پروف ریڈ اول کودک کہانی : ماضی کی تصویر

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "ماضی کی تصویر" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل چھ اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

mkt1.gif
 

مقدس

لائبریرین
وہ اپنی شان سار کار میں گھر سے نکل ہی تھا کہ سامنے ایک بوڑھا آگیا۔ اس نے فوراً بریک لگائی اور جھلائے ہوئے لہجے میں بولا: "کیا ہوا بڑے میاں، مرنے کا ارادہ ہے کیا؟"

بوڑھے نے جیسے سنا ہی نہیں، اپنی جگہ کھڑا رہا۔

"حد ہو گئی، اب جم کر کھڑے ہو گئے، ایک طرف کیوں نہیں ہوتے، اوہ سمجھا، بھکاری ہو۔" کہہ کر اس نے برا سا منھ بنایا، پھر جیب سے پرس نکال کر اس میں سے دس رپے کا ایک نوٹ بوڑھے کی طرف اچھال دیا۔
نوٹ ہوا سے ذرا سا اڑا، پھر سڑک پر اس کے نزدیک جا گرا۔ اس نے نوٹ کی طرف آنکھ
 

مقدس

لائبریرین
اٹھا کر بھی نہ دیکھا، البتہ اب وہ چند قدم اس کی طرف بڑھ آیا اور ٹھہری ہوئی آواز میں بولا: "مجھے پہچانا۔"

"کیا مطلب، میں کیوں پہچاننے لگا تمھیں۔" اس نے تنک کر کہا۔

بوڑھے نے کہا: "میں زندگی میں چار بار تم سے مل چکا ہوں۔"

وہ بولا: "یہ ایک اور رہی، ارے بابا، تم کیوں میرے راستے میں آگئے ہو، مجھے جانا ہے، دوستوں کے ساتھ سیر وتفریح کا پروگرام ہے، اچھا یہ لو۔"

اب اس نے سو رپے کا ایک نوٹ نکال کر اس کی طرف اچھال دیا۔ اس نے سو رپے کے نوٹ کی طرف بھی نہ دیکھا اور بولا: " تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔"

"میں نے تم سے وعدہ کیا تھا، کیا بات کرتے ہو۔ میں تو تمھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔" اس نے بھنائے ہوئے لہجے میں کہا۔

"اس وقت تم ایک بچے تھے، چھوٹے سے بچے۔"

"کیا کہا، میں اس وقت ایک چھوٹا سا بچہ تھا، ظاہر ہے ہر آدمی اپنے بچپن میں ایک چھوٹا سا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔ یہ کون سی عجیب بات ہے۔ اب کوئی بھی آکر کہہ سکتا ہے کہ میں بچپن میں آپ سے آکر ملا تھا اور میں نے آپ کے لیے یہ کیا تھا، وہ کیا تھا، لیکن مجھے جو دینا تھا میں دے چکا۔ اب تم سامنے سے ہٹ جاؤ، مجھے دیر ہو رہی ہے۔"

"میں کچھ لینے تو آیا ہی نہیں۔ میں تو تمھیں وہ وعدہ یاد دلانے آیا ہوں، جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔"

"پھر وہی وعدہ اور کیا کہا تم نے؟ تم کچھ لینے کے لیے ہیں آئے، پھر وعدہ کس لیے یاد دلا رہے ہو؟"

بوڑھے نے کہا: "وعدہ اس لیے یاد دلا رہا ہوں کہ اس کا تعلق مجھ سے نہیں، دوسروں سے ہے، لیکن ایک طرح کا تعلق مجھ سے ہے بھی۔"
 

مقدس

لائبریرین
وہ بولا: "تم تو مجھے پاگل لگتے ہو۔"

بوڑھے نے کہا: "اللہ تعالٰی کی مہربانی سے میں پاگل نہیں ہوںم بالکل ٹھیک ہوں، اب سنو! تمھارے والد تمھارے بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ تمھارہ والدہ اس قابل نہیں تھی کہ تمھیں پڑھا لکھا سکیں۔ تمھیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن والدہ چاہتیں تھیں کہ تم کسی دکان پر کام کرو اور اتنے پیسے کما کر لے آیا کرو کہ دو وقت کی روٹی چل جائے۔ یہ بات مجھے معلوم ہوئی۔ میں نے تمھیں اسکول میں داخل کرایا اور ہر مہینے تمھارے گھر اتنا خرچا دیتا تھا کہ تم دونوں کی گزر بسر ہو سکے، کچھ یاد آیا؟"

"ایسا ۔۔۔۔۔ ایسا ہوا تو تھا۔" اس نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔

"دوسری بار میں اس وقت تمارے سامنے آیا، جب تمھارا میٹرک کا داخلہ ہونا تھا اور تمھارے پیسے داخلے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ یہ انتظام بھی میں نے ہی کیا تھا، کچھ یاد آیا۔" اب اس کا لہجہ تیز ہو گیا۔
 

مقدس

لائبریرین
ادھر اس کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کانپ کر بولا: " آ۔۔۔آ۔۔۔۔آپ وہ ہیں۔"

بوڑھے نے جیسے سنا ہی نہیں، وہ اپنی رو میں کہے جا رہا تھا: "تیسری بار میں اس وقت تمھارے سامنے آیا جب تمھارا ایف اسے کا داخلہ ہونا تھا اور چوتھی بار۔۔۔۔۔"

"بس کریں بابا، بس کریں۔۔ آپ۔۔۔ آپ وہی ہیں، بالکل وہی۔ افسوس میں آپ کو پہچان نہیں سکا تھا۔ ایک مدت بعد دیکھا ہے نا، غالباً بیس سال بعد۔"

بوڑھے نے کہا: "ہاں شاید بیس سال سے بھی چند سال زیادہ ہو گئے ہیں۔"

اب اس نے کار کا دروازہ کھولا اور بوڑھے کی طرف بڑھا۔ وہ اس بوڑھے سے لپٹ گیا۔ پھر جذباتی آواز میں بولا: "آئیے، آئیے اندر چلیے، میں آپ کو اپنے بچوں سے ملواؤں گا۔"

بوڑھے نے پوچھا: "کیوں، آج کیوں؟" اس کے لہجے میں درد تھا۔

وہ بولا: "جی، کیا مطلب، آپ ۔۔۔آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔"

"یہ کہ، تم مجھے اپنے بچوں سے آج کیوں ملوانا چاہتے ہو۔ پہلے کیوں نہیں ملوایا ان سے؟" اس نے منھ بنایا۔

"پہلے کیسے ملواتا! آپ کے بارے میں تو مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ آپ کا کوئی پتا نشان نہیں تھا۔"

بوڑھے نے کہا: "اس کے باوجود تم مجھے ان سے ملوا سکتے تھے، لیکن تم نے مجھے ان سے نہٰں ملوایا اور تم نے اپنا وعدہ بھی بھلا دیا۔ اصل افسوس مجھے اس بات کا ہے۔"

"وعدہ۔" اس کے منھ سے نکلا۔

بوڑھے نے کہا: "ہاں! وعدہ۔ کیا تم نے اس کا پاس کیا۔"

"کک۔۔۔ کون سا وعدہ۔"

"گویا، تمھیں یاد تک نہیں۔ دکھ ہوا یہ سن کر، خیر میں پہلے تو یہ بتا دوں کہ تم مجھے اپنے بچوں سے کیسے ملوا سکتے تھے، کیا تم نے کبھی ان سے میرا ذکر کیا؟"
 

مقدس

لائبریرین
اس کا یہ سوال سن کر وہ سکتے میں آگیا۔ واقعی اس نے کبھی اس کا ذکر اپنے بیوی بچوں سے نہیں کیا تھا۔ حال آنکہ آج وہ جس مقام پر تھا، اسے یہاں تک پہچانے میں اصل کردار اسی شخص کا تھا۔ اس مقام پر پہنچنے پر بھی اس نے کبھی سامنے آکر اس سے کچھ نہیں مانگا تھا۔ کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ہاں آج اتنی مدت بعد ضرور وہ سامنے آیا تھا، لیکن آج وہ اپنی وکئی ضرورت لے کر نہیں آیا تھا۔ اسے خاموش پا کر بوڑھا بولا: "کیا بات ہے، خاموش ہو گئے۔"

"اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے اپنے بیوی بچوں سے کبھی آپ کا ذکر نہیں کیا، حال آنکہ مجھے کرنا چاہیے تھا۔"

"خیر، اس بات کو چھوڑو۔ تم سے میں نے ایک وعدہ لیا تھا۔ وہ یہ کہ جب تم کسی قابل ہو جاؤ گے، اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ گے اور برسرروزگار ہو جاؤ گے تو جس طرح میں نے تمیں کسی قابل بنانے کی پوری پوری کوشش کی پے، تم بھی اپنے جیسے کچھ لوگوں کی مدد کرنا، انھیں کسی قابل بنانے کی کوشش کرنا۔ تم نے اس وقت وعدہ کیا تھا کہ ایسا ضرور کرو گے۔ آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے ایسا کوئی کام کیا؟" یہاں تک کہہ کر بوڑھا خاموش ہو گیا۔

جواب میں وہ کچھ نہ کہہ سکا، نہ اس کی طرف دیکھ سکا۔ بس فرش کو گھورتا رہا۔ نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے کی اس میں ہمت ہی نہیں رہی تھی، کیوں کہ اسے ان ایک ایک پل یاد آ رہا تھا۔ اس شخص نے ا س پر واقعی بہت احسانات کیے تھے۔ ان احسانات کے بدلے میں اس نے بوڑھے سے ایک وعدہ کیا تھا کہ وہ بھی بڑا ہو کر دوسروں کا سہارا بنے گا۔ اس وقت وہ بہت پرزور انداز میںوعدے کرتا رہا تھا، لیکن پھر جب وہ ایک فرم میں بڑا عہدے دار ہو گیا۔ جب اسے گاڑی، کوٹھی مل گئی اور ہر طرح کا عیش و آرام مل گیا۔ تب وہ اس وقت کی تمام باتیں بھول گیا۔ اس نے بھول کر بھی ان میں سے کسی بات کو یاد نہ کیا۔ وہ آج بھی نہ کرتا۔ اگر وہ سامنے نہ آجاتا اور اب وہ پھر اس کے سامنے ایک سوال بنا کھڑا ہوا تھا۔ اسے اپنے اوپر شرم آ رہی تھی۔

آخر اس نے کہا: "مم۔۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے۔ میں آپ سے کیا ہوا وعدہ بھول گیا تھا، لیکن آج میں
 

مقدس

لائبریرین
پھر وعدہ کرتا ہوں کہ آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کروں گا، لیکن آپ اتنا عرصہ کہاں رہے اور آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ میں نے آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا؟" اس نے حیران ہو کر پوچھا۔

"ہاں! یہ بات یوں ہے کہ ایک مدت گزرنے کے بعد مجھے اچانک تمھارا خیال آیا، میرے جی میں خیال آیا کہ تم سے ملوں، تمھیں دیکھوں اور جائزہ لوں کہ جیسا میں نے چاہا تھا، جو میں نے سوچا تھا، تم اس کے مطابق ہوئے ہا نہیں۔ سو میں تمھارے پرانے گھر جا پہنچا، پتا چلا وہ گھر تم مدت ہوئی چھوڑ چکے ہو۔ خیر وہاں سے تمھارا پتا ضرور مل گیا اور چند دن پہلے یہاں پہنچا،"

"کیا، چند دن پہلے۔" نوجوان نے حیران ہو کر کہا۔

"ہاں! چند دن پہلے۔ دراصل میں دور دور سے جائزہ لینا چاہتا تھا۔ میرے لگائے ہوئے پودے نے کیسا پھل دیا ہے۔ میں کئی دن تک تمھارا جائزہ لیتا رہا۔ ایک دن میں نے تم سے غریب مجبور بن کر مدد کی درخواست بھی کی، لیکن میں نے اپنا چہرہ ذرا چھپایا ہوا تھا، تم نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، نہ کوئی توجہ دی۔ تب میں نے جان لیا کہ جس پودے کو پانی دے کر بڑا کرتا رہا ہوں، اس میں میٹھے پھلوں کے بجائے کڑوے پھل لگ گئے ہیں، جو کسی بھی کام کے نہیں۔ تب مجھ سے رہا نہ گیا اور تمھارے سامنے اپنے اصل روپ میں آگیا۔ میں اگر تمھیں اپنا اور خود تمھارا ماضی یاد نہ دلاتا تو۔۔۔۔ تو تم کبھی بھی مجھے پہچان نہیں سکتے تھے، کیوں کہ تمھاری آنکھوں پر دولت کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ یہ پٹی ایسی پٹی ہے جو ذرا مشکل ہی سے اترا کرتی ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ میں تمھیں جلد ہی یاد آگیا اور تم نے مجھے جھڑک نہیں دیا، ورنہ تم تو مجھے پہچاننے سے بھی صاف انکار کر سکتے تھے۔ ابھی تم جوان ہو۔۔ میں جو وعدہ تمیں یاد کرانے آیا ہوں اس کو نبھا کر تم اپنی غلطیوں، خطاؤں اور گناہوں کا کفارہ ادا کر سکتے ہو، میں چلا۔۔۔۔"

یہ کہہ کر وہ تیزی سے مڑا اور نکل گیا۔ وہ اس کی طرف لپکا، لیکن اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ایسے میں اس کی نظر زمین پر پڑے ہوئے دس رپے اور سو رپے والے نوٹوں پر پڑے۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کو گھورنے لگا۔ اس کا جی چاہا کہ زمیں پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے اور اس کی قبر پر وہ دو نوٹ رہ جائیں۔۔

×××××××
 
Top