کچھ تو قرار پاتے ملتی ہمیں اماں گر

La Alma

لائبریرین
کچھ تو قرار پاتے، ملتی ہمیں اماں گر
آ جاتی کیا قیامت، جاتی نہ اپنی جاں گر

یہ درد تو وہی ہے، کیسے جگر سنبھالیں
ہم آہ بھی نہ کرتے، ہوتا وہ مہرباں گر

شوق ِ جنوں میں برسوں، وہ در بدر نہ پھرتا
اس دل میں آ ٹھہرتا، کرتے اسے مکاں گر


یوں نم نہ ہوتی آنکھیں، اس بےکسی پہ اپنی
ہم ضبط آزماتے، روتا نہ آسماں گر


جب سے قلم ہے تھاما، الفاظ کھو گئے ہیں
تحریر کیا کریں گے، لکھنی ہو داستاں گر

کوزہ گروں سے پوچھو، دست ِہنر کی قیمت
چلتے نہ چاک پر یوں، ہوتے نہ یہ رواں گر


سب دستکیں ادھوری، ہاتھوں پہ رہ گئی ہیں
ہم عرش کھٹکھٹاتے، ہوتا خدا وہاں گر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، اپنا تعارف تو کرائیں۔ اصلاح کی غرض سے صرف یہی کہوں گا کہ ’گر‘ بطور ردیف درست سہی، لیکن بہتر نہیں۔
 
Top