پروف ریڈ اول کودک کہانی : بیہودہ مذاق

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "بیہودہ مذاق" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل نو اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

bmz1.gif
 

مقدس

لائبریرین
بہت دن گزرے، بنگال پر ایک سلطان کی حکومت تھی۔ اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی، جس کا نام اسما تھا۔ اسما خوب سیرت اور بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ خوب صورت بھی ایسی تھی کہ چندے آفتاب، چندے ماہ تاب۔ سلطان اکثر کہا کرتا کہ میری بیٹی اپنی مثال آپ ہے، لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود اس میں ایک کمی بھی تھی، وہ یہ کہ شاہ زادی ہمیشہ سنجیدہ رہتی تھی ہنسنا تو الگ، رہا وہ کبھی مسکرائی تک نہیں۔

سلطان شاہ زادی اسما کو ہنسانے کے لیے ہر ممکن ترکیب کرتا۔ درباری مسخرا لطیفے بیان کرتا، نقلیں اتارتا اور ایسے ایسے کرتب دکھاتا کہ لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ سلطان خود تو ہنستا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے، لیکن شاہ زادی ہر جیسے کوئی اثر ہی نہ ہوتا۔ وہ خاموش بیٹھی رہتی۔ جب سب لوگ چپ ہو جاتے تو وہ تنک کر کہتی: "واہ، یہ بھی
 

مقدس

لائبریرین
کوئی ہنسنے کی بات تھی۔"

بادشاہ اپنی آنکھیں پونچھ کر کہتا: "میری نور نظر! شاید تم نے سمجھا نہیں، یہ مذاق تھا۔

شہزادی اسماء جھٹ سے کہتی: "وہ تو میں جانتی ہوں کہ یہ ایک مذاق تھا، لیکن اس میں ہنسنے اور زور زور سے قہقے لگانے کی کیا ضرورت تھی؟"

شاہ زادی اسما ہمیشہ یہی کہتی کہ وہ مذاق کی باتوں کو اور لوگوں کی طرح سمجھتی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ وہ اور لوگوں کی طرح قہقے نہیں لگاتی۔

سلطان کہتا: "اگر تم میں مذاحیہ باتیں سمجھنے کی حس ہے تو تمہھیں ضرور ہنسنا چاہیے۔ میری عزیز بیٹی! اس دنیا میں ہر انسان دکھوں اور تکلیفوں میں گھرا ہے، اگر کوئی شخص اپنی باتوں یا عمل سے دوسروں کو ہنساتا ہے تو یہ عین ثواب کا کام ہے، کیوں کہ اس طرح وہ دوسروں کے دکھ درد سے ان کی توجہ ہٹا کر انھیں راحت پہنچا رہا ہے اور ان میں ایک نئی روح پھونک رہا ہے۔ میں ایسے لوگوں کو بہت اچھا سمجھتا ہوں، جو دوسروں کو ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔"

شاہ زادی بےزاری سے کہتی: "مجھے آپ کا یہ فلسفہ پسند نہیں آتا۔"

سلطان ایک آہ بھر کر رہ جاتا۔

سلطان اپنی پوری کوشش کرتا کہ کسی طرح شاہ زادی مسکرا دے۔ کبھی اسے ایک لاکھ لطیفے کتاب سے سناتا، کبھی ملا نصیر الدین کی دل چسپ باتیں سناتا، کبھی شیخ چلی کی حماقتیں سناتا، لیکن شاہ زادی اسما نہ کبھی ہنسی' نہ مسکرائی۔ درباری مسخرے کی حرکتیں بھی اس کی سنجیدگی دور نہ کر سکیں۔ شاہ زادی نیک سیرت تھی، خوب صورت تھی لیکن اس کے چہرے پر کھلتے ہوئے غنچوں کی مسکراہٹ نہ تھی۔

آخر سلطان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ شاہ زادی کو ہر قیمت پر ہنسا کر چھوڑے گا۔ سلطان نے اپنے وزیر اعظم سے مشورہ کیا۔ وزیر اعظم ملک کا عقل مند ترین
 

مقدس

لائبریرین
آدمی تھا۔ اس نے کافی سوچ بچار کے بعد کہا: "حضور! میری مانیے۔ ملک بھر میں اعلان کرا دیجیے کہ جو شخص شاہ زادی اسما کو ہنسا دے گا، اس کی شادی شاہ زادی سے کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسے آدھی سلطنت بھی انعام میں دے دی جائے گی۔"

سلطان نے شاہ زادی سے پوچھا: "بیٹی! تم کیا کہتی ہو؟"

شاہ زادی بولی: "ابا حضور! آپ کا حکم سر آنکھوں پر، ورنہ مجھے نہ ہنسنے کی آرزو ہے ، نہ کوئی ارمان۔"

سلطان نے وزیر اعظم کی طرف اشارہ کر کے کہا: "یہ اعلان کرا دیا جائے کہ دوپہر کے بعد وہ تمام لوگ دربار میں جمع ہو جائیں جو شاہ زادی کو ہنسانے کے لیے نت نئے لطیفے، پہلیاں اور کہانیاں سنا سکیں۔ جو شخص شاہ زادی کو ہنسانے میں کام یاب ہو جائے گا، شاہ زادی کی شادی اس سے کر دی جائے گی اور اسے آدھی سلطنت بھی بطور انعام دی جائے گی۔"
 

مقدس

لائبریرین
اگلے دن دوپہر کے بعد دربار میں بےشمار کوگ جمع ہو گئے۔ ہر کوئی پرمزاح لطیفے، ہنسانے والی کہانیاں اور گدگدانے والے چٹکلے لے کر آیا تھا۔ ان میں وزیر اعظم کا بیٹا عنبر بھی شامل تھا۔ عنبر موٹا، بھدا اور بدشکل تھا۔ پڑھا لکھا بھی معمولی ساتھا۔ نہ گفتگو کا سلیقہ تھا، نہ ادب، نہ تمیز۔

شاہ زادی کے سامنے سب لوگ باری باری اپنے اپنے لطیفے، چٹکلے اور کہانیاں سنانے لگے، لیکن شاہ زادی بدستور خآموش رہی۔ آخر عنبر کی باری آگئی۔ اس نے مسکرا کر کہا: "شاہ زادی صاحبہ! ذرا آپ میرے سر کا گنج ملاحظہ فرمائیے؛" یہ کہہ کر اس نے سر سے توپی اتار کر اپنا صفا چٹ سر شاہ زادی کے آگے جھکا دیا۔ دربار کے لوگ یہ حرکت دیکھ کر مسکرا دیے۔

عنبر نے کہا: "اس گنج سے بہت عجیب سی کہانی وابستہ ہے۔ میں نے گنج دور کرنے کے لیے ایک دوا استعمال کی۔ گنج تو جاتا رہا، لیکن میرے دانتوں میں درد رہنے لگا۔ دانتوں کا علاج کیا۔ درد تو جاتا رہا، لیکن مجھے بخار رہنے لگا۔ بخار کا علاج کیا تو بخار دور ہو گیا، لیکن سے کے بال جھڑ گئے اور میں پھر گنجا ہو گیا۔"

سلطان نے ایک زور دار قہقہ لگایا۔ دوسرے لوگ بھی ہنسے یا مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔
شاہ زادی خفا ہو کر بولی: " اس میں سارا قصور تمھارا ہی ہے۔ کسی اچھے حکیم کو دکھایا ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا۔"

عنبر ہکلا کر رہ گیا۔ ذرا دیر بعد وہ ہمت کر کے بولا: "شاہ زادی صاحبہ! بعض دفعہ بد حواسی میں جملے کے الفاظ الٹ جاتے ہیں۔ ایک بار ایک صاحب بدحواسی میں بولے: "میں پھسلیوں سے سیڑھتا چلا گیا؛" (یعنی سیڑھیوں سے پھسلتا چلا گیا) اس پر سب لوگ اس کا مذاق ارانے لگے۔"

ایک صاحب بولے: "آج تو موجر گالیاں (گاجر مولیاں) کھانے کا جی چاہ رہا ہے۔"

تیسرے نے کہا: " اس حد بواس (بدحواس) کی خطا معاف کرو۔ بےچارہ پہلے پھسلیوں سے سیڑھ کر (سیڑھیوں سے پھسل کر) حدبواس (بدحواس) ہو رہا ہے۔"

دربار میں موجود سب لوگ ہنس رہے تھے۔ سلطان تو ہنستے ہنستے تخت سے لڑھک گیا۔ البتہ شاہ زادی خفا ہو کر بولی: "نری بکواس۔ بھلا ان بے معنی الفاظ ہر ہنسنے کی کیا
 

مقدس

لائبریرین
تک ہے؟"

عنبر کا منھ لٹک گیا اور وہ مایوس ہو کروہاں سے ہٹ گیا۔ اب ایک اور نوجوان کی باری تھی۔ اس نے ایک پہیلی بھجوائی:

"آ ڈول، جاڈول- پانی بھر بھر لاڈول!

ندی نالے بہا ڈول

جو بوجھے اس کا بھلا، جو نہ بوجھے اس کی ناک میں ڈلا۔"

جو لوگ پہلی کو جان گئے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑنے لگی، جو نہ بوجھ سکے، وہ کھسیانی ہنسی ہنسنے لگے۔ بادشای بھی بار بار سر کجھا کر پہلی کا حل ڈھونڈ رہا تھا۔ آخر کچھ دیر بعد سلطان نے پوچھ ہی لیا۔

تب نوجوان نے بتایا: "سرکاری عالی! یہ رہٹ ہے۔"

سلطان نے ایک قہقہ لگایا۔ دوسرے لوگ بھی یہ معمولی سی پہلی نہ بوجھ سکنے پر ہنس دیے البتہ شاہ زادی تنک کر بولی: "اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے بھلا؟ جو لوگ بوجھ نہیں سکے، ان کو تو اپنی لاعلمی پر افسوس ہوتا چاہیے تھا۔"

سلطان شفقت سے بولا: "نور نظر! تم میں مزاح سمجھنے کی حس ہی نہیں۔"

اس کے بعد ایک مسخرے شاعر کی باری تھی۔ اس نے مزاحیہ شعر پڑھنے شروع کیے:

دریا الہٰی، ابر سے کیوں کر پھسل پڑا اس سال آسماں سے سمندر پھسل پڑا۔
ہرنی کہٰں پہاڑ سے نکلی پھسل پڑی چیونٹی بھی جب دراڑ سے نکلی پھسل پڑی
لنگور گر پڑا، کہیں بندر پھسل پڑا

تیزی میں ڈاکیا کوئی جھٹ پٹ سے آرہا صاحب بھئ آتے جاتے میں کھٹ پٹ سے آ رہا
الجھا جولاہا بان میں اور کھٹ سے آرہا کوئی تو چت گرا، کوئی کروٹ سے آ رہا
بابو پھسل پڑا اور بابا پھسل پڑا

سب لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے، لیکن شاہ زادی بالکل سنجیدہ بیٹھی رہی، جب شاعر صاحب چپ ہوئے تو شاہ زادی رکھائی سے بولی: "اور کون کون پھسل پڑا شاعر صاحب!"
 

مقدس

لائبریرین
تک ہے؟"

عنبر کا منھ لٹک گیا اور وہ مایوس ہو کروہاں سے ہٹ گیا۔ اب ایک اور نوجوان کی باری تھی۔ اس نے ایک پہیلی بھجوائی:

"آ ڈول، جاڈول- پانی بھر بھر لاڈول!

ندی نالے بہا ڈول

جو بوجھے اس کا بھلا، جو نہ بوجھے اس کی ناک میں ڈلا۔"

جو لوگ پہلی کو جان گئے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑنے لگی، جو نہ بوجھ سکے، وہ کھسیانی ہنسی ہنسنے لگے۔ بادشای بھی بار بار سر کجھا کر پہلی کا حل ڈھونڈ رہا تھا۔ آخر کچھ دیر بعد سلطان نے پوچھ ہی لیا۔

تب نوجوان نے بتایا: "سرکاری عالی! یہ رہٹ ہے۔"

سلطان نے ایک قہقہ لگایا۔ دوسرے لوگ بھی یہ معمولی سی پہلی نہ بوجھ سکنے پر ہنس دیے البتہ شاہ زادی تنک کر بولی: "اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے بھلا؟ جو لوگ بوجھ نہیں سکے، ان کو تو اپنی لاعلمی پر افسوس ہوتا چاہیے تھا۔"

سلطان شفقت سے بولا: "نور نظر! تم میں مزاح سمجھنے کی حس ہی نہیں۔"

اس کے بعد ایک مسخرے شاعر کی باری تھی۔ اس نے مزاحیہ شعر پڑھنے شروع کیے:

دریا الہٰی، ابر سے کیوں کر پھسل پڑا اس سال آسماں سے سمندر پھسل پڑا۔
ہرنی کہٰں پہاڑ سے نکلی پھسل پڑی چیونٹی بھی جب دراڑ سے نکلی پھسل پڑی
لنگور گر پڑا، کہیں بندر پھسل پڑا

تیزی میں ڈاکیا کوئی جھٹ پٹ سے آرہا صاحب بھئ آتے جاتے میں کھٹ پٹ سے آ رہا
الجھا جولاہا بان میں اور کھٹ سے آرہا کوئی تو چت گرا، کوئی کروٹ سے آ رہا
بابو پھسل پڑا اور بابا پھسل پڑا

سب لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے، لیکن شاہ زادی بالکل سنجیدہ بیٹھی رہی، جب شاعر صاحب چپ ہوئے تو شاہ زادی رکھائی سے بولی: "اور کون کون پھسل پڑا شاعر صاحب!"
 

مقدس

لائبریرین
بے چارہ شاعر بغلیں جھانکنے لگا۔

باری باری سب لوگ اپنی سی کوشش کر کے چلے گئے۔ آخر میں صرف دو امیدوار رہ گئے۔ ایک تو عنبر تھا جو وزیر زادہ ہونے کی وجہ سے اس رعایت کا مستحق ٹھہرا تھا کہ وہ ایک اور کوشش کرے گا۔ ویسے بھی کمالات پیش کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ ہر شخص کو مکمل آذادی تھی کہ جتنے چاہے کھیل یا مذاق پیش کر سکتا ہے۔ دوسرا شخص ایک نوجوان تھا، جس کا نام احمر تھا۔ احمر خوبصورت، چاق و چوبند اور بہت حاضر جواب تھا۔ وہ شاہ زادی کو ملا نصر الدین کی ایک دل چسپ کہانی سنانے لگا۔ ادھر عنبر نے سب کی نظروں سے چھپا کر کھڑکی کے وریب فرش پر دور دور تک مکھن مل دیا۔ عنبر نے کام اس پھرتی اور چالاکی سے کیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ جب احمر کہانی سنا چکا تو سب لوگ دل کھول کر ہنسے اور مسکرائے، لیکن شاہ زادی اسما منھ بنا کر بولی: "معلوم ہیں، لوگ ایسی من گھڑت اور بےکار کہانیوں پر کیوں ہنستے ہیں؟"

بےچاری احمر سر جھکائے ناکام لوٹا۔

عنبر نے کہا: "شاہ زادی صاحبہ! آپ حکم فرمائیں تو میں ایک ایسا دل چسپ تماشا دکھاؤں کہ آپ اور دربار میں موجود سب لوگ ہنسے بغیر نہ رہ سکیں گے۔"

شاہ زادی سے سر ہلا کر منظوری دے دی۔

عنبر نے کہا: "یہ ایک عملی قسم کا مذاق ہے۔ میں تماشا دکھانے کے لیے کافی جگہ چاہتا ہوں۔ مہربانی فرما کر سب لوگ ایک ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں۔"

سب لوگوں نے ایسا ہی کیا۔

عنبر نے احمر سے کہا: "آپ بھی دو چار قدم کھڑکی کی طرف ہو جایئے۔" احمر باوقار انداز میں کھڑکی طرف بڑھا۔ جوں ہی اس نے مکھن سے چکنا کیے فرش پر قدم رکھا، وہ پھسل گیا اور دھڑام سے فرش پر گر پڑا۔ احمر فرش پر لیٹا ہوا ہوا میں ٹانگیں چلانے لگا۔

شاہ زادی نے جوں ہی اس کی مضحکی خیز حالت دیکھی، وہ اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکی: " اوہوہوہو ۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔ہہ ہہ ہہ۔"
 

مقدس

لائبریرین
یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا ہے۔ اس کے قہقے بلند سے بلند ہوتے چلے گئے۔ پھر ہنسی کی آواز دھیمی ہونے لگی، پھر بلند ہونے لگی۔بہت مشکل سے اس نے قہقوں کو روک کر کہا: " میں نہیں جانتی کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ میری ہنسی رکنے میں نہیں آ رہی۔ ہاہاہا۔" شاہ زادہ پھر ہنسنے لگی۔

تب عنبر سلطان کے سامنے کورنش بجا لا اور بولا: "سرکار! شاہ زادی کو ہنسانے کا کارنامہ آپ کے اس خادم نے سر انجام دیا ہے۔ اب آپ اپنا وعدہ بھی پورا کیجیئے۔"

سلطان ہکا بکا سا ہو کر بولا: "ہم تمھار مطلب نہیں سمجھے۔ اس شخص کے پھسلنے سے تمھارا کیا تعلق ہے؟"

تب عنبر نے پورے واقعے کو خوب مزے لے لے کر بتایا کہ کس طرح اس نے چالاکی سے فرش پر مکھن مل دیا تھا اور احمر کو گرانے کی ترکیب نکالی تھی۔

دربار میں ایک شور برپا ہو گیا۔ سب لوگ اپنی اپنی رائے بیان کر رہے تھے۔ کوئی عنبر چالاکی پر لعنت بھیج رہا تھا، کوئی احمر سے ہمدردی کر رہا تھا۔ سلطان تیوری چڑھا کر بولا: "حالات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاہ زاردی کو ہنسایا ہے، لیکن یہ کام تم نے اکیلے سر انجام نہیں دیا۔ اس میں اس شخص احمر کا بھی حصہ ہے۔ معزز درباریو! تمھاری کیا رائے ہے؟"

ایک بار پھر شور ہونے لگا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کچھ لوگ عنبر کی حمایت میں چلا رہے تھے، کچھ احمر کی طرف داری میں چیخ رہے تھے۔ شاہ زادی عنبر کی ہونق صورت اور حال حلیہ دیکھ کر پریشان ہوئی جا رہی تھی۔ احمر شاہ زادی کی پریشانی بھانپ گیا۔

احمر نے کہا: " سلطان معظم! اگر آپ اس خادم کی گزارش قبول فرمائیں تو ذرا دیر میں فیصلہ کر دکھاؤں۔"

سلطان نے احمر کی بات قبول کر لی۔ احمر نے کہا: "شاہ زادی صاحبہ! براہ کرم آپ ذرا یہاں تشریف لائیے۔"

شاہ زادی اسما احمر کی طرف چلی۔ جوں ہی اس کا پاؤں چکنے فرش پر پڑا وہ پھسل کر گری ۔
 

مقدس

لائبریرین
شاہ زادی کے منھ سے ایک زور دار چیخ نکلی۔ سب درباری "اللہ کی امان"، "اللہ کی پناہ" پکارنے لگے۔ سو تین خادماؤں نے مل کر شاہ زادی کو اٹھایا۔

احمر ہاتھ جوڑ کر بولا: "جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں!"

سلطان نے امان دی، تب احمر نے کہا: " سرکار عالی! کیا وجہ ہے کہ جب شاہ زادی گری تو نہ وہ خود ہنسی، نہ دربار میں موجودلوگ ہنسے۔ حضور! اگر عنبر کا مذاق ایسا ہی پرلطف ہے تو سب لوگوں کو قہقہے لگانے چاہیے تھے۔"

سلطان چیخ کر بولا: " گستاخ! بدتمیز! ہمیں شاہ زادی کے پھسل کر گرنے پر بہت تکلیف اور صدمہ پہنچا ہے۔"

احمر ہاتھ جوڑ کر بولا: " سرکار! میرے گرنے پر تو سب ہنسے تھے!"

شاہ زادی خفگی سے بولی: " وہ بالکل الگ بات تھی۔"

احمر نے جواب دیا: " سرکار! ثابت ہو گیا' عنبر کا مذاق کہ لوگ پھسل پھسل کر گریں، سخت بےہودہ ہے۔ لوگ ہر کسی کے گرنے پر نہیں ہنستے، بلکی اگر کوئی معزز ہستی گر پڑے تو لوگوں کو دلی صدمہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کی ٹانگ ٹوٹ جائے یا کسی جگہ خطرناک چوٹ لھ جائے تو یہی مذاق کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔ پس! یہ ثابت ہوا کہ لوگ عنبر کے مذاق پر نہیں ہنسے تھے، بلکہ یہ خادم تھا جو بےڈھب طریقے سے گرا۔ میں نے ہوا میں لاتیں چلائیں اور جو مضحکہ خیز حرکتیں کیں، انھیں دیکھ دیکھ کر لوگ ہنسے۔ شاہ زادی اسما کا حق دار میں ہوں عالی جاہ!"

سلطان مسکرا کر بولا: "بات تو تم معقول کہتے ہو۔ میری عزیز بیٹی! تمھاری کیا رائے ہے؟"

شاہ زادی اسما نے مسکرا کر ست جھکا دیا اور آہستہ سے بولی: "احمر نے ٹھیک ہی کہا ہے۔"

عنبر نے دیکھا کہ حالات اس کے خلاف جا رہے ہیں۔ وہ چلانے لگا: "سرکار عالی! یہ سب میری وجہ سے ہوا، یہ میرے ذہن کی سوچ ہے کہ میں نے فرش پر مکھن لگایا۔ حضور! میں ثابت کر سکتا ہوں کہ میں نے ہی زاہ زادی کو ہنسایا ہے۔ اب ذرا آپ دیکھیے اور انصاف کیجیئے۔"

یہ کہہ کر وہ تیزی سے کھڑکی کی طرف دوڑا ۔ چکنائی پر پاؤں پڑتے ہی اس بری طرح پھسلا
 

مقدس

لائبریرین
کہ سنبھل نہ سکا۔ وہ قلابازی کھا کر اچھلا اور کھلی کھڑکی سے گزر کر باہر نکل گیا اور بیس فیٹ نیچے تالاب میں گڑاپ سے جا گرا۔

شاہ زادی اسما ناک سکیڑ کر بولی: " بالکل بےہودہ مذاق، معلوم نہیں، عنبر کا کیا حال بنا ہو گا۔ مجھے تو اس سے ہمدردی ہو رہی ہے۔"

سلطان نے احمر سے شاہ زادی اسما کی منگنی کا اعلان کر دیا۔ یہ تقریب بہت دیر تک جاری رہی۔ تقریب کے خاتمے پر ایک عجیب اتفاق ہوا، یعنی غلطی سے سلطان کا پاؤں چکنے فرش پر جا پڑا۔ وہ پھسل کر گر گیا۔ سب درباری اسے اٹھانے کے لیے دوڑے۔ سلطان نے جھنجھلا کر کہا: "وہ گستاخ! بےہودہ اور بدتمیز کہاں ہے؟ ابھی کوئی عنبر کو پکڑ کر لائے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ وہ ایک سو ایک دفعہ اس فرش پر پھسل پھسل کر گرے۔"

نہ جانے عنبر کا کیا حال ہوا ہوگا، جو لوگ دوسروں کے گرنے پر خوش ہوتے ہیں، ان کو ایسی ہی سزا ملنی چاہیے۔ کیوں ٹھیک ہے ناں بھئ؟

×××××××
 
Top