کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ

حج وی کیتی جاندے او
لہو وی پیتی جاندے او
کھا کے مال یتیماں دا
بھج مسیتی جاندے او
پھٹ دلاں دے سیندے نئیں
ٹوپیاں سیتی جاندے او
چھری نہ پھیرو نفساں تے
دنبے کیتی جاندے او
دل دے پاک پوتر حجرے
بھری پلیتی جاندے او
فرض بھلائی بیٹھے او
نفلاں نیتی جاندے او
دسو نہ کچھ انجم جی
ایہہ کیہہ کیتی جاندے او

شاعر:محمد شریف انجم
 
چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں
دربدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں

اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر
ہاتھ میں کاسہءِ خیرات لئے پھرتے ہیں

شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا
کچھ سلگتے ہوئے نغمات لئے پھرتے ہیں

دنیا میں ترے غم کو سمونے والے
اپنے دل پر کئی صدمات لئے پھرتے ہیں

مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے
منفرد ہم غم حالات لئے پھرتے ہیں

ایک ہم ہیں کہ غمِ دہر سے فرصت ہی نہیں
ایک وہ ہیں کہ غم ذات لئے پھرتے ہیں

اعتبار ساجدؔ
 
مجھے زنگی میں قدم قدم پہ تیری رضا کی تلاش ہے
تیرے عشق میں اے میرے خدا مجھے انتہا کی تلاش ہے
میں گناہوں میں ہوں گھرا ہوا میں زمین پہ ہوں گرا ہوا
جو مجھے گناہوں سے نجات دے مجھے اس دعا کی تلاش ہے
میں نے جو کیا برا کیا میں نے خود کو خود ہی تباہ کیا
جو تجھے پسند ہو میرے رب مجھے اس ادا کی تلاش ہے
تیرے در پہ ہی میرا سر جھکے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے
مجھے سب سے کردے جو بے نیاز مجھے اس انا کی تلاش ہے
 
لوگ سب سمجھتے ہیں
کس سے کب بنانی ہے
کس کے پاس رکنا ہے
کس جگہ سے ٹلنا ہے
آنکھ کب چرانی ہے
دل کہاں بچھانا ہے
کس کو داد دینی ہے
کس سے داد لینی ہے
کس کو کب اٹھانا ہے
کس قدر اٹھانا ہے
عارضی خوشامد کا
پھل کہاں سے ملنا ہے
لیکن ان کو کیا معلوم
وقت سب بتا دے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت سب بتادے گا
کس کی کتنی پونجی ہے
کس نے کیا لگایا ہے
کس نے کیا بچایا ہے
کس نے کیا گنوایا ہے
کس نے کیا کمایا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑ دیجیئے صاحب
کام کیجیئے صاحب
 
حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دیواں پیر دا جے سر دا سائیں مرے
میری روح میرے دل کے حجرے میں مقیم سچے بادشاہ سے یہ دعا کررہی ہے کہ " میں اسوہ حسنہ کی بے چون و چرا تابعداری و اطاعت کر سکتی ہوں ۔ اگر وہ شیطان جو مجھے گمراہ کرنے میں مشغول رہتے میری عقل کو خواہشات نفسانی کے تکمیل کی راہیں دکھاتا ہے مر جائے میرا پیچھا چھوڑ دے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے
کتی مرے فقیر دی، جیڑی چوں چوں نت کرے
میرے " نفس " میں جو ہر لمحہ خواہشوں کا دیا جلتا ہے بجھ جائے۔ میرا " غرور " جو مجھے " میں میں " میں مبتلا رکھتا ہے فنا ہوجائے
پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے
پانچ سات عادتیں جو کہ جھوٹ غیبت چغلی دھوکہ بازی بے ایمانی جو ہر لمحہ میرے وجود سے منسلک رہتی ہیں ختم ہو جائیں ۔ اور جو باقی بھی دیکھنے میں نظر نہیں آتی وہ کمزور ہو جائیں ۔ کاش کہ ایسا ہو اور میرے سوچ و خیال و وجدان و قلب کی گلیوں میں صرف میرے اسی یار کا آنا جانا ہو جس سے کبھی میری روح بچھڑی تھی

حجرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مقام جہاں کوئی انسان اپنی حقیقت کو پانے کے لیئے اپنے باطن میں اتر غور وفکر کرے ۔
شاہ مقیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل میں مقیم وہ ہستی پاک جس کی کرسی زمینوں آسمانوں کو گیرے ہوئے ہے ۔ طط
جٹی ۔۔۔۔۔ روح جو کہ بالذات نہ تو مذکر ہے نہ ہی مونث صرف اک " نفخ " اور صیغہ مونث میں ذکر کی جاتی ہے ۔
عرض ۔۔۔۔۔ التجا ۔ خواہش ۔ دعا
بکرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قربانی ۔۔۔ ذبح عظیم کی مثال ۔۔اللہ کے حکم کی بے چون و چرا اطاعت
پیر ۔۔۔۔۔۔۔ پیر کامل سخی دو جہاں وہ ہستی پاک جس نے اللہ تعالی کا پیغام انسانوں تک پہنچایا ۔
سر دا سائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " شیطان " جو کہ اللہ سے مہلت پا ئے ہوئے ہے ۔ جادو وہ جو سر چڑھ بولے ۔۔۔۔۔ شیطان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے انسان کے سر کو ہی اپنے قابو کرتا ہے ۔ اور اس سر میں موجود دماغ عقل کی رہنمائی میں سازش بنتی ہے ۔ اور خواہشات کی تکمیل کی کوششوں میں جتی رہتی ہے ۔
ہٹی ۔۔۔۔۔ وہ مقام جہاں پر دنیاوی ضروریات جمع شدہ ہوتی ہیں ۔ بدن انسانی میں
مقام " نفس " کہلاتا ہے جہاں ہر پل نفسانی خواہشات جمع رہتی ہیں
کراڑ....عموما نجی ساہو کاری سے وابستہ ہندوؤں کو 'کراڑ' کہا جاتا ہے


تشریح بشکریہ نایاب صاحب
 
ﻣﺮﭺ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺅﮞ ﺗﻮ
ﺍﯾﻨﭧ ﮐﺎ ﺑﺮﺍﺩﮦ ﮨﮯ
ﺩﻭﺩﮪ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﻮ
ﺷﮩﺪ ﻟﯿﺲ ﭼﯿﻨﯽ ﮐﯽ
ﻭﺭﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﮐﻮ ﮨﯿﮟ
ﮐﺮﺳﯿﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻋﺼﻤﺘﻮﮞ ﭘﮧ ﺑﻮﻟﯽ ﮨﮯ
ﺳﺮﺣﺪﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﻨﮕﯽ ﮨﯿﮟ
ﭼﯿﻨﻠﻮﮞ ﭘﮧ ﺑﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ﺑﮭﻮﮎ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺭﻻﺗﺎ ﮨﮯ
ﺭﺵ ﺗﻤﺎﺵ ﺑﯿﻨﻮﮞ ﮐﺎ
ﺑﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﺎ
ﺟﺲ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺑﮯ ﺣﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻨﺖ ﮨﮯ
ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﯾﮧ ﺳﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ
ﺳﻮﺩ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ
ﺟﺐ ﮈﮐﺎﺭ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﮑﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺅﮞ ﺳﮯ
ﺭﺏ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺭﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﺐ ﯾﮧ ﻃﺎﻕ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ!
ﻋﺎﺑﯽ ﻣﮑﮭﻨﻮﯼ
 
ہم کون ہیں کیا ہیں بخدا یاد نہیں
اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں

ہاں اگر ہے یاد تو کافر کے ترانے ہیں بس
ہے نہیں یاد تو مسجد کی صدا یاد نہیں

بنت حوا کو نچاتے... ہیں سر محفل میں ہم
کتنے سنگ دل ہیں کہ رسم حیا یاد نہیں

آج اپنی ذلت کا سبب یہی ہے شاید
سب کچھ ہے یاد مگر، صرف الله یاد نہی
 
کسی کی جیت کا جشن منانے والوں
کسی کی هار پر اشک بهانے والوں
کچھ خبر بھی ھے تم کو ....
لهو میں ڈوبی اس بستی پر
رات کے اسی پهر میں
کیا بیتی.....
کیا تمهارا سینه
نهیں هوا چھلنی
کیوں تم پر نهیں گزری کویی قیامت !!
غزه لهو لهو
 
جناب سید ضمیر جعفری کی ’’مسدسِ بدحالی‘‘

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ مسدس 1956 میں نہیں بلکہ 2014 میں لکھی ہے، ملاحظہ کیجیئے

سیاست کا ہر پہلواں لڑ رہا ہے
یہاں لڑ رہا ہے، وہاں لڑ رہا ہے
بیاں کے مقابل بیاں لڑ رہا ہے
حسابِ دلِ دوستاں لڑ رہا ہے
ستارہ نظر مہ جبیں لڑ رہے ہیں
یہ حد ہےکہ پردہ نشیں لڑ رہے ہیں...

مزاجوں میں یوں لیڈری آگئی ہے
کہ گھر گھر کی اپنی الگ پارٹی ہے
کوئی شیر ہے تو کوئی لومڑی ہے
یہی اپنی لے دے کے انڈسٹری ہے
نہ منزل نہ جادہ نہ کوئی ارادہ
رضا کار کمیاب، لیڈر زیادہ

اگر گھر میں ہیں خیر سے چار بھائی
تو اک اک نے ڈفلی الگ ہے اُٹھائی
بچھی ہے سیاست کی پتلی چٹائی
بہ ہر تخت پوش و بہ ہر چار پائی
سلیٹی کوئی ، توتیائی ہے کوئی
کوئی سرخ ہے، فاختائی ہے کوئی

جلوس اور جلسے میں تکرار ان میں
فساد و فتن کے نمک خوار ان میں
بپا مستقل جوت پیزار ان میں
“یونہی چلتی رہتی ہے تلوار ان میں“
جو زندہ مہینہ ، مردہ مہینہ
یہ کیا زندگی ہے، نہ جینا نہ مرنا

ملوں، پرمٹوں، کارخانوں کے جھگڑے
سیاست کے “نودولتانوں“ کے جھگڑے
زبانوں، بیانوں، ترانوں کے جھگڑے
فسانوں پہ ہم داستانوں کے جھگڑے
سرخوان لقمہ اُٹھانے پہ جھگڑا
وہ جھگڑا کہ ہر دانے دانے پہ جھگڑا

حقائق کے آثار دھندلانے والے
جرائد میں شہ سرخیاں پانے والے
یہ ہر قول دے کر مکر جانے والے
یہ ہر “میز کرسی“ پہ مر جانے والے
بیاباں کو صحنِ چمن جانتے ہیں
قیادت کو خوراکِ تن جانتے ہیں

مکیں گمشدہ ہیں، مکاں لڑ رہے ہیں
زمیں چپ مگر آسماں لڑ رہے ہیں
خود اپنی صفوں میں جواں لڑ رہے ہیں
کہاں لڑنے والے، کہاں لڑ رہے ہیں
فسادات کی سرخیاں اور بھی ہیں
“مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں“

مقاصد کو زیر و زبر کر کے لڑنا
نتائج سے قطع نظر کر کے لڑنا
سنان و تبر تیز کر کر کے لڑنا
اگر کر کے لڑنا، مگر کر کے لڑنا
کہیں دو “وڈیرے“ جو لڑ بیٹھتے ہیں
تو سارے “بٹیرے“ بگڑ بیٹھتے ہیں

امامت کے تھے مدعی خشک و تر میں
سیاست میں، دانش میں، فکر و نظر میں
مقام ان کا اونچا ہے نوع بشر میں
کہ رہتا ہے اکثر فساد ان کے گھر میں
ہوس کی غلامی، شکم کی خدائی
گلا کاٹ دیتا ہے بھائی کا بھائی

مقدر میں بھوک، اور گرد سفر ہے
بسیرا اگر ہے، تو “فٹ پاتھ “ پر ہے
نہ کھانے کو روٹی ، نہ رہنے کو گھر ہے
گزر زندگی کا سرِ رہگزر ہے
وہ مردہ پڑا ہے، یہ گھائل پڑا ہے
سرِ راہ حل مسائل پڑا ہے

دفاتر کا آئین و دستور رشوت
تہی دست لوگوں سے بھر پور رشوت
وہ بیش توفیق و مقدور رشوت
جوانی پہ ہے “چشمِ بددور“ رشوت
عجب حرص دولت کا یہ رقص و رم ہے
کہ جیسے ضرورت بہت، وقت کم ہے

مہاجر کی آباد کاری پہ رشوت
وساور کی “لیسنسداری “ پہ رشوت
الیکشن کی امیدواری پہ رشوت
وزارت کی پروردگاری پہ رشوت
جو سائل اصولی مثالی رہے گا
وہ بھر پور دنیا میں خالی رہے گا

مکانوں کی آرائشیں بڑھ گئی ہیں
مکینوں کی آسائشیں بڑھ گئی ہیں
خیانت کی گنجائشیں بڑھ گئی ہیں
کہ بیگم کی فرمائشیں بڑھ گئی ہیں
حدیں کچھ ورائے گماں اور بھی ہیں
“ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“

امیر اپنے، آرام فرمانے والے
ہر اک ساحلِ نو پہ رقصانے والے
مے ناب و برفاب و جمخانے والے
غریبانِ ملت سے کٹ جانے والے
یہ دوری کوئی بے سبب تو نہیں ہے
محلے کی مسجد کلب تو نہیں ہے

یہ رم اور رمی کے بیمار صاحب
جوئے اور گھڑ دوڑ کے یار صاحب
سمور اور ریشم کے مینار صاحب
رباط اور روما کے سیار صاحب
وہ شیری دھری ہے، یہ وہسکی پڑی ہے
شراب ان کی گھٹی میں گویا پڑی ہے

نہ یہ کارواں میں، نہ یہ کارواں سے
نہ جانے یہ لوگ آگئے ہیں کہاں سے
جو اپنی زباں سے، کہیں کچھ زباں سے
تو لب پھڑپھڑاتے رہیں رائیگاں سے
شلر اور شیلے کو سب جانتے ہیں
مگر میر و غالب کو کب جانتے ہیں

زمیں دار ، کاروں کو دوڑانے والے
زر و مال مجروں پہ برسانے والے
کلف دار شملوں کو لہرانے والے
نمک خوار کتوں کو لڑوانے والے
لگائو ادب سے، ہنر سے، نہ فن سے
دھواں اُٹھ رہا ہے، دلِ انجمن سے

یہ مانا بشر دیوتا بھی نہیں ہے
یہ جینا نری اک سزا بھی نہیں ہے
فراغت شے ناروا بھی نہیں ہے
حیات بشر دیر پا بھی نہیں ہے
مگر دین و ملت کا احساس کچھ تو
غریبوں کی ذلت کا احساس کچھ تو

جو جینا ہو تو رہنمائی کرو تم
جو دانا ہو عقدہ کشائی کرو تم
غنی ہو تو حاجت روائی کرو تم
بڑائی یہی ہے، بھلائی کرو تم
بڑے شوق سے اپنے جلسے منائو
امیروں ، غریبوں کے بھی کام آئو

نہ منشور اپنا، نہ دستور اپنا
قدم راہ چلنے سے معذور اپنا
مگر شور ہے دور سے دور اپنا
گلا کام کرتا ہے بھر پور اپنا
 

جاسمن

لائبریرین
لوگ سب سمجھتے ہیں
کس سے کب بنانی ہے
کس کے پاس رکنا ہے
کس جگہ سے ٹلنا ہے
آنکھ کب چرانی ہے
دل کہاں بچھانا ہے
کس کو داد دینی ہے
کس سے داد لینی ہے
کس کو کب اٹھانا ہے
کس قدر اٹھانا ہے
عارضی خوشامد کا
پھل کہاں سے ملنا ہے
لیکن ان کو کیا معلوم
وقت سب بتا دے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت سب بتادے گا
کس کی کتنی پونجی ہے
کس نے کیا لگایا ہے
کس نے کیا بچایا ہے
کس نے کیا گنوایا ہے
کس نے کیا کمایا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑ دیجیئے صاحب
کام کیجیئے صاحب
کتنا پیارا کلام ہے۔۔۔ ڈائری پہ نوٹ کروں گی۔
 
بُھکھ کيوں ساڈھے ويہڑے ہُو؟

ا- اللہ ميں تينوں لبھدا،پھردا وچ مسيتاں ھُو
کدی زکوتہ، کدی حج کردا،کدی نمازاں نيتياں ھُو
کدی اذان،بھجن، اشلوکاں کدی لبھہاں وچ گيتاں ھُو
کدی معلم پير فقيراں، صوفياں وچ پليتاں ھُو
ب- برساتاں ، بدل، بيلے، بنجر، پہاڑ پھرولے ھو
شيش محل، جھگياں تے کسياں کی کوٹھے کی کھولے ھو
ٹاہلی، بيری، ککر، پھلاہی، کڑيل رکھ ٹٹولے ھُو
پھر پھر پيریں چھالے پے گئے، چٹے ہوئے دھولے ھُو
ج- جسم وچ رہی نا طاقت، آ فُٹ پاتھے ڈھٹھا ھُو
کيڑياں وانگوں خلقت ويکھی منہ تے بھکھ دا گھٹا ھُو
ويکھ کے حالت انساناں دی ميں تے ہو گيا وٹا ھُو
سارياں گلاں جھوٹياں لگياں ميں جنگل ول نٹھا ھُو
د- دلاسہ ديندے ملاں، توں شہ رگ توں نيڑے ھُو
بھکی ننگی خلقت مر گئی مُکے نہيں نکھيڑے ھُو
تيرے مخبر ساڈے قاتل، ملاں ، پير ، وڈيرے ھُو
جے توں ايڈھا نيڑے ہيں فير، بھکھ کيوں ساڈھے ويہڑے ھُو؟
توقير چغتائی۔
 
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
قدم رکھا کہ منزل راستہ تھی
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
اک طرف مورچے تھے پلکوں کے
اک طرف آنسوﺅں کے ریلے تھے
تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر
زندگی کے عجیب میلے تھے
ذہن و دل آج بھوکوں مرتے ہیں
ان دنوں ہم نے فاقے جھیلے تھے
خود کشی کیا غموں کا حل بنتی
موت کے اپنے بھی سو جھمیلے تھے
 
Top