کپتان کی جیت اور شاہ محمود قریشی کی ہار

جاسم محمد

محفلین
کپتان کی جیت اور شاہ محمود قریشی کی ہار
10/10/2019 عدنان خان کاکڑ

شاہ محمود قریشی اور کپتان کی ٹسل چل رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے بارے میں مسلسل اطلاعات آ رہی ہیں کہ وہ کپتان کو ہٹا کر خود وزیراعظم بننے کی دڑک میں ہیں۔ کبھی وہ مقامی حلقوں میں جوڑ توڑ کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی اہم غیر ملکی طاقتوں کے پاس جا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ بہت سنجیدہ اور معتبر سمجھے جانے والے تجزیہ کار بھی کہہ رہے ہیں کہ کپتان کو ہٹا کر شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم بنانے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ اقتدار کی سب سے سنگین لڑائی ہے جو کپتان لڑ رہا ہے کیونکہ اس میں اسے اپنی پارٹی کے اندر سے ہی باہر کرنے کی طاقتور مہم چلائی جا رہی ہے۔

یہ سب تجزیہ کار ایک چیز بھول جاتے ہیں۔ کپتان کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلا۔ وہ کامل تیئس برس سے سیاست میں ہے۔ ایسی چھوٹی موٹی سیاسی چالوں سے وہ نہیں گھبراتا۔ اس نے تو نواز شریف جیسے کائیاں شخص کو بھی دھول چٹا دی ہے جس نے افسر شاہی کو اپنے منظور نظر افراد سے بھر رکھا ہے اور سیاست میں سب سے بھاری کہلانے والا شاطروں کا شاطر آصف زرداری بھی اس کے آگے پانی بھرتا ہے۔ بلکہ پانی کیا بھرتا ہے، اب تو وہ جیل میں چکی پیستا ہے۔

پچھلے تیس پینتیس برس میں بارہا ہم نے دیکھا ہے کہ کپتان کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سکون سے دشمن کو چالیں چلنے کا بھرپور موقع دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دشمن کی چالیں اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی ہیں۔ خواہ ڈریسنگ روم ہو یا جنرل اسمبلی، وہ محض ایک ولولہ انگیز تقریر سے دشمن کی بازی کسی وقت بھی پلٹ سکتا ہے۔

جب دشمن اس بھرے میں آ جاتا ہے کہ وہ کپتان کو بے بس کر کے گیم جیتنے والا ہے، تو اس وقت کپتان اپنا وار کرتا ہے۔ اور ایسا وار کرتا ہے کہ دشمن اپنے زخم چاٹتا رہ جاتا ہے۔ سو سنار کی سہنے کے بعد جب کپتان ایک لوہار کی دیتا ہے تو بڑے سے بڑا حریف بھی خود کو لاچار پاتا ہے۔

اب یہی دیکھ لیں۔ کس طرح شاہ محمود قریشی پشاور سے اٹک اور پنڈی سے کراچی تک اپنا نقشہ جما رہے ہیں۔ کابل ہو یا واشنگٹن، سب کو وہ اپنے حق میں موم کر رہے ہیں۔ اب وہ ذہنی طور پر تیار ہو گئے تھے کہ مولانا فضل الرحمان کا دھرنا شروع ہوتے ہی وہ ملکی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر اپنا وار کر دیں اور کپتان کو منصب سے ہٹا کر خود وزیراعظم بن جائیں۔ عین اس وقت کپتان نے اپنا وار کر دیا۔

ہم جانتے ہی ہیں کہ سجادہ نشینوں کی اصل طاقت ان کی گدی میں ہوتی ہے۔ وہیں سے آمدنی آتی ہے اور وہیں وہ لوگوں کو مفت میں کھانا کھلا کھلا کر ان کے ووٹ پکے کرتے ہیں۔ عام سیاست دان صرف پانچ سال میں ایک مرتبہ الیکشن کے موقعے پر ووٹروں کو بریانی کھلا کر اپنا ووٹ حاصل کر لیتے ہیں تو آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ سال کے تین سو پینسٹھ دن قورمے کھلانے والے گدی نشین کے ووٹ کتنے پکے ہوں گے۔

بس یہی موقع تھا جب کپتان نے پیر شاہ محمود قریشی کی طاقت کی بیس پر کاری وار کرتے ہوئے خود اپنا سرکاری لنگر چلانے کا اعلان کر دیا۔ اب کون پوچھے گا شاہ محمود قریشی کے لنگر کو؟ کپتان کے نام پر تو نسوار اور چورن تک بک جاتے ہیں، لنگر کیا شے ہے؟

اب ویران ہوں گے شاہ محمود قریشی کے لنگر۔ وزیراعظم بننے کے لالچ نے انہیں اپنی گدی کے اثر سے بھی محروم کر دیا ہے۔ اب ان کے لنگر میں الو بولیں گے اور کپتان کے لنگر میں سب کھانا کھائیں گے۔

شاہ محمود کپتان کا ساتھ دیتے تو وہ کم از کم دس برس وزیر خارجہ رہتے۔ اب وہ اپنی گدی پر بھی نہیں رہ پائیں گے۔ کپتان کو ہرانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ کپتان کی جیت اور شاہ محمود قریشی کی ہار اب نوشتہ دیوار ہے۔
 
Top