کچھ دھوب میں کچھ چھاؤں میں

راشد اشرف

محفلین
کچھ دھوپ میں کچھ چھاؤں میں

ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں وطن عزیز سے اٹھ کر برطانیہ جا بسنے والے اشفاق احمد کی صاف گوئی تو دیکھیے، کہتے ہیں ”ہمارے پاس کوئی خاص ہنر تو تھا نہیں بجز ایک معمولی سی ڈگری اور خوشامد کرنے کی عادت۔قسمت اچھی تھی جو بگ بین نے اسمال مین کو قبول کرلیا ۔ “۔۔۔ اور تو اور اشفاق احمد زیر نظر خودنوشت کے بارے میں بھی بلاتامل کہتے ہیں کہ یہ ایک عام سے انسان کی داستان حیات ہے جس نے جو کچھ زندگی سے لیا، اسے تحریر کی شکل میں لوٹا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سادہ انداز بیاں کی حامل ایسی ہی تحریریں قاری کے دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ، آپ بیتی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ احوال زندگی پر مشتمل ہو۔

ذرا ان کا اعتراف بیاں تو دیکھیے کہ خانہ کعبہ کے گرد طراف کررہے ہیں اور ذہن میں خیال آرہا ہے کہ یا اللہ! جاوید شیخ کی شادی نیلی سے ہو جائے۔ یہاں مجھے انور مقصود کا بیان کردہ وہ واقعہ یا آگیا جس کے مطابق دوران طواف، ایک نورانی شکل و صورت کے صاحب ان کا رستہ روک کر کھڑے ہوگئے تھے ۔۔فرشتہ صورت۔۔انور مقصود کو وہ کوئی فرشتہ ہی لگے تھے۔ قریب آئے اور سرگوشی میں بولے ” ٓآپ سے ایک درخواست ہے ۔ ۔ ۔عتیقہ اوڈھو کا فون نمبر مل جائے گا؟ “۔

مختلف لکھنے والوں نے اپنی خودنوشتوں میں الگ الگ انداز بیاں اپنائے ہیں، جوش کی روانی ، ساقی فاروقی کی ’جوانی ‘ اور آغا اشرف کی ’نادانی ‘ہما شما کو کہاں نصیب ؟ ۔۔جاوید شاہین (میرے ماہ و سال) اور اس آباد خرابے میں(اختر الایمان) میں لکھنے والوں کا لہجہ سپاٹ ہے، سچا، بے رحم ، بے لاگ اور کھرا۔ گفتنی ناگفتنی میں وامق جونپوری ،”میں“ کے اسیر رہے ہیں۔ بے شمار مثالیں اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ دھوپ چھاؤں اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں مصنف کے انداز تحریر میں مزاح کی ہلکی سی چاشنی بھی شامل ہے جو بھلی لگتی ہے۔ مثلاً اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ نظر بد سے بچانے کے لیے مائیں اپنے بچوں کے منہ پر کالا تل لگا دیتی ہیں، ہمارے چہرے پر سفید تل لگایا گیا تاکہ نظر آسکے۔“ ۔۔۔یا پھر اپنے بڑے ابا کی امریکی بیگم کا احوال جو مشہور زمانہ کمپنی ”کیٹرپلر“ کے مالک کی اکلوتی بیٹی تھیں۔

چونکہ دھوپ چھاؤں کے مصنف کا فلمی صنعت سے بطور صحافی نہایت گہرا تعلق رہا ہے۔ فلموں سے انہیں دیوانگی کی حد تک لگاؤ ہے لہذا کتاب میں ہمیں ہندوستانی فلمی صنعت سے متعلق بیش قیمت معلومات ملتی ہیں۔ اداکاروں کے احوال، ان سے منسلک قصوں سے یہ کتاب پرُ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں ادبی شخصیات کا احوال بھی ملتا ہے۔ نامور ادیبہ اخترجمال، مصنف کی رشتے کی خالہ تھیں۔ ۔۔۔بھوپال ،کہ مصنف کا آبائی وطن ہے، کا تذکرہ جابجا قاری کو اس سنہرے دور کی یاد دلاتا ہے جب یہ شہر عالم میں انتخاب تھا۔ بھوپال میں مصنف کے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گزرے ہوئے وقت کا چھوٹی چھوٹی باتوں کی صورت احوال دلچسپ ہے اور دل لبھاتا ہے۔ بچپن کے بے فکرے دن تھے ، عذرا نام کی ایک لڑکی نے اسکول میں کچھ نقصان ہوجانے کے باعث مجرم کو پکڑنے کا عجب طریقہ وضع کیا۔ مصنف کے پاس آئی اور ان کے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہی ہے، دبوچ لو اسے۔ اس مقام پر اشفاق احمد لکھنے کو تو یہ لکھ گئے ہیں کہ ” افسوس ، اس کے بعد آج تک کسی لڑکی نے ہمارے دل پر ہاتھ رکھا ، نہ ہمارا کلیجہ تھاما۔۔۔۔ “ لیکن یہ مزے دار یادیں ہمارے لیے محفوظ کرکے گویا انہوں نے ہم قارئین کے دل پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔کوئٹہ میں قیام کے دوران کالج کی زندگی کا رنگا رنگ احوال بھی بیحد دلچسپ ہے، مصنف اپنے حلقہ احباب میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔درحقیقت خودنوشت کے یہ حصے قاری کو بے ساختہ مسکرانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کوئٹہ کی ایک سیدھی سادی لڑکی روحی ظہیر الدین سے جب موسیقی سکھانے والے استاد نے کہا کہ ’بیٹی ! انترہ اٹھاؤ‘ تو اس غریب نے چپکے سے پاس پڑا ہوا تان پورا اٹھا کر استاد جی کو تھما دیا۔خودنوشت میں قیام کوئٹہ کی دلچسپ باتیں اور پرمزاح قصے پڑھنے کے دوران معاملہ تبسم زیر لب سے بڑھ کر خندہ دنداں نما تک جا پہنچتا ہے۔۔۔۔۔

دھوپ چھاؤں کا انداز تحریر رواں ہے، بیان میں سلاست ہے، ایک تہ دار طنز و مزاح کی کیفیت تحریر میں عیاں ہے، دوران مطالعہ ماضی کے اوراق جیسے کسی پردے کے عقب سے نکل کر سامنے آجاتے ہیں،۔۔۔اشفاق احمد خود احتسابی کے مرحلے سے گزرے ہیں اور خوب گزرے ہیں۔شہر کراچی میںزندگی کے کارزار میں سخت جدوجہد کے دوران مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگوں اور عزیز اقارب کو وہ نہیں بھولے اور ان سبھوں کا ذکر انہوں نے اپنی خودنوشت میں محبت سے کیا ہے۔ راقم کو اس کے مطالعے کے دوران خودنوشتوں کے رسیا مشفق خواجہ مرحوم بہت یاد آئے۔ وہ اسے پڑھتے تو کس قدر خوش ہوتے۔

اشفاق احمد اپنی خودنوشت لکھنے کا آغاز کرچکے تھے کہ ایک روز ان کا دس سالہ پوتا ان کے پاس آیا اور جھجھکتے ہوئے کہنے لگا ” آپ اپنی لائف ہسٹری لکھ رہے ہیں ، اس لیے لکھ رہے ہیں کہ آپ مرنے والے ہیں“ ؟ ۔ ۔ ۔ بچے معصوم ہوتے ہیں اور اس معصوم کو کیا خبر کہ اس کے دادا ”دھوپ چھاؤں“ لکھ کر قارئین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
مشفق خواجہ کے خیال سے آپ بیتی میں سچ لکھنا ناممکن ہے۔ اور ذرا دیکھیے تو کہ دوستو ئیفسکی کیا فرما رہے ہیں۔” سچ اور حقیقت پر مشتمل آپ بیتی لکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنی بات بڑھا چڑھا کر لکھنا انسانی سرشت کا حصہ ہے ۔“

راقم الحروف کو ”دھوپ چھاؤں“ کے مطالعے نے مذکورہ بالا جید شخصیات کی بات سے اختلاف کا موقع فراہم کیا ہے۔
اور آپ کو ؟
 
آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
013.jpg
 

راشد اشرف

محفلین
آج شام تک دھوپ چھاؤں کے چند نسخے اردو بازار کراچی میں ویلکم بک پورٹ پر فروخت کے لیے دستیاب ہوں گے۔
صفحات: 352
قیمت: 500
 
Top