ساغر صدیقی کچھ حرفِ التجا تھے دعاؤں سے ڈر گئے - ساغر صدیقی

کچھ حرفِ التجا تھے دعاؤں سے ڈر گئے
ارمانِ بندگی کے خداؤں سے ڈر گئے

اب کون دیکھتا ہے ترے شمس کی طرف
سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے

ہنس کر جو جھیلتے تھے زمانے کی تلخیاں
اے چشمِ یار تیری اداؤں سے ڈر گئے

رنگیں فضا میں جل گئیں خاموش تتلیاں
آنچل اڑے تو پھول ہواؤں سے ڈر گئے

آہوں کو اعتبار سماعت سمجھ لیا
نغموں کی بےقرار صداؤں سے ڈر گئے

ساقی نے مسکرا کے گلے سے لگا لئے
وہ آدمی جو اپنی خطاؤں سے ڈر گئے

تشنہ لبی نے ساغر و مینا کو ڈس لیا
زلفوں کی مست مست گھٹاؤں سے ڈر گئے​
ساغرؔ صدیقی
 
آخری تدوین:
Top