کون بہتر ؟

فرید احمد

محفلین
اصل موضوع پر بحث کریں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی چیز اہم ہے ؟
آزادی صحافت یا باہمی رواداری ؟
بالفاظ دیگر آزادی صحافت یا تعظیم رسول ؟
اس بحث میں آزادی صحافت تو برائے نام ہے ، ورنہ کسی کی دل آزاری اور توہین میں آزادی صحافت کا کو رول نہیں ؟
ایک معمولی عدالت کی توہین کسی بھی ملک کے ردی سے دستور میں جرم شمار کیا جاتا ہے اور وہ آزادی صحافت اور اظہار رای کے زمرے میں نہیں آتا تو پھر توہین رسالت پر کیوں آزادی صحافت کے نام پر اصرار ہے ؟
خیر اس بے ٹکی دلیل کو تسلیم بھی کر لیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی صحافت یا تعظیم رسول اور یا آزادی صحافت اور باہمی روادار اور احترام ، دونوں میں سے کون اہم ہے ؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
کسی جگہ میں نے ایک دلچسپ بات پڑھی تھی کہ یورپ میں پیغمبر اسلام کی شان میں توہین کو تو آزادی صحافت کی آڑ میں تحفظ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ کوئی اشارتاً بھی ہولوکاسٹ‌ کے متعلق بات کردے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یزیدیت یہی ہے، اسی کا نام ہے، اسی کو فرعونیت کہتے ہیں۔ نفرت ایسے ہی پھیلائی جاتی ہے۔
کارٹون چھاپنے ولے کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
 

فرید احمد

محفلین
وہ آزادی صحافت کے نام لیوا !!!

دعوت نام کا ایک سہ روزہ دہلی سے 54 سال سے شاءع ہوتا ہے ،
جماعت اسلامی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے ۔
20 فروی 2006 کے شمارے میں خبر ونظر کے عنوان سے ایک کالم میں یہ خبر نشر کی گئی ہے ۔
ڈنمارک تین سال پہلے
یہ بات اپریل 2003 پہلے کی ہے ، یعنی تقریبا تین سال پہلے کی ۔
ڈنمارک کے آرٹسٹ Christoffer Zieler نے حضرت عیسی مسیح کی شبیہ پر مبنی کارٹونوں کا ایک سلسلہ ڈنمارک کے اخبار Jyllands – Posten کو براءے اشاعت بھیجا ۔ اخبار کے ایڈیٹر Jens Kaiser نے یہ کہ کر شاءع کرنے سے انکار کردیا کہ اس سے عیسائی فرقے کے جذبات مجروح ہوں گے ۔ کارٹون ساز زیلر کا کہنا تھا کہ اس نے یہ کارٹون بہت سوچ سمجھ کر بنائے تھے ، اور اپنے عیسائی دادا کو دکھائے بھی تھے ، جو ان سے محظوظ ہوئے تھے ، مگر ایڈیٹر کارٹون شاءع نہ کرنے کے اپنے فیصلہ پر اڑا رہا ۔ اور اب یہ وہی اخبار Jyllands – Posten ہے جس نے اسلام کے آخری پیغمبر کی شبیہ پر مبنی ایک نہیں بارہ کارٹون شاءع کروا ڈالے ، اور اس کا ایڈیٹر بھی وہی Jens Kaiser ہے جو کارٹونوں کی اشاعت کا زبردست دفاع کر رہا ہے
۔
تین سال پہلے کے انکار کا ریکارڈ لندن کے اخبار گارجین کی انٹرنیٹ سروس کے نامہ نگار Gwladys Fouche نے نکالا ہے ۔ ( 6 فروری ) اور سوال اٹھایا ہے کہ کیا ڈنمارک کے اخبار کا یہ دہرا معیار نہیں ہے ؟
جینس کیسر نے اس کا جو وجواب دیا وہ بھی بڑا مزیدار ہے ، پیغمبر اسلام کے کارٹون ساز سے خود ہم نے فرماءش کی تھی ، کہ وہ یہ کارٹون بنائے ، جب کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے کارٹونوں کے لیے ایسی کوئی فرمائش نہیں کی گئی تھی ، وہ آرٹسٹ نے اپنے طور پر بنا کر بھیجے تھے ۔
 

سیفی

محفلین
صرف‌یہی‌چیز‌کافی‌ہے‌ثابت کرنے کو کہ پسِ پردہ کچھ اور حقائق ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ آزادئ صحافت کیا معنی
 
Top