کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ

اذان فجر
عرفان علی

بکھرا ملت کا شیرازہ امت نہ رہی
بھائی بندی نہ رہی اخوت نہ رہی

اپنی مسجد اپنا قبلہ عقیدہ اپنا اپنا
دلوں میں محبت نہ رہی الفت نہ رہی

لوٹ آئی مرے کانو ں سے آذانِ فجر
عرفان بندہِ غافل میں توحرکت نہ رہی
 
مہ جبینوں کی اداؤں سے الجھ بیٹھاہوں
اس کا مطلب ہے بلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

بابِ تاثیر سے ناکام پلٹ آئی ہیں
اسلئے اپنی دعاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
تیری دہلیز پہ جھکنے کا سوال آیا تھا
میں زمانے کی اناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جو مسافر کیلئے باعثِ تسکین نہیں
ایسے اشجار کی چھاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جو غریبوں کا دیا پھونک کے تھم جاتی ہیں
ایسی کم ظرف هواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خداؤں سےالجھ بیٹھا ہوں
ايک كم ظرف کی بے ربط جفا كی
خاطرشہر والوں كی وفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
 
اس ميں کيا شک ہے کہ محکم ہے يہ ابليسي نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامي ميں عوام
ہے ازل سے ان غريبوں کے مقدر ميں سجود
ان کي فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قيام
آرزو اول تو پيدا ہو نہيں سکتي کہيں
ہو کہيں پيدا تو مر جاتي ہے يا رہتي ہے خام
 
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے

ایک بارود کی جیکٹ اور نعرہ تکبیر
رستہ جنت کا آسان ہوا پھرتا ہے

کیسا عشق ہے ، تیرے نام پے قربان ہے مگر
تیری ہر بات سے انجان ہوا پھرتا ہے

شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے
صبح کو وہ صاحب ایمان ہوا پھرتا ہے

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
 
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا

لے خبر جلد کہ اوروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مِرے آقا ترے قربان گیا

آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی
ہائے وہ دل جو تِرے در سے پُر ارمان گیا

دل ہے وہ دل جو تِری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا

اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

اور تم پر مِرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

آج لے اُن کی پناہ ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصب آخر
بِھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا

جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا ، سارا تو سامان گیا

الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
 
میرے شہر جل رہے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھوں جو عالم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اس خطہ زمیں پر
وہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے بس خنجر آزما ئی
ہم ہی قتل کر رہے ہیں ہم ہی قتل ہو رہے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھوں اے میرے وطن کے معصوم لوگو!
اے مہنگائی میں پسنے والو!
بھوک سے بچوں کو بیچنے والو!
اے ڈرون حملوں اور میزائلوں کا نشانہ بننے والو!
تم آخر چپ کیوں ہو؟کیوں تم نے اپنی زبان کو تالا لگا لیا ہی؟
کیا تم یہ ظلم سہنے کے لیے پیدا ہوئے ہو؟
یا پھر تمہاری ذہنیت بھی اپنے حکمرانوں کی طرح غلامانہ ہوگئی ہی؟
زر خرید غلام، غیروں کی خاطر اپنے ہی لوگوں کو مارنے والے غلام….
جن کی غیرت اور عزت ختم ہو چکی ہے
جو اپنے ہی ملک کو غیروں کے ہاتھ بیچنا چاہتے ہیں
اپنے ہی لوگوں میں موت تقسیم کررہے ہیں۔
تم اُٹھو اور توڑ ڈالو یہ زنجیریں….
غلامی کی زنجیریں….
اور
انکار کر دو طاغوت کا
ہر طرح کا ظلم سہنے سے ….
اور
بدل ڈالو
یہ چہرہ یہ نظام….
کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے
”نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ،اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو“۔

آج ہماری جو حالت ہے وہ ہماری اپنی بنائی ہوئی ہے
آج ہم نے قرآن سے دوری اختیار کر رکھی ہے
اور
اس کی تعلیمات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے
جس کی وجہ سے آج ہم راستہ بھٹک گئے
اگر آج بھی ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب لے آئیں تو اجتماعی طور پر بہت بڑی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے
علامہ اقبال نے بھی فرمایا
”نہ ہو جس میں انقلاب موت ہے وہ زندگی“
ہمارے پیارے نبی جنہوں نے اپنی پوری زندگی دعوت ِدین میں گزاری
آج ہم نے اسے چھوڑ دیا اور اپنے پیٹوں کو بھرنے میں لگ گئے….
کیا ہم نے اپنی زندگیوں کا حق ادا کردیا ہے؟
انبیاءکرام علیہ السلام کے بعد اللہ نے یہ ذمہ داری مسلمانوں کو سونپی کہ وہ نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں….
کیا آج ہم نے فریضہ ادا کیا ہے

آؤ تم لوگ بھی آگے بڑھو اور اللہ کے اس گروہ کا ساتھ دو،
تمام تر نسلی اور قومی امتیازات کو بھلا کر اس ظالمانہ نظام کے خلاف باہر نکل آؤ
آو ہم سب مل کر اللہ کا رنگ اختیار کریں کہ سب سے اچھا رنگ اسی کا ہے
آؤ ہم سب مل کر ایک ہوجائیں اور ایک آواز بلند کریں
اس ظالمانہ نظام کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کا آغاز کریں
کیوں کہ تمام جہانوں کے اس رب کے سامنے جو یوم حشر کا بھی مالک ہے
جوابدہی تو کرنی ہے۔
 
آخری تدوین:
کل پانؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسی کا سرِ پُرغرور تھا
 
(مسلم امہ ) عنوان خاکسار نے دیا ہے
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے
شورش کاشمیری
 
"اونچے قد کے " بونے" لوگ ! "

"لب پر میٹھے میٹھے بول
دل میں کینہ ، بُغض ، ریا
نیت میں ازلوں سے کھوٹ
لفظوں کا بیوپار کریں
مطلب ھو تو پیار کریں
جھوٹے دعوے یاری کے
شُعبدے ھیں مکاری کے
وقت پڑے تو کُھلتے ھیں
اُونچے قد کے "بونے" لوگ !! "
 
کوئی تو آئے

ہے فصلِ انسانیّت کی،
اب کے
نمو د کوئی ، نہ بود کوئی
خدایا!
شہرِ ستم گراں میں
اُتار ایسا وجود کوئی
وفا کو پھر سے ،
روا کرے جو۔...
محبتوں کو ،
خدا کرے جو۔
جو چاہتوں کے دیئے جلائے
محبتوں کے چمن کھلائے
وجودِ انسانیّت بچانے
کوئی تو آئے ۔کوئی تو آئے
 
میں شاعر ہوں تو اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں
اس حسیں اسرار کے بارے
بتائیں تو بھلا کیا ہے۔۔۔۔"
" محبت آخر کیا ہے۔۔۔۔۔"
وصی میں ہنس کے کہتا ہوں
کسی پیاسے کو اپنے حصے کا پانی پلانا بھی
محبت ہے
بھنور میں ڈوبتے کو ساحلوں تک لے کے جانا بھی
محبت ہے
کسی کے واسطے ننھی سی قربانی محبت ہے
کہیں ہم، راز سارے کھول سکتے ہوں مگر پھر بھی
کسی کی بے بسی کو دیکھ کر خاموش رہ جانا
محبت ہے

ہو دل میں درد، ویرانی مگر بھر بھی
کسی کے واسطے جبراً ہی ہونٹوں پر ہنسی لانا
زبردستی ہی مسکانا
محبت ہے
کہیں بارش میں میں سہمے، بھیگتے بلی کے بچے کو
ذرا سی دیر کو گھر لے کے آنا بھی
محبت ہے
کوئی چڑیا جو کمرے میں بھٹکتی آن نکلی ہو
تو اس چڑیا کو
پنکھے بند کر کے راستہ باہر کا دِکھلانا
محبت ہے
کسی کے زخم کو سہلانا
کسی روتے ہوئے کے دل کو بہلانا محبت ہے
کہ میٹھا بول، میٹھی بات، میٹھے لفظ۔, سب کیا ہے؟
محبت ہے
محبت ایک ہی بس ایک ہی انساں کی خاطر
مگن رہنا
ہمہ وقت اس کی باتوں، خشبوٶں میں
ڈولنا کب ہے
محبت صرف اس کی زلف کے بَل کھولنا کب ہےمحبت کے ہزاروں رنگ
لاکھوں استعارے ہیں
کسی بھی رنگ میں ہو یہ
مجھے اپنا بناتی ہے
یہ میرے دل کو بھاتی ہے ...
 
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے
جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر ، غنا بھی
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے
ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی
دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
عالم ہے سو بےعقل ہے، جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے ، مفلس سو گدا ہے
یاں راگ ہے دن رات وداں رنگِ شب وروز
یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق
بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے
شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور
زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال
ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے
بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار
جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے
وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام
یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے
روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہرسو
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے
چاوش تھے للکارتے جن رہ گزروں میں
دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی
وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اے چشمہ رحمت بابی انت و امی
دنیا پہ تیرا لطف صدا عام رہا ہے
کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے
امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن
دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے
وہ تیری محبت تری عترت کی ولا ہے
ہر چپقلش دہر مخالف میں تیرا نام
ہتھیار جوانوں کا ہے، پیروں کا عصا ہے
جو خاک تیرے در پہ ہے جاروب سے اڑتی
وہ خاک ہمارے لئے داروے شفا ہے
جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف
اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے
جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت
کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا
اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے خواہاں
پر فکر ترے دین کی عزت کی صدا ہے
گر دین کو جوکھوں نہیں عزت سے ہماری
امت تری ہر حال میں راضی بہ رضا ہے
ہاں حالیء گستاخ نہ بڑھ حدِ ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے
 
فیس بک کلیم خان
یہاں چہرے کتاب ہوتے ہیں
یہاں رد سب نصاب ہوتے ہیں
پس پردہ جو کچھ نہیں ہوتے
یہاں وہ لاجواب ہوتے ہیں
شمع روشن جو نئی ہو جائے
پتنگ پھر بے حساب ہوتے ہیں
ان کی دیوار پر سب لکھتے ہیں
جن کے چہرے گلاب ہوتے ہیں
روز ہوتی ہے عشق کی بارش
روز عاشق خراب ہوتے ہیں
کچھ تو ہوتے ہیں اصل لوگ یہاں
ورنہ اکثر سراب ہوتے ہیں
 
اپنی آنکھیں کھول دوں یا بند رکھوں ؟
Satyapal Anand

''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
جب بھی آنکھیں کھولتا ہوں
جانی پہچانی یہی دنیا نظر آتی ہے مجھ کو
جب بھی آنکھیں بند کر کے اپنے اندر جھانکتا ہوں
اور ہی دنیا کا نقشہ دیکھتا ہوں !

کچھ عجب منظر ہے اندر
گندگی اک عمر کی ۔۔ اک لاکھ صدیوں کی غلاظت!
جانتا ہوں ، آدمی کی نسل کا ماضی یہی تھا
اجتماعی، لاشعوری ذہن کی ’'diskette میں رکھی
ایک chip سا
جس کے کمپیوٹر میں چلنے پر میں اپنی
بند آنکھوں سے برابر دیکھتا ہوں
لڑتے بھڑتے جنگلی، وحشی قبیلے
ارتقا کی دوسری منزل پہ تہذیب و تمدن کا ابھرنا
نیست و نابود ہونا
مذہبوں کے نام پر لشکر کشی، خلقت کا قتل عام، شہروں کی تباہی
حملہ آور فوجیوں کی بربریت
آمروں کی، بادشاہوں کی ہوس ملک گیری

نوجوانوں ، عورتوں ، بچوں کو جیسے ریوڑوں سا ہانک کر
نیلام گھر میں ان کی بولی!
تیز رو میں آگے بڑھتے chip کے ان سارے مناظر پر لہو بکھرا ہوا ہے!

آدمی کی نسل کا ماضی بہت مکروہ ہے، اب آنکھیں کھولوں
chip کو diskette میں مقفل چھوڑ دوں ۔۔
یہ سوچ کر جب اپنی آنکھیں کھولتا ہوں
چونک کر کیا دیکھتا ہوں
chip تو چلتی جا رہی ہے، آج کی دنیا کی تصویریں دکھاتی!
سب طرف وحشت وہی ہے
بربریت، جارحیت کا وہی نقشہ ہے ہر سو
کچھ بھی تو بدلا نہیں ہے!

اپنی آنکھیں کھول دوں یا بند رکھوں ؟
 
حسن کاظمی
نیل گگن پر سُنتے تو ہیں، قدرت رہتی ہے
لیکن ماں کے پائوں کے نیچے جنت رہتی ہے
روکھی سُوکھی کھا کر یوں تو کُنبہ بنتا ہے
ماں رہتی ہے جب تک گھر میں برکت رہتی ہے
ماں کی دعائیں لیتے رہنا ، ِان ہی دعائوں سے
دنیا سے ٹکر لینے کی ہمت رہتی ہے
-------
باسی روٹی سینک کر جب ناشتے میں ماں نے دی
ہر امیری سے ہمیں یہ ُمفلسی اچھی لگی
 
Top