کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے --- حسن نعیم

سین خے

محفلین
کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے

کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے
ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے

کوہ سے نیچے اتر کر کنکری چنتے ہیں اب
عشق میں جو آب جو تھے جنگ میں سیلاب تھے

ساز و ساماں تھے ظفر کے پر وہ شب میں لٹ گئے
خاک و خوں کے درمیاں کچھ خواب کچھ کم خواب تھے

کیا دم رخصت نظر آتے خطوط دلبری
نقش تھے اس چاند کے لیکن بہ شکل آب تھے

میں عدو کی جستجو میں تھا کہ اک پتھر لگا
مڑ کے دیکھا تو سناں تانے ہوئے احباب تھے

تھے بہت نایاب وہ نور قلم زور بیاں
شعلہ اٹھا جب جنوں کا پھر وہی نایاب تھے

کیا فراق و فیض سے لینا تھا مجھ کو اے نعیمؔ
میرے آگے فکر و فن کے کچھ نئے آداب تھے

حسن نعیم

 

باباجی

محفلین
واہ واہ بہت ہی خوب ۔۔۔
کیا دم رخصت نظر آتے خطوط دلبری
نقش تھے اس چاند کے لیکن بہ شکل آب تھے
 

جان

محفلین
بہت خوبصورت۔ میرے جذبات کی ترجمانی کرتی غزل۔ عمدہ شراکت۔ بہت شکریہ۔
 

عرفان سعید

محفلین
بہت عمدہ شراکت!
کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے
ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے

کوہ سے نیچے اتر کر کنکری چنتے ہیں اب
عشق میں جو آب جو تھے جنگ میں سیلاب تھے

میں عدو کی جستجو میں تھا کہ اک پتھر لگا
مڑ کے دیکھا تو سناں تانے ہوئے احباب تھے

کیا فراق و فیض سے لینا تھا مجھ کو اے نعیمؔ
میرے آگے فکر و فن کے کچھ نئے آداب تھے
 
Top