ناصر کاظمی کِسی کا درد ہو دِل بے قرار اپنا ہے

سیما علی

لائبریرین
کِسی کا درد ہو دِل بے قرار اپنا ہے
ہَوا کہِیں کی ہو، سینہ فگار اپنا ہے

ہو کوئی فصل مگر زخم کِھل ہی جاتے ہیں
سدا بہار دلِ داغدار اپنا ہے

بَلا سے ہم نہ پیئیں، میکدہ تو گرم ہُوا
بقدرِ تشنگی رنجِ خُمار اپنا ہے

جو شاد پھرتے تھے کل، آج چُھپ کے روتے ہیں
ہزار شُکر غمِ پائیدار اپنا ہے

اِسی لیے یہاں کُچھ لوگ ہم سے جلتے ہیں
کہ جی جلانے میں کیوں اِختیار اپنا ہے

نہ تنگ کر دلِ مخزوں کو اے غمِ دنیا !
خُدائی بھر میں یہی غم گسار اپنا ہے

کہیں مِلا تو کِسی دن منا ہی لیں گے اُسے
وہ ذُود رنج سہی ، پھر بھی یار اپنا ہے

وہ کوئی اپنے سِوا ہو تو اُس کا شِکوہ کرُوں
جُدائی اپنی ہے اور انتظار اپنا ہے

نہ ڈھونڈھ ناصرِ آشفتہ حال کو گھر میں
وہ بُوئے گُل کی طرح بے قرار اپنا ہے

ناصرکاظمی
 
Top