رات کے دو بج رہے تھے۔ سلو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ سکول سے واپس آکر وہ سو گیا تھا۔ پھر رات کے کھانے کے بعد اس نے بھائی جان کے ساتھ کافی کی ایک پیالی پی لی تھی۔ اب بھائی جان تو رات دیر تک پڑھتے رہتے تھے مگر وہ تو زیادہ سے زیادہ ساڑھے دس، گیارہ بجے تک سو جاتا تھا۔ وہ اپنے بستر پر نیم دراز، باہر تاروں بھری رات کا نظارہ کر رہا تھا۔ چاند نکلا ہوا تھا اور چاندنی سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ سامنے باغ کے درخت بالکل خاموش تھے۔ ایک دم سلو کو آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے نظریں گھما کر دیکھا اور باغ کی دیوار پر اس کی نگاہ ٹھہر گئی۔ ایک شخص دیوار پھاند کر اندر کودا اور بہت احتیاط سے دبے پاؤں گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ سلو صاحب کی تو جان ہی نکل گئی۔ اب وہ کیا کرے؟ اس وقت تو بھائی جان بھی سو گئے ہوں گے۔ وہ بہت احتیاط سے اٹھا اور چور کی طرح ہی دبے پاؤں چلتا ہوا نیچے بھائی جان کے کمرے میں آگیا۔
"کیا بات ہے سلو؟" بھائی جان نے پوچھا۔
"شش بھائی جان!" سلو نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا۔ وہ ان کے بالکل قریب پہنچ گیا اور کان میں سرگوشی کر کے بولا۔
"گھر میں چور گھس آیا ہے۔ؤ بھائی جان بڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔
"سلو اگر یہ مذاق ہے تو تمہاری خیر نہیں۔"
"بھائی جان! میں مذاق نہیں کر رہا۔ میں نے خود ایک آدمی کو اندر کودتے دیکھا ہے۔ وہ باغ سے ہوتا ہوا گھر کی طرف آیا ہے۔"
بھائی جان بستر سے نکلے اور کمرے سے باہر آگئے۔ سلو ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ دونوں بغیر آواز بلند کیے گھر کی کھڑکیوں سے باہر جھانک رہے تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ چور اس وقت کہاں ہے۔ آخر سیڑھیوں کی کھڑکی سے وہ نظر آگیا۔ باہر کچھ خالی ڈبے پڑے ہوئے تھے وہ انہیں ٹٹول رہا تھا۔ بھائی جان اور سلو نے اوپر بچوں کے کمرے میں آکر چیکو اور نازک کو جگایا۔ پہلے تو بھائی جان کی بات کو مذاق سمجھا مگر جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں تو دونوں خوف زدہ ہو گئے۔ چیکو بھائی جان کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور نازک نے ذرا اونچی آواز میں کہا:
!ہائے اللہ! مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں تو ڈر سے مر ہی جاؤں گی۔۔ چور ہمیں مارے گا تو نہیں؟؟؟!