داؤد عورت کے اس اندازِ گفتگو سے بہت حیران ہوا کہ اسے دیکھ کر اس عورت نے اب تک اظہارِ نفرت کیوں نہیں کیا؟ ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا کی ساری خوشیاں اس کی جھولی میں ڈال دی گئی ہوں ، اس کے پوچھنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ باتیں کرنا چاہ رہی تھی لیکن اس وقت وہ یہاں کیا کر رہی ہے ؟ کیا شریف زادی ہے ؟ شاید کسی سے دل لگایا ہو ۔ بہر حال جرات کر کے اپنے آپ سے کہا جو ہوتا ہے وہ ہو جائے ۔ اوّلاً بات چیت کرنے والا مل گیا ہے شاید مجھے کچھ حوصلہ مل جائے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی زبان بے قابو ہو گئی ہے ، کہنے لگا ،
" خانم ! آپ تنہا ہیں؟ میں بھی تنہا ہوں ، ہمیشہ سے اکیلا ہوں ! ساری عمر اکیلا رہا ہوں ۔۔۔ " ابھی اس نے بات ختم نہیں کی تھی کہ اس عورت نے منہ گھما کر عینک جو اس نے آنکھوں پر لگا رکھی تھی ، سے اسے دیکھا اور پھر کہا ،
" آپ کون ہیں ؟ میں سمجھی ہوشنگ ہے ، وہ ہر وقت آتا ہے اور میرے ساتھ ہنستا کھیلتا ہے ۔ "
داؤد اس آخری جملے کو نہ سمجھ سکا ، لیکن اسے اس بات کا انتظار بھی نہ تھا ۔ مدت ہوئی کہ کسی عورت نے اس کے ساتھ بات کی ہو ۔ ٹھنڈے پسینے کے قطرے جسم پر رینگنے لگے اور مشکل سے کہا ،
" خانم ! میں ہوشنگ نہیں ہوں ، میرا نام داؤد ہے ۔"
عورت نے ہنستے ہوئے جواب دیا،
" میں آپ کو دیکھ نہیں سکتی ، میری آنکھوں میں درد ہو رہا ہے۔ اچھا داؤد ۔۔۔ کُبڑا داؤد " (ہونٹوں کو کاٹنے لگ گئی) لگ رہا تھا کہ کوئی جانی پہچانی آواز کانوں سے ٹکرا رہی ہے ،
" میں زبیدہ ہوں مجھے جانتے ہو؟ "
اس کے بالوں کی لٹ جس نے اس کا آدھا چہرہ چھپا دیا تھا ، کو جھٹکا لگا اور داؤد نے اس کے رخسار پر تِل کو دیکھا ۔ فرطِ غم سے اس کا سانس لینا مشکل ہو رہا تھا اور بدن میں آگ سی لگ گئی ۔ پسینے کے قطرے اس کی پیشانی سے گرنے لگے ۔ اپنے ارد گرد دیکھا کوئی نہیں تھا ۔ ابو عطا کی آواز کافی قریب سے آرہی تھی ۔ دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو چکی تھی کہ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا ۔ کچھ کہے بغیر لرزتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ، بغض نے اس کے گلے کو جکڑا ہوا تھا ۔ اپنے عصا کو اُٹھایا اور گرتے پڑتے جس راستے سے آیا تھا اسی پر واپس ہو لیا اور رندھی ہوئی آواز میں اپنے آپ سے کہنے لگا ،
" یہ زبیدہ تھی ! مجھے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ ۔ ۔ ہوشنگ شاید اس کا منگیتر یا شوہر ہے ۔ ۔ ۔ کیا پتا ؟" نہیں ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں۔ ۔ ۔ مجھے کچھ نہیں سوچنا چاہیے ! ۔۔۔ نہیں نہیں میں کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔ وہ اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا اسی کتے تک لے گیا جس کو راستے میں دیکھا تھا ، قریب بیٹھا اور اس کا سر اپنی باہر نکلی ہوئی چھاتی سے بھینچا لیکن کتا مر چکا تھا ۔
-×--------- اختتام ---------×-