پروف ریڈ اول کودک کہانی : حویلی کے بھوت

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "حویلی کے بھوت" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل تئیس اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کہانی کو مقدس ٹائپ کر رہی ہیں۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

شکریہ


HKB%20-%20001.gif

 

مقدس

لائبریرین
حویلی کے بھوت


"کمال ہے!ابھی تک چچا جان نے ہمارے خط کا جواب نہیں دیا۔" عابد نے درخت پر چڑھے چڑھے جیسے خود سے کہا۔ وہ اپنے گھر سے کوئی تیس گز کے فاصلے پر ایک اونچے سے درخت پر چڑھا ہوا تھا۔

اس کا بھائی، زاہد اس سے بھی اوپر ایک اور شاخ پر بیٹھا تھا۔ اس کے پاس اس کی دوربین تھی، جس سے وہ دور سے آتے ہوئے ائیرفورس کے جہازوں کو دیکھ رہا تھا۔

عابد کو تو اس خط کے جواب کی فکر تھی، جو اس نے دس پندرہ روز پہلے اپنے چچا حامد حسین خان کو بھیجا تھا۔

عابد گیارہ برس کا تھا اور زاہد اس سے دو تین سال بڑا۔ انھوں نے اپنے چچا کو لکھا تھا کہ ان کی چھٹیاں یہ لوگ ان کے پاس گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کے چچا ھامد حسین خان فاریسٹ آفیسر تھے اور شمالی علاقے میں جنگلات کی دیکھ بھال پر تعنیات تھے۔ انھیں اپنے ان دونوں بھتیجوں سے بہت محبت تھی اور اکثر وہ انھیں اپنے پاس بلاتے رہتے تھے بچے بھی ان کے پاس جا کر چھٹیاں گزار کر بہت خوش ہوتے تھے۔

حامد حسین خان کی بیوی شادی کے چند ماہ بعد ہی اللہ کو پیاری ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے شادی نہیں کی۔ وہ جنگلات کے کام میں لگے رہتے۔

چڑیوں اور جانوروں سے انھیں بہت دل چسپی تھی۔ انھیں اپنی اس زندگی
 

مقدس

لائبریرین
سے پیار تھا اور اس میں وہ مطمن تھے۔ اپنی اس دل چسپی کی وجہ سے انھیں جنگلی جانوروں کی عادتوں اور خصلتوں کے بارے میں خاصی معلومات تھی۔

کبھی کبھار اپنی عادت کے خلاف انھیں شکار بھی کرنا پڑتا۔ انھوں نے کئی آدم خور جانور بھی مارے، اس کی وجہ سے آس پاس کے گاؤں میں ان کی بڑی عزت تھی۔ وہ اپنی اور اپنے دوست کی شکاری زندگی کے تجربات بڑے مزے لے لے کر سناتے۔ وہ مشہور شکاری جم کاربٹ کی طرح تھے۔ عابد اور زاہد کبھی کبھی ان کو جم کاربٹ کے نام سے پکارا کرتے۔

عابد نے کہا۔ "تمھارا کیا خیال ہے؟ کیا خط راستے میں کہیں کھو گیا ہو گا۔"

"نہیں۔" زاہد نے جواب دیا۔ وہ اب بھی دوربین لگائے دور دیکھ رہا تھا۔

عابد اس کے جواب سے مطمن نہ ہوا۔ "بتاؤ نا ۔تمھیں یہ کیسے پتا کہ خط کہیں کھویا نہیں۔"

"بس! چھٹی حس کہہ لو یا کوئی تمھارے اندر تمھیں بتائے کہ یہ یوں ہو گا یا نہیں۔"

عابد نے غیر یقینی انداز سے بھائی کو دیکھا۔ "چچا جاں، ہمیشہ خط کا جواب دیتے ہیں۔ اس دفعہ انھوں نے کیوں نہیں دیا۔"

"مجھے ڈاکیا آتا دکھائی دے رہا ہے۔" اچانک زاہد نے کہا۔

عابد نے فوراً ہی درخت سے چھلانگ لگائی۔ تاکہ ڈاکیے کو گیٹ پر ہی جا لے۔ مگر ڈاکیا ان کے گیٹ کے پاس سے گزر گیا۔ مایوسی سے عابد واپس آگیا۔ ابھی وہ درخت پر چڑھ ہی رہا تھا کہ اسے گاڑی کی آواز آئی۔ اس نے دیکھا ایک جیپ دھول اڑاتی چلی آ رہی ہے۔

"یہ چچا جان ہین۔" دونوں ایک ساتھ چلائے اور جلدی سے درخت سے کود کر گھر کی طرف بھاگے۔

یہ چچا جان ہی تھے۔

"کیسے ہو! بچو! ٹھیک ٹھاک۔"

"بالکل ٹھیک۔ چچا جان! کیا آپ کو ہمارا خط نہیں ملا تھا" عابد نے پوچھا۔
 

مقدس

لائبریرین
"ملا تھا۔ بالکل ملا تھا۔ جبھی تو میں یہاں ہوں۔" انھوں نے عابد کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

عابد بے غور سے بھائی کی طرف دیکھا اس کی چھٹی حس کتنی صحیح تھی۔ دونوں بچے چچا کے آنے سے بےحد کوش تھے۔ مگر ایک بات انھیں پریشان کر رہی تھی، چچا جان ہمیں بلانے کے بجائے، خود کیوں آگئے ہیں؟ کیا وہ اپنی چھٹیاں یہاں گزارنا چاہتے ہیں؟

جب چچا جان اپنی بندوق کے ساتھ جیپ سے اترے تو عابد نے پوچھا،
"چچا جان! آپ ہمارے پاس چھٹیاں گزارنے آئے ہیں؟"
"نہیں بھئی۔ ہمیں تمھاری طرح چھٹیاں نہیں ملتیں۔" چچا جان نے کہا، "میں تو سرکاری کام سے آیا ہوں۔"

وہ بھی جانتے تھے کہ ان کئ یہاں آنے سے بچوں کو مایوسی ہو گئی۔ تبھی انھوں نے کہا ۔"میں اس لیے بھی آیا ہوں کہ تم دونوں کو کل اپنے ساتھ لے جاؤں، ہم کل صبح ہی روانہ ہو جائیں گے۔"

یہ خبر سنتے ہی دونوں بچوں میں جیسے بجلی بھر گئی اور وہ خوشی سے دوڑتے ہوئی امی کو یہ خبر سنانے گھر کے اندر چلے گئے۔
 

مقدس

لائبریرین
نہا دھو کر، تیار ہو کر حامد حسین خان تو پلاننگ کمیشن کے دفتر چلے گئے۔ ان کے ساتھ زیاہد کے ابو شاہد حسین بھی تھے۔ جاتے جاتے وہ اپنے نوکر جمن کو جیپ دھونے کا کہہ گئے۔

جمن، حامد حسین کے ساتھ رہتا تھا۔ ان کے لیے کھانا پکاتا اور دوسرے کام کرتا۔ یہ کوئی پندرہ برس سے ان کے ساتھ تھا۔

ٹامی۔ ان کا دوسرا ساتھی تھا، یعنی ان کا پالتو کتا۔ یہ بھی شکار کے علاوہ جہاں جہان حامد حسین خان جاتے ان کے ساتھ جاتا۔ ٹامی اب بوڑھا ہو چلا تھا۔ اس کی عمر بارہ سال تھی۔ اب یہ اتنا چست چالاک نہ رہا تھا جتنا کہ پہلے کبھی تھا اور بھاگ بھاگ کر یہ اپنے مالک کے ساتھ شکار کرتا تھا، مگر اب بھی یہ خاصا ٹھیک ٹھاک تھا۔

زاہد اور عابد نے اپنی امی کے ساتھ مل کر اپنا سامان ٹھیک کیا۔ زاہد نے خاص طور پر اپنی دوربینرکھی، کیوں کہ اسے چڑیوں کو ارتے دیکھنا بہت پسند تھا۔ عابد نے اپنی کتابیں اور اپنا پینٹینگ کا سامان رکھا اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کیمرا بھی، یہ کیمرا اس کے ابو نے اسے پچھلی سالگرہ پر دیا تھا۔ عابد اس بات سے بہت خوش تھا کہ اس کے چچا جان کے پاس شکار، سیاحت اور تاریخ پر بہت سی کتابیں تھیں اور وہ پڑھنے کا خاصا شوقین تھا!

سب سامان رکھنے کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنے دوستوں کو اللہ حافظ کہنے کا ارادہ کیا۔

"تم پہلے کھانا تو کاھ لو۔ گھنٹہ بھر میں تیار ہو جائے گا۔" امی نے کہا۔
 

مقدس

لائبریرین
"نہیں امی! ہم پہلے دوستوں سے مل آئیں۔"

"پھر کھانے کے وقت تک آجانا۔"

"ہم کوشش کریں گے اور اگر کھانے تک نہ آءیں تو آپ لوگ کھا لیجیئے گا۔ ہم اپنے دوستوں کے ہاں کھا لیں گے۔"

"اچھا۔" امی نے کہا۔

دونوں بھائی سائکلوں پر بیٹھ کر دوستوں کی طرف چلے گئے۔

شام کو جب یہ لوگ واپس لوٹے تو سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

"تم نے کبھی نیولے کو سانپ مارتے دیکھا ہے۔" چچا نے باتوں باتوں میں عابد سے پوچھا۔

"نہیں چچا جان۔ کیا آپ نے دیکھا ہے؟" عابد نے پوچھا۔

"ہاں، آج ہی صبح میں نے راستے میں دیکھا کہ ایک نیولے نے سانپ مار دیا۔" چچا نے کہا۔

"بتائیے نا چچا جان ، پورا واقعہ سنائیے۔" عابد نے کہا،

"اتفاقاً ہی میں نے یہ زبردست لڑائی دیکھی۔ راستے میں میں نے ایک نیولا دیکھا تو جیپ روک لی۔ وہ ایک طرف کو جا رہا تھا۔ اچانک نیولا رک گیا۔ اس کے بال کھڑے ہو گئے۔ اب مجھے پتا چلا کہو ہ کیوں بھاگتے ہوئے اس طرح رک گیا تھا سامنے سے ایک کوبرا سانپ آ رہا تھا جسے اس نے دیکھ لیا تھا۔"

بچے آنکھیں پھاڑے حیرت سے یہ قصہ سن رہے تھے۔

"نیولا اور سانپ تو ہمیشہ سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔" زاہد نے کہا۔

چچا جان نے کہا۔ "ہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں انھوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ مگر کسی نے بھی حملہ کرنے میں جلدی نہ دکھائی۔ نیولا پہلے آہستگی سے پیچھے ہٹا، تاکہ سانپ کو زیادہ جگہ مل سکے۔ پھر کھیل شروع ہو گیا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ پھر سانپ آگے بڑھا اس نے اپنا سر کوئی
 

مقدس

لائبریرین
ایک فٹ زمین سے اٹھایا پھر اس نے پھن ادھر ادھر گھمانا شروع کر دیا۔ مگر نیولا بھی بہت چالاک تھا۔ پھرتی سے ادھر ادھر ہو جاتا اور سانپ کا ہر وار خالی جاتا۔ یہ اتنی دیر تک ہوتا رہا کہ سانپ بالکل تھک گیا۔ اب نیولے کے حملہ کرنے کی باری تھی۔ اس نے ہوا میں چھلانگ لگائی اور سانپ کو گردن سے پکڑ لیا۔ اتنی طاقت سے اس نے اپنے دانت سانپ کی گردن میں گاڑے کہ اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔"

"کبھی نیولا بھی تو ہار جاتا ہو گا۔" عابد نے کہا۔

"ہاں، اگر وہ سانپ کی گردن پکرنے میں ناکام ہو جاتا تو اس سے پہلے کہ سانپ اسے ڈس لے وہ اس کی دم کی فطرف چھلانگ لگا دیتا۔ اس جانور کی پھرتی قابل دید ہے۔"

پھر، بعد میں چچا جان نے کھانے پر انھیں اپنا ایک اور دل چسپ تجربہ سنایا۔ کہنے لگے،

"سال بنی کی پہاڑیوں کے پاس میں نے ایک چیتے کے بارے میں سنا کہ کس طرح یہ لوگوں کو ہراساں کر رہا یے اور بے شمار بھیڑیں اعر کتے کھا چکا ہے۔ اور اب آدمیوں پر بھی حملے کرنے لگا ہ۔ میں نے ہفتہ بھر کوشش کے بعد ایک روز اسے جھاڑیوں میں پالیا اور زخمی کر دیا۔

یہ سن کر عابد کی امی خاصی پریشان ہو گئیں۔

"دیکھو! تم چچا جان کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلنا۔" انھوں نے تنبہیہ کی۔

"ہاں بھئی ان کے ساتھ باڈی گارڈ ہونا چاہیے۔" ابو نے مسکرا کر کہا۔

چچا جان بھی مسکرائے، "تم کو وہاں زیادہ دور جانے کی اجازت نہ ہو گی۔"

زاہد اور عابد کئ منھ لٹک گئے۔ وہ اب اتنے چھوٹے بھی نہیں تھے۔ پھر بھی انھوں نے ابو امی سے وعدہ کیا کہ وہ محتاظ رہیں گے اور کسی مشکل میں نہ پھنسیں گے۔
 

مقدس

لائبریرین
اگلے روز صبح سویرے یہ دونوں چچا جان اور جمن کے ہمراہ جیپ پر روانہ ہوئے۔ زاہد اور عابد چچا جان کے ساتھ آگے سیٹ پر بیٹھے اور جمن اور ٹامی پیچھے۔

شہر کی حدود سے نکلتے نکلتے خاصی صبح ہو چکی تھی۔ سورج نکل آیا تھا۔ لوگ بھی جاگ اٹھے تھے۔ دودھ والے، سائیکلوں پر دودھ کے بڑے بڑے ڈبے لٹکائے دودھ دینے نکلے ہوئے تھے۔ گاڑیوں پر سبزیاں اور پھل دیہات سے شہر کی طرف آ رہے تھے سرک پر ٹریفک کا شور تھا۔ بڑے بڑے ٹرک بھاری سامان سے لدے ہوئے شور مچاتے گزر رہے تھے۔

جب گاڑی اور آگے گئی تو تریفک کا زور کم ہو چکا تھا۔ جیپ نے بھی رفتار پکڑ لی اور اب ڈرئیونگ کا صحیح لطف آ رہا تھا۔ ان لوگوں کے پاس آج کا سارا دن تھا جس میں انھیں چچا جان کے ہیڈ کواٹر کا راستہ طے کرنا تھا۔

شہر سے باہر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف، جہاں تک نظر جاتی لہلاتے کھیت تھے۔۔ سورج کی روشنی میں درختوں کے پتے چمک رہے تھے۔ سرسوں کے کھیتوں میں پیلے پیلے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ نیلا آسمان، پیلے پھول، پرے پتے مل کر بہت ہی خوب صورت منظر پیش کر رہے تھے، کہیں کہیں بڑے درخت بھی تھے۔ گاؤں میں لوگ چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔

جیسے جیسے جیپ پہاڑوں کے قریب آتی گئی، منظر بدلتا گیا۔ اب سڑک غیر ہموار اور پتھریلی تھی۔ پیڑ بھی لمبے اور سیدھے سیدھے تھے۔ طرح طرح کے درخت اور پہاڑی علاقے کو دیکھ کر بچے خوش ہو رہے تھے۔
 

مقدس

لائبریرین
چچا جان کوئی خوب صورت منظر دیکھتے تو جیپ روک دیتے۔ کبھی کسی پرانی عمارت کو دیکھ کر عابد ان کی تصویریں کھینچتا۔ پرانی عمارتیں اور کھنڈرات ہمیشہ سے عابد کو پسند تھے۔ اس کو مصوری سے بھی خاصی دل چسپی تھی۔ کئی جگہ چچا جان نے جیپ روکی اور عابد نے کھنڈرات کی تصویریں کھینچیں۔

راستے میں ایک جگہ انھوں نے بہت سارے لوگ دیکھے۔

"چچا جان، یہ لوگ کیوں جمع ہیں، کیا ہو رہا ہے؟"

"آؤ تمھیں دکھائیں۔ یہ ایک میلا ہے۔" حامد حسین خان نے کہا اور جیپ روک دی۔
جمن سے کہا کہ وہ سامان اور جیپ کی دیکھ بھال کرے اور یہ تینوں میلا دیکھنے چلے گئے۔
 

مقدس

لائبریرین
لوگ قریب قریب کے گاؤں سے میلے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ گاؤں الوں کے لیے میلا خاص دل چسپی کا موقعہ ہوتا ہے۔ اس میں وہ کچھ تفریح بھی کر لیتے ہیں اور کچھ خریداری بھی؛ بھڑکیلے رنگوں کے کپڑے پہنے عورتیں، بڑی بڑی پگڑیوں والے مرد سب مل جل کر رنگا رنگ سماں پیش کر رہے تھے۔ قریب پہنچ کر عابد اور زاہد نے محسوس کیا کہ یہاں تو بڑا شور ہو رہا ہے۔

باجے بج رہے تھے، جھولے چل رہے تھے، بچے چیخ رہے تھے، بھاگ دوڑ رہے تھے، کتے بچے کھچے کھانے پر آپس میں لڑ رہے تھے۔ درختوں کے نیچے فقیر زور زور سے "اللہ کے نام پہ دے جا۔" کی صدائیں لگا رہے تھے۔

غرض کہ ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔ ایک طرف لوگ بندر کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ بندر والا ڈگڈگی بجا کر گلا پھاڑ پھاڑ کر بندر کو نچا رہا تھا۔ لوگ اس تماشے کو دیکھ کر بےتحاشا ہنس رہے تھے۔ بچے تالیاں بجا رہے تھے۔

"چلو چلیں۔" چچا جان نے کہا۔ "یہاں تو بڑا شور ہے۔"

زاہد اور عابد کو ئی میلا بڑا اچھا لگر ہا تھا اور وہ ابھی کچھ دیر اور ٹھیرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے سیکھا کہ تھوڑی دور برگد کے گھنے درخت کے نیچے کچھ لوگ جمع ہیں۔

"چچا جان! ادھر نہ چلیں! دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔" عابد نے کہا۔

"چلو۔"

درخت کے نیچے سولر ہیٹ پہنے ایک شخص توتے اور بیا کا تماشا دکھا رہا تھا۔ ان لوگوں کو دیکھتے ہی اس نے دوبارہ تماشا شروع کر دیا۔ ایک پیتل کی کھلونے والی
 
Top