گاہکوں تک سے بیزار۔ سو نگاہ انتخاب کیلوں پر پڑی۔ آدھا درجن کیلے خرید لیے۔
اب اگلا مرحلہ تھا اس مالًِ مسروقہ کو ٹھکانے لگانا۔ یعنی واصلًِ جہنمًِ شکم کرنا۔ اور یہ جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ گھر میں سب کا روزہ تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہمارا شمار بھی روزے داروں میں تھا۔ اور عالم یہ تھا کہ فریج میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں بھی ظالموں نے گن کر رکھی ہوتی تھیں۔ سو ہم نے گلیوں میں آوارہ گردی شروع کی۔ کہ کہیں گوشہء عافیت مل جائے۔ ایک گلی سنسان پڑی تھی سو ہم نے بسم اللہ پڑھ کر بسکٹ کا پیکٹ کھولا۔ موٹر سائیکل کی آواز آئی تو فوراً چھپا لیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ سحری کے بعد سے فقط ایک بار گرم پانی نصیب ہوا تھا۔ حلق میں کانٹے چبھنے لگے۔ موٹر سائیکل سوار پاس گزر گیا اور موڑ مڑ گیا۔ ہم نے پیکٹ سے ایک بسکٹ نکالا ہی تھا کہ قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ہم نے پورا بسکٹ منہ میں اور پیکٹ واپس جیب میں ڈال لیا۔ اور آگے کو چل پڑے۔ موڑ مڑے ہی تھے کہ سامنے ہی مسجد سے نمازیوں کا ایک غول نکل آیا اور ہمارے دائیں بائیں سے گزرنے لگا۔ اور ہم منہ بھینچھے سر جھکائے رستہ بناتے مسجد کی طرف چلنے لگے۔ ساتھ ہی جلدی جلدی آستینیں بھی چڑھانے لگے کہ جیسے نماز میں دیر ہو رہی ہو۔ لیکن کیلوں کو لوگ یوں گھور رہے تھے جیسے ہم نے کیلے نہیں ترشول یا کسی بھگوان کی مورتی اٹھائی ہو۔ ناچار کیلے باہر بیٹھے فقیر کے کشکول میں ڈال دیے۔ اور مسجد میں داخل ہو گئے۔ پیش امام صاحب کے گھر کو جانے والی سیڑھیوں پر چڑھ کر بمشکل بسکٹ نگلا اور فوراً اب واپس مڑے ہی تھے کہ مولوی صاحب کو اپنے سامنے پایا۔ مولوی صاحب نے مشکوک نگاہوں سے ہمیں گھورا اور پوچھا ” جی فرمائیے؟ ”
ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ بڑی مشکل سے سلام کیا اور پوچھا ” او مولوی صاحب ! واش روم کہاں ہے؟ ”
مولوی صاحب نے درشت لہجے میں ارشاد فرمایا
” انھا تے نئیں ایں؟ ”
سامنے ہی بیت الخلاء بنی ہوئی تھیں۔ ہم نے خفت مٹانے کو ماتھے پر ہاتھ مارا۔
” اوہو مولوی صاحب روزے نے دماغ ہی ماؤف کیا ہوا ہے ” اور بیت الخلاء میں داخل ہو گئے۔ باہر نکلے وضو کیا چار رکعت نماز ظہر کے پڑھے اور سیدھا گھر تشریف لے گئے۔بڑی احتیاط سے باورچی خانے کے نلکے سے گرم پانی پیا اور باقی روزہ داروں کے ساتھ افطار کا انتظار کرنے لگے۔ بس اس دن کے بعد ہم نے روزہ چھوڑنے سے توبہ کر لی۔
 
Top