کورونا وائرس کے چینی لیب سے نکلنے کا نظریہ دوبارہ کیوں مقبول ہونے لگا ہے؟

جاسم محمد

محفلین
  • کووڈ 19: کورونا وائرس کے چینی لیب سے نکلنے کا نظریہ دوبارہ کیوں مقبول ہونے لگا ہے؟
28 مئ 2021
_118701434_gettyimages-1230937718.jpg


،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن
عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے فروری میں ڈبلیو آئی وی کا دورہ کیا

ڈیڑھ برس قبل چین کے شہر ووہان میں کووڈ کی اولین دریافت کے بعد ابھی تک اس سوال کا حتمی جواب نہیں ملا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی اس بیماری کی شروعات کیسے ہوئی تھی۔

لیکن حالیہ ہفتوں میں اس دعوے کو دوبارہ سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے جس کے مطابق کہا جاتا ہے کہ یہ کورونا وائرس ایک چینی لیب سے نکلا ہے۔ ماہرین نے اب تک اسے سازشی مفروضہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کیونکہ اس کے کوئی شواہد دستیاب نہیں ہو پائے ہیں۔

اب نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ اُن کی حکومت فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے جو اس وبا کے آغاز کے حوالے سے اس مفروضے (چینی لیب سے اس کی ابتدا) کی جانچ بھی کرے گی۔

تو اب تک ہم وائرس کے شروع ہونے کے حوالے سے کیا کیا جانتے ہیں؟ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بحث کیوں ضروری ہے؟

کورونا وائرس کے متعلق مزید پڑھیے

لیب لیک کا نظریہ ہے کیا؟

اس نظریے کے تحت اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس ووہان میں قائم ایک لیب سے یا تو غلطی سے یا جان بوجھ کر نکلا۔

اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ووہان شہر میں چین کی ایک اہم تجربہ گاہ اور تحقیقی مرکز ہے اور ووہان انسٹٹیوٹ آف وائرولوجی (ڈبلیو آئی وی) میں چمگادڑوں سے ملنے والے مختلف نوعیت کے کورونا وائرس پر تحقیق کئی سالوں سے جاری ہے۔

یہ مرکز اس مارکیٹ سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سے کورونا وائرس کے سب سے پہلے متاثرین کی تشخیص ہوئی تھی۔

اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وائرس اس مرکز سے نکل کر اس مارکیٹ میں پھیلا ہے۔

_116192827_gettyimages-1194134328.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن
ووہان کے نزدیک مارکیٹ

دوسری جانب ماہرین کی واضح اکثریت اس بات پر یقین کرتی ہے کہ یہ ایک قدرتی طور پر پیدا ہونے والا ایک وائرس ہے جو کہ جنگلی جانوروں یا جنگلات سے آیا ہے نہ کہ اسے مصنوعی طور پر کسی تجربہ گاہ میں بنایا گیا ہے۔

اس متنازع نظریے کا سب سے پہلے آغاز وبا کی شروعات کے ساتھ ہی ہوا تھا اور اس کو پھیلانے والوں میں سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیش پیش تھے۔ کئی نے تو اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ یہ وائرس بطور حیاتیاتی ہتھیار بنایا گیا تھا۔

شروع شروع میں میڈیا، ماہرین اور سیاستدانوں نے اس خیال کو مسترد کر دیا تاہم چند لوگ پھر بھی مُصر تھے کہ اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ لیکن اب حالیہ چند روز میں یہ خیال دوبارہ سے منظر عام پر آ گیا ہے۔

یہ نظریہ اب دوبارہ کیوں مقبول ہوتا جا رہا ہے؟

اس نظریے کے شروع ہونے کی وجہ بنی ہے ایک خفیہ امریکی انٹیلیجنس رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ ووہان کی تجربہ گاہ کے تین محققین کا نومبر 2019 میں ایک ایسی بیماری کا علاج کیا گیا تھا جو کہ کووڈ 19 سے ملتی جلتی ہے۔

لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے صدر ٹرمپ کے حکم سے شروع ہونے والی امریکی محکمہ خارجہ کی اس تفتیش کو بند کر دیا تھا۔

چند روز قبل صدر بائیڈن کے چیف میڈیکل مشیر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ ’اس دعوے میں بالکل حقیقت ہو سکتی ہے اور میں مکمل تفتیش کرنے کے حق میں ہوں۔‘

_118686792_tv067512258.jpg

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن
امریکی صدر جو بائیڈن نے 90 دن میں کووڈ کے آغاز کے بارے میں تحقیقی رپورٹ طلب کی ہے

امریکی صدر جو بائیڈن نے 90 دن میں کووڈ کے آغاز کے بارے میں تحقیقی رپورٹ طلب کی ہے جس میں یہ معلوم کیا جائے کہ 'آیا یہ وائرس کسی متاثرہ جانور سے انسان میں منتقل ہوا یا پھر وہ کسی تجربہ گاہ سے حادثاتی طور پر نکل گیا۔'

منگل کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اخبار نیویارک پوسٹ کو بھیجی گئی اپنی ایک ای میل میں وائرس کی شروعات کے بارے میں دوبارہ پیدا ہونے والی دلچسپی پر کریڈٹ لینے کی کوشش کی اور کہا کہ ’میرے لیے تو یہ بات پہلے سے ہی واضح تھی لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب سب کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک تھا۔‘

سائنسدانوں کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟

اس معاملے پر ابھی بھی گرما گرم بحث چل رہی ہے۔ توقع تھی کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے وائرس کے آغاز پر کی گئی تحقیق سے اس سوال کا جواب مل جائے گا لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ سے جوابات کے بجائے مزید سوالات پیدا ہو گئے۔

اس سال کے شروع میں عالمی ادارہ صحت کے نامزد کردہ سائنسدانوں کی ٹیم نے ووہان کا دورہ کیا تاکہ وہ تفتیش کر سکیں کہ وائرس کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا تھا۔

چین میں 12 دن گزارنے اور ڈبلیو آئی وی کا دورہ کرنے کے بعد اس ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لیب لیک نظریے کے ’سچ ہونے کا امکان انتہائی کم‘ ہے۔

لیکن اس ٹیم کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد کئی نے اس کے نتائج پر سوالات اٹھائے ہیں۔

معروف سائنسدانوں کے ایک گروپ نے عالمی ادارہ صحت پر تنقید کی کہ انھوں نے اس نظریے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور سینکڑوں صفحات پر مبنی اس رپورٹ میں اس نظریے کا ذکر محض چند صفحات میں کر کے اسے نظر انداز کیا۔

_118701921_gettyimages-1215439280.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن
ووہان انسٹٹیوٹ آف وائرلوجی

مؤقر جریدے ’سائنس‘ میں مشترکہ طور پر لکھے گئے اس مضمون میں سائنسدانوں نے کہا کہ 'ہمیں اس وائرس کے قدرتی طور پر یا تجربہ گاہ سے نکلنے کے خیال کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تاوقتیکہ ہمارے پاس معقول تعداد میں ڈیٹا نہ آ جائے۔'

اور اب ماہرین میں اس بات پر اتفاق بڑھ رہا ہے کہ لیب لیک تھیوری پر زیادہ غور کرنا ہوگا۔

حتی کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے نے بھی نئے سرے سے تفتیش کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ 'تمام تر خیالات اور خدشات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔'

ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے بھی اب کہا ہے کہ وہ وائرس کے قدرتی طور پر بننے کے خیال سے 'مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتے'۔ یہ ان کے گذشتہ برس کے نکتہ نظر کے برعکس ہے جب انھوں نے کہا تھا کہ حد درجہ امکان یہی ہے کہ کووڈ کا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔

چین کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟

چین نے حسب توقع وائرس کے لیب سے نکلنے کے خدشات کو ملک کے خلاف بدنامی کی مہم قرار دیا ہے اور کہا کہ بہت ممکن ہے کہ یہ وائرس دوسرے ممالک سے درآمد کیے جانے والے کھانے کے سامان کے ساتھ چین میں آیا ہے۔

چینی حکومت کی جانب سے کوشش کی گئی ہے کہ وہ اس خیال کا پرچار کریں کہ وائرس چین میں مشرق بعید کے علاقوں سے جمے ہوئے گوشت کی صورت میں پہنچا ہے۔

پھر اس کے علاوہ چینی حکومت ملک کے ممتاز وائرولوجسٹ کے ایک مقالے کا حوالہ دیتی ہے جس کے لیے انھوں نے ایک غیر استعمال شدہ کان میں پائے جانے والے چمگادڑوں سے لیے گئے نمونوں کی مدد لی۔

چینی بیٹ وومن کے نام سے مقبول پروفیسر شی ژینگ لی ڈبلیو آئی وی میں محقق ہیں اور انھوں نے گذشتہ ہفتے ایک رپورٹ شائع کی جس میں انھوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے سنہ 2015 میں چین کی ایک کان میں پائے جانے والی چمگادڑوں سے کم از کم آٹھ مختلف قسم کے کورونا وائرس کی شناخت کی تھی۔

اس مقالے میں کہا گیا کہ پینگولن ممالیے میں پائے جانے والے کورونا وائرس انسانوں کے لیے زیادہ خطرناک ہیں بہ نسبت ان کورونا وائرس کے جو ان کی ٹیم نے چمگادڑوں میں دریافت کیے تھے۔

چین کے سرکاری میڈیا نے امریکی حکومت اور مغربی میڈیا پر افواہیں پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی کے زیر انتظام چلنے والے گلوبل ٹائمز اخبار کے ایک اداریے میں کہا گیا کہ 'امریکہ میں وائرس کے آغاز کے بارے میں عوامی رائے خوف کا شکار ہو گئی ہے۔'

وائرس کے آغاز کے بارے میں کیا کوئی اورنظریہ ہے؟

جی ہاں۔ اور اس نظریے کو 'قدرتی آغاز' کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں قدرتی طور پر منتقل ہوا ہے اور اس کے لیے کسی تجربہ گاہ یا کسی سائنسدان کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوا اور اس کے لیے بیچ میں ایک اور جانور کا استعمال ہوا ہے۔

گذشتہ برس پیش کیے جانے والے اس نظریے کو عالمی ادارہ صحت نے بھی تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی اور کہا کہ 'یہ بہت ممکن ہے کہ کووڈ انسانوں تک کسی ایک بیچ میں پائے جانے والے جانور سے منتقل ہوا ہے۔'

شروع شروع میں اس خیال کو بڑے پیمانے پر فوراً تسلیم کر لیا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کو چمگادڑوں یا کسی بھی اور جانور میں ایسے وائرس نہیں ملے ہیں جو کووڈ 19 وائرس کی ساخت سے مطابقت رکھتے ہوں اور اسی وجہ سے اس نظریے پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔

_118701923_gettyimages-1208660211.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

وائرس کہاں سے آیا، کیسے آیا اور یہ سوال اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟

ایک ایسی وبا جس نے ڈیڑھ سال میں دنیا بھر میں 35 لاکھ جانیں نگل لی ہیں، سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مستقبل میں اس نوعیت کی وبا کو روکنے کے لیے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ یہ وائرس کیسے اور کہاں سے آیا۔

اگر وائرس کے قدرتی طور پر پیدا ہونے کا نظریہ صحیح ثابت ہوتا ہے تو وہ مستقبل میں کھیتی باڑی اور جنگلی جانوروں کے ساتھ منسلک کاروبار کو متاثر کر سکتی ہے۔

لیکن دوسری جانب اگر لیب لیب کا نظریہ صحیح ثابت ہوتی ہے تو یہ سائنسی تحقیق اور بین الاقوامی تجارت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اور اگر لیک کا نظریہ درست ثابت ہوتا ہے تو یہ شاید چین کی ساکھ کو بھی متاثر کرے۔ چین پر پہلے ہی شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس نے وبا کے آغاز میں اہم معلومات چھپائی تھیں اور اس الزام کی وجہ سے امریکی اور چین کے تعلقات میں مزید کشیدگی بڑھ گئی تھی۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے منسلک جیمی میٹزل لیب لیک کے نظریے پر پوری طرح یقین رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ چین نے پہلے دن سے حقیقت چھپائی ہے۔

لیکن دوسری جانب کئی لوگ چین کو مورد الزام ٹھہرانے میں جلد بازی کرنے سے منع کرتے ہیں۔

سنگاپور کے نیشنل یونی ورسٹی ہسپتال سے منسلک پروفیسر ڈیل فشر کا کہنا ہے کہ 'ہمیں نہ صرف تحمل سے کام لینا ہوگا بلکہ سفارتی آداب بھی ملحوظ خاطر رکھنے ہوں گے۔ ہم یہ تحقیق چین کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے اور ایسا ماحول نہیں قائم کر سکتے جس میں صرف چین پر الزام لگائے جائیں۔'
 

سید رافع

محفلین
١٨ مارچ ٢٠٢٠ کو لاک ڈون کے دوسرے دن سے میرے گھر سے ایک چمگادڑ منڈلاتی دیکھی جا سکتی تھی!
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اس رپورٹ کا ناروے میں پچھلی سال کافی چرچا رہا

سائنٹفک کمیونٹی اس رپورٹ کو مسترد کرتی رہی ہے۔ ایک بات قابل غور ہے کہ اکثر جو اس رپورٹ کے خلاف ہیں کہتے ہیں کہ لیب میں بنایا ہوا وائرس قدرتی وائرس سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی فرق کو اگر ختم کر دیا جائے تو یہ سائنسدان جان نہیں سکتے کہ یہ لیب میں بنایا گیا ہے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ یو ایس یا چائنا کی ملٹری وائرس ٹیکنالوجی سول ٹیکنالوجی سے آگے ہو گی اور کلاسیفائڈ بھی۔
 

سید رافع

محفلین
آپ ان سائنسدانوں کی بات پر یقین کر رہے ہیں کہ کرونا لیب میں نہیں بنایا گیا جن کے پاس شاید گوگل سے ہلکی distributed scalable computing machines ہوں چاجائکہ ملٹری یا سیکریٹ کلاسفائڈ کمپیوٹنگ۔ سارا کھیل ریم، سی پی یو اور اس پر چلنے والے سافٹ وئیر کا ہے۔ وہان چائنا لیب کو ویسے ہی escape goat بنایا ہوا ہے۔

لکھتے ہیں:

. If scientists had deliberately engineered this virus, they wouldn't have chosen mutations that computer models suggest won't work. But it turns out, nature is smarter than scientists, and the novel coronavirus found a way to mutate that was better — and completely different— from anything scientists could have created, the study found.

The coronavirus was not engineered in a lab. Here's how we know. | Live Science
 
Top