پروف ریڈ اول کودک کہانی : مچھیروں کی بستی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "مچھیروں کی بستی" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل چھ اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کہانی کو مقدس ٹائپ کر رہی ہیں۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

mkbsti1.gif
 

مقدس

لائبریرین
ساحل سمندر سے ذرا ہٹ کر مچھیروں کی ایک بستی تھی۔ اس بستی میں قاسم نام کا مچھیرا رہتا تھا۔ قاسم بےحد محنتی اور جفاکش تھا۔ مچھیروں کی بستی میں اس کی جھونپڑی تھی۔ اس جھونپڑی کے چاروں طرف اس نے مٹی اور اینٹوں سے چار دیواری بنا لی تھی، جس سے جھونپڑی کے باہر ایک آنگن سا بن گیا تھا۔ اس چار دیواری میں قاسم کی بیوی، اس کے دو بچے، ماں باپ اور اس کا ایک بھائی بلال رہتا تھا۔ قاسم کے ماں باپ ضعیف ہو گئے تھے، پھر بھی وہ سارا دن مچھلیوں کو نمک مسالا لگا کر محفوظ کرتے تھے۔ قاسم کا بھائی بلال انھیں شہر میں لے جا کر فروخت کر آتا۔ بلال جب بھی سوکھی مچھلیاں فروخت کر کے شہر سے آتا تو دونوں بچوں احمد اور خدیجہ کے لیے شہر سے مٹھائیاں، اچھی اچھی کتابیں، پھل اور کھلونے لے کر آتا تھا۔ احمد مچھیروں کی بستی میں قائم اسکول
 

مقدس

لائبریرین
میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس کی بہن ابھی پہلی کلاس میں تھی۔ دونوں بچے بہت ذہین اور محنتی تھے۔ دل لگا کر پڑھتے تھے، کیوں کہ ان کے بابا اکثر کہتے تھے کہ علم سے ہی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ احمد خوب پڑھ لکھ کر ترقی کرنا چاہتا تھا، تاکہ اس کی بستی کا نام روشن ہو، اس کی بستی سے غربت اور جہالت کا خاتمہ ہو، صحت و صفائی عام ہو، ہر گھر علم کی روشنی سے مہکے اور اس روشنی سے پورا ملک منور ہو جائے۔

قاسم کی بستی میں زندگی کو آسان بنانے کے لیے سہولتیں نہ تھیں۔ نہ بجلی اور نہ میٹھا پانی۔ وہ لوگ بہت دور سے دوسرے گاؤں سے میٹھا پانی گدھا گاڑی یا بیل گاڑی میں بھر کر لاتے تھے۔ بستی میں کوئی بیمار پڑ جاتا تو بنا علاج کے ہی اس دنیا سے چلا جاتا یا پھر ملنگ بابا سے وہ لوگ تعویز یا دم کیا ہوا پانی پی کر علاج کرتے۔ قاسم اپنی بستی کی خراب صورت حال سے بہت پریشان رہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ بستی میں صحت کا مرکز ہو، ڈاکٹر ہوں، سڑکیں پختہ ہوں اور آمدورفت کی بہتین سہولتیں ہوں، تاکہ وہ اچھی زندگی بسر کر سکیں اور اچھی صحت کے ساتھ سمندر سے زیادہ سے زیادہ رزق حاصل کر سکیں۔ اس وجہ سے قاسم غربت اور پریشانی کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بچوں کے شان دار مستقل کا خواب تھا اور وہ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے سخت محنت کرتا تھا۔

ایک دن آسمان کالے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ شاید شدید بارش کا امکان تھا۔ بستی کے بڑے بوڑھے بارش کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔ احمد کےدادا دادی نے آسمان کی طرف دیکھا۔ کالے کالے بادلوں نے سورج کو ڈھانپ لیا تھا۔ انھوں نے جلدی سے مسالا لگی سوکھی مچھلیوں کو بوریوں میں بند کر کے محفوظ کر لیا۔ بستی کے بچے تنگ و تاریک گلیوں میں شور مچا رہے تھے۔ "اللہ میاں پانی دو۔ سو برس کی نانی دو۔"

احمد کی ماں بار بار آسمان کی طرف دیکھتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں فکر نمایاں تھی۔ موسم
 

مقدس

لائبریرین
بےحد خطرناک تھا اور قاسم تین دن پہلے ہی کشتی لے کر سمندر پر گیا تھا۔ سمندر کی غضب ناک لہروں کی آواز بستی تک آ رہی تھی۔ بستی کے سب لوگ ہی پریشان تھے، کیوں کہ بہت سے جوان رزق کی تلاش میں سمندر میں کشتیاں لے کر گئے تھے اور اب سب بستی والے اپنے پیاروں کی بحفاظت واپسی کی دعا کر رہے تھے۔ قاسم اس بار کشتی لے کر نکلا تھا تو اس نے پختہ عزم کیا تھا کہ اس بار وہ سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑے گا، اس لیے اس نے جانے سے پہلے اپنے جال کی مرمت کی تھی۔ کشتی کی بھی دیکھ بھال جی جان سے کی تھی۔ پرانے پرزے بدل کر نئے لگوائے تھے اور اب اس کی کشتی شان دار رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہو گئی تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑ کرخوب پیسہ کمانا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ اپنے بوڑھے باپ کی آنکھوں کو آپریشن کروائے گا۔ اس کی آنکھوں میں موتیا (ایک قسم کی آنکھوں کی بیماری) ہو گیا تھا، جس کا آپریشن بےحد ضروری تھا اور اپنی جھونپڑکی بھی مرمت کروانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اس کی بہت سی خواہشات تھیں اور وہ اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرتا تھا۔ قاسم ایک
 

مقدس

لائبریرین
ذہین اور سمجھ دار ملاح (کشتی چلانے والا) تھا۔ وہ سمندر کی لہروں کو دیکھ کر طوفان کی آمد کا پتا چلا سکتا تھا۔ قاسم رحم دل انسان تھا۔ وہ جانوروں پر بھی رحم کرتا تھا۔ وہ کسی کو بھی دکھی اور اداس نہیند یکھ سکتا تھا۔ ایک اچھا انسان ہمیشہ دوسروں کے لیے راحت کا باعث بنتا ہے۔ قاسم بھی ایک اچھا انسان تھا، دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے والا۔ اسی خوبی کی وجہ سے بستی کے سب لوگ اس کو پسند کرتے تھے اور آج شدید بارش کے ساتھ طوفان کی آمد کا سن کر سارے لوگ پریشان تھے۔ ریڈیو اور ٹی وی سے سمندری طوفان کی آمد کی اطلاع دی جا رہی تھیں۔ حفاظتی تدابیر بھی بتائی جا رہی تھیں اور بہت سے ساحلی بستی میں بسنے والوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ قاسم کی بستی ساحل سے ہٹ کر تھی اور کسی قدر بلندی پر واقع تھی، لیکن غضب ناک بھپرتا ہوا سمندر ہر چیز کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے تھا۔ سمندر پر گئے ہوئے مچھیرے جلدی جلدی بستی لوٹ آئے تھے۔ کچھ تو مچھلیاں لے کر آئے تھے اور کچھ لوگ کالی کشتی کو طوفانی لہروں سے محفوظ کرنے کے خیال سے واپس لوٹ آئے تھے۔ احمد اور خدیجہ کے ساتھ ان کے بوڑھے دادا، دادی اور ان کی امی جان قاسم کی کشتی کے واپس لوٹ آنے کی دعا کر رہے تھے اور اس دعا میں مچھیروں کی بستی کے تمام لوگ شامل تھے۔ ادھر قاسم کی کشتی میں موجود ریڈیو سے سمندری طوفان کی اطلاع مل گئی۔ قاسم نے جلدی جلدی جال سیمٹا۔ جال میں سے مچھلیوں کو نکال کر ڈبے میں محفوظ کیا اور واپسی کے لیے کشتی موڑ لی۔ سمندری لہریں غضب ناک ہو کر بلند ہو رہی تھیں اور قاسم کی کشتی ان لہروں میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ وہ مسلسل اللہ سے سلامتی کی دعا مانگ رہا تھا اور کشتی کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ سمندر میں اس کی کشتی سے کچھ ہی فاصلے پر ایک لانچ دوب رہی ہے۔ اس میں سوار لوگ مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ آسمان سے مسلسل بارش ہو رہی تھی اور لہریں بھی آسمان تک بلند ہو رہی تھیں۔ واپس جاتے ہوئے قاسم کا دل مدد کے لیے پکارنے والوں کےلیے ہمدردی سے بھر گیا۔ وہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لانچ کی
 

مقدس

لائبریرین
کی طرف بڑھا۔ لانچ میں دو بچے ایک میاں بیوی سوار تھے۔ شاید باقی لوگ سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے تھے۔ قاسم نے لانچ کے قریب پہنچنے کی جدوجہد شروع کر دی اور بڑی مشکلوں سے اس نے رسی کی مدد سے ڈوبتے ہوئے خاندان کو بچا کر اپنی کشتی میں سوار کر لیا۔ وہ چاروں افراد کشتی میں پہنچتے ہی بےہوش ہو گئے۔ قاسم بھرپور کوششوں سے انھیں ہوش میں لے آیا۔ وہ سب اپنی جان بچ جانے پر اللہ تعالٰی کے شکر گزار تھے اور قاسم کے احسان کا بار بار ذکر کر رہے تھے۔ قاسم طوفانی لہروں سے نکل کر بستی تک جانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ رفتہ رفتہ دن کے اجالے پر رات غالب آگئی اور آسمان پر چاند چمکنے لگا۔ بارش رک گئی تھی اور سمندری لہریں بھی آہستہ آہستہ پرسکون ہو گئی تھیں۔ قاسم کی کشتی بھی لہروں کے تھپیرے کھا کھا کر کاٍی خستہ ہو گئی تھی، لیکن پھر بھی اس خستہ حال کشتی نے انھیں ساحل تک پہنچا دیا۔

قاسم کی آمد کا سن کر بستی میں خوشیوں کے چراگ جل اٹھے۔ بستی کا ہر فرد خوش تھا اور حیران ہو کر قاسم کے ساتھ آنے والے مہمانوں کو دیکھ رہا تھا، جن کے چہرے خوف سے زرد ہو رہے تھے، لیکن زندہ بچ جانے پر وہ اللہ تعالٰی کے شکر گزار تھے۔ ہمدانی صاھب ایک بڑی کاروباری شخصیت تھے۔ وہ دولت مند مگر خدا ترس انسان تھے۔ قاسم نے اپنی جان مشکل میں ڈال کر جس طرح ان کو اور اکے بیوی بچوں کو بچایا تھا، اس بات سے انھیں قاسم کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ قاسم کشتی سے اتار کر ہمدانی صاحب، بیگم صاحبہ اور بچوں کو لے کر اپنی جھونپری میں آیا تو قاسم کی بیوی، ماں باپ اور بچوں نے جس اخلاق سے ان کو خیر مقدم کیا، اس نے بھی ہمدانی صاحب کو بتحد متاثر کیا۔

ہمدانی صاھب ایک دن مہان رہ کر شہر اپنے گھر لوٹ گئے۔ انھوں نے قاسم کی بستی کو رنگوں، روشنیوں اور علم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے دوسرے ہی دن مچھیروں کی بستی میں ترقیاتی کام شروع کرا دیا۔ چند ہی مہیوں میں قاسم کی بستی جہاں گندگی کا ڈھیر اور تاریکی
 

مقدس

لائبریرین
تھی، ہمدانی صاحب کی کوششوں سے وہاں بجلی کا انتظام ہو گیا، سرکیں پختہ ہو گئیں، اسپتال بن گیا، بچوں کے لیے پارک اور تعلیمی مراکز بنائے گئے۔ قاسم بہت خوش تھا۔ احمد اور خدیجہ کو اچھا تعلیمی ماحول مل گیا تھا۔ مچھیروں کو عمدہ علاج کی سہولتیں حاصل ہو گئیں اور یہ سب کچھ قاسم نے محنت اور خدمت کے جذبے سے حاصل کیا تھا۔

×××××××
 
Top