پروف ریڈ اول کودک کہانی : حویلی کے بھوت

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
HKB%20-%200012.gif
 

مقدس

لائبریرین
توپ میں گولا بھر کر اسے توتے کے آگے رکھ دیا تو پھر توتے نے اپنی چونچ سے توپ کا ایک تار کھینچا اور گولا توپ سے نکلا۔ ہلکا سا دھماکا ہوا۔ توتا اپنی جگہ چلا گیا۔ "دیکھا جناب! یہ توتا توپ چلاتا ہے۔" توتے والے کی زبان بھی چل رہی تھی! دوسرا تماشا بیا کا تھا۔ اس نے اپنی چونچ میں ایک ایسی لکڑ پکڑی ہوئی تھی جس کے دونوں سروں پر آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ اس کو گول گول گھماتا تو آگ کا دائرہ سا بن جاتا۔

اس کے بعد یہ لکڑی اس سے لے لی جاتی۔ پھر وہ ایک تیر چلاتا کمان ایک جگہ لٹکی ہوئی تھی۔ آدمی چڑیا کی چونچ میں تیر دیتا۔ وہ آرام سے تیر کمان پر چڑھاتی اور کمان کھینچتی۔ تیر دور جا گرتا۔ اس تماشے پر بھی لوگ زور زور سے تالیاں بجاتے۔ بچوں کو بھی چڑیوں کا یہ تماشا بہت پسند آیا۔

جب یہ لوگ جیپ میں واپس آئے تو زاہد اور عابد کی زبانوں کر چڑیوں کی تعریفیں تھی۔

"یہ بیا تھا نا بھیا!" عابد نے کہا۔

"ہاں، اور اس قدر خوب صورت گھر بناتا ہے کہ کیا بتاؤں،" زاہد نے کہا۔

"واقعی۔۔ بیا کا گھونسلا تو اس کی کاریگری کا بہترین نمونہ ہوتا ہے۔" چچا جان نے کہا۔

"میں نے بھی بیا کا گھونسلا ایک دوست کے درائنگ روم میں سجا دیکھا تھا۔" زاہد نے بتایا۔

"کتنی حیرت کی بات ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے پرندے اپنے پنجوں اور چونچوں کی مدد سے اس قدر خوب صورت گھر بناتے ہیں۔" ھامد نے کہا۔

"اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے پرندوں کو بھی اتنی عقل دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دشمنوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ بیا کا گھونسلا شاخوں سے لٹکتا رہتا ہےا۔ بلی جیسے جانور بھی اس میں جاکر بچوں کو ستا نہٰن سکتے اور وہ ان میں محفوظ رہتے ہیں۔" زاہد نے کہا

"اور یہ بھی کہ گھونسلے میں پرندے کے داخکل ہونے کی جگہ اتنی تنگ ہوتی ہے کہ بیا کے دشمن مشکل ہی سے اس کا راستہ ڈھونڈ پاتے ہیں۔"
 

مقدس

لائبریرین
"کیا اور بھی پرندے ایسے خوبصورت گھر بنا سکتے ہیں؟" عابد نے پوچھا۔
"ہاں، کیوں نہیں؟ مثال کے طور پر اوون برڈ متی اور کپڑے سے اپنا گھر بناتی ہے۔ یہ انسان کے سر جتنا برا ہوتا ہے۔ گھونسلے کے دو حصے ہوتے ہیں ایک حصے میں چڑیا انڈے دیتی ہے اور دوسرے حصے میں رہتی ہے۔ دونوں کمروں کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار بناتی ہے تاکہ اندے محفوط رہ سکیں۔" چچا جان نے بتایا۔

پھر یہ لوگ خاصی دیر تک عقل مند چڑیوں کے بارے میں گفت گو کرتے رہے۔ عابد جس کی چڑیوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہ تھی، سوچتا رہا کہ اب وہ بھی چڑیوں پر کتابیں پڑھے گا۔

گھنٹہ بھر بعد یہ لوگ کھانا کھانے کے لیے رکے۔ عابد اور زاہد کی امی نے ان کے لیے سینڈوچز، پھل اور چائے ساتھ کر دی تھی۔ کھانا کھا کر تھوڑی دیر کے لیے یہ لوگ اسی پیر کے نیچے بیٹھے رہے، جہاں انھوں نے کھانا کھایا تھا، پھر آگے چل پڑے۔
 

مقدس

لائبریرین
تقریباً ساڑھے تین بجے یہ لوگ پہاڑ کے اوپر پہنچ چکے تھے۔ گھنٹہ بھر سے وہ اس پہاڑی راستے پر تھے۔ یہ پہاڑ بھورے رنگ کے تھے اور زیادہ سر سبز بھی نہ تھے۔ عابد اس سفر میں شروع ہی سے بےحد خوش تھا۔ مگر اب وہ کچھ تھک گیا تھا۔ ابھی وہ چچا جان سے کچھ پوچھنا ہی چاہ رہا تھا کہ اچانک جیب ایک رستے کی طرف مڑ گئی۔

گھنے درختوں سے ڈھکا ہوا یہ راستہ ناہموار تھا اس لیے جیپ اچھلتی ہوئی جا رہی تھی۔ بیس منٹ کے بعد جیپ ایک صاف ستھرے سے ہموار علاقے میں ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے جا کر رک گئی۔ سرخ ٹائلوں کی چھت اور لمبی لمبی کھڑکیوں والا یہ خوب صورت گھر بچوں کو بہت ہی پیارا لگا۔

"کتنا خوب صورت گھر ہے !!" عابد اور زاہد خوشی سے چلائے۔

سر سبز درختوں کے بیچ میں سرخ چھت اور گلابی دروازوں والا گھر ایسا لگ رہا تھا جیسے پھول۔ چچا جان نے جیپ پورچ میں کھڑی کی۔ انھیں خوشی ہوئی کہ بچوں کو ان کا گھع پسند آیا۔ انھوں نے حال ہی میں یہ گھر ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر سے لیا تھا۔ تھوڑی بہت تبدیلوں کے بعد یہ ایک خوبصورت مکان بن گیا تھا۔

"میرا خیال ہے تمھیں یہ گھر کچھ چھوٹا لگے گا۔" چچا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

پھر انھوں نے اس کے چاروں کمرے دکھاتے ہوئے کہا، "بس یہی کچھ ہے۔"

ایک کمرے کا دروازہ کھول کر وہ عابد اور زاہد سے بولے: "بھئی بچو! یہ تم لوگوں کا کمرا ہے۔"

ان دونوں کو اپنا کمرا بہت پسند آیا۔ یہ چچا جان کے کمرے کے برابر تھا اور
 

مقدس

لائبریرین
اس میں ایک لمبی کھڑکی تھی جس سے دور تک کا منظر نظر آ رہا تھا۔ برف کی ڈھکی ہوئی پہاڑیاں اور درخت خوب صورت منظر پیش کر رہےتھے۔

بچوں نے اپنا سامان جیپ سے اتارا۔ یہ دونوں اپنا کام کود کرتے تھے۔ ملازم کے ہونے کے باوجود اپنے کمرے کو صاف رکھنا، کپڑے استری کرنا اور جوتوں کو پاش کرنا انھی کی ذمے داری تھی۔

انھوں نے بستر کھول کر پلنگوں پر بچھا دیے اور سوٹ کیس قرینے سے دیوار کے ساتھ رکھ دیا۔ عابد نے کہا کہ وہ نہائے گا۔ جمن نے کہا ۔"چھوٹے صاحب! جلدی سے نہا لیجیے گا۔ چائے منٹوں میں تیار ہوتی ہے۔"
عابد نہانے کے لیے غسل خانے میں گھس گیا اور زاہد چچا جان کے باگ کی طرف نکل گیا۔ یہاں طرح طرح کے پھول لگے ہوئے تھے اور ان میں سے بیشتر سے وہ واقف تھا۔ گلاب، چنبیلی، موتیا، سورج مکھی اور للی قرینوں سے کیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ بوگن ویلا کی بیل دروازے کے ساتھ ساتھ اوپر تک پھیلی ہوئی تھی۔ لگتا تھا اس پر بڑی محنت کی جاتی ہے۔ لان کے دوسری طرف زینیا اور ڈابلیا کے خوب صورت پھول لگے ہوئے تھے۔ سرخ، نارنجی اور زرد پھول سبز پتوں پر بڑ بھلے لگ رہے تھے۔

لان سے نکل کر وہ باہر آگیا۔ یہاں بےشمار درخت تھے۔ اچانک وہ ٹھٹک گیا۔ درخت کے پیچھے کوئی تھا۔ کوئی جانور۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اسے ایک سر نظر آیا۔ اس پر سینگ نہ تھے۔پھر اسے ایک چہرپ دکھائی دیا! شکر ہے یہ کوئی لڑکا تھا۔

"کون ہو؟" زاہد نے پوچھا۔

تھوری دیر تک خاموشی رہی پھر ایک آواز آئی، "میں ہوں۔" اور ایک لڑکا اسی کی عمر کا درخت کے پیچھے سے اس کے سامنے آگیا۔ زاہد کو یہ اچھا لڑکا لگا۔

"کیا نام ہے تمھارا؟" زاہد نے پوچھا۔

"شبیر، اور تمھارا؟"
 

مقدس

لائبریرین
"زاہد۔"
"تم بھی آئے ہو؟"
"ہاں، میں ابھی آیا ہوں۔ اور تم کہاں رہتے ہو؟" زاہد نے پوچھا۔

"میں یہاں ہی رہتا ہوں، وہ سامنے درختوں کے پیچھے!" پھر بشیر نے پوچھا کہ کیا وہ حامد صاحب کا بیٹا ہے۔

"نہیں ، میں ان کا بھتیجا ہوں، میرا چھوٹا بھائی بھی میرے ساتھ آیا ہے ہم یہاں چھٹیاں گزارنے آئے ہیں۔"

اس سے پہلے شبیر کچھ کہتا عابد آگیا۔

"چائے تیار ہے۔" عابد نے آتے ہی کہا۔

"کل پھر آنا۔" زاہد نے اندر جاتے ہوئے اس لڑکے سے کہا، پھر اس نے عابد کو شبیر سے ملاقات کا حال سنایا۔
 

مقدس

لائبریرین
اگلی صبح وہ ناشتے کی میز پر آئے ہی تھے کہ ایک قاصد آیا، وہ چوہدری زمان کا خط لایا تھا۔ چوہدری صاحب ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر تھے اور وہ فوری طور پر حامد حسین خان سے ملنا چاہتے تھے۔

حامد حسین خان نے اسی کے ہاتھ جواب بھیجوایا کہ میں تھوڑی دیر میں حاضر ہوتا ہوں۔

"مجھے ناشتے کے فوراً بود ہید آفس جانا ہو گا۔" چچا جان نے کہا۔

"کیا بات ہے چچا جان؟"

"معلوم نہیں۔"

"ہو سکتا ہے یہ جنگلوں میں بلا اجازت شکار کا مسئلہ ہو۔ ناجائز شکار ہی یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔" زاہد نے رائے دی۔

"ہاں بیٹے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں۔ کبھی اسٹاف کا مسئلہ ہوتا ہے۔ کبھی درخت لگوانے کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک ملاقات میں کئی مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔" چچا جان نے کہا۔

ناشتے کے بعد زاہد نے پوچھا،"آپ کب تک واپس آجائیں گے؟"

"کچھ کہہ نہیں سکتا۔ مگر میرا خیال ہے شام ہو جائے گی۔"

یہ بات وہ اپنے تجربے سے کہہ رہے تھے، اس لیے کہ ہیڈ آفس جا کر وہ کبھی بھی جلد واپس نہ آ پاتے تھے۔

چند منٹوں مں چچا جان تیار ہو گئے۔ اور جیپ میں بیٹھنے سے پہلے انھوں نے جمن کو ہدایت دی کہ وہ بچوں کو ٹھیک طرح سے کھانا کھلا دے۔ ٹامی بھی کود کر جیپ
 

مقدس

لائبریرین
میں بیٹھ گیا۔ ان کے جانے کے بعد زاہد اور عابد باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچنے لگے کہ آج کا دن کسے گزارا جائے۔ وہ گھر میں بھی نہیں رہنا چاہتے تھے اور جنگل کی طرف جانا بھ خطرناک تھا۔ چیتے کے بارے میں تو وہ پہلے ہی سن چکے تھے۔

"اللہ کرے شبیر آ جائے۔ اسے تو یہاں کی سب جگہوں کا پتا ہو گا۔" عابد نے کہا۔

"ہم اس کے گھر بھی تو نہیں جا سکتے۔ کیا پتا وہ کہاں رہتا ہے؟" زاہد نے جواب دیا۔

عابد کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ "چلو سامنے حویلی چلتے ہیں۔ لگتا ہے یہ خاصی قریب ہے۔"

"خیال تو اچھا ہے۔" زاہد نے تائید کی۔ "چلو۔"

"ٹھیرو۔ میں اپنی دوربین بھی لے لوں۔"

"اور میں اپنی شاٹ گن۔"

وہ گھر کے اندر گئے تاکہ جمن کو بتائیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ مگر جمن نظر نہ آیا۔

"چھوڑو چلتے ہیں۔ ہم کون سا دیر میں آئیں گے؟"
 

مقدس

لائبریرین
گھر کی مشرقی سمت ایک چوڑی سی بل کھاتی پگ ڈنڈی تھی۔ یہ دونوں اسی پر ہو لیے۔ اس جگہ درخت زیادہ گھنے نہ تھے۔ زمیں پر گھاد اگی ہوئی تھی اور درختوں کے سوکھے زرد پتے بکھرے پڑے تھے۔ کناروں پر چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں تھیں۔ سوائے چڑیوں کے انھیں کوئی بھی جان دار نظر نہ آیا۔ ایک بھرے بالوں والے مرغے کو دیکھ کر عابد نے نشانہ لیا، مگر اس کا نشانہ چوک گیا۔ مرغا غائب ہو گیا۔

"شکر ہے! تمھارا نشانہ خطا ہو گیا۔ ورنہ ہم بھی غیر قانونی شکار کے جرم مں دھر لیے جاتے۔" زاہد نے کہا۔

"ارے ہاں، یہ تو واقعی غلط ہوتا۔"

ای دوسرے پر جملے کستے ہنستے ہنساتے وہ لوگ وہاں پہنچے جہاں سے یہ پگ ڈنڈی دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ سیدھے ہاتھ کا راستہ حویلی کو جاتا تھا اور الٹے پاتھ کا راستہ غالباً گاؤں کو۔ یہ لوگ حویلی والے راستے پر چل دیے۔ اب جنگل گھنا ہو رہا تھا۔ دونوں طرف اونچے اونچے درخت تھے۔

"کیا ہم صحیح راستے پر ہیں؟" عابد نے کچھ فکر مند ہو کر کہا،

"چلو اس آدم سے پوچھیں؟"

"آدمی ؟ کون آدمی؟"

زاہد نے ایک آدمی ک طرف اشارہ کیا جو ایک درخت کے نیچے گیروے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ وہ بالکل چپ چاپ کھڑا تھا۔ جیسے ہی یہ لوگ اس کے قریب پہنچے وہ مڑا۔ اور ایک کھلی کتاب جو اس کے ہاتھ میں تھی بند کر دی۔ یہ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تھا۔ جس نے سنہری فریم کی عینک لگائی ہوئی تھی۔ اس
 

مقدس

لائبریرین
کا سر منڈا ہوا تھا۔
"جناب! کیا یہ راستہ حویلی کو جاتا ہے؟" زاہد نے ادب سے پوچھا۔ گیروے لباس والے نے ایک دم سے جواب نہیں دیا۔ چند لمحوں تک وہ انھیں دیکھتا رہا۔ پھر بہت ہی ملائم لہجے میں کہنے لگا:

"تمھارا مطلب ہے وہ پرانی کھنڈر حویلی؟"

"کھنڈر حویلی؟ ہمیں پتا نہیں کہ یہ حویلی کھنڈر ہے۔"

"کھنڈر اور ویران ہی نہیں، بلکہ آسیب زدہ بھی ہے۔"

"آسیب زدہ!" عابد نے حیرت سے کہا، "آپ کا مطلب ہے کہ یہاں کوئی بھوت رہتا ہے۔"

"ایک بھوت نہیں، یہاں دو بھوت رہتے ہیں۔" اس نے اسی نرم لہجے میں کہا، "مگر یہ تو بتاؤ تم لوگوں کو حویلی میں جانے کا مشورہ کس نے دیا ہے؟"

"کسی نے بھی۔" زاہد نے کہا۔ "یہ تو ہمارا اپنا خیال تھا کہ حویلی دیکھیں۔"

"مجھے تو لگتا ہے تم لوگ یہاں نئے آئے ہو!" اس نے سر ہلا کر کہا۔

"جی ہاں! ہم تو کل ہی یہاں پہنچے ہیں۔ حامد حسین خان صاحب ہمارے چچا ہیں۔ ہم ان کے ساتھ آئے ہیں۔"

"تم حامد حسین خان کے بھتیجے ہو۔" وہ آدمی کچھ فکرمند سا ہو کر بولا۔ پھر اس نے اسی ہمدردانہ لہجے میں کہا، "میرے بچو! اس حویلی کی طرف جانے کا سوچنا بھی مت۔"

"مگر ہم تو بھوتوں پر یقین نہیں رکھتے۔" زاہد نے اعتماد سے کہا۔

"میں بھی نہیں رکھتا تھا، مگر جب کوئی اپنی آنکھوں سے بھوت دیکھ لے تو پھر یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔"

"کیا مطلب؟" عابد اور زاہد ایک ساتھ بولے، "کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے بھوت دیکھے ہیں؟"

"ہاں۔"
 

مقدس

لائبریرین
زاہد اور عابد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

"میں دیکھ رہا ہوں شاید تم میری بات پر یقین نہیں کر رہے۔ خیر، چلو میں تمھیں پورا قصہ سناتا ہوں۔"

وہ ایک کٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا۔ یہ دونوں بھی ا سکے برابر بیٹھ گئے۔

"ایک سال قبل جب میں یہاں آیا تھا تو تب ہی مجھے بھوت نظر آگئے تھے، میں شہر کے ہنگاموں سے اکتا چکا تھا اور پرسکون زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ چناں چہ میں نے اپنے بچپن کے ساتھ عبید کے پاس کچھ دن گزارنے کا فیصلہ کیا۔ عبید فاریسٹ آفیسر تھا۔ وہ یہاں برسوں سے رہ رہا تھا۔" وہ کہتے کہتے رکا اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر بولا، "تم جانتے ہو جوگ لینا کسے کہتے ہیں؟"

"نہیں۔"

"دیکھو! انسان کی زندگی کے تین ادوار ہیں۔ بچہن، جوانی اور بڑھاپا۔ جو لوگ زندگی کے پہلے دو دور بہت اچھے گزارتے ہیں اللہ تعالی ان کو بڑھاپے میں ایسی توفیق دیتے ہیں کہ وہ دنیا چھوڑ کر سب سے الگ ہو جاتے ہیں، یعنی گیروے کپرے پہن کر ہر وقت عبادت میں لگے رہتے ہیں، ایسے ہی لوگ جوگی یا درویش کہلاتے ہیں۔ چناں چہ میں نے بھی اپنی زندگی کے باقی دن عبادت میں گزارنے کا تہیہ کر لیا ہے اور اسی وجہ سے میں گیروے کپڑے پہنے یہاں جنگل میں رہ رہا ہوں۔"

اس نے چند لمھوں کو اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سالت بیٹھ گیا۔ پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور کہنا شروع کیا، "تم سوچ رہے ہو گے کہ میں اپنی کہانی کیوں سنا رہا ہوں۔ اس لیے کہ یہاں آنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس حویلی میں جا کر عبادت کرنی چاہیے۔ عبید نے مجھے منع کیا اور کہا کہ اس حویلی میں بھوت ہیں۔ مگر میں نے یقین نہیں کیا۔ ہم اسی شام پہاڑی ندی کے کنارے جا رہے تھے۔ یہ ندی حویلی سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ مگر تم ندی کی چرف سے حویلی تک نہیں پہنچ
 

مقدس

لائبریرین
سکتے۔ تمھیں کوئی تیس قدم تھ جھاڑیوں سے گزرنا ہو گا تب تمھیں پگ ڈنڈی ملے گی۔"

"کیا یہ پگ ڈنڈی ندی سے حویلی تک جاتی ہے؟"

"ہاں، اصل میں اس وقت تم دو راستوں کے بیچ کھڑے ہو یہاں سے تم حویلی کو دیکھ سکتے ہو۔"

"پھر وہ بھوت آپ کو کہاں ملے؟" عابد کو بھوت والی کہانی سے زیادہ دل چسپی تھی۔"

وہ مسکرایا اور بولا۔ "ہاں میں وہی بتا رہا ہوں۔ میں اور عبید اس شام ندی کے کنارے بیٹھے مچھلیاں پکڑ رہے تھے مگر قسمت ہمارے ساتھ نہ تھی۔ ہم نے ایک بھی مچھلی نہ پکڑی۔۔ آخر کار میں نے عبید سے کہا، "رات ہونے والی ہے، چلو چلیں،" اس نے جیرا ہاتھ پکڑ لیا اور آہستہ سے کہا کہ اس نے حویلی میں ایک شکاری دیکھا ہے۔"

"عبید کو کیسے معلوم ہوا کہ حویلی میں شکاری ہے؟" زاہد نے اس کی بات کاٹی۔

"اللہ جانے، ہو سکتا ہے اس کے ذہن میں یہی ہو۔ چناں چہ میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو حویلی میں ایک شخص سفید کپڑے پہنے کھڑا تھا۔"

"مگر کوئی شکاری اس طرح سفید کپڑے پہنے رات کو گھوم نہیں سکتا۔ اس طرح تو وہ فوراً پکڑا جائے گا۔" زاہد نے کہا۔

"ٹھیک، بالکل ٹھیک۔ مگر اس وقت یہ بات ہماری سمجھ میں نہ آئی۔ میں ابھی جا کر اسے ٹھیک کرتا ہوں؛ عبید نے کہا اور حویلی کی طرف چل پڑا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ وہ ہم کو دیکھ کر نہ بھاگا اور نہ خوف زدہ ہوا۔ ہو سکتا ہے اس نے ہمیں نہ دیکھا ہو۔ مگر ہم تو اسے دیکھ رہے تھے۔ ادھیڑ عمر کا ایک شخص سفید براق شلوار قمیض پہنے کھڑا تھا۔"

"شکاری اور شلاور قمیض میں! عجیب بات ہے!" زاہد نے کہا۔

"بالکل ٹھیک۔" گیروے لباس والے آدمی نے کہا۔ "میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں
 

مقدس

لائبریرین
کہ اس وقت یہ باتیں ہماری سمجھ میں نہ آئیں۔ جب ہم اس کے قریب پہنے تو بھی وہ ایسے ہی کھڑا رہا۔ میں نے دل میں کہا، آج تو ایک شکاری پکڑا گیا، مگر دوسرے ہی لمحے وہ شخص غائب ہو گیا۔ ہم حیران رہ گئے۔ خوف سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یقناً وہ بھوت تھا۔ ہم خوف زدہ ہو کر واپس جانے کے لیے مڑے تو پتا ہے ہم نے کیا دیکھاِ؟"

"کیا؟" زاہد نے بے چینی سے پوچھا۔

"ہم سے بہ مشکل پانچ گز کے فاصلے پر دو آدمی کھڑے تھے۔ بالکل ایک جیسے۔ ایک سا لباس پہنے۔ انھوں نے ہمارا راستہ روک رکھا تھا، گھبراہٹ کے عالم میں میں نے ایک پتھر اٹھا کر ایک آدمی کے مارا۔ جانتے ہو کیا ہوا؟ پتھر ان کے درمیان سے گزر گیا۔"

"درمیان سے گزر گیا۔" عابد اچھل پرا۔

"ہاں تمھیں نہیں پتا، بھوتوں کے جسم نہیں ہوتے۔ ان پر کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا، نہ ڈنڈوں کا ، نہ پتھروں کا اور نہ گولیوں کا۔ وہ آدمی نہیں تھے دو بھوت تھے۔"

"پھر کیا ہوا؟" عابد ان اندر ہی اندر ڈر سے کانپ رہا تھا۔

"بھوت کو میرے پتھر مارنے سے غصہ آگیا۔ اس نے ہمیں حویلی میں جانے کو کہا۔ خوف سے میں کانپ رہا تھا۔ شاید بھوت ہماری جان لینا چاہتے تھے۔ اور ہمیں بھی شاید بھوت بنانا چاہتے تھے۔"

"پھر آُ کی جان کیسے بچی؟" زاہد نے پوچھا۔

"اللہ کا شکر ہے کہ عبید کو یاد آگیا کہ ایسے موقعوں پر آیتہ الکرسی پڑھنی چاہیے۔ اس نے جلدی جلدی آیتہ الکرسی پڑھنی شروع کر سی اور بھوت بھاگ گئے۔ لگتا ہے عبید نے کوئی نیکی کی تھی جس کے صلے میں ہم لوگوں کی جان بچ گئی۔ اگر اسے آیتہ الکرسی یاد نہ آتی تو میں اس وقت تمھیں یہ کہانی سنانے کے لیے زندہ نہ یوتا۔"

تھوڑی دیر تھ خاموشی رہی پھر وہ گیروے لباس والا شخص اٹھ کھڑا ہوا،
 

مقدس

لائبریرین
"اب میں چلتا ہوں۔ مگر یاد رکھنا! حویلی سے دور رہنا۔"

عابد بھوتوں کی کہانی سے بڑا متاثر ہوا تھا۔ مگر زاہد کو اب بھی شک تھا۔ اسے اس طرح بھوتوں کے جسم میں سے پتھر کے پار ہو جانے پر یقین نہ آیا تھا۔ اس نے کہا، "میرے خیال مٰن کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو نظر آتی ہو اور جسم نہ رکھتی ہو۔"

عابد مسکرایا مگر کچھ بولا نہیں۔

"میرے خیال میں تو ہمیں خود حویلی میں جا کر دیکھنا چاہیے کہ اس کہانی میں کتنی سچائی ہے؟"

"نہیں آج نہیں۔" عابد جلدی سے بولا۔ اور بھائی کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ خوف زدہ نہیں ہے کہنے لگا۔ "کھنڈروں میں اس طرح جانا ٹھیک نہیں ہے۔ شاید چچا جان کو بھی ہمارا وہاں جانا پسند نہ آئے۔"

"مجھے یقین ہے ان کو کوئی اعتراض نہ ہو گا۔" زاہد نے کہا۔

مگر عابد راضی نہ ہوا اور وہ لوگ اس راستے کی طرف مڑ گئے جو گاؤں کو جاتا تھا۔

"چلو گاؤں کی طرف، شاید شبیر مل جائے۔"

"ہاں! اسے ہمیں وہاں دیکھ کر بہت حیرت ہو گی۔"
 

مقدس

لائبریرین
عابد اور زاہد اس پگ ڈنڈی پر چل دیے جو گیروے کپڑوں والے نے بتائی تھی کہ گاؤں کو جاتی ہے۔ وہ چلتے رہے چلتے رہے یہاں تک کہ یہ راستہ گھنے جنگل کی طرف مڑ گیا۔ کچھ جگہوں پر تو اتنی لمبی لمبی گھاس اگی ہوئی تھی کہ انھیں بہ مشکل اس سے نکلنا پڑا۔

فضا میں جنگلی پھولوں کی خوش بو بسی ہوئی تھی، راستہ بھی خاصا ناہموار تھا۔ ایک مرتبہ تو ان کے سامنے سے ایک بڑا سانپ نکل کر گیا جس سے یہ دونوں ٹھٹک سے گئے۔

"معلوم ہوتا ہے گاؤں والے راستے سے زیادہ آتے جاتے نہیں ہیں۔" زاہد نے کہا

"میرے خیال میں تو ہمیں واپس چلنا چاہیے۔" عابد نے کہا۔ بھوت کی کہانی سن کر وہ خوف زدہ تھا۔

مگر زاہد ابھی گھر واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھ کہ آخر یہ راستہ جاتا کہاں ہے؟ یقینا یہ اگر گاؤں کو بھی نہ جاتا ہو گا تو کہیں نہ کہیں پہنچا دے گا۔

مجبوراً عابد کو بھی اس کے ساتھ چلنا پڑا۔ راستہ اب خاصا تنگ ہو گیا تھا۔ کہیں کہین پگ ڈنڈی غائب ہو جاتی اور کہیں کہیں دوبارہ نظر آنے لگتی۔ تھوڑی دور اور چلنے کے بعد انھیں پانی کے بہنے کی آواز آنے لگی۔

"اللہ جانے ہم کہاں جا رہے ہیں؟" عابد نے کہا، "کیا تمھیں یقین ہے کہ ہم ندی کی طرف نہیں جا رہے؟" اسے خطرہ تھا کہ کہیں یہ راستہ انھیں سیدھا بھوتوں والی حویلی تک نہ لے جائے۔
 

مقدس

لائبریرین
"نہیں، میرا خیال ہے یہ کسی پہاڑی چشمے کی آواز ہے۔ آؤ اور آگے چل کر دیکھیں۔" زاہد نے جواب دیا۔

وہ دونوں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے، سانپوں اور بچھوؤں سے بچتے ہوئے آگے بڑھے۔ پندرہ منٹ میں وہ ایک وادی میں پہنچ گئے۔ یہ اس قدر خوب صورت وادی تھی کہ وہ حیران رہ گئے۔ یہ جگہ زمین کا ایک مستطیل صاف ستھرا ہرا بھرا ٹکڑا تھی۔ سامنے اور پیچھے کی طرف لمبے لمبے درختوں کی قطاریں تھیں۔ سیدھے ہاتھ کی طرف پہاڑی سے ایک چھوٹا اس چشمہ بہ کر آ رہا تھا۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ مختف رنگوں کے چھوٹے بڑئ گھر بنے ہوئے تھے، دور سے ایسا لگتا تھا جیسے یہ کھلونوں کے مکان ہوں۔ الٹے ہاتھ کی طرف سر سبز گھاس اور چھوٹے چھوٹے پودے نظر آ رہے تھے۔

لگتا ہے یہ قطعہ یہاں کے لوگوں نے بنایا ہے۔" زاہد نے کہا۔ "تم نے دیکھا کہ یہاں سے درخت کاٹ کر زمین کو صاف ستھرا کیا گیا ہے۔"

"ہاں، وہ دیکھو اس درخت کے نیچے کی گھاس بھی کٹی ہوئی ہے۔" عابد نے کہا۔

یہاں درخت خاصے اونچے تھے۔ ان کی لمبی لمبی پھیلی ہوئی چاخیں ایک دوسرے سے ملی ملی تھیں۔ ایک برے سے درخت کے قریب پہنچ کر زاہد نے کہا، "دیکھو! اس درخت کی چھال چھلی ہوئی ہے۔ غالباً کسی نے اسے صاف کیا ہے۔"

"نہیں، میرے خیال میں تو یہ پنجوں کے نشان ہیں، تمھیں تو پتا ہے چیتے درخت پر بھی چڑھ سکتے ہیں۔" عابد نے کہا۔

زاہد نے حیرت سے عابد کی طرف دیکھا، "چھوڑو، چھوڑو۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چیتا۔۔۔۔" ابھی الفاں اس منھ میں ہی تھے کہ درخت کے اوپر سے چیتے کی خوف ناک آواز آئی۔ خوف سے دونوں بھائی پیلے پڑ گئے۔ چیتا درخت پر تھا!! دونوں نے زور زور سے چیخنا شروع کر دیا۔ ان کے خیال میں ان کی شاٹ گن چیتے کے لیے بالکل ناکافی تھی۔
 

مقدس

لائبریرین
اگلے ہی لمحے، انھیں درخت کی ایک شاخ پر کسی آدمی کی ٹانگ نظر آئی اور پھر کسی کے ہنسنے کی آواز آئی۔ "ہا ہا ہا !ہو ہو ۔۔۔"

"کون ہو تم؟" زاہد نے زور سے کہا اور اس کو مارنے کے لیے آگے بڑھا۔

"ٹھیرو۔" عابد چیخا۔ "یہ شبیر ہے۔"

یہ شبیر ہی تھا۔ اس نے اوپر سے ہنستے ہوئے کہا، "کیا ہوا؟ ڈر گئے؟"
اور اب اس کی ہنسی میں عابد اور زاہد بھی شامل ہو گئے۔

تمھاری آوز نے تو واقعی ہمیں ڈرا دیا تھا۔ کس قدر مہارت سے تم نے چیتے کی آواز نکالی۔" عابد نے کہا۔

شبیر نے بات بدلتے ہوئے کہا، "تم یہاں کیسے آگئے؟"

"بس ہم نے سوچا، ذرا سی سیر کر لی جائے، ٹہلتے ٹہلتے یہاں تک پہنچ گئے" زاہد نے کہا۔ اس نے گروے کپڑوں والے کے بارے میں بتانا کچھ مناسب نہ سمجھا۔

"مگر تم یہاں کیا کر ہے ہو؟" اس نے پوچھا۔

"میں تو اکثر صبح کو یہاں آتا ہوں۔" شبیر نے کہا۔

"ہاں یہ جگہ تو واقعی بہت پیاری ہے۔" عابد نے کہا۔

"میں تو اکثر دوپہر کو یہاں سو بھی جاتا ہوں۔" شبیر نے کہا۔

عابد اور زاہد حیرانگی سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔ درختوں کی شاخوں ہر یہ کیسے سو جاتا ہو گا؟ ایک کروٹ میں ہی نیچے گرنے کا خطرہ ہے۔

آؤ، تمھیں دکھاؤں میں کیسے سوتا ہوں۔" اور شبیر نے درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔ یہ دونوں بھی پیچھے پیچھے چڑھے، بستر بچھا ہوا تھا۔ دو بڑی بڑی شاخوں کو ملا کر اس پر ایک بڑا سا مچان بنایا گیا تھا جس پر کینوس بچھا تھا۔ اوپر بھی ایک کینوس بندھا ہوا تھا۔

"اوپر والا کینوس مجھے بارش سے بچاتا ہے۔" شبیر نے کہا۔

دونوں بچوں کو یہ جگہ بہت پسند آئی۔ شبیر نے اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے اس پر بیٹھے کی دعوت دی۔ ان لوگوں کے بیٹھتے ہی مچان ایک زوردار چٹاخ
 

مقدس

لائبریرین
کی آوز سے ٹوٹ گیا۔ اگر یہ لوگ فوراً ہی شاخوں کو نہ پکڑ لیتے تو دھڑام سے زمین پر گر پڑتے۔

شبیر شرمندہ ہو گیا۔ تینوں نیچے اتر آئے، زاہد نے کہا:

"کوئی بات نہیں، ہم تینوں مل کر دوبارہ مچان بنا لیتے ہیں۔"

تینوں نے درختوں کی شاخیں توڑنا شروع کر دیں اور آدھ گھنٹے ہی میں انھوں نے آدھی درجن شاخیں کاٹ کر ان کی پتیوں اور چھوٹی چھوٹی ڈنڈیوں کو صاف کر دیا پھر ان شاخوں کو اوپر لے جا کر رسی سے مضبوطی سے باندھ دیا۔ پھر اس پر کینوس بچھا دیا۔ اب تینوں اس پر بیٹھے۔ شکر ہے اب مچان نہیں ٹوٹا۔ تینوں کو ان کی محنت کا پھل مل گیا تھا، یعنی ایک مضبوط مچان، جس پر تینوں بیٹھ سکتے تھے۔

اس مچان سع دور دور کا منظر صاف نظر آ رہا تھا۔ سیدھے ہاتھ کی طرف وہی حویلی تھی جس کے بارے میں انھوں نے سنا تھا کہ آسیب زدہ ہے۔ حویل،ی کا سامنے کا حصہ خاصا ٹوٹا پھوٹا تھا اور اس پر کائی جمی تھی۔ دروازے بھی جو پرانی وضع کے تھے سیاہ پڑ چکے تھے۔

"کیا اس حویلی میں بھوت ہیں؟ " عابد نے پوچھا

"ہاں، ادھر کوئی بھی نہیں جاتا۔ لوگ کہتے ہیں اس میں کوئی بھوت ہے۔ ایک شخص یہاں قتل ہوا تھا۔ ا سکی روح اب بھی اس میں بھٹکتی ہے۔" شبر نے کہا۔

"نہیں، اس میں ایک بھوت نہیں ہے بلکہ دو بھوت ہیں۔" عابد نے کہا۔ پھر اس نے وہ ساری کہانی شبیر کو سنائی جو اس نے صبح سنی تھی۔

"ہو سکتا ہے، دو ہی ہوں۔ مگر کوئی حویلی ی طرف جاتا نہیں ہے۔" شبیر نے کہا۔

اچانک زاہد کی نظر اپنی گھڑی پر پڑی۔ "ارے۔ بارہ بج گئے، چلو گھر چلیں۔"

شبیر نے ایک چھوٹا سا ناشتے دان ایک شاخ سے اتارتے ہوئے کہا، "آؤ پہلے کھانا کھا لیں۔ میں تو اکثر گھر سے کھانا لے آتا ہوں اور شام تک یہیں رہتا ہوں۔"

ناشتے دان میں تین پراٹھے اور قیمہ تھا۔ عابد اور زاہد ضرور کھا لیتے مگر یہ کھانا ان تینوں کے لیے ناکافی تھا۔ اس سے کسی کا بھی پیٹ نہ پھرتا۔
 
Top