پروف ریڈ اول کودک کہانی : ایک نوجوان کی عجیب کہانی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "ایک نوجوان کی عجیب کہانی" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل پانچ اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

1nk1.gif
 

مقدس

لائبریرین
پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ایک گاؤں میں ایک نوجوان رہتا تھا، جس کی عادتیں خراب ہو گئی تھیں۔ وہ ہر روز جوا کھیلتا اور اکثر ہار جاتا۔ کبھی کبھی تو وہ ہر چیز جوے میں ہار جاتا تھا اور پھر اپنے باپ کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرتا تھا۔ اس کے باپ نے کئی مرتبہ ڈانٹا ڈپٹا، مگر لڑکے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ البتہ دو چیزیں اس کو ایسی عزیز تھیں کہ انھیں کبھی داؤ پر نہیں لگاتا تھا۔ یہ اس کا برچھا اور ڈھال تھی۔

ایک دن وہ بہت دیر تک جوا کھیلتا رہا اور ان دو چیزوں کے علاوہ ہر چیز ہار گیا۔ جب وہ گھر گیا تو باپ نے پوچھا کہ اتنی دیر تک وہ کیا کرتا رہا؟ اس کو جھوٹ بولنے کی عادت نہیں تھی۔ یہ بڑی خوبی تھی، اس نے سچ سچ کہہ دیا کہ وہ جوا کھیل رہا تھا اور آج ہر چیز ہار گیا۔ اس کا باپ تنگ آ چکا تھا، اس لیے اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا: "میرے بیٹے! ایک مدت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ تو جوا کھیلتا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ سمجھایا، مگر تو باز نہیں آتا۔ اب میں تیری اس حرکت کو برداشت نہیں کر سکتا۔ تو اب میرے گھر میں نہیں رہ سکتا، تو اب کسی اور جگہ چلا جا۔"

یہ سن کر نوجوان تھوڑی دیر تک سوچتا رہا، اس کے بعد اس نے کہا: "اچھا میں جاتا ہوں۔ اب میں ان شاءاللہ اچھے اچھے کام کروں گا۔"

یہ کہہ کر اس نے اپنا برچھا اور ڈھال اٹھائی اور گھر سے نکل گیا اور پھر گاؤں سے باہر چلا گیا۔ کچھ دیر تک وہ چلتا رہا۔ اس کے بعد اچانک اس کو ایک شور سا سنائی دیا، جیسے بڑے زور کی آندھی آ رہی ہو۔ یہ آواز اس کے قریب آتی گئی اور ایسا لگا کہ آواز اس کے سر کے اوپر سے آ رہی ہے، مگر
 

مقدس

لائبریرین
تھوڑی دیر میں آواز آنا بند ہو گئی اور کسی نے کہا: "میں تیری تلاش میں آئی ہوں۔ مھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں۔"

یہ آواز ہوا کی تھی۔ نوجوان ہوا کے ساتھ جانے پر فوراً تیار ہو گیا۔ ہوا نے اس کو اوپر اٹھایا اور مغرب کی طرف روانہ ہو گئی۔ کئی روز تک وہ دونوں مغرب کی طرف اڑتے رہے۔ راستے میں پہاڑ، دریا، سبزہ زار، ریگستان سب گزرتے رہے۔ آخر وہ دنیا کی آخری سرحد پر وہاں پہنچ گئے، جہاں آسمان جھک کر زمین سے مل جاتا ہے۔ وہاں نوجوان نے آسمان کے کنارے پر بڑا سا پھاٹک دیکھا۔ اس پھاٹک پر ایک بہت بڑا بھینسا راستہ روکے کھڑا تھا۔ اس بھینسے کی کھال لمبے لمبے بالوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہر سال اس کی کھال سے ایک بال جھڑ جاتا تھا۔ مشہور تھا کہ جب اس کے تمام بال جھڑ جائیں گے تو تمام دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جب ہوا پھاٹک پر پہنچی تو بھینسا ایک طرف ہٹ گیا۔ ہوا نوجوان کو لے کر پھاٹک کے اندر چلی گئی۔ پھاٹک سے گزرنے کے بعد نوجوان کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دونوں ایک بڑے سمندر پر سے گزر رہے ہیں۔ آسمان اور پانی کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آخر کار وہ ایک زمین ہپر اترے۔ یہاں بہت سارے آدمیوں کا ایک مجمع لگا ہوا تھا۔ ہوا نے نوجوان سے کہا: "یہ سب لوگ بابا کے نوکر چاکر ہیں۔"

اس مجمع سے گزر کر یہ دونوں آگے بڑھے اور بابا کے محل پر پہنچے۔ محل میں داخل ہو کر دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ بابا نے نوجوان سے کہا: "میرے بیٹے! میں تجھے ایک مدت سے جانتا ہوں۔ میں تجھے برابر دیکھتا رہتا تھا، میں تجھ سے ملنا چاہتا تھا، اس لیے میں تجھے جوے میں ہرا دیتا تھا۔ میں نے تجھے بلانے کے لیے اپنی ہوا کو بھیجا۔ تیری قوم کے لوگ آج کل فاقوں سے مر رہے ہیں، کیوں کہ انھیں شکار کرنے کے لیے بھینسے نہیں مل رہے ہین۔ میں تجھے ایسی چیزیں دوں گا کہ اگر کبھی بھینسے نہ
 

مقدس

لائبریرین
ملیں' تب بھی تیری قوم بھوکی نہیں رہے گی۔"

یہ کہہ کر بابا نے اسے تین تھیلیاں دیں۔ ایک تھیلی میں کدو کے بیج تھے، جو سرخ، سفید، نیلے اور پیلے رنگوں کے تھے۔

بابا نے کہا: "ان تھیلیوں کو تو اپنی ڈھال میں باندھ لے۔ اس کا خیال رکھا کہ کوئی تھیلی گر نہ جائے۔ جب تو اپنی قوم میں پہنچ جائے تو ہر ہر شخص کو ان تھیلیوں کے تھوڑے تھورے بیج دے کر کہہ دے کہ وہ انھیں زمین میں گاڑ دیں۔ ان میں سے جو پودے نکلیں گے، ان میں یہی بیج بکثرت پیدا ہو جائیں گے۔ یہ سب کھانے کے قابل اور مزے دار ہوں گے، مگر پہلے سال ان کو کوئی نہ کھائے، بلکہ جو بیج حآصل ہوں، انھیں پھر زمین میں بو دیں۔ اس کے بعد ان پودوں میں جو کچھ بیج لگیں گے، ان کا ایک حصہ کھا لیںاور ایک حصہ پھر بو دیں۔ اس طرح تیری قوم کے پاس ہر وقت کچھ نہ کچھ موجود رہے گا، خواہ بھینسوں کا شکار ملے ہا نہ ملے۔"

یہ کہہ کر بابا نے اس کو بھینسے کی ایک جھول بھی دی اور کہا: "کل جب تو اپنے گاؤں پہنچ جائے تو اپنی قوم کے لوگوں کو اپنے گھر پر جمع کو اور جو کچھ اس جھول میں ہے' ان لوگوں کو دے دینا اور یہاں کی سب باتیں بتا دینا۔ اچھا اب تو چلا جا۔"

ہوا اس نوجوان کو پھر اڑا کر لے گئی۔ وہ بہت دیر تک اڑتے رہے۔ اور گاؤں پہنچ گئے۔ وہاں ہوا نے آہستہ سے اس کو زمین پر اتار دیا۔ نوجوان اپنے باپ کے گھر پہنچا اور کہا: "ابا! دیکھو' میں آگیا وہں۔"

باپ کو یقین نہیں آیا۔ اس نے کہا: "تو میرا بیٹا نہیں ہے!"

نوجوان کو گاؤں سے گئے ہوئے اتنی مدت گزر چکی تھی کہ سب نے یہ سمجھ لیا کہ وہ کہیں مرکھپ گیا ہو گا۔ باپ کا جواب سن کر نوجوان ماں کے پاس گیا اور کہا: "اماں! دیکھو میں آگیا ہوں۔"
 

مقدس

لائبریرین
ماں اس کو پہچان گئی اور بہت خوش ہوئی۔

اس زمانے میں گاؤں والے بھینسوں کو تلاش کر رہے تھے، مگر کوئی بھینسا نہیں ملا تھا۔ سب کے سب فاقے کر رہے تھے۔ چھوٹے بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔

دوسرے دن نوجوان نے ایک بوڑھے آدمی کو قوم کے تمام آدمیوں کے پاس بھیج کر انھیں اپنے باپ کے گھر بلوایا۔ جب سب جمع ہو گئے تو اس نے وہ جھول کھولی۔ جھول کھول کر بچھاتے ہی اس پر بھینسے کے عمدہ، چربی دار گوست کا ڈھیر نظر آیا۔ نوجوان نے ہر ایک کو اتنا گوشت دیا' جتنا وہ اٹھا کر لے جا سکتا تھا۔ نوجوان جب گوشت تقسیم کر رہا تھا تو اس کے باپ نے چاہا کہ بھینسے کی دو پچھلی ٹانگیں چپکے سے نکال کر کہیں چھپا دے۔ باپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں نوجوان سارا گوشت تقسیم نہ کر دے اور ان کے اپنے لیے کچھ نہ رہے۔ اتفاق سے نوجوان نے اپنے باپ کی یہ حرکت دیکھ لی۔ اس نے اپنے باپ سے چپکے سے کہا: "ابا! اس میں سے کچھ نہ لو۔ اس گوشت کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ گوشت سب کو کافی ہو جائے گا۔"

جب نوجوان سب گوشت تقسیم کر چکا تو اس نے وہ تھیلیاں نکالیں اور سب کو سمجھا دیا کہ وہ بیج بو دیں، مگر پہلے سال اس کی پیدوار میں سے کچھ نہ کھائین۔ دوسرے سال پھر بو دیں اور پیداوار کا ایک حصہ کھائیں اور ایک حصہ بونے کے لیے رکھ دیں۔

سب آدمیوں نے اس کی ہدایت غور سے سنی اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔

اس کے بعد نوجوان نے کہا: "میں نے سنا ہے تمھیں کئی روز سے شکار نہین ملا۔ کل تم سب لوگ میرے ساتھ شکار کے لیے چلو، میں تمھیں ایسی جگہ لے جاؤں گا جہاں بھینسے موجود ہین۔"

یہ سن کو لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی، کیوں کہ وہ گاؤں کے اطراف کا سارا علاقہ چھان چکے تھے۔

دوسرے دن سب گاؤں والے اس نوجوان کے ساتھ شکار کو نکلے۔ گاؤں سے کچھ دور
 

مقدس

لائبریرین
جانے کے بعد وہ لوگ ایک پہاڑی کے قریب پہنچے۔ نوجوان نے دو لڑکوں کو پہاڑی پے بھیجا اور کہا: "اس پر چڑھ کر چاروں طرف نظر دالیں اور پھر بتائیں کہ کہیں بھینسے نظر آتے ہیں یا نہیں؟ جب وہ لڑکے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئے تو انھوں نے پہاڑی کی دوسری طرف بھینسوں کا ایک بہت بڑا گلہ دیکھا اور گاؤں والوں کو اس کی اطلاع دی۔ گاؤں والے شکار کے لیے تیار ہو گئے اور اپنی کمانیں سنبھال کر شکار کی طرف دوڑے۔ بھینسوں کا گلہ دوڑنے لگا۔ گاؤں والوں نےا پنے تیروں سے کئی بھینسوں کو گرا دیا۔ اب گاؤں میںگوشت کا ڈھیر لگ گیا۔ اس کے چار روز بعد نوجوان نے پھر ان ہی لڑکوں کو بھینسوں کی تلاش میں بھیجا۔ بھینسے پھر مل گئے اور خوب شکار ہوا۔

اب گاؤں کے لوگوں کے ہاں گوشت کا بڑا ذخیرہ ہو گیا۔ بہار کا موسم شروع ہوا اور انھوں نے نوجوان کی ہدایت کے مطابق وہ بیج بو دیے۔ جب ان بیجوں سے پودے نکلے تو انھیں دیکھ کر گاؤں والوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ انھوں نے زمیں سے اس طرح پودوں کا اگنا نہیں دیکھا تھا۔ یہ سب پودے ایسے تھے کہ اس سے پہلے انھوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جب ان پودوں میں سے دانے نکلنے لگے اور وہ پک گئے تو نوجوان نے ان میں سے چند دانے گاؤں والوں کو کھلائے۔ سب نے ان کو چکھ کر مزیدار بتایا، پہلی فصل کے سارے بیج محفوظ رکھ دیے گئے اور پھر دوسرے سال بو دیے گئے۔ اب مکئی کے ڈھیر لگنے لگے۔ گاؤں والے انھیں کاھتے بھی تھے اور اگلے سال کے لیے بیج بچا کر بھی رکھتے تھے۔ نوجوان نے انھیں یہ ترکیب سکھائی کہ جو بیج اگلے سال بونے کے لیے رکھے جاتے ہیں، ان کے اندر چربی کا ایک ٹکڑا بھی رکھ دیا کریں اور ان بیجوں کو نگاہوں سے دور رکھا جائے۔ موسم خزاں میں یہ بیج نکال کر ان پر چربی مل دی جائے اور پھر یہ بیج بو دیے جائیں۔ اس طرح فصل اچھی پیدا ہو گئی اور کبھی فاقوں کی نوبت نہین آئے گی۔

×××××
 
Top