کچھ ناکارہ پی ایچ ڈیز کے بارے میں

کچھ ناکارہ پی ایچ ڈیز کے بارے میں

اختلاف رائے کرنا

کچھ دن پہلے میں ہمارے ڈاکٹریٹ کے کورس ورک کے سلسلے میں ایک لیکچر میں موجود تھا، جب اسٹوڈنٹس میں سے ایک لڑکی نے کہا کہ وہ لکھاری کی لکھی ہوئی ایک بات سے متفق نہیں ہے۔
بجائے اس کے، کہ لڑکی سے اختلاف کے پیچھے موجود دلائل پوچھے جاتے، ڈاکٹریٹ رکھنے والی درمیانی عمر کی ایک خاتون پروفیسر نے سخت لہجے میں اس سے پوچھا کہ وہ لکھاری سے اتفاق کیوں نہیں کرتی، اور اس پوری بات میں ایک جملہ یہ تھا کہ 'آپ نے لکھاری سے اختلاف کرنے کی جرات کیسے کی'۔
پروفیسر کا لہجہ ایسا تھا کہ وہ لڑکی فوراً اپنا اختلاف واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔
پروفیسر اب 'ڈسکشن' آگے بڑھانا چاہتی تھیں، لیکن ایک کمتر مخلوق، یعنی اس لکھنے والے نے بیچ میں ٹانگ اڑائی اور پروفیسر سے پوچھا کہ اگر اختلاف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، تو موجودہ علوم میں نئے اور تازہ خیالات متعارف کرانا کس طرح ممکن ہے؟
پروفیسر نے جواباً کہا کہ ہم صرف تب تک اختلاف کرسکتے ہیں، جب تک کہ ہمارے پاس اپنی بات ثابت کرنے کے لیے مضبوط دلائل موجود ہوں۔
ظاہری طور پر تو پروفیسر کی یہ بات اختلاف کرنے کی اجازت دیتی ہے، لیکن صرف کچھ لمحے پہلے جو مکالمہ ہوا، وہ اس بات کا گواہ ہے کہ اختلافِ رائے کو کس حد تک برداشت کیا جاتا ہے۔
پڑھیے: مِس امپورٹنٹ سوال بتا دیں!
میں نے اس کے بعد پروفیسر سے پوچھا کہ ہم اختلاف کیسے کرسکتے ہیں، اگر ہمیں ایسا کرنے کی تربیت ہی نہیں دی جاتی؟ اس کے بجائے ہم پر پریشر ڈالا جاتا ہے کہ ہم اس سب کو مان لیں جو پہلے لکھا اور کہا جاچکا ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں مان لینے اور اتفاق کرنے کے لیے پریشر صرف اوپر بیان کیے گئے پروفیسرز کی طرف سے ہی نہیں ڈالا جاتا، بلکہ اسٹوڈنٹس میں سے بھی ایک بڑی تعداد اختلافِ رائے کو خاموش کرانے میں کردار ادا کرتی ہے۔
کئی مواقع پر میرے ساتھی اسٹوڈنٹس جو خود کو قابل ریسرچر اور ڈاکٹریٹ اسکالر سمجھتے ہیں، مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں پروفیسرز سے زیادہ سوال جواب نہ کروں کہ کہیں 'ڈسکشن' طویل نہ ہوجائے۔
ہم مستقبل کے پی ایچ ڈیز کے درمیان کس طرح کی 'ڈسکشن' ہوتی ہے، وہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔
ایک پروفیسر کلاس میں آتی ہیں اور کسی کتاب میں سے کچھ پڑھنا شروع کردیتی ہیں۔ جب وہ ایک یا دو پیراگراف پڑھ چکتی ہیں جس میں وہ کئی بنیادی الفاظ کی ادائیگی غلط کرتی ہیں، تو وہ اسٹوڈنٹس کو 'ڈسکس' کرنے کے لیے کہتی ہیں۔
اس 'ڈسکشن' کے دوران ایک یا دو اسٹوڈنٹس ان کے پڑھے ہوئے پیراگراف کو گھما پھرا کر واپس دہرا دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی بحث شروع کرنے کی کوشش کرے، تو پروفیسر کو تشویش لاحق ہوجاتی ہے کہ ہم اصل ٹاپِک سے ہٹ رہے ہیں، جس کے لیے ٹائم نہیں ہے۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر جگہ یہی ہوتا ہے، لیکن پاکستان کی زیادہ تر یونیورسٹیز میں حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے کچھ پروفیسرز، خاص طور پر پوسٹ گریجویٹ سطح پر پڑھانے والے کئی پروفیسرز کو اکیڈمک ریسرچ کی الف ب بھی معلوم نہیں ہوتی۔
ان میں سے زیادہ تر پروفیسرز صرف اپنی سینیارٹی کی بنا پر اوپر تک پہنچے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک فرد اگر کچھ سالوں تک لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دیتا رہے تو اسے اسسٹنٹ پروفیسر کا درجہ دے دیا جاتا ہے بھلے کچھ بھی ہو۔ آپ سسٹم میں زیادہ عرصہ موجود رہیں، اور آپ آخر کار پروفیسر بن ہی جائیں گے۔
پھر ان میں سے زیادہ تر پروفیسرز ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے زمانے سے پہلے کے ہیں، جب ریسرچ کرنے اور اسے پبلش کرانے کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں تھی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نامی اس نئی ایجاد کے بعد توجہ ریسرچ شائع کرانے کی جانب ہوچکی ہے۔ اب یہ پروفیسر جو ایک پتھر اور ریسرچ پیپر کے درمیان فرق بھی نہیں بتا سکتے، ان کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ نہ صرف ریسرچ کریں، بلکہ اسے شائع بھی کرائیں۔
مزید پڑھیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار
اس کے ساتھ ہی غیرمعیاری یہاں تک کہ جعلی ریسرچ جرنلز میں ریسرچ شائع کرانے کا ٹرینڈ بھی آگیا۔
اگر آپ ان غیر معیاری جرنلز کی پبلیکیشن فیس ادا کریں تو یہ آپ کے کتے کے اعلانِ وفات سے لے کر آئن اسٹائن کی تھیوری آف ریلیٹویٹی بھی آپ کے نام سے پڑھے بغیر، تجزیہ کیے بغیر، یہاں تک کہ پروف ریڈ کیے بغیر چھاپ دیں گے۔
ایچ ای سی ان ریسرچ پبلیکیشنز پر ایکشن نہیں لیتی، کیونکہ جیسا کہ کیو عیسیٰ داؤد پوتہ اور دیگر کہتے ہیں، اگر ان ریسرچ پبلیکیشنز کو نہ گنا جائے، تو جتنی پبلیکیشنز کا دعویٰ ایچ ای سی کرتا ہے، اس دعوے کی ہوا نکلنا بہت آسان ہے۔
اکثر اوقات ایچ ای سی سالانہ سینکڑوں پی ایچ ڈیز پیدا کرنے کا کریڈٹ لیتا ہے، لیکن ان اسکالرز میں سے زیادہ تر کی ریسرچ شاید ہی دنیا میں کسی اور جگہ شائع ہوتی ہو۔
بس کسی روز یونیورسٹی لائبریری کے تھیسز سیکشن میں چلے جائیں، اور آپ کو خوبصورت کَورز میں نفاست سے بائنڈ ہوئے ڈاکومینٹس ملیں گے۔ لیکن اگر آپ ان میں سے کچھ ڈاکومینٹس کا جائزہ لیں، تو آپ کو زبان و بیان، طریقہ کار، اور دلائل میں غلطیاں صاف طور پر نظر آئیں گی۔
خراب کوالٹی کی ریسرچ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی ریسرچر تنقیدی سوچ نہیں رکھتے۔
یہ سماجی و سیاسی تصورات، ثقافتی نظریات، لسانی اختلافات، اور قوم پرست خیالات کو عالمی سچائی کے طور پر بغیر تنقید کیے قبول کرلیتے ہیں۔
ایک طرح سے سوچا جائے تو یہ شاید ہی ان کی غلطی ہے، کیونکہ ان کے دماغوں میں نظریاتی پروپیگنڈا اتنا مضبوطی سے موجود ہے، کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی قابلیت رک چکی ہیں۔
لیکن ایک طرح سے انہیں اس خامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے، اور ٹھہرایا جانا بھی چاہیے، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر، (اس لکھاری سمیت) بہت ہی سست ہیں، اور تعلیم کے نام پر پڑھائے جانے والے بہت سے نظریات کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں۔
اکیڈمک ریسرچ کا مطلب جوابات ڈھونڈنا نہیں ہے۔ اس کے بجائے یہ، خاص طور پر سماجی علوم میں، ایک عام محسوس ہونے والے معاملے کو مشکل بنانے سے تعلق رکھتی ہے۔
جانیے: مریخ پر کیسے پہنچا جائے؟
تعلیمی ریسرچ کے لیے مطلوبہ تنقیدی نگاہ کوئی ورثے میں ملنے والی چیز نہیں، بلکہ اسے کوئی بھی سیکھ سکتا ہے، بشرطیکہ صبر و تحمل، توجہ، اور عزم موجود ہو۔
میں نے اپنی تعلیم کے دوران اپنے ساتھی اسٹوڈنٹس کے اندر تنقیدی سوچ کے بارے میں غیر معمولی مخالفت دیکھی ہے کیونکہ سماجی و ثقافتی نظریات پر سوالات اٹھانے سے نظریاتی اور اخلاقی کشمکش جنم لیتی ہے۔
اگر پاکستانی ریسرچرز دنیا بھر میں ہونے والی نت نئی ترقیوں میں قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں، اور انہیں چلنا بھی چاہیے، تو انہیں ان نظریات اور تصورات کو چھوڑ کر ہر چیز پر سوالات اٹھانے ہوں گے۔
جہاں تک مستقبل کے پی ایچ ڈیز کے لیے سہولیات کی بات ہے، تو ایچ ای سی نے ملک بھر کی تقریباً تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں ڈیجیٹل لائبریریاں قائم کر کے ایک قابلِ تعریف کام کیا ہے۔ یہ ڈیجیٹل لائبریریاں دنیا بھر میں ہونے والی ریسرچ تک مفت رسائی کی سہولت دیتی ہیں۔ لیکن یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ریسرچرز اور مستقبل کے اسکالرز کی بڑی تعداد کو اس سہولت کے بارے میں یا علم نہیں، یا وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
ہمارے یونیورسٹی پروفیسرز اور ریسرچ سپروائزرز میں سے زیادہ تر آفس کی سیاست میں الجھے رہتے ہیں، اور ریسرچ یا سپروژن بہت ہی کم کر پاتے ہیں۔
مستقبل کے ریسرچرز اپنے اوپر ایک احسان کریں گے، اگر وہ عقلی طور پر ان پروفیسروں پر منحصر نہ رہ جائیں۔ سپروژن الاؤنس کی فکر میں رہنے والی ان شخصیات پر انحصار کرنے کے بجائے ریسرچ میں دلچسپی رکھنے والے افراد ای میل کے ذریعے اپنی پسند کی فیلڈ کے ماہرین اور اسکالرز سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ عام رائے کے برعکس یہ ماہر اور اسکالرز بہت ہی مددگار ہوتے ہیں۔
پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلے سے پہلے میں یہ سوچتا تھا کہ میں اب ڈاکٹر کہلوانے کی راہ پر چل رہا ہوں۔ پروگرام میں ایک سال ہوجانے کے بعد اب مجھے یہ لگنے لگا ہے کہ ڈاکٹریٹ پروگرام مکمل کرنے کے بعد میں بھی اپنے کچھ پروفیسرز کی طرح صرف ایک ناکارہ پی ایچ ڈی ہی ہوں گا۔
 

bilal260

محفلین
ناصر علی مرزا صاحب آپ کا مضمون میں نے حرف بحرف پڑھا ۔ہمارے ایک سینیئر انسٹرکٹر ہوتے تھے اب بھی ہیں وہ ہمیں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ میں مکینکل کے سبجیکٹ پڑھاتے تھے یہ 2001 کی بات ہے وہ دوران لیکچر بہت ہی مشکل اور دقیق الفاظ استعمال کرتے تھے اس پچاس منٹ کے پریڈ میں میں ان کو آدھا گھنٹہ برداشت کرنے کے بعد پوچھتا سر یہ جو لفظ (آپ بار بار استعمال کر رہے ہیں)کہہ رہے ہیں اس کا کیا مطلب ہے تو جناب والا کہتے میں ابھی وہی بتانے جا رہا ہوں ۔اور ڈانٹ کر بٹھا دیتے ۔ایسے دو دفعہ ہوا کسی کو ایسے لیکچر کی خاک سمجھ آئے گی کہ ایک بار بار بولا جانے والا لفظ پلے نہں پڑ رہا اور پھر ڈانٹ کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سو کسی سے کیا امید رکھ سکتے ہیں۔
بعد میں یہ جناب والا ادارے کے مکینکل ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ اور بعد ازاں پرنسپل بن گئے اور چند سالوں سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔اللہ عزوجل ان کو عمر حضر صحت کے ساتھ عطا فرمائے آمین او ر آپ جناب کو بھی۔آمین۔ثم آمین۔
 
ناصر علی مرزا صاحب آپ کا مضمون میں نے حرف بحرف پڑھا ۔ہمارے ایک سینیئر انسٹرکٹر ہوتے تھے اب بھی ہیں وہ ہمیں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ میں مکینکل کے سبجیکٹ پڑھاتے تھے یہ 2001 کی بات ہے وہ دوران لیکچر بہت ہی مشکل اور دقیق الفاظ استعمال کرتے تھے اس پچاس منٹ کے پریڈ میں میں ان کو آدھا گھنٹہ برداشت کرنے کے بعد پوچھتا سر یہ جو لفظ (آپ بار بار استعمال کر رہے ہیں)کہہ رہے ہیں اس کا کیا مطلب ہے تو جناب والا کہتے میں ابھی وہی بتانے جا رہا ہوں ۔اور ڈانٹ کر بٹھا دیتے ۔ایسے دو دفعہ ہوا کسی کو ایسے لیکچر کی خاک سمجھ آئے گی کہ ایک بار بار بولا جانے والا لفظ پلے نہں پڑ رہا اور پھر ڈانٹ کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سو کسی سے کیا امید رکھ سکتے ہیں۔
بعد میں یہ جناب والا ادارے کے مکینکل ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ اور بعد ازاں پرنسپل بن گئے اور چند سالوں سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔اللہ عزوجل ان کو عمر حضر صحت کے ساتھ عطا فرمائے آمین او ر آپ جناب کو بھی۔آمین۔ثم آمین۔
یہ میرا مضمون نہیں ہے ، یہ ڈان اخبار سے لیا گیا ہے ، عنوان کو کلک کریں تویہ ربط آپ کو اخبار کے صفحے پر لے جائے گا۔
 

منقب سید

محفلین
کچھ ناکارہ پی ایچ ڈیز کے بارے میں

اختلاف رائے کرنا

کچھ دن پہلے میں ہمارے ڈاکٹریٹ کے کورس ورک کے سلسلے میں ایک لیکچر میں موجود تھا، جب اسٹوڈنٹس میں سے ایک لڑکی نے کہا کہ وہ لکھاری کی لکھی ہوئی ایک بات سے متفق نہیں ہے۔
بجائے اس کے، کہ لڑکی سے اختلاف کے پیچھے موجود دلائل پوچھے جاتے، ڈاکٹریٹ رکھنے والی درمیانی عمر کی ایک خاتون پروفیسر نے سخت لہجے میں اس سے پوچھا کہ وہ لکھاری سے اتفاق کیوں نہیں کرتی، اور اس پوری بات میں ایک جملہ یہ تھا کہ 'آپ نے لکھاری سے اختلاف کرنے کی جرات کیسے کی'۔
پروفیسر کا لہجہ ایسا تھا کہ وہ لڑکی فوراً اپنا اختلاف واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔
پروفیسر اب 'ڈسکشن' آگے بڑھانا چاہتی تھیں، لیکن ایک کمتر مخلوق، یعنی اس لکھنے والے نے بیچ میں ٹانگ اڑائی اور پروفیسر سے پوچھا کہ اگر اختلاف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، تو موجودہ علوم میں نئے اور تازہ خیالات متعارف کرانا کس طرح ممکن ہے؟
پروفیسر نے جواباً کہا کہ ہم صرف تب تک اختلاف کرسکتے ہیں، جب تک کہ ہمارے پاس اپنی بات ثابت کرنے کے لیے مضبوط دلائل موجود ہوں۔
ظاہری طور پر تو پروفیسر کی یہ بات اختلاف کرنے کی اجازت دیتی ہے، لیکن صرف کچھ لمحے پہلے جو مکالمہ ہوا، وہ اس بات کا گواہ ہے کہ اختلافِ رائے کو کس حد تک برداشت کیا جاتا ہے۔
پڑھیے: مِس امپورٹنٹ سوال بتا دیں!
میں نے اس کے بعد پروفیسر سے پوچھا کہ ہم اختلاف کیسے کرسکتے ہیں، اگر ہمیں ایسا کرنے کی تربیت ہی نہیں دی جاتی؟ اس کے بجائے ہم پر پریشر ڈالا جاتا ہے کہ ہم اس سب کو مان لیں جو پہلے لکھا اور کہا جاچکا ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں مان لینے اور اتفاق کرنے کے لیے پریشر صرف اوپر بیان کیے گئے پروفیسرز کی طرف سے ہی نہیں ڈالا جاتا، بلکہ اسٹوڈنٹس میں سے بھی ایک بڑی تعداد اختلافِ رائے کو خاموش کرانے میں کردار ادا کرتی ہے۔
کئی مواقع پر میرے ساتھی اسٹوڈنٹس جو خود کو قابل ریسرچر اور ڈاکٹریٹ اسکالر سمجھتے ہیں، مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں پروفیسرز سے زیادہ سوال جواب نہ کروں کہ کہیں 'ڈسکشن' طویل نہ ہوجائے۔
ہم مستقبل کے پی ایچ ڈیز کے درمیان کس طرح کی 'ڈسکشن' ہوتی ہے، وہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔
ایک پروفیسر کلاس میں آتی ہیں اور کسی کتاب میں سے کچھ پڑھنا شروع کردیتی ہیں۔ جب وہ ایک یا دو پیراگراف پڑھ چکتی ہیں جس میں وہ کئی بنیادی الفاظ کی ادائیگی غلط کرتی ہیں، تو وہ اسٹوڈنٹس کو 'ڈسکس' کرنے کے لیے کہتی ہیں۔
اس 'ڈسکشن' کے دوران ایک یا دو اسٹوڈنٹس ان کے پڑھے ہوئے پیراگراف کو گھما پھرا کر واپس دہرا دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی بحث شروع کرنے کی کوشش کرے، تو پروفیسر کو تشویش لاحق ہوجاتی ہے کہ ہم اصل ٹاپِک سے ہٹ رہے ہیں، جس کے لیے ٹائم نہیں ہے۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر جگہ یہی ہوتا ہے، لیکن پاکستان کی زیادہ تر یونیورسٹیز میں حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے کچھ پروفیسرز، خاص طور پر پوسٹ گریجویٹ سطح پر پڑھانے والے کئی پروفیسرز کو اکیڈمک ریسرچ کی الف ب بھی معلوم نہیں ہوتی۔
ان میں سے زیادہ تر پروفیسرز صرف اپنی سینیارٹی کی بنا پر اوپر تک پہنچے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک فرد اگر کچھ سالوں تک لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دیتا رہے تو اسے اسسٹنٹ پروفیسر کا درجہ دے دیا جاتا ہے بھلے کچھ بھی ہو۔ آپ سسٹم میں زیادہ عرصہ موجود رہیں، اور آپ آخر کار پروفیسر بن ہی جائیں گے۔
پھر ان میں سے زیادہ تر پروفیسرز ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے زمانے سے پہلے کے ہیں، جب ریسرچ کرنے اور اسے پبلش کرانے کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں تھی۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نامی اس نئی ایجاد کے بعد توجہ ریسرچ شائع کرانے کی جانب ہوچکی ہے۔ اب یہ پروفیسر جو ایک پتھر اور ریسرچ پیپر کے درمیان فرق بھی نہیں بتا سکتے، ان کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ نہ صرف ریسرچ کریں، بلکہ اسے شائع بھی کرائیں۔
مزید پڑھیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار
اس کے ساتھ ہی غیرمعیاری یہاں تک کہ جعلی ریسرچ جرنلز میں ریسرچ شائع کرانے کا ٹرینڈ بھی آگیا۔
اگر آپ ان غیر معیاری جرنلز کی پبلیکیشن فیس ادا کریں تو یہ آپ کے کتے کے اعلانِ وفات سے لے کر آئن اسٹائن کی تھیوری آف ریلیٹویٹی بھی آپ کے نام سے پڑھے بغیر، تجزیہ کیے بغیر، یہاں تک کہ پروف ریڈ کیے بغیر چھاپ دیں گے۔
ایچ ای سی ان ریسرچ پبلیکیشنز پر ایکشن نہیں لیتی، کیونکہ جیسا کہ کیو عیسیٰ داؤد پوتہ اور دیگر کہتے ہیں، اگر ان ریسرچ پبلیکیشنز کو نہ گنا جائے، تو جتنی پبلیکیشنز کا دعویٰ ایچ ای سی کرتا ہے، اس دعوے کی ہوا نکلنا بہت آسان ہے۔
اکثر اوقات ایچ ای سی سالانہ سینکڑوں پی ایچ ڈیز پیدا کرنے کا کریڈٹ لیتا ہے، لیکن ان اسکالرز میں سے زیادہ تر کی ریسرچ شاید ہی دنیا میں کسی اور جگہ شائع ہوتی ہو۔
بس کسی روز یونیورسٹی لائبریری کے تھیسز سیکشن میں چلے جائیں، اور آپ کو خوبصورت کَورز میں نفاست سے بائنڈ ہوئے ڈاکومینٹس ملیں گے۔ لیکن اگر آپ ان میں سے کچھ ڈاکومینٹس کا جائزہ لیں، تو آپ کو زبان و بیان، طریقہ کار، اور دلائل میں غلطیاں صاف طور پر نظر آئیں گی۔
خراب کوالٹی کی ریسرچ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی ریسرچر تنقیدی سوچ نہیں رکھتے۔
یہ سماجی و سیاسی تصورات، ثقافتی نظریات، لسانی اختلافات، اور قوم پرست خیالات کو عالمی سچائی کے طور پر بغیر تنقید کیے قبول کرلیتے ہیں۔
ایک طرح سے سوچا جائے تو یہ شاید ہی ان کی غلطی ہے، کیونکہ ان کے دماغوں میں نظریاتی پروپیگنڈا اتنا مضبوطی سے موجود ہے، کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی قابلیت رک چکی ہیں۔
لیکن ایک طرح سے انہیں اس خامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے، اور ٹھہرایا جانا بھی چاہیے، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر، (اس لکھاری سمیت) بہت ہی سست ہیں، اور تعلیم کے نام پر پڑھائے جانے والے بہت سے نظریات کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں۔
اکیڈمک ریسرچ کا مطلب جوابات ڈھونڈنا نہیں ہے۔ اس کے بجائے یہ، خاص طور پر سماجی علوم میں، ایک عام محسوس ہونے والے معاملے کو مشکل بنانے سے تعلق رکھتی ہے۔
جانیے: مریخ پر کیسے پہنچا جائے؟
تعلیمی ریسرچ کے لیے مطلوبہ تنقیدی نگاہ کوئی ورثے میں ملنے والی چیز نہیں، بلکہ اسے کوئی بھی سیکھ سکتا ہے، بشرطیکہ صبر و تحمل، توجہ، اور عزم موجود ہو۔
میں نے اپنی تعلیم کے دوران اپنے ساتھی اسٹوڈنٹس کے اندر تنقیدی سوچ کے بارے میں غیر معمولی مخالفت دیکھی ہے کیونکہ سماجی و ثقافتی نظریات پر سوالات اٹھانے سے نظریاتی اور اخلاقی کشمکش جنم لیتی ہے۔
اگر پاکستانی ریسرچرز دنیا بھر میں ہونے والی نت نئی ترقیوں میں قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں، اور انہیں چلنا بھی چاہیے، تو انہیں ان نظریات اور تصورات کو چھوڑ کر ہر چیز پر سوالات اٹھانے ہوں گے۔
جہاں تک مستقبل کے پی ایچ ڈیز کے لیے سہولیات کی بات ہے، تو ایچ ای سی نے ملک بھر کی تقریباً تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں ڈیجیٹل لائبریریاں قائم کر کے ایک قابلِ تعریف کام کیا ہے۔ یہ ڈیجیٹل لائبریریاں دنیا بھر میں ہونے والی ریسرچ تک مفت رسائی کی سہولت دیتی ہیں۔ لیکن یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ریسرچرز اور مستقبل کے اسکالرز کی بڑی تعداد کو اس سہولت کے بارے میں یا علم نہیں، یا وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
ہمارے یونیورسٹی پروفیسرز اور ریسرچ سپروائزرز میں سے زیادہ تر آفس کی سیاست میں الجھے رہتے ہیں، اور ریسرچ یا سپروژن بہت ہی کم کر پاتے ہیں۔
مستقبل کے ریسرچرز اپنے اوپر ایک احسان کریں گے، اگر وہ عقلی طور پر ان پروفیسروں پر منحصر نہ رہ جائیں۔ سپروژن الاؤنس کی فکر میں رہنے والی ان شخصیات پر انحصار کرنے کے بجائے ریسرچ میں دلچسپی رکھنے والے افراد ای میل کے ذریعے اپنی پسند کی فیلڈ کے ماہرین اور اسکالرز سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ عام رائے کے برعکس یہ ماہر اور اسکالرز بہت ہی مددگار ہوتے ہیں۔
پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلے سے پہلے میں یہ سوچتا تھا کہ میں اب ڈاکٹر کہلوانے کی راہ پر چل رہا ہوں۔ پروگرام میں ایک سال ہوجانے کے بعد اب مجھے یہ لگنے لگا ہے کہ ڈاکٹریٹ پروگرام مکمل کرنے کے بعد میں بھی اپنے کچھ پروفیسرز کی طرح صرف ایک ناکارہ پی ایچ ڈی ہی ہوں گا۔
صد فی صد متفق ہوں آپ کی اس تحریر سے۔ ہمارے ایک بہت اچھے دوست جناب نیازی صاحب جو کہ اب ڈاکٹر کہلاتے ہیں کو بھی ایک ریسرچ میں ایسا ہی مسئلہ درپیش تھا۔ انکی ریسرچ بیکٹیریا کے بارے میں تھی اور بار بار ٹیسٹ کے باوجود رزلٹ اس رزلٹ کے مطابق نہیں آ رہے تھے جو کہ انہیں انکے پروفیسر صاحب نے دے رکھے تھے۔ جناب نیازی صاحب نے مختلف سینئیر ریسرچرز سے بھی رابطہ کیا اور سب کا جواب یہی تھا کہ تمہارا ٹیسٹ رزلٹ درست ہے لیکن پروفیسر صاحب مان کر ہی نہیں دے رہے تھے۔ بقول نیازی صاحب ان کا اصرار یہی ہوتا تھا کہ جب تک سابقہ ٹیسٹ سے رزلٹ میچ نہیں کرتے تب تک میں تمھارے رزلٹ کو قبول نہیں کر سکتا۔ نیازی صاحب بتاتے ہیں کہ پروفیسر صاحب نے ایک مرتبہ بھی ان کا ریسرچ ورک پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ ملاقات پر وہ بس اتنا پوچھتے تھے کہ رزلٹ میچ ہو گیا؟ اور نیازی صاحب انکار کر دیتے اور صفائی دینے کی کوشش کرتے تو پروفیسر صاحب کسی بات پر کان نہ دھرتے۔ نیازی صاحب تو ان دنوں اتنے پریشان تھے کہ انہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے مخبوط الحواس شخص ہو کوئی۔ خیر آخر کار کچھ دوستوں نے مل بیٹھ کر اس مسئلے کا ایک دیسی حل نکالا ۔ مذکورہ پروفیسر صاحب کے پاس موجود سابقہ رزلٹ کا ڈیٹا جو کہ ہارڈ اور سافٹ دونوں فارمیٹس میں تھا اس کو خفیہ طور پر نیازی صاحب کے ٹیسٹ والے نتائج سے ضروری تبدیلیوں کے بعد بدل دیا گیا پھر کہیں جا کر نیازی صاحب نے ڈرتے ڈرتے اپنا رزلٹ پروفیسر صاحب کے سامنے رکھا اور انکو بتایا کہ رزلٹ بالکل آپ کے دیئے گئے رزلٹ سے میچ کر رہا ہے۔ پروفیسر صاحب نے معلوم نہیں نیازی صاحب کا ریسرچ ورک پڑھا یا نہیں تاہم ان کا مسئلہ ضرور حل ہو گیا۔
 
مادی اشیاء یا دنیاوی معاملات ، تصورات کے حوالے تو اس بات میں شک نہیں ہے، کہ سوالات، شکوک ، اور تجربات اور دلیل کی بنیاد پر اختلاف رائے ممکن ہے اور تجربات اور عقل کی بنیاد پر معاملہ یا خیال رد بھی کیا جا سکتا ہے
لیکن مذہب کا دائرہ اس سے الگ اور وسیع ہے کہ اس کی بنیاد ہی الگ ہے کہ اسلام کی بنیاد ، قرآن وسنت پر ہےاس میں شکوک شبہات ،تجربات اور مطلق اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہے، یا تو آپ عقاید پر ایمان لے آتے ہو یا ایمان نہیں رکھتے

اسلام کی بنیاد ، قرآن وسنت پر ہے اس میں جو بھی ہے مسلمان کو اس پر ایمان لانا ہے ( چاہے آپ کی عقل اس کو مانے یا نہ مانے) ، نئے معاملات کو پرانے معاملات کی طرز پر استنباط کے ذریعے حل کیا جاتا ہے
 
Top