زندہ درخت
محمد طلحہ عطا الصمد، کراچی
“ٹھک ٹھک!“ دروازے پر دستک کی آواز سن کر جمال احمد کا کاغذ پر چلتا ہوا قلم ایک دم رک گیا۔ وہ ایک کہانی لکھ رہے تھے۔ جمال احمد ایک بہت بڑے ادیب تھے۔ انھوں نے بچوں اور بڑوں کے لیے سینکڑوں کہانیاں لکھی تھیں۔ ان کی کہانیاں بہت پسند کی جاتی تھیں، جن میں بچوں، بڑوں، قدرتی مناظر، ماحول، پرندوں، جانوروںم تازہ ترین واقعات اور معاشرتی مسائل وغیرہ سب کا ذکر ہوتا تھا، اس لیے وہ جو کچھ بھی لکھتے تھے سب کو پسند آتا تھا۔ اس وقت دروازے پر ہونے والی دستک نے انھیں قلم چھوڑ کر اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ انھوں نے پوچھا: “کون ہے بھئی، کیا دروازہ توڑ دو گے؟“
پھر انھوں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ سامنے بوڑھا ڈاکیا کھڑا تھا۔ ڈاکیا ہونے دیکھتے ہی بولا: “جمال بابو!کیا سو رہے تھے؟“
جمال احمد نے کہا: “سو نہیں رہا تھا بلکہ ایک کہانی لکھ رہا تھا، لیکن تم نے اس وقت آ کر لکھنے کا سارا مزہ کرکرا کر دیا۔“
جمال احمد کی بات سن کر بوڑھا ہنس پڑھا اور بولا: “جمال بابو! تم بھی خوب آدمی ہو۔ کہانی لکھنے بیٹھتے ہو تو گویا اس میں گم ہو جاتے ہو اور ہر چیز بھول جاتے ہو۔ میں اتنی دیر سے دروازہ پیٹ رہا تھا۔ اب تو میرے ہاتھوں میں درد ہو رہا ہے۔“
جمال احمد حیران ہو کر بولے:“لیکن میںنے تو فوراً اٹھ کر دروازہ کھولا تھا اور تم کہہ رہے ہو کہ میں نے دروازہ کھولنے میں دیر لگا دی۔“
بوڑھے ڈاکیے نے کہا: “اچھا، یہ لو اپنا خط۔ مجھے اور جگہوں پر بھی جانا ہے۔ اللہ حافظ۔“
بوڑھا داکیا انھیں ایک خاکی لفافہ تھما کر چلا گیا۔ جمال احمد دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں آگئے۔ انھوں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے خاکی لفافہ الٹ پلٹ کر دیکھا، پھر لفافے مین سے خط نکال کر پڑھا، جو نہایت گندی اور موٹی موٹی لکھائی میں لکھا ہوا تھا: