شاد عظیم آبادی کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا۔شاد عظیم آبادی

کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا

ہائے وہ خود وارفتگی الجھے ہوئے سب سر کے بال
وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا

ہنستے ہنستے رو دیا کرتے تھے سب بے اختیار
اک نئی ترکیب کا درد اپنے افسانے میں تھا

سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا
کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا

ہائے پروانے کا وہ جلنا وہ رونا شمع کا
میں نے روکا ورنہ کیا آنسو نکل آنے میں تھا

خود غرض دنیا کی حالت قابل عبرت تھی شاد
لطف ملنے کا نہ اپنے میں نہ بیگانے میں تھا

شاد کچھ پوچھو نہ مجھ سے میرے دل کے داغ کو
ٹمٹماتا سا چراغ اک اپنے ویرانے میں تھا
 
Top