کورونا وبا: نئی دنیا تخلیق کرنے کا موقع

جاسمن

لائبریرین
کورونا وبا: نئی دنیا تخلیق کرنے کا موقع
تنزیل الرحمان
ارون دھتی رائے کا مضمون جس کا ترجمہ تنزیل الرحمان نے کیا ہے)

کون ہے جو آج لفظ "وائرل ہو جانا” کو خوفزدہ ہوئے بغیر استعمال کرسکتا ہے؟

کون ہے جو آج ہر شے کو بغور دیکھے ،یعنی دروازے کا ہینڈل، گتے کا ڈبہ، سبزیوں کا تھیلا اور اسے یہ خیال نہ گزرے کہ یہ سب ایک ان دیکھے، بے جان ، بے شکل جرثومے سے اٹے پڑے ہیں ، ایسے جرثومے جو ہمارے پھیپڑوں سے چمٹنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں؟

کون ہے جو آج خوف محسوس کیے بغیر کسی اجنبی کو بوسہ دینے، کسی بس میں سوار ہونے یا پھر اپنے بچے کو اسکول بھیجنے کے بارے میں
سوچ سکتا ہو؟

کون آج خطرات کا اندازہ لگائے بغیر محض لذت و سرور کے بارے میں سوچ سکتا ہو ؟

ہم سے کون ہے جو آج وبائی امراض ، شماریات اور غیب دانی کا ماہر نہ بن گیا ہو؟ کون سا سائنس دان یا ڈاکٹر ہے جو چپکے چپکے کسی معجزے کے رونما ہونے کی دعا نہ کررہا ہو؟ یا کون سا پادری ہے جو خاموشی سے سائنس کی جانب نہ دیکھ رہا ہو؟

ایسے وقت میں جب یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے،کون ہے کہ شہروں میں پرندوں کے چہچہانے، سڑکوں پر شترمرغ کے ناچنے اور آسمان کی بلندیوں پر چھائی خاموشی نے اس کے دل میں جذبات کی لہر پیدانہ کر دی ہو؟

دنیا بھر میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد رواں ہفتے کے دوران 10 لاکھ سے بڑھ چکی تھی جبکہ پچاس ہزار لقمہ اجل بھی بن چکے۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ یہ وائرس بین الاقوامی تجارتی راہداریوں میں آزادانہ گھومتا رہا اور اب اس ہولناک بیماری نے انسانوں کو ان کے اپنے ملکوں، شہروں اور گھروں میں قید کرکے رکھ دیا ہے۔

یہ وائرس تو صرف اپنی افزائش چاہتا ہے، پھیلنا اور بڑھنا چاہتا ہے۔ اس نے سرمائے کی گردش کو کسی حد تک واپس موڑ دیا ہے۔ اس نے امیگریشن قوانین، بائیومیٹرک انتظام، ڈیجٹل نگرانی اور ہر قسم کے تجزیاتی ڈیٹا کا تمسخر اڑایا ہے۔ اس وائرس نے دنیا کے امیرترین اور سب سے طاقتور ممالک پر پوری قوت سے حملہ کیا ہے اور سرمایہ کاری کے انجن کو روک دیا ہے، شاید عارضی طور پر ہی سہی لیکن اس سے ہمیں اس انجن کے مختلف حصوں اور پرزوں کو جانچنے کا موقع میسر آئے گا اور ہم تخمینہ لگا سکیں گے اور فیصلہ کرسکیں گے کہ ہم اسے درست کرنے میں مددکریں یا پھر کوئی نیا انجن تلاش کریں۔

حکمراں طبقہ جو اس وقت اس وبا سے نبرد آزما ہے وہ تو جنگ کی بات کرنے کا دلدادہ ہے۔ وہ جنگ کو بطور محاورہ یا استعمارہ نہیں بلکہ اسے حقیقی معنوں میں استعمال کرتا ہے، لیکن اگر یہ ایک جنگ ہوتی تو کون ہے جو امریکہ سے زیادہ اس کے لیے تیار ہوتا؟ اگر آگے محاذ پر لڑنے والے اس کے فوجیوں کو ماسک اور دستانوں کی نہیں بلکہ اسمارٹ بم، بندوقوں، جیٹ طیاروں، آبدوزوں اور ایٹمی بموں کی ضرورت ہوتی تو کیا انہیں ان سب کی کمی کا سامنا ہوتا؟

ہم بڑے اشتیاق سے بڑھتے اعداد و شمار پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور نیویارک کے اسپتالوں کے بارے میں خبریں سن رہے ہیں کہ کس طرح وہاں کا عملہ، جو پہلے ہی اپنی استعداد سے بڑھ کر مصروف عمل ہے، تمام خطرت مول لیتے ہوئے بیماروں کی داد رسی کے لیے رات دن کوشاں ہے، جنہیں کچرے کے ڈبے میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے تھیلوں، اور پرانی برساتیوں سے اپنے لیے ماسک بنانے پڑے ہیں، کس طرح وینٹی لیٹرز کی کمی نے ڈاکٹروں کے لیے مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے کہ وہ فیصلہ کریں کس مریض کو وینٹی لیٹر لگانا ہے اور کسے مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہے، اور ہم یہاں یہ سوچ رہے ہیں "میرے خدا! یہ امریکہ ہے؟”

یہ المیہ حقیقی اور وسیع ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے آشکار ہو رہا ہے لیکن یہ نیا نہیں ہے۔ یہ تو اس ٹرین کا ملبہ ہے جو برسوں سے اپنے ٹریک پر ڈگماتے ہوئے دوڑ رہی تھی۔ کسے یاد نہیں وہ وڈیوز جن میں دکھایا گیا کس طرح مریضوں کو اسپتال سے بے دخل کردیا تھا جبکہ انہوں نے مریضوں والا لباس ابھی پہن رکھا تھا۔ ان لوگوں کو سڑک پر چھوڑ دیا گیا! امریکہ میں اسپتال کے دروازے ایسے افراد کے لیے زیادہ تر بند ہی رہتے ہیں جو زیادہ خوش قسمت نہیں ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنے بیمار ہیں یا انہیں کتنی تکلیف کا سامنا ہے۔ اب صورت حال کم از کم ایسی نہیں، کیونکہ اس وبا کے دور میں، غریب آدمی کی بیماری امیر سماج کی صحت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

میرے اپنے دیش کا کیا ہو گا؟ میرا بھارت جو جاگیرداری اور مذہبی بنیاد پرستی، ذات پات، سرمایہ کاری کے درمیان کہیں معلق ہے اور جس پر قدامت پسند قوم پرست ہندو حکمرانی کر رہے ہیں۔ دسمبر میں جب چین اپنے ملک میں اس وبا کےخلاف لڑ رہا تھا تو اس وقت بھارت میں لاکھوں باشندے شہریت کے نئے قوانین کے خلاف سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے تھے جو مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے متعارف کرائے گئے ہیں۔

بھارت میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 30 جنوری کو سامنے آیا تاہم فروری کے دوران حکمران جماعت اتنی مصروف تھی کہ اس کے پاس اس پر دھیان دینے کا وقت نہیں تھا۔ فروری کے آخری ہفتے میں امریکی صدر ٹرمپ نے آنا تھا، جنہیں اس وعدے نے بہت لبھایا کہ گجرات میں ان کے استقبال کے لیے اسٹیڈیم میں دس لاکھ افراد کا مجمع ہو گا۔ ظاہر ہے ان سب کا اہتمام کرنے کے لیے بے تحاشا رقم اور وقت درکار تھا۔

اس کے بعد دلی اسمبلی کے چناؤ آ گئےجس میں بی جے پی کا ہارنا یقینی تھا تاوقتیکہ وہ کچھ ایسا کرے جس سے انتہاپسندوں کے جذبات بھڑکیں، اور اس نے یہی کیا۔ ایک ہندو قوم پرست مہم کا آغاز کر دیا جس میں کھلے عام لوگوں پر تشدد کرنے اور "غداروں” کو گولی مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود حکمراں جماعت دلی کے انتخابات ہار گئے جس کی سزا وہاں کے بسنے والے مسلمانوں کو دی گئی اور اسلحے سے لیس ہندو ؤں نے، جنہیں پولیس کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی، مسلمان علاقوں پر دھاوا بول دیا، مکانوں، دکانوں ، مساجد اور اسکولوں کو جلا ڈالا۔ مسلمانوں کو ایسے حملوں کی توقع تھی انہوں نے بھی جوابی وار کیے، نتیجہ یہ نکلا کہ پچاس سے زائد ہندو اور مسلمان مارے گئے۔

مارچ کا مہینہ بھی سرکار کے لیے مصروف رہا، پہلے دو ہفتے مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت گرانے کی کوششوں میں گزر گئے۔ 11 مارچ کو عالمی ادارہ صحت نے کورونا کو عالمی وبا قرار دے دیا۔ 13 مارچ کو بھارتی وزارت صحت نے کہا کہ "کوروناکی وجہ سے ہنگامی صورت حال کا سامنا نہیں ہے۔”

بالاخر 19 مارچ کو پردھان منتری مودی نے قوم سے خطاب کیا۔ انکی تیاری نہیں تھی انہوں نے فرانس اور اٹلی کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام سے "سماجی دوری” اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سماجی دوری کی بات کو سمجھنا ایسے سماج میں بہت آسان تھا جو پہلے ہی ذات پات میں بہت ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ بالکل بھی نہیں بتایا کہ حکومت اس بحران کے خلاف کیا کر رہی ہے؟ بلکہ لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے گھر کی بالکونیوں اور کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر برتن اور گھنٹیاں بجائیں اور طبی عملے کا خراج تحسین پیش کریں۔ اس وقت تک انہوں نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ بھارت طبی عملے اور اسپتالوں کے لیے درکار اور ضروری سامان اور آلات برآمد کر رہا ہے جبکہ اسے خود اس کی ضرورت ہے۔

زیادہ حیرت زدہ ہونے کی بات نہیں اگر مودی کی درخواست پر لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے برتن بجاتے ہوئے مارچ کیا، کمیونٹی میں جلوس نکالے، البتہ سماجی دوری اختیار نہیں کی اور آنے والے دنوں میں ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ گائے کے گوبر کے ڈھیر میں کود پڑے اور بی جے پی کے حامیوں نے گائے موتر پینے کی باقاعدہ دعوتیں دے ڈالیں۔

مسلمان کیسے پیچھے رہتے؟ انہوں نے کہہ دیا کہ اس وائرس یا وبا کا جواب خدائے قادرمطلق کے پاس ہے اور انہوں نے ایمان والوں سے مساجد میں بڑی تعداد میں جمع ہونے کا کہہ دیا۔

24 مارچ کو مودی ایک بار پھر ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ آدھی رات کے بعد سے بھارت بھر میں لاک ڈاؤن ہوگا۔ تمام مارکیٹیں بھی بند رہیں گی اور سرکاری اور نجی گاڑیوں کو بھی چلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ فیصلہ صرف وزیر اعظم کے طور پر نہیں بلکہ گھر کے سربراہ کے طور پر کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ریاستی حکومتوں سے مشورہ کیے بغیر نافذ کر دیا گیا، ایک ایسے ملک میں جس کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ افراد پر مشتمل ہو ان سب کو بغیر کسی تیاری کے چند گھنٹوں کے نوٹس کے بعد اچانک لاک ڈاؤں کردیا جائے ۔۔۔ اور ہمیں لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔

پیشہ ور طبی اور وبائی امراض کے ماہرین نے اس اقدام کو سراہا۔ بظاہر یہ لوگ صحیح نظر آ رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس تکلیف رساں، اور سوچے سمجھے بغیر کیے گئے فیصلے کی حمایت نہیں کرے گا جس سے دنیا کے سب سے بڑے لاک ڈاؤن سے حاصل ہونے والے مقاصد کے برعکس نتائج حاصل ہوئے۔

وہ شخص جسے تماشوں کا شوق ہے اس نے "اصل تماشا ” لگایا۔

اس لاک ڈاؤن نے کیمیائی تجربے جیسا کام کیا جس میں چھپی ہوئی چیزیں اچانک ظاہر ہو جاتی ہیں۔ جیسے جیسے ہماری دکانیں، رستوران، کارخانے اور تعمیراتی ادارے بند ہوئے ، اور امیر اور متوسط طبقے نے اپنے آپ کو محفوظ و مامون گھروں میں محدود کر لیا تو ہمارے شہروں میں بسنے والوں نے اپنے ملازمین کو بے دخل کرنا شروع کردیا جیسے کہ وہ سب غیر ضروری اور اضافی تھے۔

بہت سے لوگوں کو ان کے مالکان نے نوکریوں اور گھروں سے بے دخل کر دیا۔ لاکھوں غریب، بھوکے پیاسے، نوجوان، بوڑھے ، بچے، عورتیں، بیمار، اپاہج ، اندھے لوگ، جن کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا، جنہیں کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ میسر نہیں تھی، انہوں نے اپنے اپنے گھروں کی جانب ایک طویل پیدل سفر کا آغاز کر دیا ۔ یہ لوگ کئی دنوں تک پیدل چلتے رہے، آگرہ، اعظم گڑھ، علی گڑھ، لکھنئو، گورکھ پور کی جانب جو یہاں سے سیکڑوں کلومیٹر کی مسافت پر ہیں۔ کچھ لوگ راستے میں ہی جان سے گئے۔

پیدل مارچ کرنے و الے افراد جانتے تھے کہ وہ گھر جارہے ہیں جہاں فاقہ کشی کا سامنا ہو گا، شاید وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے ساتھ "وائرس” لیے گھوم رہے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں، اپنے والدین اور دیگر بڑوں کو اس وائرس سے متاثر کر سکتے ہیں، لیکن انہیں انسیت اور پناہ کے ساتھ ساتھ خوراک کی بھی ضرورت تھی۔

اس پیدل مارچ کے دوران کچھ لوگوں کو پولیس نے ظالمانہ انداز میں زدو کوب کیا ، ان کی تذلیل کی کیونکہ پولیس کو بھی احکام تھے کہ سختی سے کرفیو کا نفاذ کرنا ہے۔ کچھ دنوں بعد یہ فکر لاحق ہوئی کہ آنے والے افراد اپنےاپنے علاقوں میں وبا کو پھیلادیں گے تو حکومتوں نے ریاستی سرحدیں بند کر دیں اور پیدل چلنے والوں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ لوگ جو کئی دنوں سے پیدل چل رہے تھے انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ واپس لوٹ جائیں اور شہروں میں لگائے گئے کیمپوں میں قیام کریں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان لوگوں کا شمار بھارت کی غریب ترین آبادی میں نہیں ہوتا کیونکہ بہرحال ان کے پاس نوکریاں تھیں اور یہ لوگ شہروں میں کام کر رہے تھے اور واپس جانے کے لیے ان کے پاس گھر موجود تھے۔ ان لوگوں کا کیا ہو گا جو بے روزگار ہیں اور جن کے پاس سر چھپانے کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں؟ مایوسی کا شکار یہ افراد شہروں اور دیہاتوں میں، جہاں تھے وہیں ہیں۔

جب دلی سے مارچ شروع ہوا تو میں غازی پور کی سرحد تک گئی جو دلی اور اترپریش کے درمیان واقع ہے۔ لاک ڈاؤن،جس کا مقصد طبی یا سماجی دوری اختیار کرنا تھا لیکن وہاں پہنچ کر جو میں نے دیکھا وہ اس کے بالکل برعکس اور انتہائی وسیع پیمانے پر تھا یعنی ہر طرف، ہر جگہ انسان ہی انسان تھے۔ یہی صورت حال بھارتی شہروں اور قصبوں کی بھی ہے۔ شاہراہیں تو آپ کو سنسان اور ویران نظر آئیں گی لیکن پسماندہ اور کچی آبادیوں میں غریب اپنے تنگ و تاریک گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔

پیدل چلنے والے بہت سے افراد، جن سے میں نے بات چیت کی، وہ سب وائرس کی وجہ سے فکرمند تھے لیکن یہ وائرس ان کے لیے غیر حقیقی تھا جبکہ بڑھتی بے روزگاری، فاقہ کشی اور پولیس تشدد تھا جو ان کی زندگیوں کا حصہ اور حقیقی تھا۔ جن لوگوں سے میں نے بات کی، ان میں مسلمانوں کا ایک گروپ بھی تھا، جو چند ہفتے قبل ہی ہندوؤں کے حملے کا شکار ہوئے تھے، ان میں سے ایک شخص کے الفاظ نے مجھے پریشان کردیا۔ اس کا نام رامجیت تھا، وہ بڑھئی تھا اور گورکھ پور جا رہا تھا جو نیپال کی سرحد کے پاس واقع ہے۔

اس نے کہا کہ "شاید جب مودی جی نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو کسی نے انہیں ہمارے بارے میں نہیں بتایا۔ شاید وہ ہمارے بارے میں نہیں جانتے۔۔۔۔”

"ہم” سے مراد ۔۔۔۔۔ 46 کروڑ بھارتی باشندے ہیں۔

اس بحران کے دوران ریاستی حکومتوں (امریکہ کی طرح) نے زیادہ ہمدردی اور فہم کا مظاہرہ کیا۔ تجارتی تنظیمیں، شہری اور دیگر گروپس خوراک اور دیگر ضروری اشیا لوگوں میں تقسیم کررہے ہیں جبکہ مرکزی حکومت فنڈز کی اپیل پر سست روی کا شکار رہی اور ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار کے پاس رقم موجود نہیں تھی، لیکن اچانک ایک نیا فنڈ جاری کردیا گیا جس میں لوگوں کے عطیات آنے شروع ہو گئے ہیں اور جس کے بعد خوراک کے پیکٹوں کی تقسیم شروع ہو گئی، ان پیکٹوں میں مودی کی تصویر بھی چھپی ہوئی ہے۔

اب جبکہ لاک ڈائون کو دوسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی رسد کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور ادویہ اور ضروری سامان کی دستیابی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہزاروں ٹرک ڈرائیوروں کو ہائی ویز پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا جنہیں پانی اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی طرح تیار فصلیں آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

معاشی بحران سر پر ہے۔ سیاسی بحران تو پہلے ہی جاری تھا۔ بھارتی میڈیا جو چوبیس گھنٹے مسلم مخالف مہم چلانے میں مصروف تھا اسے اب کورونا کی خبر مل گئی ہے۔ دلی میں تبلیغی جماعت نے لاک ڈاؤن سے قبل ایک اجتماع کیا لیکن اسے کورونا پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ٹھہرایا گیا ہے۔ اسے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر میڈیا کا لہجہ یہ بتا رہا ہے جیسے یہ وائرس مسلمانوں نے بنایا ہو اور اسے بطور جہاد استعمال کرتے ہوئے جان بوجھ کر پھیلایا گیا ہے۔

دو اپریل تک بھارت میں کورونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد دو ہزار ہو چکی تھی جبکہ 58 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ یقینا ان اعداد و شمار پر مکمل یقین نہیں کیا جا سکتا اور ماہرین کی آرا بھی اس سلسلے میں مختلف ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ لاکھوں افراد اس وائرس سے متاثر ہوں گے جبکہ کچھ کو یقین ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بہت کم رہے گی۔ ہم اس بحران کی حقیقی شکل کو شاید کبھی نہ جان سکیں لیکن ابھی ہمیں اتنا معلوم ہے کہ اسپتالوں کی جانب لوگوں کا رش ابھی شروع نہیں ہوا۔

بھارت کے سرکاری اسپتال اور کلینک جو اس قابل نہیں کہ وہ ہر سال ڈائریا ، خوراک کی کمی اور صحت کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہلاک ہونے والے دس لاکھ بچوں کو بچا سکیں جبکہ ہر سال ملک میں ٹی بی کے لاکھوں نئے کیسز سامنے آتے ہیں (دنیا بھر کے ایک چوتھائی ٹی بی کیسز بھارت میں ہوتے ہیں)، آبادی کی اکثریت خون کی کمی اور خوراک کی کمی کے مسائل کا شکار ہے اسی لیے کوئی بھی معمولی بیماری ان کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے اور موجودہ صورت حال میں وہ کورونا بحران کا بالکل بھی سامنا نہیں کر سکیں جیسا کہ اس وقت یورپ اور امریکہ کر رہا ہے۔

لوگ بیمار ہوں گے اور اپنے گھروں میں ہی دم توڑیں گے، ہم ان کے بارے میں کبھی نہیں جان سکیں گے، وہ لوگ شاید کبھی اعداد و شمار کا حصہ بھی نہ بن پائیں۔ ہم صرف یہی امید کر سکتے ہیں جو ایک تحقیق میں بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ کورونا وائرس سرد موسم کو پسند کرتا ہے ، وہ سب درست ہوں (حالانکہ کچھ ریسرچرز اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتے)۔ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بھارتیوں نے جھلسادینے والی گرمیوں کی نامعقول خواہش کی ہو۔

یہ ہم سب کو آخر کیا ہوا ہے؟ کیا یہ سب وائرس کی وجہ سے ہوا ہے؟ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ خدا کی طرف ہماری اوقات یاد دلانے کا طریقہ ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ دنیا پر قبضہ کرنے کی چین کی سازش ہے۔

یہ جو کچھ بھی ہو، کورونا نے دنیا کو گھٹنے ٹکا دیے ہیں اور امور دنیا رک سے گئے ہیں۔ ہمارے ذہن اس وقت بھی وہی "نارمل” زندگی کی تلاش میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے مستقبل کو ہمارے ماضی سے جوڑ دے، وہ موجودہ نقصان کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔کورونا نے جو شگاف ڈالا ہے وہ موجود ہے اور اس ہولناک مایوسی کے دوران اس نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم غور کریں کہ ہم نے خود اپنے ساتھ کیا حشر بپا کیا ہے؟ اسی لیے پہلے ہی طرح "نارمل زندگی” کی جانب لوٹنے سے زیادہ بدتر اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

تاریخی طور پر یہی ہوا ہے کہ وباؤں نے انسانوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے طرز کہن پر غور کریں اور ایک نئی دنیا تخلیق کریں۔ یہ وبا بھی مختلف نہیں ، یہ دو دنیاؤں کے درمیان ایک در ہے، ایک گزرگاہ کی طرح ہے۔

ہم انتخاب کر سکتےہیں کہ اس در سے گزرتے وقت تعصبات اور نفرت کی لاش، دولت کی ہوس، مردہ نظریات اور آلودہ فضاؤں کو اپنے پیچھے گھسیٹتے ہوئے لیتے چلے آئیں یا پھر ہم بہت کم اسباب کے ساتھ اس گزرگاہ سے چلتے جائیں اور ایک دوسری دنیا کے تصور کے لیے نہ صرف تیار ہوں بلکہ اس کے لیے لڑنے کے لیے بھی تیار ہوں۔
Redirect Notice
 
کورونا وبا: نئی دنیا تخلیق کرنے کا موقع
تنزیل الرحمان
ارون دھتی رائے کا مضمون جس کا ترجمہ تنزیل الرحمان نے کیا ہے)

کون ہے جو آج لفظ "وائرل ہو جانا” کو خوفزدہ ہوئے بغیر استعمال کرسکتا ہے؟

کون ہے جو آج ہر شے کو بغور دیکھے ،یعنی دروازے کا ہینڈل، گتے کا ڈبہ، سبزیوں کا تھیلا اور اسے یہ خیال نہ گزرے کہ یہ سب ایک ان دیکھے، بے جان ، بے شکل جرثومے سے اٹے پڑے ہیں ، ایسے جرثومے جو ہمارے پھیپڑوں سے چمٹنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں؟

کون ہے جو آج خوف محسوس کیے بغیر کسی اجنبی کو بوسہ دینے، کسی بس میں سوار ہونے یا پھر اپنے بچے کو اسکول بھیجنے کے بارے میں
سوچ سکتا ہو؟

کون آج خطرات کا اندازہ لگائے بغیر محض لذت و سرور کے بارے میں سوچ سکتا ہو ؟

ہم سے کون ہے جو آج وبائی امراض ، شماریات اور غیب دانی کا ماہر نہ بن گیا ہو؟ کون سا سائنس دان یا ڈاکٹر ہے جو چپکے چپکے کسی معجزے کے رونما ہونے کی دعا نہ کررہا ہو؟ یا کون سا پادری ہے جو خاموشی سے سائنس کی جانب نہ دیکھ رہا ہو؟

ایسے وقت میں جب یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے،کون ہے کہ شہروں میں پرندوں کے چہچہانے، سڑکوں پر شترمرغ کے ناچنے اور آسمان کی بلندیوں پر چھائی خاموشی نے اس کے دل میں جذبات کی لہر پیدانہ کر دی ہو؟

دنیا بھر میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد رواں ہفتے کے دوران 10 لاکھ سے بڑھ چکی تھی جبکہ پچاس ہزار لقمہ اجل بھی بن چکے۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ یہ وائرس بین الاقوامی تجارتی راہداریوں میں آزادانہ گھومتا رہا اور اب اس ہولناک بیماری نے انسانوں کو ان کے اپنے ملکوں، شہروں اور گھروں میں قید کرکے رکھ دیا ہے۔

یہ وائرس تو صرف اپنی افزائش چاہتا ہے، پھیلنا اور بڑھنا چاہتا ہے۔ اس نے سرمائے کی گردش کو کسی حد تک واپس موڑ دیا ہے۔ اس نے امیگریشن قوانین، بائیومیٹرک انتظام، ڈیجٹل نگرانی اور ہر قسم کے تجزیاتی ڈیٹا کا تمسخر اڑایا ہے۔ اس وائرس نے دنیا کے امیرترین اور سب سے طاقتور ممالک پر پوری قوت سے حملہ کیا ہے اور سرمایہ کاری کے انجن کو روک دیا ہے، شاید عارضی طور پر ہی سہی لیکن اس سے ہمیں اس انجن کے مختلف حصوں اور پرزوں کو جانچنے کا موقع میسر آئے گا اور ہم تخمینہ لگا سکیں گے اور فیصلہ کرسکیں گے کہ ہم اسے درست کرنے میں مددکریں یا پھر کوئی نیا انجن تلاش کریں۔

حکمراں طبقہ جو اس وقت اس وبا سے نبرد آزما ہے وہ تو جنگ کی بات کرنے کا دلدادہ ہے۔ وہ جنگ کو بطور محاورہ یا استعمارہ نہیں بلکہ اسے حقیقی معنوں میں استعمال کرتا ہے، لیکن اگر یہ ایک جنگ ہوتی تو کون ہے جو امریکہ سے زیادہ اس کے لیے تیار ہوتا؟ اگر آگے محاذ پر لڑنے والے اس کے فوجیوں کو ماسک اور دستانوں کی نہیں بلکہ اسمارٹ بم، بندوقوں، جیٹ طیاروں، آبدوزوں اور ایٹمی بموں کی ضرورت ہوتی تو کیا انہیں ان سب کی کمی کا سامنا ہوتا؟

ہم بڑے اشتیاق سے بڑھتے اعداد و شمار پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور نیویارک کے اسپتالوں کے بارے میں خبریں سن رہے ہیں کہ کس طرح وہاں کا عملہ، جو پہلے ہی اپنی استعداد سے بڑھ کر مصروف عمل ہے، تمام خطرت مول لیتے ہوئے بیماروں کی داد رسی کے لیے رات دن کوشاں ہے، جنہیں کچرے کے ڈبے میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے تھیلوں، اور پرانی برساتیوں سے اپنے لیے ماسک بنانے پڑے ہیں، کس طرح وینٹی لیٹرز کی کمی نے ڈاکٹروں کے لیے مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے کہ وہ فیصلہ کریں کس مریض کو وینٹی لیٹر لگانا ہے اور کسے مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہے، اور ہم یہاں یہ سوچ رہے ہیں "میرے خدا! یہ امریکہ ہے؟”

یہ المیہ حقیقی اور وسیع ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے آشکار ہو رہا ہے لیکن یہ نیا نہیں ہے۔ یہ تو اس ٹرین کا ملبہ ہے جو برسوں سے اپنے ٹریک پر ڈگماتے ہوئے دوڑ رہی تھی۔ کسے یاد نہیں وہ وڈیوز جن میں دکھایا گیا کس طرح مریضوں کو اسپتال سے بے دخل کردیا تھا جبکہ انہوں نے مریضوں والا لباس ابھی پہن رکھا تھا۔ ان لوگوں کو سڑک پر چھوڑ دیا گیا! امریکہ میں اسپتال کے دروازے ایسے افراد کے لیے زیادہ تر بند ہی رہتے ہیں جو زیادہ خوش قسمت نہیں ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنے بیمار ہیں یا انہیں کتنی تکلیف کا سامنا ہے۔ اب صورت حال کم از کم ایسی نہیں، کیونکہ اس وبا کے دور میں، غریب آدمی کی بیماری امیر سماج کی صحت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

میرے اپنے دیش کا کیا ہو گا؟ میرا بھارت جو جاگیرداری اور مذہبی بنیاد پرستی، ذات پات، سرمایہ کاری کے درمیان کہیں معلق ہے اور جس پر قدامت پسند قوم پرست ہندو حکمرانی کر رہے ہیں۔ دسمبر میں جب چین اپنے ملک میں اس وبا کےخلاف لڑ رہا تھا تو اس وقت بھارت میں لاکھوں باشندے شہریت کے نئے قوانین کے خلاف سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے تھے جو مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے متعارف کرائے گئے ہیں۔

بھارت میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 30 جنوری کو سامنے آیا تاہم فروری کے دوران حکمران جماعت اتنی مصروف تھی کہ اس کے پاس اس پر دھیان دینے کا وقت نہیں تھا۔ فروری کے آخری ہفتے میں امریکی صدر ٹرمپ نے آنا تھا، جنہیں اس وعدے نے بہت لبھایا کہ گجرات میں ان کے استقبال کے لیے اسٹیڈیم میں دس لاکھ افراد کا مجمع ہو گا۔ ظاہر ہے ان سب کا اہتمام کرنے کے لیے بے تحاشا رقم اور وقت درکار تھا۔

اس کے بعد دلی اسمبلی کے چناؤ آ گئےجس میں بی جے پی کا ہارنا یقینی تھا تاوقتیکہ وہ کچھ ایسا کرے جس سے انتہاپسندوں کے جذبات بھڑکیں، اور اس نے یہی کیا۔ ایک ہندو قوم پرست مہم کا آغاز کر دیا جس میں کھلے عام لوگوں پر تشدد کرنے اور "غداروں” کو گولی مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود حکمراں جماعت دلی کے انتخابات ہار گئے جس کی سزا وہاں کے بسنے والے مسلمانوں کو دی گئی اور اسلحے سے لیس ہندو ؤں نے، جنہیں پولیس کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی، مسلمان علاقوں پر دھاوا بول دیا، مکانوں، دکانوں ، مساجد اور اسکولوں کو جلا ڈالا۔ مسلمانوں کو ایسے حملوں کی توقع تھی انہوں نے بھی جوابی وار کیے، نتیجہ یہ نکلا کہ پچاس سے زائد ہندو اور مسلمان مارے گئے۔

مارچ کا مہینہ بھی سرکار کے لیے مصروف رہا، پہلے دو ہفتے مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت گرانے کی کوششوں میں گزر گئے۔ 11 مارچ کو عالمی ادارہ صحت نے کورونا کو عالمی وبا قرار دے دیا۔ 13 مارچ کو بھارتی وزارت صحت نے کہا کہ "کوروناکی وجہ سے ہنگامی صورت حال کا سامنا نہیں ہے۔”

بالاخر 19 مارچ کو پردھان منتری مودی نے قوم سے خطاب کیا۔ انکی تیاری نہیں تھی انہوں نے فرانس اور اٹلی کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام سے "سماجی دوری” اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سماجی دوری کی بات کو سمجھنا ایسے سماج میں بہت آسان تھا جو پہلے ہی ذات پات میں بہت ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ بالکل بھی نہیں بتایا کہ حکومت اس بحران کے خلاف کیا کر رہی ہے؟ بلکہ لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے گھر کی بالکونیوں اور کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر برتن اور گھنٹیاں بجائیں اور طبی عملے کا خراج تحسین پیش کریں۔ اس وقت تک انہوں نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ بھارت طبی عملے اور اسپتالوں کے لیے درکار اور ضروری سامان اور آلات برآمد کر رہا ہے جبکہ اسے خود اس کی ضرورت ہے۔

زیادہ حیرت زدہ ہونے کی بات نہیں اگر مودی کی درخواست پر لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے برتن بجاتے ہوئے مارچ کیا، کمیونٹی میں جلوس نکالے، البتہ سماجی دوری اختیار نہیں کی اور آنے والے دنوں میں ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ گائے کے گوبر کے ڈھیر میں کود پڑے اور بی جے پی کے حامیوں نے گائے موتر پینے کی باقاعدہ دعوتیں دے ڈالیں۔

مسلمان کیسے پیچھے رہتے؟ انہوں نے کہہ دیا کہ اس وائرس یا وبا کا جواب خدائے قادرمطلق کے پاس ہے اور انہوں نے ایمان والوں سے مساجد میں بڑی تعداد میں جمع ہونے کا کہہ دیا۔

24 مارچ کو مودی ایک بار پھر ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ آدھی رات کے بعد سے بھارت بھر میں لاک ڈاؤن ہوگا۔ تمام مارکیٹیں بھی بند رہیں گی اور سرکاری اور نجی گاڑیوں کو بھی چلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ فیصلہ صرف وزیر اعظم کے طور پر نہیں بلکہ گھر کے سربراہ کے طور پر کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ریاستی حکومتوں سے مشورہ کیے بغیر نافذ کر دیا گیا، ایک ایسے ملک میں جس کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ افراد پر مشتمل ہو ان سب کو بغیر کسی تیاری کے چند گھنٹوں کے نوٹس کے بعد اچانک لاک ڈاؤں کردیا جائے ۔۔۔ اور ہمیں لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔

پیشہ ور طبی اور وبائی امراض کے ماہرین نے اس اقدام کو سراہا۔ بظاہر یہ لوگ صحیح نظر آ رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس تکلیف رساں، اور سوچے سمجھے بغیر کیے گئے فیصلے کی حمایت نہیں کرے گا جس سے دنیا کے سب سے بڑے لاک ڈاؤن سے حاصل ہونے والے مقاصد کے برعکس نتائج حاصل ہوئے۔

وہ شخص جسے تماشوں کا شوق ہے اس نے "اصل تماشا ” لگایا۔

اس لاک ڈاؤن نے کیمیائی تجربے جیسا کام کیا جس میں چھپی ہوئی چیزیں اچانک ظاہر ہو جاتی ہیں۔ جیسے جیسے ہماری دکانیں، رستوران، کارخانے اور تعمیراتی ادارے بند ہوئے ، اور امیر اور متوسط طبقے نے اپنے آپ کو محفوظ و مامون گھروں میں محدود کر لیا تو ہمارے شہروں میں بسنے والوں نے اپنے ملازمین کو بے دخل کرنا شروع کردیا جیسے کہ وہ سب غیر ضروری اور اضافی تھے۔

بہت سے لوگوں کو ان کے مالکان نے نوکریوں اور گھروں سے بے دخل کر دیا۔ لاکھوں غریب، بھوکے پیاسے، نوجوان، بوڑھے ، بچے، عورتیں، بیمار، اپاہج ، اندھے لوگ، جن کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا، جنہیں کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ میسر نہیں تھی، انہوں نے اپنے اپنے گھروں کی جانب ایک طویل پیدل سفر کا آغاز کر دیا ۔ یہ لوگ کئی دنوں تک پیدل چلتے رہے، آگرہ، اعظم گڑھ، علی گڑھ، لکھنئو، گورکھ پور کی جانب جو یہاں سے سیکڑوں کلومیٹر کی مسافت پر ہیں۔ کچھ لوگ راستے میں ہی جان سے گئے۔

پیدل مارچ کرنے و الے افراد جانتے تھے کہ وہ گھر جارہے ہیں جہاں فاقہ کشی کا سامنا ہو گا، شاید وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے ساتھ "وائرس” لیے گھوم رہے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں، اپنے والدین اور دیگر بڑوں کو اس وائرس سے متاثر کر سکتے ہیں، لیکن انہیں انسیت اور پناہ کے ساتھ ساتھ خوراک کی بھی ضرورت تھی۔

اس پیدل مارچ کے دوران کچھ لوگوں کو پولیس نے ظالمانہ انداز میں زدو کوب کیا ، ان کی تذلیل کی کیونکہ پولیس کو بھی احکام تھے کہ سختی سے کرفیو کا نفاذ کرنا ہے۔ کچھ دنوں بعد یہ فکر لاحق ہوئی کہ آنے والے افراد اپنےاپنے علاقوں میں وبا کو پھیلادیں گے تو حکومتوں نے ریاستی سرحدیں بند کر دیں اور پیدل چلنے والوں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ لوگ جو کئی دنوں سے پیدل چل رہے تھے انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ واپس لوٹ جائیں اور شہروں میں لگائے گئے کیمپوں میں قیام کریں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان لوگوں کا شمار بھارت کی غریب ترین آبادی میں نہیں ہوتا کیونکہ بہرحال ان کے پاس نوکریاں تھیں اور یہ لوگ شہروں میں کام کر رہے تھے اور واپس جانے کے لیے ان کے پاس گھر موجود تھے۔ ان لوگوں کا کیا ہو گا جو بے روزگار ہیں اور جن کے پاس سر چھپانے کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں؟ مایوسی کا شکار یہ افراد شہروں اور دیہاتوں میں، جہاں تھے وہیں ہیں۔

جب دلی سے مارچ شروع ہوا تو میں غازی پور کی سرحد تک گئی جو دلی اور اترپریش کے درمیان واقع ہے۔ لاک ڈاؤن،جس کا مقصد طبی یا سماجی دوری اختیار کرنا تھا لیکن وہاں پہنچ کر جو میں نے دیکھا وہ اس کے بالکل برعکس اور انتہائی وسیع پیمانے پر تھا یعنی ہر طرف، ہر جگہ انسان ہی انسان تھے۔ یہی صورت حال بھارتی شہروں اور قصبوں کی بھی ہے۔ شاہراہیں تو آپ کو سنسان اور ویران نظر آئیں گی لیکن پسماندہ اور کچی آبادیوں میں غریب اپنے تنگ و تاریک گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔

پیدل چلنے والے بہت سے افراد، جن سے میں نے بات چیت کی، وہ سب وائرس کی وجہ سے فکرمند تھے لیکن یہ وائرس ان کے لیے غیر حقیقی تھا جبکہ بڑھتی بے روزگاری، فاقہ کشی اور پولیس تشدد تھا جو ان کی زندگیوں کا حصہ اور حقیقی تھا۔ جن لوگوں سے میں نے بات کی، ان میں مسلمانوں کا ایک گروپ بھی تھا، جو چند ہفتے قبل ہی ہندوؤں کے حملے کا شکار ہوئے تھے، ان میں سے ایک شخص کے الفاظ نے مجھے پریشان کردیا۔ اس کا نام رامجیت تھا، وہ بڑھئی تھا اور گورکھ پور جا رہا تھا جو نیپال کی سرحد کے پاس واقع ہے۔

اس نے کہا کہ "شاید جب مودی جی نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو کسی نے انہیں ہمارے بارے میں نہیں بتایا۔ شاید وہ ہمارے بارے میں نہیں جانتے۔۔۔۔”

"ہم” سے مراد ۔۔۔۔۔ 46 کروڑ بھارتی باشندے ہیں۔

اس بحران کے دوران ریاستی حکومتوں (امریکہ کی طرح) نے زیادہ ہمدردی اور فہم کا مظاہرہ کیا۔ تجارتی تنظیمیں، شہری اور دیگر گروپس خوراک اور دیگر ضروری اشیا لوگوں میں تقسیم کررہے ہیں جبکہ مرکزی حکومت فنڈز کی اپیل پر سست روی کا شکار رہی اور ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار کے پاس رقم موجود نہیں تھی، لیکن اچانک ایک نیا فنڈ جاری کردیا گیا جس میں لوگوں کے عطیات آنے شروع ہو گئے ہیں اور جس کے بعد خوراک کے پیکٹوں کی تقسیم شروع ہو گئی، ان پیکٹوں میں مودی کی تصویر بھی چھپی ہوئی ہے۔

اب جبکہ لاک ڈائون کو دوسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی رسد کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور ادویہ اور ضروری سامان کی دستیابی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہزاروں ٹرک ڈرائیوروں کو ہائی ویز پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا جنہیں پانی اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی طرح تیار فصلیں آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

معاشی بحران سر پر ہے۔ سیاسی بحران تو پہلے ہی جاری تھا۔ بھارتی میڈیا جو چوبیس گھنٹے مسلم مخالف مہم چلانے میں مصروف تھا اسے اب کورونا کی خبر مل گئی ہے۔ دلی میں تبلیغی جماعت نے لاک ڈاؤن سے قبل ایک اجتماع کیا لیکن اسے کورونا پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ٹھہرایا گیا ہے۔ اسے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر میڈیا کا لہجہ یہ بتا رہا ہے جیسے یہ وائرس مسلمانوں نے بنایا ہو اور اسے بطور جہاد استعمال کرتے ہوئے جان بوجھ کر پھیلایا گیا ہے۔

دو اپریل تک بھارت میں کورونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد دو ہزار ہو چکی تھی جبکہ 58 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ یقینا ان اعداد و شمار پر مکمل یقین نہیں کیا جا سکتا اور ماہرین کی آرا بھی اس سلسلے میں مختلف ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ لاکھوں افراد اس وائرس سے متاثر ہوں گے جبکہ کچھ کو یقین ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بہت کم رہے گی۔ ہم اس بحران کی حقیقی شکل کو شاید کبھی نہ جان سکیں لیکن ابھی ہمیں اتنا معلوم ہے کہ اسپتالوں کی جانب لوگوں کا رش ابھی شروع نہیں ہوا۔

بھارت کے سرکاری اسپتال اور کلینک جو اس قابل نہیں کہ وہ ہر سال ڈائریا ، خوراک کی کمی اور صحت کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہلاک ہونے والے دس لاکھ بچوں کو بچا سکیں جبکہ ہر سال ملک میں ٹی بی کے لاکھوں نئے کیسز سامنے آتے ہیں (دنیا بھر کے ایک چوتھائی ٹی بی کیسز بھارت میں ہوتے ہیں)، آبادی کی اکثریت خون کی کمی اور خوراک کی کمی کے مسائل کا شکار ہے اسی لیے کوئی بھی معمولی بیماری ان کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے اور موجودہ صورت حال میں وہ کورونا بحران کا بالکل بھی سامنا نہیں کر سکیں جیسا کہ اس وقت یورپ اور امریکہ کر رہا ہے۔

لوگ بیمار ہوں گے اور اپنے گھروں میں ہی دم توڑیں گے، ہم ان کے بارے میں کبھی نہیں جان سکیں گے، وہ لوگ شاید کبھی اعداد و شمار کا حصہ بھی نہ بن پائیں۔ ہم صرف یہی امید کر سکتے ہیں جو ایک تحقیق میں بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ کورونا وائرس سرد موسم کو پسند کرتا ہے ، وہ سب درست ہوں (حالانکہ کچھ ریسرچرز اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتے)۔ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بھارتیوں نے جھلسادینے والی گرمیوں کی نامعقول خواہش کی ہو۔

یہ ہم سب کو آخر کیا ہوا ہے؟ کیا یہ سب وائرس کی وجہ سے ہوا ہے؟ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ خدا کی طرف ہماری اوقات یاد دلانے کا طریقہ ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ دنیا پر قبضہ کرنے کی چین کی سازش ہے۔

یہ جو کچھ بھی ہو، کورونا نے دنیا کو گھٹنے ٹکا دیے ہیں اور امور دنیا رک سے گئے ہیں۔ ہمارے ذہن اس وقت بھی وہی "نارمل” زندگی کی تلاش میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے مستقبل کو ہمارے ماضی سے جوڑ دے، وہ موجودہ نقصان کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔کورونا نے جو شگاف ڈالا ہے وہ موجود ہے اور اس ہولناک مایوسی کے دوران اس نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم غور کریں کہ ہم نے خود اپنے ساتھ کیا حشر بپا کیا ہے؟ اسی لیے پہلے ہی طرح "نارمل زندگی” کی جانب لوٹنے سے زیادہ بدتر اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

تاریخی طور پر یہی ہوا ہے کہ وباؤں نے انسانوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے طرز کہن پر غور کریں اور ایک نئی دنیا تخلیق کریں۔ یہ وبا بھی مختلف نہیں ، یہ دو دنیاؤں کے درمیان ایک در ہے، ایک گزرگاہ کی طرح ہے۔

ہم انتخاب کر سکتےہیں کہ اس در سے گزرتے وقت تعصبات اور نفرت کی لاش، دولت کی ہوس، مردہ نظریات اور آلودہ فضاؤں کو اپنے پیچھے گھسیٹتے ہوئے لیتے چلے آئیں یا پھر ہم بہت کم اسباب کے ساتھ اس گزرگاہ سے چلتے جائیں اور ایک دوسری دنیا کے تصور کے لیے نہ صرف تیار ہوں بلکہ اس کے لیے لڑنے کے لیے بھی تیار ہوں۔
Redirect Notice
تسلسل کو برقرار نہیں رکھا آپ نے۔ قصہ کاانجام ہونے سے پہلے ہی دوسرا قصہ شروع ہورہا ہے۔
 
کورونا وبا: نئی دنیا تخلیق کرنے کا موقع
تنزیل الرحمان
ارون دھتی رائے کا مضمون جس کا ترجمہ تنزیل الرحمان نے کیا ہے)

کون ہے جو آج لفظ "وائرل ہو جانا” کو خوفزدہ ہوئے بغیر استعمال کرسکتا ہے؟

کون ہے جو آج ہر شے کو بغور دیکھے ،یعنی دروازے کا ہینڈل، گتے کا ڈبہ، سبزیوں کا تھیلا اور اسے یہ خیال نہ گزرے کہ یہ سب ایک ان دیکھے، بے جان ، بے شکل جرثومے سے اٹے پڑے ہیں ، ایسے جرثومے جو ہمارے پھیپڑوں سے چمٹنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں؟

کون ہے جو آج خوف محسوس کیے بغیر کسی اجنبی کو بوسہ دینے، کسی بس میں سوار ہونے یا پھر اپنے بچے کو اسکول بھیجنے کے بارے میں
سوچ سکتا ہو؟

کون آج خطرات کا اندازہ لگائے بغیر محض لذت و سرور کے بارے میں سوچ سکتا ہو ؟

ہم سے کون ہے جو آج وبائی امراض ، شماریات اور غیب دانی کا ماہر نہ بن گیا ہو؟ کون سا سائنس دان یا ڈاکٹر ہے جو چپکے چپکے کسی معجزے کے رونما ہونے کی دعا نہ کررہا ہو؟ یا کون سا پادری ہے جو خاموشی سے سائنس کی جانب نہ دیکھ رہا ہو؟

ایسے وقت میں جب یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے،کون ہے کہ شہروں میں پرندوں کے چہچہانے، سڑکوں پر شترمرغ کے ناچنے اور آسمان کی بلندیوں پر چھائی خاموشی نے اس کے دل میں جذبات کی لہر پیدانہ کر دی ہو؟

دنیا بھر میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد رواں ہفتے کے دوران 10 لاکھ سے بڑھ چکی تھی جبکہ پچاس ہزار لقمہ اجل بھی بن چکے۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ یہ وائرس بین الاقوامی تجارتی راہداریوں میں آزادانہ گھومتا رہا اور اب اس ہولناک بیماری نے انسانوں کو ان کے اپنے ملکوں، شہروں اور گھروں میں قید کرکے رکھ دیا ہے۔

یہ وائرس تو صرف اپنی افزائش چاہتا ہے، پھیلنا اور بڑھنا چاہتا ہے۔ اس نے سرمائے کی گردش کو کسی حد تک واپس موڑ دیا ہے۔ اس نے امیگریشن قوانین، بائیومیٹرک انتظام، ڈیجٹل نگرانی اور ہر قسم کے تجزیاتی ڈیٹا کا تمسخر اڑایا ہے۔ اس وائرس نے دنیا کے امیرترین اور سب سے طاقتور ممالک پر پوری قوت سے حملہ کیا ہے اور سرمایہ کاری کے انجن کو روک دیا ہے، شاید عارضی طور پر ہی سہی لیکن اس سے ہمیں اس انجن کے مختلف حصوں اور پرزوں کو جانچنے کا موقع میسر آئے گا اور ہم تخمینہ لگا سکیں گے اور فیصلہ کرسکیں گے کہ ہم اسے درست کرنے میں مددکریں یا پھر کوئی نیا انجن تلاش کریں۔

حکمراں طبقہ جو اس وقت اس وبا سے نبرد آزما ہے وہ تو جنگ کی بات کرنے کا دلدادہ ہے۔ وہ جنگ کو بطور محاورہ یا استعمارہ نہیں بلکہ اسے حقیقی معنوں میں استعمال کرتا ہے، لیکن اگر یہ ایک جنگ ہوتی تو کون ہے جو امریکہ سے زیادہ اس کے لیے تیار ہوتا؟ اگر آگے محاذ پر لڑنے والے اس کے فوجیوں کو ماسک اور دستانوں کی نہیں بلکہ اسمارٹ بم، بندوقوں، جیٹ طیاروں، آبدوزوں اور ایٹمی بموں کی ضرورت ہوتی تو کیا انہیں ان سب کی کمی کا سامنا ہوتا؟

ہم بڑے اشتیاق سے بڑھتے اعداد و شمار پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور نیویارک کے اسپتالوں کے بارے میں خبریں سن رہے ہیں کہ کس طرح وہاں کا عملہ، جو پہلے ہی اپنی استعداد سے بڑھ کر مصروف عمل ہے، تمام خطرت مول لیتے ہوئے بیماروں کی داد رسی کے لیے رات دن کوشاں ہے، جنہیں کچرے کے ڈبے میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے تھیلوں، اور پرانی برساتیوں سے اپنے لیے ماسک بنانے پڑے ہیں، کس طرح وینٹی لیٹرز کی کمی نے ڈاکٹروں کے لیے مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے کہ وہ فیصلہ کریں کس مریض کو وینٹی لیٹر لگانا ہے اور کسے مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہے، اور ہم یہاں یہ سوچ رہے ہیں "میرے خدا! یہ امریکہ ہے؟”

یہ المیہ حقیقی اور وسیع ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے آشکار ہو رہا ہے لیکن یہ نیا نہیں ہے۔ یہ تو اس ٹرین کا ملبہ ہے جو برسوں سے اپنے ٹریک پر ڈگماتے ہوئے دوڑ رہی تھی۔ کسے یاد نہیں وہ وڈیوز جن میں دکھایا گیا کس طرح مریضوں کو اسپتال سے بے دخل کردیا تھا جبکہ انہوں نے مریضوں والا لباس ابھی پہن رکھا تھا۔ ان لوگوں کو سڑک پر چھوڑ دیا گیا! امریکہ میں اسپتال کے دروازے ایسے افراد کے لیے زیادہ تر بند ہی رہتے ہیں جو زیادہ خوش قسمت نہیں ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنے بیمار ہیں یا انہیں کتنی تکلیف کا سامنا ہے۔ اب صورت حال کم از کم ایسی نہیں، کیونکہ اس وبا کے دور میں، غریب آدمی کی بیماری امیر سماج کی صحت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

میرے اپنے دیش کا کیا ہو گا؟ میرا بھارت جو جاگیرداری اور مذہبی بنیاد پرستی، ذات پات، سرمایہ کاری کے درمیان کہیں معلق ہے اور جس پر قدامت پسند قوم پرست ہندو حکمرانی کر رہے ہیں۔ دسمبر میں جب چین اپنے ملک میں اس وبا کےخلاف لڑ رہا تھا تو اس وقت بھارت میں لاکھوں باشندے شہریت کے نئے قوانین کے خلاف سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے تھے جو مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے متعارف کرائے گئے ہیں۔

بھارت میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 30 جنوری کو سامنے آیا تاہم فروری کے دوران حکمران جماعت اتنی مصروف تھی کہ اس کے پاس اس پر دھیان دینے کا وقت نہیں تھا۔ فروری کے آخری ہفتے میں امریکی صدر ٹرمپ نے آنا تھا، جنہیں اس وعدے نے بہت لبھایا کہ گجرات میں ان کے استقبال کے لیے اسٹیڈیم میں دس لاکھ افراد کا مجمع ہو گا۔ ظاہر ہے ان سب کا اہتمام کرنے کے لیے بے تحاشا رقم اور وقت درکار تھا۔

اس کے بعد دلی اسمبلی کے چناؤ آ گئےجس میں بی جے پی کا ہارنا یقینی تھا تاوقتیکہ وہ کچھ ایسا کرے جس سے انتہاپسندوں کے جذبات بھڑکیں، اور اس نے یہی کیا۔ ایک ہندو قوم پرست مہم کا آغاز کر دیا جس میں کھلے عام لوگوں پر تشدد کرنے اور "غداروں” کو گولی مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود حکمراں جماعت دلی کے انتخابات ہار گئے جس کی سزا وہاں کے بسنے والے مسلمانوں کو دی گئی اور اسلحے سے لیس ہندو ؤں نے، جنہیں پولیس کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی، مسلمان علاقوں پر دھاوا بول دیا، مکانوں، دکانوں ، مساجد اور اسکولوں کو جلا ڈالا۔ مسلمانوں کو ایسے حملوں کی توقع تھی انہوں نے بھی جوابی وار کیے، نتیجہ یہ نکلا کہ پچاس سے زائد ہندو اور مسلمان مارے گئے۔

مارچ کا مہینہ بھی سرکار کے لیے مصروف رہا، پہلے دو ہفتے مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت گرانے کی کوششوں میں گزر گئے۔ 11 مارچ کو عالمی ادارہ صحت نے کورونا کو عالمی وبا قرار دے دیا۔ 13 مارچ کو بھارتی وزارت صحت نے کہا کہ "کوروناکی وجہ سے ہنگامی صورت حال کا سامنا نہیں ہے۔”

بالاخر 19 مارچ کو پردھان منتری مودی نے قوم سے خطاب کیا۔ انکی تیاری نہیں تھی انہوں نے فرانس اور اٹلی کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام سے "سماجی دوری” اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سماجی دوری کی بات کو سمجھنا ایسے سماج میں بہت آسان تھا جو پہلے ہی ذات پات میں بہت ڈوبا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ بالکل بھی نہیں بتایا کہ حکومت اس بحران کے خلاف کیا کر رہی ہے؟ بلکہ لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے گھر کی بالکونیوں اور کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر برتن اور گھنٹیاں بجائیں اور طبی عملے کا خراج تحسین پیش کریں۔ اس وقت تک انہوں نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ بھارت طبی عملے اور اسپتالوں کے لیے درکار اور ضروری سامان اور آلات برآمد کر رہا ہے جبکہ اسے خود اس کی ضرورت ہے۔

زیادہ حیرت زدہ ہونے کی بات نہیں اگر مودی کی درخواست پر لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے برتن بجاتے ہوئے مارچ کیا، کمیونٹی میں جلوس نکالے، البتہ سماجی دوری اختیار نہیں کی اور آنے والے دنوں میں ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ گائے کے گوبر کے ڈھیر میں کود پڑے اور بی جے پی کے حامیوں نے گائے موتر پینے کی باقاعدہ دعوتیں دے ڈالیں۔

مسلمان کیسے پیچھے رہتے؟ انہوں نے کہہ دیا کہ اس وائرس یا وبا کا جواب خدائے قادرمطلق کے پاس ہے اور انہوں نے ایمان والوں سے مساجد میں بڑی تعداد میں جمع ہونے کا کہہ دیا۔

24 مارچ کو مودی ایک بار پھر ٹی وی پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ آدھی رات کے بعد سے بھارت بھر میں لاک ڈاؤن ہوگا۔ تمام مارکیٹیں بھی بند رہیں گی اور سرکاری اور نجی گاڑیوں کو بھی چلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ فیصلہ صرف وزیر اعظم کے طور پر نہیں بلکہ گھر کے سربراہ کے طور پر کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ریاستی حکومتوں سے مشورہ کیے بغیر نافذ کر دیا گیا، ایک ایسے ملک میں جس کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ افراد پر مشتمل ہو ان سب کو بغیر کسی تیاری کے چند گھنٹوں کے نوٹس کے بعد اچانک لاک ڈاؤں کردیا جائے ۔۔۔ اور ہمیں لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔

پیشہ ور طبی اور وبائی امراض کے ماہرین نے اس اقدام کو سراہا۔ بظاہر یہ لوگ صحیح نظر آ رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس تکلیف رساں، اور سوچے سمجھے بغیر کیے گئے فیصلے کی حمایت نہیں کرے گا جس سے دنیا کے سب سے بڑے لاک ڈاؤن سے حاصل ہونے والے مقاصد کے برعکس نتائج حاصل ہوئے۔

وہ شخص جسے تماشوں کا شوق ہے اس نے "اصل تماشا ” لگایا۔

اس لاک ڈاؤن نے کیمیائی تجربے جیسا کام کیا جس میں چھپی ہوئی چیزیں اچانک ظاہر ہو جاتی ہیں۔ جیسے جیسے ہماری دکانیں، رستوران، کارخانے اور تعمیراتی ادارے بند ہوئے ، اور امیر اور متوسط طبقے نے اپنے آپ کو محفوظ و مامون گھروں میں محدود کر لیا تو ہمارے شہروں میں بسنے والوں نے اپنے ملازمین کو بے دخل کرنا شروع کردیا جیسے کہ وہ سب غیر ضروری اور اضافی تھے۔

بہت سے لوگوں کو ان کے مالکان نے نوکریوں اور گھروں سے بے دخل کر دیا۔ لاکھوں غریب، بھوکے پیاسے، نوجوان، بوڑھے ، بچے، عورتیں، بیمار، اپاہج ، اندھے لوگ، جن کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا، جنہیں کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ میسر نہیں تھی، انہوں نے اپنے اپنے گھروں کی جانب ایک طویل پیدل سفر کا آغاز کر دیا ۔ یہ لوگ کئی دنوں تک پیدل چلتے رہے، آگرہ، اعظم گڑھ، علی گڑھ، لکھنئو، گورکھ پور کی جانب جو یہاں سے سیکڑوں کلومیٹر کی مسافت پر ہیں۔ کچھ لوگ راستے میں ہی جان سے گئے۔

پیدل مارچ کرنے و الے افراد جانتے تھے کہ وہ گھر جارہے ہیں جہاں فاقہ کشی کا سامنا ہو گا، شاید وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے ساتھ "وائرس” لیے گھوم رہے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں، اپنے والدین اور دیگر بڑوں کو اس وائرس سے متاثر کر سکتے ہیں، لیکن انہیں انسیت اور پناہ کے ساتھ ساتھ خوراک کی بھی ضرورت تھی۔

اس پیدل مارچ کے دوران کچھ لوگوں کو پولیس نے ظالمانہ انداز میں زدو کوب کیا ، ان کی تذلیل کی کیونکہ پولیس کو بھی احکام تھے کہ سختی سے کرفیو کا نفاذ کرنا ہے۔ کچھ دنوں بعد یہ فکر لاحق ہوئی کہ آنے والے افراد اپنےاپنے علاقوں میں وبا کو پھیلادیں گے تو حکومتوں نے ریاستی سرحدیں بند کر دیں اور پیدل چلنے والوں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ لوگ جو کئی دنوں سے پیدل چل رہے تھے انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ واپس لوٹ جائیں اور شہروں میں لگائے گئے کیمپوں میں قیام کریں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان لوگوں کا شمار بھارت کی غریب ترین آبادی میں نہیں ہوتا کیونکہ بہرحال ان کے پاس نوکریاں تھیں اور یہ لوگ شہروں میں کام کر رہے تھے اور واپس جانے کے لیے ان کے پاس گھر موجود تھے۔ ان لوگوں کا کیا ہو گا جو بے روزگار ہیں اور جن کے پاس سر چھپانے کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں؟ مایوسی کا شکار یہ افراد شہروں اور دیہاتوں میں، جہاں تھے وہیں ہیں۔

جب دلی سے مارچ شروع ہوا تو میں غازی پور کی سرحد تک گئی جو دلی اور اترپریش کے درمیان واقع ہے۔ لاک ڈاؤن،جس کا مقصد طبی یا سماجی دوری اختیار کرنا تھا لیکن وہاں پہنچ کر جو میں نے دیکھا وہ اس کے بالکل برعکس اور انتہائی وسیع پیمانے پر تھا یعنی ہر طرف، ہر جگہ انسان ہی انسان تھے۔ یہی صورت حال بھارتی شہروں اور قصبوں کی بھی ہے۔ شاہراہیں تو آپ کو سنسان اور ویران نظر آئیں گی لیکن پسماندہ اور کچی آبادیوں میں غریب اپنے تنگ و تاریک گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔

پیدل چلنے والے بہت سے افراد، جن سے میں نے بات چیت کی، وہ سب وائرس کی وجہ سے فکرمند تھے لیکن یہ وائرس ان کے لیے غیر حقیقی تھا جبکہ بڑھتی بے روزگاری، فاقہ کشی اور پولیس تشدد تھا جو ان کی زندگیوں کا حصہ اور حقیقی تھا۔ جن لوگوں سے میں نے بات کی، ان میں مسلمانوں کا ایک گروپ بھی تھا، جو چند ہفتے قبل ہی ہندوؤں کے حملے کا شکار ہوئے تھے، ان میں سے ایک شخص کے الفاظ نے مجھے پریشان کردیا۔ اس کا نام رامجیت تھا، وہ بڑھئی تھا اور گورکھ پور جا رہا تھا جو نیپال کی سرحد کے پاس واقع ہے۔

اس نے کہا کہ "شاید جب مودی جی نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو کسی نے انہیں ہمارے بارے میں نہیں بتایا۔ شاید وہ ہمارے بارے میں نہیں جانتے۔۔۔۔”

"ہم” سے مراد ۔۔۔۔۔ 46 کروڑ بھارتی باشندے ہیں۔

اس بحران کے دوران ریاستی حکومتوں (امریکہ کی طرح) نے زیادہ ہمدردی اور فہم کا مظاہرہ کیا۔ تجارتی تنظیمیں، شہری اور دیگر گروپس خوراک اور دیگر ضروری اشیا لوگوں میں تقسیم کررہے ہیں جبکہ مرکزی حکومت فنڈز کی اپیل پر سست روی کا شکار رہی اور ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار کے پاس رقم موجود نہیں تھی، لیکن اچانک ایک نیا فنڈ جاری کردیا گیا جس میں لوگوں کے عطیات آنے شروع ہو گئے ہیں اور جس کے بعد خوراک کے پیکٹوں کی تقسیم شروع ہو گئی، ان پیکٹوں میں مودی کی تصویر بھی چھپی ہوئی ہے۔

اب جبکہ لاک ڈائون کو دوسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی رسد کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور ادویہ اور ضروری سامان کی دستیابی کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہزاروں ٹرک ڈرائیوروں کو ہائی ویز پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا جنہیں پانی اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی طرح تیار فصلیں آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

معاشی بحران سر پر ہے۔ سیاسی بحران تو پہلے ہی جاری تھا۔ بھارتی میڈیا جو چوبیس گھنٹے مسلم مخالف مہم چلانے میں مصروف تھا اسے اب کورونا کی خبر مل گئی ہے۔ دلی میں تبلیغی جماعت نے لاک ڈاؤن سے قبل ایک اجتماع کیا لیکن اسے کورونا پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ٹھہرایا گیا ہے۔ اسے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر میڈیا کا لہجہ یہ بتا رہا ہے جیسے یہ وائرس مسلمانوں نے بنایا ہو اور اسے بطور جہاد استعمال کرتے ہوئے جان بوجھ کر پھیلایا گیا ہے۔

دو اپریل تک بھارت میں کورونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد دو ہزار ہو چکی تھی جبکہ 58 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ یقینا ان اعداد و شمار پر مکمل یقین نہیں کیا جا سکتا اور ماہرین کی آرا بھی اس سلسلے میں مختلف ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ لاکھوں افراد اس وائرس سے متاثر ہوں گے جبکہ کچھ کو یقین ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بہت کم رہے گی۔ ہم اس بحران کی حقیقی شکل کو شاید کبھی نہ جان سکیں لیکن ابھی ہمیں اتنا معلوم ہے کہ اسپتالوں کی جانب لوگوں کا رش ابھی شروع نہیں ہوا۔

بھارت کے سرکاری اسپتال اور کلینک جو اس قابل نہیں کہ وہ ہر سال ڈائریا ، خوراک کی کمی اور صحت کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہلاک ہونے والے دس لاکھ بچوں کو بچا سکیں جبکہ ہر سال ملک میں ٹی بی کے لاکھوں نئے کیسز سامنے آتے ہیں (دنیا بھر کے ایک چوتھائی ٹی بی کیسز بھارت میں ہوتے ہیں)، آبادی کی اکثریت خون کی کمی اور خوراک کی کمی کے مسائل کا شکار ہے اسی لیے کوئی بھی معمولی بیماری ان کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے اور موجودہ صورت حال میں وہ کورونا بحران کا بالکل بھی سامنا نہیں کر سکیں جیسا کہ اس وقت یورپ اور امریکہ کر رہا ہے۔

لوگ بیمار ہوں گے اور اپنے گھروں میں ہی دم توڑیں گے، ہم ان کے بارے میں کبھی نہیں جان سکیں گے، وہ لوگ شاید کبھی اعداد و شمار کا حصہ بھی نہ بن پائیں۔ ہم صرف یہی امید کر سکتے ہیں جو ایک تحقیق میں بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ کورونا وائرس سرد موسم کو پسند کرتا ہے ، وہ سب درست ہوں (حالانکہ کچھ ریسرچرز اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتے)۔ اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بھارتیوں نے جھلسادینے والی گرمیوں کی نامعقول خواہش کی ہو۔

یہ ہم سب کو آخر کیا ہوا ہے؟ کیا یہ سب وائرس کی وجہ سے ہوا ہے؟ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ خدا کی طرف ہماری اوقات یاد دلانے کا طریقہ ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ دنیا پر قبضہ کرنے کی چین کی سازش ہے۔

یہ جو کچھ بھی ہو، کورونا نے دنیا کو گھٹنے ٹکا دیے ہیں اور امور دنیا رک سے گئے ہیں۔ ہمارے ذہن اس وقت بھی وہی "نارمل” زندگی کی تلاش میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے مستقبل کو ہمارے ماضی سے جوڑ دے، وہ موجودہ نقصان کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔کورونا نے جو شگاف ڈالا ہے وہ موجود ہے اور اس ہولناک مایوسی کے دوران اس نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم غور کریں کہ ہم نے خود اپنے ساتھ کیا حشر بپا کیا ہے؟ اسی لیے پہلے ہی طرح "نارمل زندگی” کی جانب لوٹنے سے زیادہ بدتر اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

تاریخی طور پر یہی ہوا ہے کہ وباؤں نے انسانوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے طرز کہن پر غور کریں اور ایک نئی دنیا تخلیق کریں۔ یہ وبا بھی مختلف نہیں ، یہ دو دنیاؤں کے درمیان ایک در ہے، ایک گزرگاہ کی طرح ہے۔

ہم انتخاب کر سکتےہیں کہ اس در سے گزرتے وقت تعصبات اور نفرت کی لاش، دولت کی ہوس، مردہ نظریات اور آلودہ فضاؤں کو اپنے پیچھے گھسیٹتے ہوئے لیتے چلے آئیں یا پھر ہم بہت کم اسباب کے ساتھ اس گزرگاہ سے چلتے جائیں اور ایک دوسری دنیا کے تصور کے لیے نہ صرف تیار ہوں بلکہ اس کے لیے لڑنے کے لیے بھی تیار ہوں۔
Redirect Notice
کہتے ہیں جب رات بالکل کالی ہوجاتی ہے تو اُمید کی کرن نکلتی ہے اب یہ دُنیا یا تو یوٹرن لے گی یا پھر بہت ہی عجیب و غریب دنیا بن جائے گی
 
Top