پروف ریڈ اول کودک کہانی : سرمایہ دار بلی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "سرمایہ دار بلی " کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل چار اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کہانی کو مقدس ٹائپ کر رہی ہیں۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

شکریہ

sb1.gif

 

مقدس

لائبریرین
میں اپنے دوستوں اقبال، انور، موٹو اور روفی کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ میں نے کہا: "مہمانوں کی آمد مجھے بہت ناگورا گزرتی ہے، خاص طور پت بزرگوں کی، کیوں کہ ان کے طرح طرح کے حکم سن کر ناک میں دم آجاتا ہے۔"

اقبال منھ بسور کر بولا: "کل ہی کی بات ہے۔ میں کھڑا پانی پی رہا تھا کہ چاچا فیضو نے دھپ سے ایک مکا رسید کر کے فرمایا کہ بیٹھ کر پانی پیو! کھڑے ہو کر پانی پینا شیطان کا کام ہے۔"

موٹو بولا: "میری داستنا بھی بےحد دردناک ہے۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میں ماؤتھ آرگن بجا رہا تھا کہ چاچا فضل دین نے باجا چھین لیا اور فرمانے لگے کہ اس کی آواز میرے دماغ میں تیر کی طرح لگتی ہے۔ کچھ دیر بعد میں وہاں سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ماؤتھ آرگن
 

مقدس

لائبریرین
بجا کر جھوم رہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بولے کہ واہ واہ، کیا غضب کی آواز ہے۔ سن کر مزہ آ جاتا ہے، اور مجھے تو بچپن میں اس کا بہت شوق تھا۔ یہ سن کر میرا خون کھولنے لگا۔ میرے خیال میں ان لوگوں کا پارا گھڑی بھر میں چڑھ جاتا ہے اور گھڑی بھر میں اتر جاتا ہے۔"

روفی بولا:"کچھ دن پہلے ہی ایک بڑی بی ہمارے ہاں مہمان بن کر آئیں۔ مجھے ان کی خدمت کے لیے دن بھر بھاگ دوڑ کرنی پڑتی۔ ایک دن میں غلیل چلا رہا تھا کہ ایک غلہ بڑی بی کے جا لگا۔ وہ ایک دل خراش چیخ مار کر دھم سے فرش پر گریں اور بےہوش ہو گئیں۔ مجھے شرپسندی کے الزام میں دھر لیا گیا۔ اللہ کی پناہ اس دن میری اتنی پٹائی ہوئی کہ میں بےحال ہو گیا۔"

اقبال نے خوش خبری سنائی: "اس دفعہ عید کی چھٹیوں میں صرف ایک مہمان آ رہی ہیں، وہ ہیں آپا۔"
موٹو گھبر کر بولا: "یہ آپائیں بھی کم خطرناک نہیں ہوتیں، خود تو کرسی پر بیٹھ کر ناولپڑھتی رہتی ہیں اور مظلوم بھائیوں کو ذرا ذرا سے کام کے لیے دھوپ میں دوڑاتی رہتی ہیں۔"

میں نے پوچھا: "کیوں بھئی!کون سی آپا تشریف لا رہی ہیں؟"

اقبال بولا: "یہ مجھے بھی معلوم نہیں۔ ہماری لاتعداد آپائیں اور باجیاں ہیں۔ ویسے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ صاحبہ اپنے ساتھ ایک بلی بھی لا رہی ہیں۔"

روفی نے ایک چیخ ماری اور مایوسی سے سر ہلا کر بولا: "یہ ضرور آپا ثروت ہوں گی۔ کیا وہ عیدہ وغیرہ دیں گی یا ایسے ہی ٹرخا دیں گی؟"

میں نے پھر پوچھا: "یہ آپا کس حلیے کی ہیں؟"

اقبال کچھ سوچ کر بولا: "وہ بےحد غریب عورت ہیں۔ جب ان کے شوہر مرے تو معلوم ہوا کہ مرحوم نے پھوٹی کوڑی بھی نہیں چھوڑی۔ بے چاری آپا گھر گھر نوکری کرنے پر مجبور ہو گئیں۔"

روفی مایوس ہو کر بولا: "اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے عیدی ملنے کی کوئی امید نہیں۔"
 

مقدس

لائبریرین
اقبال بولا: "جی! بالکل یہی سمجھیے۔"

یہ بات جان کر مجھے آپا کے آنے کی کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ اگلے دن جب ہم اسکول سے لوٹے تو معلوم ہوا کہ آپا ثروت آئی ہیں۔ وہ چھوٹے سے قد کی دبلی پتلی، بےحد ملنسار اور مہربان خاتون تھیں۔ انھوں نے پہلی ملاقات میں ہی ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ آپا نے ہمیں چاکلیٹ اور ٹافیاں دیں، پھر وہ بولیں: "آؤ، میں تمھیں اپنی بلی دکھاؤں۔ یہ بلی میرے چچا خیراتی کی تھی۔ جب بلی مر گئی تو انھوں نے اس میں مسالا بھروا لیا۔"

آپا ہمیں اپنے کمرے میں لے گئیں۔ پلنگ کے سرہانے میز پر ایک مسالا بھری ہوئی بلی رکھی ہوئی تھی، جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگتی تھی۔ وہ بلی کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولیں: "چچا خیراتی بیمار رہتے تھے۔ یہ بلی ان کے سرہانے بیٹھی دیکھتی رہتی تھی اور چچا بھی گھنٹوں بلی سے باتیں کیا کرتے تھے۔ جب بلی مر گئی تو چاچا کو بےحد رنج ہوا۔ ابھوں نے بلی میں مسالا بھروا کر اپنے
 

مقدس

لائبریرین
سرہانے رکھ لیا۔ مرنے سے پہلے چچا نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں بلی کی حفاظت کروں گی۔ اللہ جانے وہ اور کیا کچھ کہنے والے تھے کہ ان کی روح پرواز کر گئی۔"

آپا ثروت نے دوپٹے سے آنکھیں صاف کیں اور بولیں "یہی وجہ ہے کہ میں اس بلی کا خاص خیال رکھتی ہوں، جہاں جاتی ہوں، اس بلی کو بھی ساتھ لے کر جاتی ہوں۔"

ہم نے بلی کو اچھی طرح دیکھا۔ وہ بالکل اصلی بلی جیسی لگ رہی تھی آپا ثروت نے ہمیں بتایا کہ چچا خیراتی بےحد عجیب عادت کے شخص تھے۔ وہ چیزوں کو ادھر ادھر چھپا دیتے۔ جب ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتی تو انھیں بہت لطف آتا۔

یہ اگلے دن کا ذکر ہے۔ ہم آپا ثروت کے کمرے میں گئے۔ وہ شاید کہیں گئی ہوئی تھیں۔ ان کی بلی کارنس پر رکھی ہوئی تھی۔بلی بالکل اصلی اور زندہ معلوم ہرتی تھی۔ نہ جانے روفی کو کیا سوجھی، وہ بولا: "ہم نے اب تک ڈبو کو بلی سے نہیں ملوایا۔"

موٹو بولا: "کتا بلی کا دشمن ہوتا ہے۔ تم دیکھ لینا کہ ڈبو، بلی کو منٹوں میں چیر پھاڑ کر رکھ دے گا۔"

روفی غصے سے بولا: "میرا کتا تمہاری طرح بےوقوف نہیں ۔ وہ دیکھتے ہی پہچان جائے گا کہ بلی زندہ نہیں ہے۔"

ہم سب خاموش رہے۔ روفی بولا: "میں بلی کو لے جا کر ڈبو کر دکھاؤں گا اور پھر اسے اس کی جگہ واپس رکھ دوں گا۔ یہ پانچ منٹ کی بات ہے۔"

میں نے ٹوکا: "کسی کی چیز بغیر اجازت لینا ٹھیک نہیں ہوتا۔"

روفی چمک کر بولا: "ارے تو کیا میں بلی کو کھا جاؤں گا یا خراب کر دوں گا اور میرے ڈبو جیسا شان دار کتنا صدیوں مین بھی پیدا نہیں ہوتا۔"

ہم سب نیم دلی کے ساتھ راضی ہو گئے۔ روفی نے بلی کو اپنے کوٹ میں چھپا لیا۔ ہم
 

مقدس

لائبریرین
چوروں کی طرح دبے پاؤں چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکلے اور باغیچے میں پہنچے۔ روفی نے سیٹی بجائی۔ ڈبو تیزی سے دوڑتا ہوا ہماری طرف آیا۔ روفی نے کوٹ کے اندر سے بلی نکالہ تو ڈبو للچائی ہوئی نظروں سے بلی کو دیکھنے لگا۔

روفی فاتحانہ انداز میں بولا: "دیکھا! ڈبو بھی بلی کو پسند کرتا ہے۔"

پھر ڈبو کو پچکار کر بولا: "پس پس۔ آؤ بھئی ڈبو! ذرا اور قریب آ جاؤ۔"

ڈبو اور قریب ہو کر بلی کو سونگھنے لگا۔ ا س کی نظریں بلی کی چمکتی ہوئی آنکھوں پر پڑی تو اس پر دیوانگی طاری ہو گئی۔ اچانک وہ بلی پر جھپٹا، اسے گردن سے پکڑا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جھاڑی میں گھس گیا۔

ہم سب شور مچاتے ڈبو کے پیچھے بھاگے۔ ڈبو نے گھبرا کر بلی کو چھوڑا اور بھاگ گیا۔

ہم نے بلی کا اٹھایا اور اس کا معائنہ کرنے لگے۔ ڈبو نے بلی کی گردن چبا ڈالی تھی۔ سر سیدھا رہنے کے بجائے ایک طرف کو ڈھلک گیا تھا۔

موٹو کا پارا چڑھ گیا اور وہ چیخ کر بولا: "اگر ڈبو میرے پاتھ لگ گیا تو اس کی تکا بوٹی کر دوں گا۔"

اقبال نے کہا: "میں نے ایسا ذلیل اور بےہودہ کتنا زندگی بھر نہیں دیکھا۔"

میں نے کہا: "افسوس اس بات کا ہے کہ یہ بلی ثروت آپا کی ہے، جسے ہم بلا اجازت اٹھا لائے ہیں۔ جب وہ بلی دیکھیں گی تو کیا کہیں گی؟"

روفی نے گرد نا بہت غور سے معائنہ کیا اور بولا: "فکر کی کوئی بات نہیں، میں ابھی اسے ٹھیک کر دوں گا۔"

روفی بہت دیر تک کوشش کرتا رہا، مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کپ بلی کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ روفی بھی مایوس ہو گیا۔
 

مقدس

لائبریرین
میں نے مشورہ دیا: "بہتر یہ ہے کہ ہم کاری گر سے مسالا بھروا کر اسے ٹھیک کروا لیں۔"

اقبا نھٹ سے بولا: "واہ! کیا عمدہ ترکیب بتائی ہے۔ میں ابھی بلی کی کھال میں بھوسا اور کاغذ بھر کر اسے ٹھیک کر دیتا ہوں۔"

انور موٹو کہیں سے ردی اخبار اٹھا لایا۔ روفی نے بلی کو فرش پر لٹایا، انگلیوں سے ٹٹول کر کچھ دیکھا اور بولا: "یہاں کچھ جوڑ سا معلوم ہوتا ہے۔"

ہم بلی کے آپریشن کو امید بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ روفی نے بلی میں ایک چوڑا سوراخ کیا پھر اس میں انگلیں ڈال کر اس کے اندر بھری ہوئی چیزیں نکالنے لگا۔ پہلے تو کچھ رنگ برنگے کاغذ کے بنڈل نکلے، پھر کچھ گھاس پھونس اور بھوسا نکلا۔ یہ دیکھ کر اقبال نے خوشی کا نعرہ لگایا: "دیکھا! میں نہ کہتا تھا کہ بلی میں کا غذ اور بھوسا بھرا ہوا ہے۔ شاباش ہے مجھ پر۔"

روفی نے کاغذ ٹھونس کر بھرے اور ٹانکے لگانے لگا۔ بلی کی حالت اور زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ وہ کہیں سے پھول اور کہیں سے پچک گئی تھی۔

اقبال مایوسی سے بولا: "اب تو یہ بلی ہی نہیں لگتی۔"

روفی نے بلی کو ٹھونس ٹھونس کر کا غذ بھرے۔ اس دفعہ بلی بالکل گاؤ تکیہ معلوم ہونے لگی۔ اور یہ دیکھ کر روفی کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ وہ ماتھے سے پسینا پونچھ کر بولا: "یہ بلی ہی بدشکل ہے۔ کوئی اچھی سی بلی ہوتی تو میں اسے منٹوں میں ٹھیک کر دیتا۔"

اقبال بھالو نے طنز کیا: "اسے کہتے ہیں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔"

ان موٹو آگے بڑھا اور آستین چڑھا کر بولا: "اب میں کوشش کر کے دیکھتا ہواں۔"

موٹو نے بلی میں بھرے ہوئے کاغذوں کے بنڈل نکال نکال کر فرش پر ڈھیر کر دیے۔ پھر اس کے اندر اخبار کی کترن اور بھوسا تہ بہ تہ جمانے لگا۔ عین اسی وقت آپا ثروت آگئیں۔
 

مقدس

لائبریرین
بلی کا یہ حال دیکھ کر وہ بھونچکا سی رہ گئیں۔ میں نے ہمت کرکے پوارا قصہ بیان کیا۔

روفی بولا: "ہم بلی کو دوبارہ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بلی ہی فضول سی ہے کہ ٹھیک ہونے میں نہیں آتی۔"

آپا ثروت کچھ نہ بولیں۔ روفی بولا: "آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم کسی کاری گر سے مسالا بھروا دیں گے۔"

لیکن آپا کو ہمارے حال پر رحم آگیا تھا۔ وہ مری ہوئی آواز میں بولیں: "بھئی، جو کچھ ہوا، ٹھیک ہی ہوا۔ تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب تم سب مل کر کمرے کی صفائی کر دو۔ ذرا دیکھو تو سہی! کتنے ڈھیروں اخبار پڑے ہیں۔"

انور موٹو مسکرا کر بولا: " کچھ اخبار تو بلی کے اندر سے نکلے ہیں اور کچھ میں اپنے ساتھ لایا تھا۔"

آپا ثروت نے تہ شدہ اخباروں کی ایک گڈی اٹھائی اور اسے دیکھنے کے لیے کھولنے لگیں ۔ اچانک ان کے منھ سے حیرت بھری چیخ نکلی۔ کاغذ کے بنڈل میں ہزار ہزار کے نوٹوں کی گڈی تھی۔۔ وہاں کاغذوں کے ایسے کئی بنڈل تھے۔ ہر ایک بنڈل میں ہزار ہزار روپے کی گڈیاں تھیں۔ ایک بنڈل سے بنک کی کاپی بھی نکلی، جس سے معلوم ہوا کہ چچا خیراتی کا لاکھوں رپیہ ثروت آپا کے نام بینک میں جمع تھا۔ یہ کل کمائی چچا خیراتی سے چوروں کے ڈر سے بلی کی کھال میں سلوا دی تھی۔

اب آپا ثروت ایک امیر عورت تھیں۔ ہم سب نے آپا کو بہت بہت مبارک باد دی۔

ذرا سیدیر بعد ہم شہر جانے والی بس میں سوار تھے۔ آپا ثروت بینک میں یہ رپے جمع کرانے جا رہی تھیں اور ہم چاروں عید کی خریداری کے لیے جا رہے تھے۔ روفی حسب عادت اپنے کتے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا: "ایسا کتا صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہوتا۔"

×××××××××××8
 
Top