کچھ کیجے بگڑتا ہے۔۔۔ برائے اصلاح و تبصرہ

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ غزل ان دنوں لکھی تھی جب 2003ء میں پتہ نہیں کس بات پر بہت بھڑکے بیٹھے تھے۔۔۔ بہت غصہ آرہا تھا۔۔۔ اب اس میں اضافہ بھی کردیا ہے۔۔۔

کچھ کیجے بگڑتا ہے، کچھ بھی نہ کیا کیجے
بے کل ہے دلِ مضطر، تسکیں کی دُعا کیجے

غم لگ نہ جائے دل کو، آہیں نہ بھرا کیجے
ہنسنے پہ ہنسی آئے، یوں بھی نہ ہنسا کیجے

جاں ہی نہ چلی جائے، اُس شوخ کے دیکھے سے
جب سامنے آجائے، دل تھام لیا کیجے

اُلفت ہے کام ایسا، کچھ کام نہیں ہوتا
کچھ ہو تو بھلا کیا ہو؟ کیجے بھی تو کیا کیجے

اُلفت ہے یا کہ نفرت؟ تنہائی یا کہ وحشت؟
کیوں غم نہیں ہے مجھ کو؟ اس غم کی دوا کیجے

پہلے وہ زمانہ تھا احسان سے دبتے تھے
اب جان کو آتا ہے، اب جس کا بھلا کیجے

بس گھر ہی جلایا ہے، اک روشنی پانے کو
اتنا ہی نہیں کافی، کچھ اور برا کیجے

اتنا ہی نہیں کافی، لڑتوں سے لڑا کیجے
جو ساتھ بھی آبیٹھے، اس کو بھی خفا کیجے

دیکھے سے نہیں دِکھتا، ڈھونڈے سے نہیں ملتا
کیا کھو گیا ہے شاہد، شاہد کا پتہ کیجے۔۔۔

الف عین صاحب
اسد قریشی صاحب
مزمل شیخ بسمل صاحب
سارہ بشارت گیلانی صاحبہ
محمد وارث صاحب
@اظہر نذیر صاحب
 

الف عین

لائبریرین
اس کی بحر ہے
مفعول مفاعیلن دو بار۔
اس پر بہت سے مصرعے تقطیع نہیں ہوتے۔ پہلے خود ہی ان کی وزن میں کرنے کی کوشش کرو۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مفعول مفاعیلن​
اشاری نظام – 122 2221​
2 2 1 1 2 2 2​
کچ کی جِ ب گڑ تا ہے کچھ کیجے بگڑتا ہے​
کچ بی نَ ک یا کی جے کچھ بھی نہ کیا کیجے​
بے کل ہِ د لے مض طر بے کل ہے دلِ مضطر​
تس کی کٖ د عا کی جے تسکیں کی دعا کیجے​
غم لگ نَ ج اے دل کو غم لگ نہ جائے دل کو
آ ہِ نَ ب را کی جے آہیں نہ بھرا کیجے​
ہس نے پِ ہ سی آ ئے ہنسنے پہ ہنسی آئے
یو بی نَ ہ سا کی جے یوں بھی نہ ہنسا کیجے
جا ہی نَ چ لی جا ئے جاں ہی نہ چلی جائے​
اس شو خ کَ دے کے سے اس شوخ کے دیکھے سے​
جب سا م نِ آ جا ئے جب سامنے آجائے​
دل تا م ل یا کی جے دل تھام لیا کیجے
ال فت ہِ ک ام اے سا الفت ہے کام ایسا
کچ کا م ن ہی ہو تا کچھ کام نہیں ہوتا
کچ ہو تُ بھ لا کیَ ہو کچھ ہو تو بھلا کیا ہو​
کی جے بٖ تُ کیا کی جے کیجے بھی تو کیا کیجے
ال فت ہِ یا کہ نف رت الفت ہے یا کہ نفرت
تن ہا ی یا کہ وح شت تنہائی یا کہ وحشت
کیو غم نَ ہٖ ہِ مج کو کیوں غم نہیں ہے مجھ کو
اس غم کٖ د وا کی جے اس غم کی دوا کیجے​
پہ لے وُ ز ما نہ تا پہلے وہ زمانہ تھا​
اح سا ن سِ دب تے تے احسان سے دبتے تھے​
اب جا ن کُ آ تا ہے اب جان کو آتا ہے​
اب جس کَ بھ لا کی جے اب جس کا بھلا کیجے​
بس گر ہٖ ج لا یا ہے بس گھر ہی جلایاہے​
اک رو ش نٖ پا نے کو اک روشنی پانے کو​
ات نا ہٖ ن ہی کا فی اتنا ہی نہیں کافی​
کچ او ر ب را کی جے کچھ اور برا کیجے​
ات نا ہٖ ن ہی کا فی اتنا ہی نہیں کافی​
لڑ تو سِ ل ڑا کی جے لڑتوں سے لڑا کیجے​
جو سا ت بٖ آ بے ٹے جو ساتھ بھی آ بیٹھے​
اس کو بٖ خ فا کی جے اس کو بھی خفا کیجے​
دے کے سِ ن ہی دِک تا دیکھے سے نہیں دِکھتا​
ڈو ڈے سِ ن ہی مل تا ڈھونڈے سے نہیں ملتا​
کیا کھو گ یَ ہے شا ہد کیا کھو گیا ہے شاہدؔ
شا ہد کَ پ تا کی جے شاہدؔ کا پتہ کیجے​

یہ تقطیع میں نے ایک ہی دن میں سیکھی اور کی ہے۔ اس لیے پہلے سے معذرت خواہ ہوں اور جانتا ہوں ہوسکتا ہے وہ مصرعے درست ہوں جن کو میں نے سرخ کیا ہے اور وہ غلط ہوں جن کی تقطیع میں ان کو جوں کا توں رہنے دیا گیا۔۔۔۔ اس امر میں اہل علم ہی رہنمائی کرسکتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
یہ مصرع بحر میں نہیں آتے
غم لگ نہ جائے دل کو، آہیں نہ بھرا کیجے​
اُلفت ہے کام ایسا، کچھ کام نہیں ہوتا​
اُلفت ہے یا کہ نفرت؟ تنہائی یا کہ وحشت؟​
کیا کھو گیا ہے شاہد، شاہد کا پتہ کیجے۔​

ان کو تو آسانی سے بدلا جا سکتا ہے الفاظ کی نشست بدل کر۔ جیسے​
لگ جائے نہ غم دل کو​
 
یہ غزل ان دنوں لکھی تھی جب 2003ء میں پتہ نہیں کس بات پر بہت بھڑکے بیٹھے تھے۔۔۔ بہت غصہ آرہا تھا۔۔۔ اب اس میں اضافہ بھی کردیا ہے۔۔۔

کچھ کیجے بگڑتا ہے، کچھ بھی نہ کیا کیجے
بے کل ہے دلِ مضطر، تسکیں کی دُعا کیجے

غم لگ نہ جائے دل کو، آہیں نہ بھرا کیجے1؎
ہنسنے پہ ہنسی آئے، یوں بھی نہ ہنسا کیجے

جاں ہی نہ چلی جائے، اُس شوخ کے دیکھے سے
جب سامنے آجائے، دل تھام لیا کیجے

اُلفت ہے کام ایسا، کچھ کام نہیں ہوتا
کچھ ہو تو بھلا کیا ہو؟ کیجے بھی تو کیا کیجے

اُلفت ہے یا کہ نفرت؟ تنہائی یا کہ وحشت؟ 2؎
کیوں غم نہیں ہے مجھ کو؟ اس غم کی دوا کیجے

پہلے وہ زمانہ تھا احسان سے دبتے تھے
اب جان کو آتا ہے، اب جس کا بھلا کیجے

بس گھر ہی جلایا ہے، اک روشنی پانے کو
اتنا ہی نہیں کافی، کچھ اور برا کیجے

اتنا ہی نہیں کافی، لڑتوں سے لڑا کیجے
جو ساتھ بھی آبیٹھے، اس کو بھی خفا کیجے

دیکھے سے نہیں دِکھتا، ڈھونڈے سے نہیں ملتا
کیا کھو گیا ہے شاہد، شاہد کا پتہ کیجے۔۔۔

الف عین صاحب
اسد قریشی صاحب
مزمل شیخ بسمل صاحب

1؎ آپ نے ”جائے“ میں الف کی تحریک سے کام لیا ہے۔یا دوسرے لفظوں میں جا سے الف گرا کر باندھا، جس سے جَ اور اے الگ الگ ہوگیا۔ یہ قطعاً جائز نہیں۔

2؎ ”کہ“ کو طویل ”کے“ کرنا اچھا نہیں۔ اور ”یا“ سے الف گرنا بھی بھونڈا لگتا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میری تقطیع کے مطابق غلط مصرعے:​
غم لگ نہ جائے دل ک
آہیں نہ بھرا کیجے​
ہنسنے پہ ہنسی آئے،یوں بھی نہ ہنسا کیجے
جب سامنے آجائے دل تھام لیا کیجے
الفت ہے کام ایسا کچھ کام نہیں ہوتا
کچھ ہو تو بھلا کیا ہو،کیجے بھی تو کیا کیجے
الفت ہے یا کہ نفرت تنہائی یا کہ وحشت
کیوں غم نہیں ہے مجھ کو اس غم کی دوا کیجے​
کیا کھو گیا ہے شاہدؔ شاہدؔ کا پتہ کیجے​
استاد محترم الف عین کے مطابق:
یہ مصرع بحر میں نہیں آتے
غم لگ نہ جائے دل کو، آہیں نہ بھرا کیجے
اُلفت ہے کام ایسا، کچھ کام نہیں ہوتا
اُلفت ہے یا کہ نفرت؟ تنہائی یا کہ وحشت؟
کیا کھو گیا ہے شاہد، شاہد کا پتہ کیجے۔
لگ جائے نہ غم دل کو
اور مزمل شیخ بسمل کے مطابق:

غم لگ نہ جائے دل کو، آہیں نہ بھرا کیجے1؎
اُلفت ہے یا کہ نفرت؟ تنہائی یا کہ وحشت؟ 2؎
یعنی کچھ مصرعے بحر میں تھے اور مجھے نہیں لگے:
ہنسنے پہ ہنسی آئے،یوں بھی نہ ہنسا کیجے
جب سامنے آجائے دل تھام لیا کیجے
کچھ ہو تو بھلا کیا ہو،کیجے بھی تو کیا کیجے
کیوں غم نہیں ہے مجھ کو اس غم کی دوا کیجے
کیا یہ وزن میں ہیں؟؟

اب صرف ان مصرعوں کو درست کرنے کی کوشش جو آپ کے مطابق وزن میں نہیں:

غم لگ نہ جائے دل کو، آہیں نہ بھرا کیجے
لگ جائے نہ غم دل کو، آہیں نہ بھرا کیجے۔۔۔
اُلفت ہے کام ایسا، کچھ کام نہیں ہوتا
122 2221
الفت ہے کچھ ایسی شے، کچھ کام نہیں ہوتا۔۔۔
اُلفت ہے یا کہ نفرت؟ تنہائی یا کہ وحشت؟
الفت ہے کہ نفرت ہے، نفرت ہے کہ وحشت ہے
کیا کھو گیا ہے شاہد، شاہد کا پتہ کیجے۔

کھویا ہے کہاں شاہد، شاہد کا پتہ کیجے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
الفت ہے کام ایسا, کچھ کام نہیں ہوتا.

وزن میں ہے یہ مصرع.

122 2221​
ال فت ہ ک ام اے سا​
کچ کا م ن ہی ہو تا​
یہ وہ ٹکڑے ہیں جو میری تقطیع سے بنے۔۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے ہم نے کام کا ’کاف‘ الگ کردیا۔ لیکن بعد کی صورت ٹھیک ہے کیونکہ کام میں کا اور م تو الگ ہی ہوتے ہیں۔۔۔ شاید کام میں سے کاف الگ کرنا کوئی اختلافی مسئلہ ہو۔۔۔​
 

الف عین

لائبریرین
الفت ہے کام ایسا والا مصرع مفعول فاعلاتن ہے اور الفت ہے کچھ ایسی شے، مفعول مفاعیلن۔ باقی پوری غزل مفعول مفاعیلن میں تقطیع ہو رہی ہے، مزمل شیخ بسمل نے نہ جانے اس کو درست کیسے کہا ہے؟ بائنری نظام تو میری سمجھ سے باہر ہے۔
ہاں، جو مصرع تم نے اب کہے ہیں، وہ درست ہیں۔
 

حمید

محفلین
بسمل کو تسامح ہوا۔ یوں کر سکتے ہیں-

الفت تو ہے کام ایسا
ال فت ت ہ کا مے سا
مفعول مفاعیلن
 
122 2221​
ال فت ہ ک ام اے سا​
کچ کا م ن ہی ہو تا​
یہ وہ ٹکڑے ہیں جو میری تقطیع سے بنے۔۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے ہم نے کام کا ’کاف‘ الگ کردیا۔ لیکن بعد کی صورت ٹھیک ہے کیونکہ کام میں کا اور م تو الگ ہی ہوتے ہیں۔۔۔ شاید کام میں سے کاف الگ کرنا کوئی اختلافی مسئلہ ہو۔۔۔​

الفت ہے کام ایسا والا مصرع مفعول فاعلاتن ہے اور الفت ہے کچھ ایسی شے، مفعول مفاعیلن۔ باقی پوری غزل مفعول مفاعیلن میں تقطیع ہو رہی ہے، مزمل شیخ بسمل نے نہ جانے اس کو درست کیسے کہا ہے؟ بائنری نظام تو میری سمجھ سے باہر ہے۔
ہاں، جو مصرع تم نے اب کہے ہیں، وہ درست ہیں۔

استاد محترم۔ مجھے اندازہ ہے یہ وزن دیگر مصاریع سے مختلف ہے۔
یہ مفعولن مفعولن پر تقطیع ہوگا جیسا کے اس بحر میں اجازت ہے۔
مفعولُ مَفَاعیلن

تحنیق کے ذریعے کہیں بھی درمیان والے متحرک کو ساکن کیا جاسکتا ہے۔
تو مفعولم فاعیلن رہے گا جو مفعولن مفعولن کے برابر ہے۔ اور ترنم میں بھی کوئی قابل شناخت فرق نہیں آتا۔
بلکہ اس وزن میں اور بھی کافی ساری اجازتیں ہیں۔ وہ پھر سہی۔
الفت ہے۔۔۔مفعولن
کامیسا۔۔۔ مفعولن
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
استاد محترم۔ مجھے اندازہ ہے یہ وزن دیگر مصاریع سے مختلف ہے۔
یہ مفعولن مفعولن پر تقطیع ہوگا جیسا کے اس بحر میں اجازت ہے۔
مفعولُ مَفَاعیلن

تحنیق کے ذریعے کہیں بھی درمیان والے متحرک کو ساکن کیا جاسکتا ہے۔
تو مفعولم فاعیلن رہے گا جو مفعولن مفعولن کے برابر ہے۔ اور ترنم میں بھی کوئی قابل شناخت فرق نہیں آتا۔
بلکہ اس وزن میں اور بھی کافی ساری اجازتیں ہیں۔ وہ پھر سہی۔
الفت ہے۔۔۔ مفعولن
کامیسا۔۔۔ مفعولن

بہرحال ۔۔۔ میرے لیے تو بات پہنچانا ضروری ہے۔۔۔ اور مصرعے میں صرف ہلکی سی تبدیلی ہوئی ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ الفت ہے کچھ ایسی شے، کچھ کام نہیں ہوتا، کچھ ہو تو بھلا کیا ہو، کیجے بھی تو کیا کیجے؟؟ یا پھر الفت ہے کام ایسا ۔۔۔ صرف کام کے لفظ کی تکرار ہونے، نہ ہونے سے مفہوم میں تبدیلی نہیں آتی، سو یہ بھی درست ہے، وہ بھی۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مجھے تو بڑا آسان لگا یہ بائنری نظام۔۔۔ ٹکڑے کر کے گنتے رہیں، گنتی پوری ہوجائے تو ٹھیک، ورنہ رد۔۔۔ ضرورت ہی نہیں ہے تقطیع کے لمبے چوڑے قوانین یاد کرنے کی۔۔۔

صحیح کہا۔
بائنری نظام ہم جیسوں کے لئے بہت زبردست ہے۔
 
Top